میڈیا؛سوال پوچھنے کی آزادی کا خاتمہ ، نوکری جانے کا بھی خطرہ

سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کا دور ،بھارتی میڈیا کے لیے سنہرا دور تھا: صحافی اجیت انجم

0

شہاب فضل، لکھنؤ

فلسطینی اتھارٹی کا الجزیرہ نیوز چینل پر پابندی عائد کرنا قابل افسوس۔ واشنگٹن پوسٹ رپورٹ پر بھارت کی تردید
!مصنوعی ذہانت سے میڈیا کی آزادی کو درپیش چیلنجوں کا جائزہ ضروری۔یوپی پولیس کی پوڈکاسٹ سیریز بہتر اقدام
سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کی وفات کے بعد کئی میڈیا پلیٹ فارموں نے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ ان کا موازنہ الگ الگ پہلوؤں سے کیا۔ ایک اہم پہلو دونوں وزرائے اعظم کے دور میں میڈیا کی صورت حال اور پریس کی آزادی کا ہے جس پر سینئر صحافی اجیت انجم نے اپنے یوٹیوب چینل پر انتیس منٹ کا ایک پوڈ کاسٹ کیا ہے اور دونوں سیاسی رہنماؤں کے میڈیا سے تعلق اور اس کے تئیں رویے کا تجزیاتی موازنہ کیا ہے۔ ایک ٹی وی جرنلسٹ اور ایک ایڈیٹر کے طور پر انہوں نے کیا دیکھا اور کیا محسوس کیا اس پر انہوں نے تفصیلی گفتگو کی ہے، وہ سال 2007 میں نیوز چینل نیوز 24 کے ایڈیٹر بھی رہ چکے ہیں۔
منموہن، مودی اور میڈیا کے عنوان سے اس پوڈکاسٹ میں اجیت انجم کہتے ہیں کہ ڈاکٹر منموہن سنگھ اپنے دور میں لگاتار میڈیا کے نشانہ پر رہتے تھے۔ ’’2011 میں جب انّا ہزارے کی تحریک دہلی میں جنترمنتر اور رام لیلا میدان پر چل رہی تھی تو منموہن سنگھ پر مسلسل حملے ہورہے تھے اور ٹی وی چینل اور اخبارات سرکار کی ناکامیوں اور بدعنوانیوں کا لگاتار ذکر کررہے تھے۔ بدعنوانی کے الزامات پر مسلسل ٹیلی کاسٹ ہوتے تھے اور وزیر اعظم کی تصویر لگاکر چینل پرتنقیدی خبریں چلائی جاتی تھیں۔ منموہن سنگھ کو مون موہن سنگھ تک کہا گیا۔ ان الزامات کے درمیان ڈاکٹر سنگھ پریس کانفرنس کرتے تھے اور میڈیا کے الزامات کا براہ راست سامنا کرتے ہوئے جواب دیتے تھے۔‘‘
اجیت انجم نے یہ سوال بجا طور پر اٹھایا ہے کہ’’ایک یہ (نریندر مودی) ہیں جنہوں نے گیارہ سال میں بطور وزیر اعظم ایک بھی پریس کانفرنس نہیں کی ہے۔ سن 2009 سے 2014 تک میڈیا نے منموہن سنگھ کے خلاف ماحول بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا‘‘
اجیت انجم کے بقول ڈاکٹر منموہن سنگھ کے دور میں ایک وقت بھی ایسا نہیں آیا جب میڈیا کو کسی طرح کے دباؤ کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ مہنگائی، بدعنوانی یا کوئی بھی معاملہ ہو، حکومت کی گھیرا بندی سے کسی میڈیا ادارے پر کوئی دباؤ نہیں بنایا گیا، لیکن 2014کے بعد ماحول بدل گیا ہے۔ وہی صحافی جو بلا روک ٹوک تلخ سوالات پوچھتے تھے 2014 سے لے کر آج تک کوئی تلخ موضوعاتی سوال پوچھتے ہوئے نظر نہیں آئے۔
اپنے پوڈکاسٹ میں اجیت انجم نے کئی ویڈیو کلپس وائرل ہونے کی مثالیں دی ہیں کہ ڈاکٹر منموہن سنگھ کیسے میڈیا کا سامنا کرتے تھے۔ کوئی بھی رپورٹر ان سے براہ راست سوال کرسکتا تھا۔ آڑے ترچھے سوال کا بھی وہ سنجیدگی سے جواب دیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ دس سال کی مدت کار میں منموہن سنگھ نے سو سے زیادہ بار میڈیا کے سوالوں کا سامنا کیا۔ دوسری طرف وزیر اعظم نریندر مودی چنندہ سوالات کے ساتھ اسکرپٹیڈ انٹرویو دیتے ہیں۔ انہوں نے تلخ سوالوں کا سامنا کبھی نہیں کیا ہے کیونکہ انہیں تنقید پسند نہیں ہے۔
اجیت انجم نے 2011کی ایک پریس کانفرنس کا حوالہ دیا ہے جب وہ نیوز 24کے ایڈیٹر تھے۔ اس میں ایڈیٹروں کو بلایا گیا تھا اور اس گفت و شنید کو دوردرشن پر براہ راست نشر کیا گیا تھا۔ ایسے وقت میں جب ڈاکٹر منموہن سنگھ کی قیادت والی یوپی اے حکومت پر کول بلاک الاٹمنٹ میں بدعنوانی کے الزامات تھے۔ ایسے مشکل وقت میں انہوں نے میڈیا سے گفتگو کی اور اسے دوردرشن پر لائیو ٹیلی کاسٹ کا فیصلہ کیا۔ اس وقت آج کے ریپبلک ٹی وی کے ذمہ دار ارنب گوسوامی ٹائمز ناؤ کے ایڈیٹر تھے۔ ‘‘وہ منموہن سنگھ حکومت کے سب سے بڑے ناقد تھے۔ اُس پریس کانفرنس میں سب سے تیکھا سوال ارنب گوسوامی نے ہی پوچھا تھا۔ وہی ارنب گوسوامی 2014کے بعد کیسے نریندر مودی کے سامنے جھک گئے ہیں اور کس طرح ان کی بھجن آرتی کررہے ہیں، اس کا سبھی مشاہدہ کررہے ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی بھی کئی فیصلوں کے متعلق سوالات کی زد میں ہیں لیکن اب کسی چینل کی مجال نہیں کہ وہ ان سے سوال کرسکے‘‘۔
2014 سے پہلے کے ایڈیٹر اور اس کے بعد کے ایڈیٹر کیسے ہیں؟ اجیت انجم نے اس کا موازنہ کرنے کے لیے ڈاکٹر سنگھ کے دور کے تیکھے سوالوں پر مشتمل کئی ویڈیوز اپنے چینل پر دکھائے۔
ٹی وی ٹوڈے کے ایڈیٹر راہل کنول کی ایک ویڈیو اجیت انجم نے دکھائی ہے جب انہوں نے انڈیا ٹوڈے کے کانکلیو میں منموہن سنگھ سے تیکھا سوال کیا۔ وہ کہتے ہیں ’’راہل کنول آج بھی انڈیا ٹوڈے میں ہیں، مگر انہیں وزیر اعظم مودی سے کوئی مشکل یا تلخ سوال کرتے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔ نریندر مودی کیسے اسپانسرڈ انٹرویو دیتے ہیں یہ ہر کوئی جانتا ہے۔ انہوں نے 2024 کے عام انتخابات سے قبل پہلے سے طے شدہ سوالوں پر مبنی کئی انٹرویوز دیے‘‘۔
دوسری طرف منموہن سنگھ نے کبھی سوالوں سے بچنے کی کوشش نہیں کی۔ ان کی آخری پریس کانفرنس 03 جنوری 2014 کو ہوئی جس میں سو کے قریب صحافی موجود تھے۔ تقریباً باسٹھ سوالوں کے جوابات ڈاکٹر منموہن سنگھ نے دیے۔ اجیت انجم کے بقول کوئی معمولی سا رپورٹر بھی منموہن سنگھ سے سوال پوچھ سکتا تھا۔
اجیت انجم نے کہا ہے کہ مضبوط اور کمزور ہونے کی پہچان اگر زبانی جمع خرچ ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ نریندر مودی اوّل ہیں۔ ’’بڑی بڑی ڈینگیں ہانکو، کچھ بھی کہو۔ اظہار خیال کی آزادی کا معیار اگر دیکھا جائے تو حالیہ برسوں میں ہی گرا ہے اور بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں صحافیوں کے خلاف وسیع پیمانے پر کارروائیاں کی گئی ہیں۔ انہیں تنقید پسند نہیں ہے لیکن منموہن سنگھ ایک منفرد شخصیت تھے۔ تلخ سوالوں کا بھی بڑی سادگی اور آسانی سے جواب دیتے تھے۔ یہاں تک کہ غیرملکی دورے سے واپسی پر بھی وہ پریس کانفرنس کرتے تھے۔
اجیت انجم کے بقول ’’ڈاکٹر منموہن سنگھ کا دور میڈیا کے لیے ایک سنہرا دور تھا، جب ہم پر کسی طرح کی پابندی نہیں تھی، کوئی ڈر نہیں تھا کہ نوکری چلی جائے گی۔ بھلے ہی آج ایمرجنسی نہیں ہے مگر غیر اعلانیہ ایمرجنسی ضرور ہے‘‘۔
چھتیس گڑھ میں صحافی کا بہیمانہ قتل
بی جے پی کی حکومت والی ریاست چھتیس گڑھ میں علاقہ بستر کے بیجاپور میں بدعنوانی کو اجاگر کرنے پر ٹھیکیدار کے ذریعہ این ڈی ٹی وی کے لیے جزوی طور سے کام کرنے والے ایک صحافی مکیش چندراکر کو بہیمانہ طریقہ سے قتل کرکے سیپٹک ٹینک میں ڈالنے اور اس پر سیمنٹ مورنگ سے پختہ فرش بنادینے کا سنسنی خیز واقعہ سامنے آیا ہے۔ پولیس نے ابتدائی تفیش کے بعد سیپٹک ٹینک کو توڑا تو لاش برآمد ہوئی۔
پریس کونسل آف انڈیا نے اس واقعہ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ریاستی حکومت سے اس پورے واقعہ کی رپورٹ طلب کی ہے۔ ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا نے بھی ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ ریاستی حکومت کی قائم کردہ ایس آئی ٹی اس قتل کی جانچ کررہی ہے اور مقتول کے کچھ رشتہ داروں کو حراست میں لیا گیا ہے۔
دراصل مکیش نے ایک سو بیس کروڑ روپے کی لاگت سے ایک سڑک کی ہونے والی تعمیر میں بدعنوانی پر خبر لکھی تھی، جس کے بعد ٹھیکیدار کے خلاف جانچ شروع ہوگئی۔ اس سے ناراض ہوکر ٹھیکیدار نے صحافی کو اپنے گھر بلایا۔ تبھی سے صحافی لاپتہ تھا۔ تیسرے دن اس کی لاش سیپٹک ٹینک میں ملی۔
الجزیرہ نیوز چینل پر فلسطینی اتھارٹی نے پابندی لگائی
فتح پارٹی کی قیادت والی فلسطینی اتھارٹی نے مغربی کنارہ کے علاقہ میں الجزیرہ نیوز چینل پرعارضی طور سے پابندی عائد کردی ہے۔ نتیجے میں وہاں الجزیرہ کا دفتر بند کردیا گیا ہے اور چینل کے نشریہ پر روک لگادی گئی ہے۔ فلسطینی اتھارٹی نے الجزیرہ پر خبروں کو توڑ مروڑ کر نشر کرنے کا الزام عائد کیا ہے جب کہ الجزیرہ نے اس کی تردید کی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ الجزیرہ، غزہ اور مقبوضہ فلسطین کی خبریں پوری دنیا میں تفصیل کے ساتھ پہنچانے والا مرکزی میڈیا ادارہ ہے۔ اسرائیل کی جارحیت، قتل عام، نسل کشی اور اسرائیلی آبادکاروں کے مظالم کی خبروں کو اس عرب چینل نے دستاویزی شکل دی ہے اور بی بی سی اور سی این این سے الگ ہٹ کر عالمی سطح پر اپنی ایک منفرد ساکھ بنائی ہے۔
اس پابندی پر الجزیرہ کے سینئر سیاسی تجزیہ کار مروان بشارہ نے کہا کہ جینن میں الجزیرہ کی رپورٹنگ پرفلسطینی اتھارٹی کو کچھ اعتراض تھا۔ اگر فلسطینی اتھارٹی کو کوئی شکایت تھی تو بات کرنی چاہیے تھی، پابندی درست اقدام نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی اسرائیلی پالیسیوں کی غلام ہے اور وہ اسرائیل سے در پردہ ہاتھ ملائے ہوئے ہے۔ فلسطینی اتھارٹی اسرائیلی حکومت کو ناخوش کرنا نہیں چاہتی ہے۔ اس سے پہلے اسرائیل نے بھی ایسی ہی پابندی لگائی تھی۔
مروان نے کہاکہ اسرائیل نے مغربی کنارہ اور مشرقی یروشلم میں ظلم و زیادتی کی انتہا کررکھی ہے اور غزہ میں قتل عام کررہا ہے۔ اسرائیلی حملوں کے دوران فلسطینی اتھارٹی کے جوانوں نے جینن میں فلسطینی فائٹرز پر حملے کیے اور ایک خاتون صحافی کو قتل بھی کردیا۔ جینن اور وہاں کے کیمپوں میں جو کچھ ہو رہا ہے اسے الجزیرہ نے نشرکیا جس پر فلسطینی اتھارٹی بھڑک اٹھی۔
فارین پریس ایسوسی ایشن نے اس پابندی پر یہ کہتے ہوئے ناراضگی کا اظہار کیا کہ اس سے خطہ میں پریس کی آزادی اور جمہوری اقدار پر سوالات اٹھتے ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ ستمبر میں اسرائیلی فورسیز نے رملہ میں الجزیرہ کے بیورو دفتر پر چھاپہ مارا تھا اور اسے بند کردیا تھا۔ الجزیرہ کے مطابق گزشتہ چار ہفتوں میں فلسطینی اتھارٹی کے جوانوں نے کم سے کم گیارہ فلسطینیوں کی جانیں لی ہیں، جن میں ایک صحافی بھی ہے۔ فلسطینیوں پر اسرائیلی آبادکاروں کے حملے بڑھ رہے ہیں۔ الجزیرہ نے ان خبروں کو دنیا کے سامنے وضاحت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اس سے ناراض ہوکر اسرائیل نے الجزیرہ کو حماس کا ترجمان بتاتے ہوئے فلسطینی علاقے میں الجزیرہ کے دو دفاتر بند کر دیے۔
نیوز چینل بی بی سی کے مطابق اسرائیل نے اپنے ملک میں بھی الجزیرہ کی انگریزی اور عربی دونوں نشریات پر گزشتہ سال مئی سے پابندی لگارکھی ہے۔ اس پابندی کے بعد یروشلم کے ہوٹل میں قائم الجزیرہ کے دفتر پر اسرائیلی پولیس نے چھاپہ مارا اور صحافتی سازو سامان ضبط کرلیا۔ چینل کے عربی سیکشن کا اسٹاف یروشلم چھوڑ کر جینن آگیا تھا۔
اسرائیل کی پالیسیوں پر نکتہ چینی کرنے والے میڈیا اداروں اور صحافیوں کے لیے اسرائیل کے مقبوضہ خطوں میں کام کرنا آسان نہیں ہے۔ کئی صحافی اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ الجزیرہ کے لیے کام کرنے والی ایک نامور خاتون صحافی شیریں ابو عاقلہ کو 11 مئی 2022 کو اسرائیلی فورسیز نے جینن میں قتل کر دیا تھا۔ دراصل اسرائیلی مقبوضہ مغربی کنارہ میں واقع جینن رفیوجی کیمپ میں اسرائیلی فورسیز نے چھاپہ مارا تھا جس کی کووریج کے لیے شیریں وہاں گئی تھیں۔ انہوں نے نیلے رنگ کی ایک جیکٹ پہنی ہوئی تھی جس پر پریس لکھا ہوا تھا۔ اس کے باوجود اسرائیلی فوجی جوان نے انہیں گولی مار دی۔ شیریں ابو عاقلہ تقریباً پچیس برس سے مشرقی وسطیٰ میں رپورٹنگ کررہی تھیں۔ گزشتہ جولائی میں غزہ میں الجزیرہ کے رپورٹر اسماعیل الغوث کو اسرائیلی فوجیوں نے گولی مارکر قتل کردیا تھا۔
بی بی سی کے مطابق محمود عباس کی قیادت والا فتح گروپ جو فلسطینی اتھارٹی کو کنٹرول کرتا ہے مغربی کنارہ میں حماس یا حزب اللہ کے حامی فلسطینیوں کے خلاف کارروائی کے ذریعے اپنی حکومت مضبوط کرنا چاہتا ہے تاکہ امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی نظروں میں اس کی اہمیت بڑھے اور غزہ میں مستقبل کی کسی حکومت پر اس کا دعویٰ مضبوط ہوسکے۔
واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کی بھارت نے تردید کی
حکومت ہند نے امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والی اس رپورٹ کی سختی سے تردید کی ہے جس میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ مالدیپ کے صدر محمد معزو کے خلاف تحریک مواخذہ کے لیے وہاں کے اپوزیشن لیڈروں نے حکومت ہند کے سامنے چھ ملین ڈالر دینے کی تجویز رکھی۔ اس رپورٹ کے مطابق مالدیپ میں اپوزیشن کے لیڈروں نے چالیس اراکین پارلیمنٹ کو رشوت دینے کا منصوبہ بنایا تاکہ انہیں معزو کے خلاف تحریک مواخذہ کے لیے راغب کیا جائے۔
نئی دہلی میں وزارت خارجہ کے ترجمان نے اپنی ہفتہ واری میڈیا بریفنگ میں اس رپورٹ کو پوری طرح سے بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہاکہ متعلقہ امریکی اخبار اور اس کا رپورٹر دونوں بھارت کے تئیں معاندانہ رویہ رکھتے ہیں۔
مصنوعی ذہانت (AI) سال 2025 کا سب سے بڑا چیلنج
اپنے یوٹیوب چینل نوکنگ نیوز ڈاٹ کام پر ایک پوڈ کاسٹ میں سینئر صحافی گریجیش وشسٹھ نے انٹرنیٹ پر اظہار خیال اور اپنی پسند کے مطابق اطلاعات تک رسائی کی راہ میں آرٹیفیشئل انٹلی جنس (اے آئی) یعنی مصنوعی ذہانت کو سب سے بڑا خطرہ بتایا ہے۔ اس سے انٹرنیٹ کی آزادی پر قدغن لگ جائے گی اورسال 2025 میں یہ آزادی پر اتنا بڑا حملہ ثابت ہوسکتا ہے کہ اس کے آگے اب تک کے سارے حملے کچھ بھی نہیں ہیں۔
انہوں نے چند مثالوں سے اسے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ مثال کے طور پر فیس بک، پچھلے دروازے سے اپنا پرائیویسی ڈاٹا سرکاروں کو دے رہا ہے تاکہ ان ملکوں میں اس کا کاروبار متاثر نہ ہو۔ ٹویٹر و دیگر ادارے پیسے لے کر بڑے اداروں کو سہولت دے رہے ہیں اور پیغام کی پہنچ یا اس کا دائرہ بڑھادیتے ہیں۔ یہ ایک طرح سے انٹرنیٹ کو اپنے مفاد میں یرغمال بنانے جیسا ہے۔ لیکن اے آئی کا خطرہ اس سے بڑا ہے۔
جنریٹیو اے آئی سے حرکت پذیر چیٹ بوٹ جیسے کہ گوگل کا جیمنی یا اوپن اے آئی کا چیٹ جی پی ٹی وغیرہ پر جب آپ کچھ سرچ کرتے ہیں تو وہ انٹرنیٹ سے جانکاری لے کر آپ تک پہنچاتا ہے۔ آپ نے کوئی سوال پوچھا اور آپ کو ایک جواب مل گیا۔ لیکن یہ جانکاری کہاں سے لی گئی ہے، کتنی مستند اور معتبر ہے یہ آپ کو معلوم نہیں ہوتا۔ گوگل پرجب کچھ سرچ کیا جاتا ہے تو سرچ رزلٹ میں متعدد ویب سائٹس سامنے آتی ہیں جہاں آپ کو متنوع قسم کی معلومات ملتی ہیں۔ مآخذ کے ساتھ معلومات صارف کے سامنے ہوتی ہیں۔ گریجیش وشسٹھ کے بقول چیٹ بوٹ اس کے برعکس جانکاری کو چوری کرکے صارف تک پہنچاتا ہے۔ جس شخص نے وہ معلومات انٹرنیٹ پر ڈالی ہوتی ہیں اس کی محنت اور کاپی رائٹ کا ہمیں علم نہیں ہوتا۔ اے آئی سے چلنے والا چیٹ بوٹ یہ ڈاٹا اپنے سَرور میں رکھتا ہے۔ اس طرح وہ دھیرے دھیرے دنیا بھر کی انٹرنیٹ کی جانکاری اپنے پاس جمع کرتا جارہا ہے۔ اس سے صارف اور تخلیق کار دونوں کی آزادی چھن جائے گی۔
گوگل پرسرچ میں آپ کو ہر طرح کی جانکاری میں اس کے غلط یا درست ہونے یا اس کے نظریاتی پہلو کا پتہ چلتا ہے۔ ہر نقطۂ نظر انٹرنیٹ پر ملتا ہے۔ جب کہ چیٹ جی پی ٹی جیسے چیٹ بوٹ صارف کی چوائس ختم کررہے ہیں۔ اس سے فیکٹ چیک یعنی حقائق کی تصدیق کا متبادل بھی ختم ہوجاتا ہے۔
گریجیش وشسٹھ نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل فلسطین معاملے میں پورا کا پورا میڈیا مینیجڈ ہے اور وہ وہی کررہا ہے جو مغرب چاہتا ہے۔ اور اب چیٹ جی پی ٹی جیسے چیٹ بوٹ ہم سے متبادل بھی چھین لیں گے۔ اس سے ایک طرف پوری انٹرنیٹ انڈسٹری کو خطرہ لاحق ہے تودوسری طرف ذہنی و فکری غلامی کے ایک نئے دور کی ابتدا بھی ہے۔
یو پی پولیس کی پوڈکاسٹ سیریز
یو پی پولیس نے اپنے یوٹیوب چینل پر ‘بیونڈ دی بیج’ کے عنوان سے ایک پوڈکاسٹ سیریز شروع کی ہے جس کے پہلی قسط میں سبکدوش ڈائرکٹر جنرل، سی بی سی آئی ڈی مسٹر ستیہ نارائن سابت کا انٹرویو لیا گیا ہے جس میں وہ اپنی دور ملازمت، چیلنجوں اور حصولیابیوں پر گفتگو کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یو پی پولیس امن و قانون کی صورت حال قائم رکھنے کے لیے کیسے کام کرتی ہے، پولیس میں کس طرح کے چیلجنز ہوتے ہیں اور عوام کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے پولیس سے کیا امیدیں کی جاتی ہیں، اس طرح کے امور و مسائل کو سمجھنے میں یہ پوڈکاسٹ مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔
***

 

***

 2011 میں جب انّا ہزارے کی تحریک دہلی میں جنترمنتر اور رام لیلا میدان پر چل رہی تھی تو منموہن سنگھ پر مسلسل حملے ہورہے تھے اور ٹی وی چینل اور اخبارات سرکار کی ناکامیوں اور بدعنوانیوں کا لگاتار ذکر کررہے تھے۔ بدعنوانی کے الزامات پر مسلسل ٹیلی کاسٹ ہوتے تھے اور وزیر اعظم کی تصویر لگاکر چینل پرتنقیدی خبریں چلائی جاتی تھیں۔ منموہن سنگھ کو مون موہن سنگھ تک کہا گیا۔ ان الزامات کے درمیان ڈاکٹر سنگھ پریس کانفرنس کرتے تھے اور میڈیا کے الزامات کا براہ راست سامنا کرتے ہوئے جواب دیتے تھے لیکن نریندر مودی نے گیارہ سال میں بطور وزیر اعظم ایک بھی پریس کانفرنس نہیں کی ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 12 جنوری تا 18 جنوری 2024