پہلے ’پاکستان چلے جاؤ، ورنہ چھوڑوں گا نہیں‘ کی دھمکی، اب ویڈیو وائرل کرنے والوں پرپولیس کر رہی ہے مقدمہ

پاکستان کی حمایت میں نعرے لگانے کی بات بے بنیاد ہے۔ اگر پولیس انتظامیہ یہ بات کہہ رہی ہے تو ان کے ضرور کوئی ثبوت ہوگا، وہ ثبوت دنیا کے سامنے رکھیں۔ ہاں، مظاہرہ کر نے والے کچھ لوگوں کے ہاتھ میں ترنگے جھنڈے ضرور تھے، جو نماز جمعہ کے بعد شہریت ترمیمی قانون کے خلاف پرامن احتجاج کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

افروز عالم ساحل

میرٹھ (اتر پردیش): اتر پردیش کی یوگی حکومت میں پولیس کی ذہنیت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ میرٹھ کے ایس پی سٹی اکھلیش نرائن کہتے ہیں کہ ’پاکستان زندہ چلے جاؤ، ورنہ چھوڑوں گا نہیں‘۔ اور اب جب ان کی یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی ہے، تو میرٹھ پولیس کا کہنا ہے کہ ویڈیو وائرل کرنے والوں کے خلاف مقدمہ درج کرایا جائے گا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس ویڈیو کے سلسلے میں 20 افراد کی شناخت بھی کر لی گئی ہے۔

ایس پی سٹی، اکھلیش نرائن کے بقول ’’20 دسمبر کو ہوئے تشدد کے 6 دنوں میں علاقے کا ماحول خراب کرنے کی نیت سے یہ ویڈیو وائرل کی گئی ہے ۔ اس ویڈیو کو وائرل کرنے والوں کا ارادہ شہر میں ہنگامہ کرنے کا تھا۔ اگر یہ ویڈیو وائرل کرنی ہی تھی تو اسی دن کرنی چاہیے تھی جس دن اسے بنایا گیا تھا۔ اس لیے ویڈیو بنانے اور وائرل کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنا بے حد ضروری ہے۔‘‘

لیکن یہ بیان دینے سے پہلے  شاید ایس پی سٹی بھول گئے کہ اس دوران میرٹھ میں انٹرنیٹ خدمات بند کر دی گئی تھیں۔

واضح رہے کہ اترپردیش کے میرٹھ میں 20 دسمبر کو جمعہ کی نماز کے بعد شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کے خلاف ہونے والے مظاہرے کے بعد تشدد کے دوران میرٹھ کے ایس پی سٹی اکھلیش نرائن اور اے ڈی ایم سٹی کا ایک ویڈیو وائرل ہوا ہے۔

ویڈیو میں مظاہرین کے کالی پٹی باندھنے پر ایس پی سٹی اتنا ناراض ہو گئے کہ لساڑی گیٹ علاقہ میں وہاں کھڑے کچھ لوگوں سے ’’پاکستان چلے جاؤ‘‘ کی بات کہتے نظر آ رہے ہیں۔ انہوں نے ساتھ ہی کہا کہ ’’کھاتے ہو یہاں کا  ہو اور گاتے ہو کہیں اور کا، تصویریں لے لی گئیں ہیں، تمام لوگوں کی شناخت ہوگئی ہے، کچھ ہوا تو قیمت چکاؤ گے۔۔۔ جو سیاہ پٹی باندھ رہے ہیں ان کو بتا رہا ہوں، وہ پاکستان چلے جائیں، مستقبل خراب کرنے میں سیکنڈ بھر لگے گا، ان کو بتا دینا، مجھے گلی یاد ہوگئی ہے، یاد رکھنا مجھے یاد ہوجاتا ہے تو نانی تک میں پہنچتا ہوں، یاد رکھیے گا آپ لوگ، آپ لوگ بھی قیمت چکاؤگے ۔‘‘ یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہو رہا ہے۔

جب اس معاملہ پر ایس پی سٹی اکھلیش نرائن سے پوچھا گیا تو انہوں نے اس پر صفائی دیتے ہوئے کہا کہ وہاں پر کچھ نوجوان ’پاکستان زندہ باد‘ کے نعرے لگا رہے تھے جس کے بعد انہوں نے ایسا بولا۔ انہوں نے بتایا کہ اس گلی کی شناخت کر لی ہے، ان نوجوانوں کی تلاش کی جا رہی ہے اور ان کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔

قابل ذکر ہے کہ یہاں کے نوجوانوں کے خلاف ملک سے غداری کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ پولیس پاکستان کی حمایت میں نعرے لگانے کے الزام کے خلاف کوئی ثبوت اب تک پیش نہیں کر سکی ہے۔

یہاں کے مقامی لوگوں کا صاف طور پر کہنا ہے کہ پاکستان کی حمایت میں نعرے لگانے کی بات بے بنیاد ہے۔ اگر پولیس انتظامیہ یہ بات کہہ رہی ہے تو ان کے ضرور کوئی ثبوت ہوگا، وہ ثبوت دنیا کے سامنے رکھیں۔ ہاں، مظاہرہ کر نے والے کچھ لوگوں کے ہاتھ میں ترنگے جھنڈے ضرور تھے، جو نماز جمعہ کے بعد شہریت ترمیمی قانون کے خلاف پرامن احتجاج کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

غور طلب بات یہ ہے کہ ایس پی سٹی اکھلیش نرائن کا ویڈیو وائرل ہونے کے بعد نفرت پھیلانے والے کچھ لوگوں نے لکھنٔو کا ایک ویڈیو وائرل کیا اور دعویٰ کیا کہ ہندوستان میں ’پاکستان زندہ باد‘، کے نعرے لگائے جا رہے ہیں۔ اس ویڈیو کے آنے کے بعد کئی ٹی وی چینلوں نے بھی زہر اگلا۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ فیکٹ چیک کرنے والی ویب سائٹ آلٹ نیوز  نے ویڈیو کی جانچ کی تو پایا کہ اس ویڈیو میں ’پاکستان زندہ باد‘ نہیں بلکہ ’کاشف صاب زندہ باد‘کے نعرے لگائے جارہے ہیں۔ یہی نہیں  بلکہ اسی ویڈیو میں نعرہ ’ہندوستان زندہ باد‘ بھی سنا جا سکتا ہے۔ دراصل کاشف صاب عرف کاشف احمد آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین، لکھنؤ کے سربراہ ہیں اور 13 دسمبر کی احتجاجی ریلی کی قیادت کر رہے تھے۔

میرٹھ میں پولیس کی ذہنیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں شہریت ترمیمی قانون مخالف مظاہروں  کے دوران اب تک 6 ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔ ان میں سے 5 کو میرٹھ اور ایک کو دہلی میں دفن کیا گیا۔ مرنے والے تمام لوگ لساڑی گیٹ تھانہ علاقے کے ہیں۔ یہی میرٹھ شہر ہے جہاں کانگریس پارٹی کے سابق صدر اور مرکزی رہ نما راہل گاندھی اور اُن کی بہن پرینکا گاندھی کو جانے سے روک دیا گیا تھا۔ واضح رہے کہ کانگریس پارٹی کے دونوں رہ نما شہریت سے متعلق متنازع قانون کے خلاف احتجاج کے دوران ہلاک ہونے والے افراد کے گھر جارہے تھے۔