مہمان نوازی

محمد غوث خاں، لودھی خان پیٹ

مہمان کی تکریم کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ اپنے مہمان کی اچھی طرح عزت کرے۔
مہمان نوازی زمانہ قدیم سے ہمارے ملک کی روایت رہی ہے۔ اس میں ہماری  خواتین کی مہمان نوازی قابل ذکر ہے۔ مہمانوں کی خدمت کو ایک اخلاقی فریضہ سمجھنا چاہیے۔ پہلے لوگ گھر میں مہمان کے بغیر کھانا نہیں کھاتے تھے۔
گھر میں جب کوئی مہمان آئے تو خوشی کا اظہار کرنا چاہیے۔ اسے خوش دلی اور احترام کے ساتھ مدعو کرنا چاہیے نیز اس کی ضروریات کا بھرپور خیال رکھنا چاہیے۔
مہمان نوازی تین دن کی ہوتی ہے۔ پہلے دن مہمان کو حسب استطاعت بہترین مشروبات اور کھانے پیش کیے جائیں۔ باقی دو دن مہمان کے لیے کوئی خاص اہتمام کرنے کی ضرورت نہیں ہے، گھر میں جو کچھ میسر ہو وہی مہمان کو بھی پیش کیا جا سکتا ہے۔ تین دنوں کے بعد مہمان کو دی جانے والی خدمات صدقہ میں شمار ہوں گی۔ مہمان کے لیے اس وقت تک ٹھہرنا جائز نہیں جب تک کہ میزبان اسے قیام کے لیے مجبور نہ کرے۔ لہٰذا اگر کوئی مہمان ہمارے گھر آتا ہے تو یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی استطاعت کے مطابق اس کی مہمان نوازی کریں۔ اگر ہم کسی کے پاس مہمان بن کر جائیں تو ہمیں اس وقت تک وہاں نہیں ٹھیرے رہنا چاہیے کہ اس کے لیے تکلیف کا باعث بن جائیں۔ چاہے کوئی مہمان بن کر ہمارے گھر آئے یا ہم کسی کے پاس مہمان بن کر جائیں دونوں صورتوں میں ہمیں درمیانی راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ درمیانہ رویہ سب سے اچھا طریقہ ہے۔
حضرت محمد ﷺ کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا کہ میں بھوکا ہوں، مجھے کچھ کھانے کو دیجیے۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک غلام کو بلایا اور اسے اپنی بیویوں میں سے ایک کے پاس بھیجا کہ وہ اس کے لیے کچھ کھانا لے آئے۔ آپ کی ایک بیوی نے کہلا بھیجا کہ اللہ کو گواہ بنا کر کہتی ہوں کہ میرے پاس پانی کے سوا کوئی کھانا نہیں ہے۔ یہ جواب سن کر رسول اللہ ﷺ نے اسے اپنی دوسری بیوی کے پاس بھیجا تو انہوں نے بھی یہی جواب دیا اور رخصت کر دیا۔ حالانکہ رسول اللہ ﷺ ریاست مدینہ کے سربراہ تھے پھر بھی آپ کی ازواج مطہرات کو بھوک اور افلاس کا سامنا رہتا تھا۔ الغرض رسول اللہ ﷺ کے گھر میں بھوکے کے لیے کچھ نہ ملا۔ پھر آپ نے وہاں موجود صحابہ سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ جو آج رات اس کا مہمان کی حیثیت سے استقبال کرے گا خدا اس پر اپنی رحمت نازل کرے گا۔
فوراً ایک انصاری صحابی اٹھے اور حضور سے عرض کیا کہ میں ان کا مہمان کی حیثیت سے استقبال کروں گا اور مہمان کو اپنے گھر لے گئے۔ ان انصاری صحابی نے اپنی بیوی سے پوچھا کہ گھر میں کھانے کو کچھ ہے؟ ان کی بیوی نے جواب دیا کہ ہمارے بچوں کے کھانے کے سوا گھر میں کچھ نہیں ہے۔ پھر انہوں نے اپنی بیوی سے کہا کہ ہم اپنے بچوں کو کسی نہ کسی بہانے سلا دیں گے اور جب مہمان آئے تو ہم چراغ بجھا دیں گے اور خالی برتن میں ہاتھ ہلاتے رہیں گے تاکہ مہمان یہ سمجھے کہ ہم بھی اس کے ساتھ کھانے میں شریک ہیں۔ چنانچہ ان کی بیوی نے ایسا ہی کیا۔  تینوں کھانا کھانے بیٹھ گئے۔ مہمان نے تو شکم سیر ہو کر کھانا کھا لیا لیکن اس رات بیوی بچے اور وہ بھوکے ہی سو گئے۔ فجر کے بعد جب مہمان نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ خدا نے اس انصاری اور اس کی بیوی کے طرز عمل کی تعریف کی اور یہ آیت تلاوت کی۔ (ترجمہ) اور اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں خواہ اپنی جگہ خود محتاج ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اپنے دل کی تنگی سے بچالیے گئے۔ وہی فلاح پانے والے ہیں۔ (الحشر آیت نمبر9)
مالی طور پر غریب ہونے کے باوجود مہمان کی عزت کرنا نہ صرف ایک نیک عمل ہے بلکہ ایک عظیم اخلاقی صفت بھی ہے۔
گھر آنے والے مہمان کو اپنی خستہ حالی کا علم نہ ہونے دینا ایک غیر معمولی خوبی ہے۔ یہ خوبی صرف ان لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جو دل کی تنگی سے محفوظ رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو مہمان کی تکریم اور اس کی اچھی مہمان نوازی کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

 

***

 اگر کوئی مہمان ہمارے گھر آتا ہے تو یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی استطاعت کے مطابق اس کی مہمان نوازی کریں۔ اگر ہم کسی کے پاس مہمان بن کر جائیں تو ہمیں اس وقت تک وہاں نہیں ٹھیرے رہنا چاہیے کہ اس کے لیے تکلیف کا باعث بن جائیں۔ چاہے کوئی مہمان بن کر ہمارے گھر آئے یا ہم کسی کے پاس مہمان بن کر جائیں دونوں صورتوں میں ہمیں درمیانی راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ درمیانہ رویہ سب سے اچھا طریقہ ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 26 فروری تا 04 مارچ 2023