پروفیسر ظفیر احمد
آج بھارت جی ڈی پی کے معاملے میں دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہے جو کہ خوش آئند اور ہمت افزا بات ہے، لیکن فی کس جی ڈی پی کی حقیقت کچھ اور ہی بیان کر رہی ہے۔ ملک کی رینکنگ میں اونچائی پر جانے کی خواہش یکسوئی کے ساتھ ترقی کے لیے ضروری ہے۔ اس کے لیے سال در سال نو فیصد سے زائد کی جی ڈی پی گروتھ ہونی چاہیے۔ دراصل پریشانی ما بعد کووِڈ سے آنے والے افراطِ زر پر قابو پانے کی ہے۔ آر بی آئی کے افراطِ زر کا ہدف چار فیصد ہے، لیکن دعووں، بیانات اور کوششوں کے باوجود اس ہدف تک رسائی ممکن نظر نہیں آ رہی۔ 2020 میں افراطِ زر 2.39 فیصد کے اضافے کے ساتھ 6.62 فیصد تھا، اور سال در سال اس میں مسلسل اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ 2021 میں 5.13 فیصد، 2022 میں 6.20 فیصد، اور 2023 میں 6.65 فیصد رہا۔ امسال جولائی کے 5.42 فیصد کے مقابلے میں خورد و نوش کی اشیاء کی قیمتوں میں 5.66 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔
اگر ہم جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مڈل کلاس، لوئر مڈل کلاس اور غریبوں کی بڑی آبادی پر کافی بوجھ بڑھا ہے۔ اس طبقے میں آمدنی مہنگائی کا مقابلہ کرنے کے لیے نہیں بڑھی جو لگاتار بڑھتی جا رہی ہے۔ پیرامڈ کے نچلے پچاس فیصد کی آمدنی کا شیئر 15.5 فیصد سے کم ہو کر پندرہ فیصد رہ گیا ہے۔ خواہ تیس کمانے والے کنبے میں دو ہزار روپے کے اضافے کا دعویٰ کیا گیا ہو، یہ موجودہ غربت کے اعداد و شمار سے میل نہیں کھاتا۔ موجودہ افراطِ زر کے تحت مڈل کلاس کی آمدنی میں اضافہ اور افراطِ زر کی شرح مختلف دکھائی دے رہی ہے۔ صارف غذائی قیمت اشاریہ (CFPI) کے مطابق حقیقی سال در سال شرحِ نمو 9.24 فیصد ہے کیونکہ دیہی علاقوں میں 5.05 فیصد اور شہری علاقوں میں 5.87 فیصد ستمبر 2024 کا افراطِ زر رہا ہے۔ سی ایف پی آئی شہری علاقوں میں 9.56 فیصد اور دیہی علاقوں میں 9.08 فیصد ہے۔
اس لیے جی ڈی پی کی شرحِ نمو پر اظہارِ خیال کرتے وقت بیروزگاری پر گہری نظر سے تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ سنٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی (CMIE) کی رپورٹ کے مطابق ملک کی شرحِ بیروزگاری ستمبر 2024 میں سات تا آٹھ فیصد تھی، جبکہ 2018 سے 2024 کے درمیان اوسطاً 8.17 فیصد رہی تھی۔
آمدنی میں اضافہ افراطِ زر کی شرح سے کسی طرح مماثلت نہیں رکھتا۔ یہ Fast-Moving Consumer Goods (FMCG) کے ڈیٹا اور گاڑیوں کی فروخت میں بڑی تنزلی سے واضح طور پر نظر آ رہا ہے۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری معیشت میں تنزلی کے کھلے آثار نمایاں ہیں۔ ملک میں محض ضروری اشیاء پر لوگ خرچ کر رہے ہیں اور سستے پیداوار کی طرف صارفین جارہے ہیں، خواہ وہ اپنی خصوصیات اور بہتر معیار پر پورے نہ اترتے ہوں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ آسمان کو چھوتی ہوئی مہنگائی کو قابو میں لایا جائے۔ اس کے لیے درست اعداد و شمار کو سمجھنے اور مناسب حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر ملک میں دودھ کی فی کس دستیابی عالمی اوسط سوا تین سو گرام سے زائد یومیہ ہے، لیکن حقیقی کھپت اور مڈل کلاس کی قوتِ خرید کی کمی پر غور کریں تو انڈے اور دودھ جیسی اشیاء بھی ان کی دسترس سے باہر ہو رہی ہیں۔ ملک میں ایندھن کی قیمتوں میں کمی کر کے مہنگائی کی اونچی اڑان کو روکا جا سکتا ہے۔ ساتھ ہی روزگار کے مواقع پیدا کرنا اور آمدنی کی سطح میں اضافہ پر توجہ مرکوز کرنا انتہائی ضروری ہے۔
ویسے ہم تیوہاری موسم میں صارفین کے طور طریقوں سے اندازہ لگا رہے ہیں کہ غیر منظم شعبے کی پیداوار کی کھپت میں اضافہ ہو رہا ہے، مگر حقیقتاً ایسا نہیں ہے کیونکہ ایم ایس ایم ای کا بیانیہ اس سے مختلف ہے۔ اس سیزن میں لاکھوں کاریں اسٹالز میں کھڑی رہ گئیں۔ مگر دوسری طرف ای کامرس نے تیوہاری میلوں کا سہارا لے کر چند اشیاء کی فروخت میں اضافہ ضرور دکھایا ہے، حالانکہ یہ الیکٹرانکس، اکسیسریز، کپڑوں اور کچن یوٹینسلز تک محدود ہے۔
مہنگائی کی وجہ سے ترقی کی رفتار کم رہی ہے۔ کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے، اس نے صارف کی قوت خرید کو کم کیا ہے۔ سرکاری و دیگر ذرائع سے حالیہ دنوں میں آنے والے اعداد و شمار ملکی معیشت کو مندی کی طرف بڑھنے کا اشارہ دے رہے ہیں۔ یہ سائیکلک سلو ڈاؤن ہے یا نہیں، یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ نومورا کریڈٹ ایجنسی نے اسے سائیکلک سلو ڈاؤن بتاتے ہوئے ثبوت بھی پیش کیا ہے۔
اگر یہ سائیکلک یعنی عارضی ہے تو چھ ماہ بعد اس میں بہتری آنی چاہیے۔ مگر تیوہاری موسم میں، بھلے یہ عارضی معلوم ہو رہا ہے لیکن قابلِ تشویش ضرور ہے۔ ویسے تیوہاری موسم میں لوگ کھل کر سامان خریدتے ہیں، جس سے معیشت میں بہتری دکھائی دیتی ہے، لیکن اس بار ویسا نظر نہیں آ رہا ہے۔
سرکاری ڈیٹا جو سامنے آئے ہیں، وہ صنعتی پیداوار، برآمدات، ٹیکس وصولی، خصوصاً اشیاء و خدمات ٹیکس (جی ایس ٹی) سے متعلق ہیں۔ اس میں آر بی آئی کا ڈیٹا اور جائزہ بھی شامل ہے۔ ہمارے یہاں صنعتی پیداوار (IIP) اگست میں نیچے گر گئی۔ شرحِ نمو تین ماہ سے کم ہو رہی تھی۔ اگست کا ڈیٹا (-0.1) تقریباً دو سالوں میں سب سے کم ہے۔
موسمِ باراں سے کان کنی کی سرگرمیوں پر منفی اثر پڑا ہے۔ مینوفیکچرنگ کی خراب حالت کو دیکھتے ہوئے اس پر دھیان دینا ضروری ہے۔ گاڑیوں کی فروخت تو ستمبر میں انیس فیصد گر گئی۔ یاد رہے کہ مینوفیکچرنگ شعبے کی حصہ داری جی ڈی پی میں سولہ فیصد ہے، جو رکا ہوا ہے۔
اب تو یہ گیارہ ماہ کی نچلی سطح پر آ گئی ہے۔ مینوفیکچرنگ شعبہ بارہ فیصد روزگار فراہم کرتا تھا، جبکہ زرعی شعبے میں روزگار 2018-19 میں ترتالیس فیصد سے بڑھ کر چھیالیس فیصد ہو گیا۔ یعنی 6.8 کروڑ مزدوروں کا اضافہ ہوا۔ مگر زراعت اور دیہی علاقوں میں واپس جانے والے محنت کشوں میں اضافے کا مطلب ہے کہ انہیں مینوفیکچرنگ اور خدمات کے شعبوں کے مقابلے میں کم تنخواہ والی اور کم پیداواریت کی نوکریاں مل رہی ہیں۔
اس کا مطلب ہے کہ کم قوتِ خرید اور نتیجتاً صارف خرچ ہی رہے گا۔ ہمیں صارف اخراجات کے ساتھ گھریلو آمدنی میں اضافے کے لیے مینوفیکچرنگ شعبے میں زیادہ روزگار پیدا کرنا ہوگا۔ یہ حقیقت ہے کہ ہماری معیشت دیگر بڑی معیشتوں کے مقابلے تیزی سے بڑھ رہی ہے، مگر ملک میں بڑھتا ہوا افراطِ زر مصیبت سے کم نہیں ہے۔
آر بی آئی کو بھی معاشی ترقی میں اضافہ کے لیے شرحِ سود میں کمی کرنی چاہیے تھی، مگر اس نے افراطِ زر کی وجہ سے ایسا نہیں کیا۔ آئندہ چھ ماہ معیشت کے لیے ایک چیلنج سے کم نہیں کیونکہ سست ہوتی رفتار اور بڑھے ہوئے افراطِ زر کا دہرا چیلنج سامنے ہے۔
اس کے علاوہ ملک کے آٹھ کور سیکٹرز کی شرحِ نمو اکتوبر میں 3.10 فیصد ہو گئی ہے، جبکہ گزشتہ سال کی اسی مدت میں بنیادی صنعتوں کی شرحِ نمو 12.7 فیصد رہی تھی۔ وزارتِ صنعت اور تجارت نے گزشتہ ہفتے جاری کردہ اعداد و شمار میں بتایا کہ اکتوبر میں خام تیل اور قدرتی گیس کی پیداوار میں کمی آئی ہے۔ کوئلہ، سیمنٹ اور بجلی کی پیداوار میں بالترتیب 7.8 فیصد، 4 فیصد اور 0.6 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔
گزشتہ سال اکتوبر میں یہ بالترتیب 18.4 فیصد، 16.9 فیصد اور 20.4 فیصد تھی۔
***
بھارت میں مہنگائی اور بے روزگاری عوام کی زندگی پر گہرے اثرات ڈال رہے ہیں۔ اشیاء کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ اور روزگار کے مواقع کی کمی نے ایک وسیع طبقے کو مشکلات سے دوچار کر دیا ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 15 دسمبر تا 21 دسمبر 2024