میرا روڈ تشدد کیس: گیارہ ماہ بعد سولہ مسلم نوجوانوں کو ملا انصاف
پولیس کی جانب داری عیاں۔رام مندر تقریبات سے متعلق کیس میں نوجوانوں کو ضمانت
محمد اویس صدیقی
نو دسمبر کو بمبئی ہائی کورٹ نے بالآخر سولہ مسلم نوجوانوں کو ضمانت دے دی جنہیں تقریباً گیارہ ماہ سے میرا روڈ، ممبئی کے مضافات میں فرقہ وارانہ کشیدگی کے بعد حراست میں رکھا گیا تھا۔ یہ گرفتاریاں جنوری 2024 میں رام مندر پران پرتیشٹھا تقریب کے دوران ہونے والے تنازع کے بعد کی گئی تھیں۔
وکلاء، متاثرین کے خاندان والوں اور سماجی کارکنوں نے پولیس پر الزام عائد کیا ہے کہ اس نے مسلم کمیونٹی کو نشانہ بناتے ہوئے یکطرفہ کارروائی کی۔
یہ گرفتاریاں مقامی پولیس کی جانب سے درج ایف آئی آر نمبر چونتیس کے تحت کی گئیں، جس میں چوبیس افراد کو اس تنازع میں ملوث قرار دیا گیا۔ ان میں سے تین نابالغوں کو پہلے ہی جوینائل جسٹس کورٹ نے ضمانت دے دی تھی۔
ایک اور شخص کو تحقیقات کے دوران عدم ثبوت کی بناء پر رہا کیا گیا، جس میں سی سی ٹی وی فوٹیج میں اس کی عدم موجودگی بھی شامل تھی۔ تاہم، دیگر افراد کو طویل قانونی لڑائی کا سامنا کرنا پڑا۔
ملزمین کے دفاعی وکیل شہود انور نے کہا کہ عدالت نے ملزمین کو تشدد کے واقعات سے منسلک کرنے والے شواہد ناکافی پائے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا "یہ کیس غیر جانب دارانہ تحقیقات کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔”
عدالت نے پایا کہ درخواست گزاروں کو مخصوص جرائم سے منسلک کرنے والے شواہد کمزور تھے۔ سی سی ٹی وی فوٹیج میں ان کی جائے وقوع پر موجودگی تو دکھائی گئی لیکن کسی فوٹیج میں انہیں چاقو کے ساتھ کسی پر حملہ کرتے ہوئے نہیں دکھایا گیا، جو مبینہ طور پر شکایت کنندہ پر حملے کے لیے استعمال کیا گیا ہتھیار تھا۔ مزید برآں، ٹیسٹ آئیڈنٹیفیکیشن پریڈ میں گواہوں نے ملزمین کو کوئی مخصوص کردار نہیں دیا۔ اس براہِ راست ثبوت کی کمی نے استغاثہ کے کیس کو کمزور کر دیا۔
یہ واقعہ جنوری 2024 میں اس وقت پیش آیا جب دائیں بازو کے ہندتوا گروپوں نے نیا نگر، میرا روڈ کے ایک مسلم اکثریتی علاقے میں ایک مذہبی ریلی کا انعقاد کیا۔ عینی شاہدین کے مطابق ریلی کے دوران اشتعال انگیز نعرے لگائے گئے جس کی وجہ سے مقامی باشندوں میں ناراضگی پیدا ہوئی اور کئی دنوں تک کشیدگی جاری رہی۔
اکیس جنوری کو، ہندو نیا نگر، جو کہ ایک مسلم اکثریتی علاقہ ہے، اس میں داخل ہوئے اور بھگوا جھنڈے لے کر جے شری رام کے نعرے لگانے لگے۔ تنازع اس وقت شدت اختیار کر گیا جب انہوں نے مقامی خواتین کو ہراساں کیا، ان کے قریب نعرے لگائے اور مسجد پر جھنڈا لگانے کی کوشش کی۔
سماجی کارکن عاطف، جو گرفتار شدہ نوجوانوں کے خاندانوں کی مدد کر رہے ہیں، انہوں نے بتایا ’’یہ مسئلہ بات چیت کے ذریعے حل کیا جا سکتا تھا، لیکن حکام غیر جانب دارانہ طور پر کارروائی کرنے میں ناکام رہے‘‘۔
ملزمین کے خاندانوں اور مقامی وکلاء نے پولیس پر الزام عائد کیا ہے کہ اس نے مسلمانوں کو غیر ضروری طور پر نشانہ بنایا جبکہ ریلی کے منتظمین اور شرکاء کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔
ہندتوادیوں کے ہجوم نے اپنی سنگدلانہ کارروائی کو سوشل میڈیا پر براہ راست نشر کیا، لیکن اس کے باوجود ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
نیا نگر کے رہائشی ساجد شیخ نے کہا کہ ان کے دونوں بیٹوں کو گرفتار کر لیا گیا جبکہ وہ اس میں ملوث نہیں تھے۔ انہوں نےکہا "میرے بیٹوں کا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ وہ بے قصور تھے، پھر بھی انہیں حراست میں لے لیا گیا۔ اگرچہ انہیں ضمانت مل گئی ہے، لیکن کاغذی کارروائی ابھی جاری ہے۔”
انہوں نے مزید بتایا، "اگرچہ یہ عدالتی فیصلہ منصفانہ ہے لیکن ان مہینوں کی حراست کے نقصان کی تلافی ناممکن ہے۔”
ملزمین کی نمائندگی کرنے والی ایک اور وکیل گایتری سنگھ نے پولیس کی کارروائی کو متعصبانہ اور من مانی قرار دیا۔ انہوں نے کہا "معزز ہائی کورٹ نے کیس کا جائزہ لینے کے بعد پایا کہ ان سولہ افراد کا تشدد سے کوئی تعلق نہیں تھا۔”
انہوں نے کہا ’’یہ گرفتاریاں سطحی شواہد، جیسے سی سی ٹی وی فوٹیج میں صرف ان کی موجودگی کی بنیاد پر کی گئیں جو کہ کسی بھی طرح تنازع میں ملوث رہنے کو ثابت نہیں کرتی‘‘۔ گایتری سنگھ نے مزید الزام لگایا کہ پولیس ریلی کے منتظمین کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام ثابت ہوئی جنہوں نے اشتعال انگیز نعرے لگائے جس کے نتیجے میں یہ تنازع پیدا ہوا تھا۔
خاندانوں پر سماجی و اقتصادی اثرات
گرفتار کیے گئے افراد میں نیا نگر کے علاقے سے تعلق رکھنے والے طلبہ، نوجوان ملازمین اور چھوٹے تاجر شامل ہیں۔ ان کی گرفتاری نے ان کے خاندانوں کی زندگیوں کو شدید متاثر کیا اور وہ شدید مالی مشکلات سے دوچار ہو گئے۔
عاطف نے اس آزمائش کو خاندانوں کے لیے تباہی قرار دیا۔ انہوں نے کہا، ’’یہ خاندان کرائے کے گھروں میں رہتے ہیں اور روزانہ کی اجرت پر انحصار کرتے ہیں۔ بے قصور ہونے کے باوجود گیارہ ماہ جیل کی زندگی نے ان کی ذہنی اور مالی حالت پر گہرا اثر ڈالا۔ تہوار چھوٹ گئے، طلبہ کی تعلیم میں خلل پڑا اور کام کرنے والے افراد کی روزی متاثر ہوئی‘‘۔ انہوں نے پولیس پر من مانی تفتیش کا بھی الزام لگایا۔ "ایک معاملے میں راشد قریشی کو صرف اس لیے گرفتار کیا گیا کہ انہوں نے اپنی عمارت میں تفتیش کے دوران پولیس کی من مانی کارروائیوں پر سوال اٹھایا۔ یہ حکام کے یکطرفہ رویے کو ظاہر کرتا ہے‘‘
ایڈووکیٹ انور نے کہا ’’مقامی سماجی کارکنوں کا کردار بہت اہم تھا۔ انہوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ خاندانوں کو مدد فراہم کی جائے اور کیس انتہائی مشکلات کے باوجود آگے بڑھ سکے۔‘‘
ابو شیما ابو بکر شیخ کے کیس میں عدالت نے استغاثہ کی جانب سے انہیں فسادات کے الزامات سے جوڑنے کی کوشش کو کمزور قرار دیا۔ سوشل میڈیا پوسٹ کے معاملے میں ان کی پہلے گرفتاری اور ضمانت پر رہائی اور ان کے خلاف گواہوں کے بیانات کی مشکوک نوعیت کے پیش نظر، عدالت نے سمجھا کہ ان کی مسلسل حراست غیر منصفانہ ہے۔
اس وقت سولہ افراد کی رہائی کے لیے کاغذی کارروائی مکمل کی جا رہی ہے اور توقع ہے کہ وہ ہفتے کے آخر تک اپنے خاندانوں کے ساتھ دوبارہ مل جائیں گے۔
ایڈووکیٹ سنگھ نے کہا ‘‘یہ کیس اس بات کو اجاگر کرتا ہے کہ عدالتی نگرانی انصاف اور منصفانہ کارروائی کو یقینی بنانے کے لیے کتنی اہم ہے۔ پولیس کو ان یکطرفہ اقدامات کے لیے جواب دہ ٹھیرایا جانا چاہیے جو سماجی تقسیم کو مزید گہرا کرتے ہیں۔’’
( بشکریہ : مکتوب میڈیا ڈاٹ کام)
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 22 دسمبر تا 28 دسمبر 2024