’میڈیا ون‘ کی قانونی لڑائی سے نکلا آزادي صحافت کا راستہ

’’مہر بند لفافے کے ذریعہ انصاف سے اور قومی سلامتی کے نام پر اظہار کی آزادی سے محروم نہیں کیاجاسکتا ‘‘

نوراللہ جاوید، کولکاتا

سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلہ سے بے آوازوں کی آواز کو خاموش کرنے کی مہم پسپا
جماعت اسلامی ہند کو قومی سلامتی کے مسئلہ سے جوڑنے کی کوشش ناکام
میڈیا کے تعصب اور مسلم دشمنی کا شکوہ کرنے کے بجائےمادھیمم براڈکاسٹنگ لمیٹڈکے تجربے کو ملک کے دیگر حصوں میں دہرانے کی ضرورت
15 مہینے کی صبر آزما اور اعصاب شکن قانونی جدو جہد کے بعد ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے اس ہفتے 5 اپریل کو ’’ملیالم نیوز چینل میڈیا ون‘‘ کے حق میں فیصلہ سنا کر اقلیتوں، پسماندہ اور دلت طبقے کو ان کی آواز سے محروم کرنے کی کوششوں کو ناکام کر دیا ہے۔ سپریم کورٹ کے 136 صفحات پر مشتمل اس فیصلے کا مختلف زاویوں سے تجزیہ کیا جا رہا ہے اور مستقبل میں جب بھی قومی سلامتی کے نام پر کمزوروں کی آواز کو خاموش کرنے کی کوشش کی جائے گی تو عدالت عظمیٰ کا یہ فیصلہ ان کے سامنے دیوار بن کر کھڑا رہے گا۔ چینل کے خلاف مرکزی وزارت داخلہ کی رپورٹ اور وزارت اطلاعات و نشریات کی جانب سے لائسنس کی تجدید سے انکار نے کئی سوالات کھڑے کر دیے کہ آخر کیوں حکمراں طبقے کو ایک ایسی آواز پسند نہیں ہے جو مظلوم و مقہور طبقات کی نمائندگی کرتی ہے، جو بے خوف ہو کر قومی میڈیا پر چلائی جانے والی اقلیت مخالف مہم کا جواب دیتی ہے؟ آج جبکہ ملک کے میڈیا پر اعلیٰ ذات کہلانے والوں کی اجارہ داری ہے، میڈیا چینلوں کی پالیسی سازی سے نیوز رومس تک ہر جگہ انہی کا غلبہ ہے، اس بھیڑ میں ایک ایسے چینل کے لیے جگہ کیوں نہیں ہے جو بڑے کارپوریٹ گھرانے کی ملکیت کا حصہ نہیں ہے اور جہاں اقلیتی اور کمزور طبقات سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کی اکثریت ہے۔ سوا ارب سے زائد آبادی والے ملک میں محض 3 فیصد آبادی ملیالم زبان بولنے والوں پر مشتمل ہے۔ ظاہر ہے کہ اس زبان کے اخبارات اور نیوز چینلس کا دائرہ کار بہت بہت ہی محدود ہے اس کے باوجود ملیالم زبان کے ایک نیوز چینل ’میڈیا ون‘ کی آواز اتنی اہم کیوں ہوگئی کہ اس کو دبانے کے لیے مرکزی حکومت نے مبہم اور غیر مصدقہ دعووں کی بنیاد پر لائسنس کی تجدید کرنے سے انکار کر دیا جس کے نتیجے میں اسے سپریم کورٹ میں منہ کی کھانی پڑی؟ عدالت عظمیٰ نے اس کے تمام دعووں اور الزامات کو بیک جنبش قلم مسترد کر دیا ہے۔ حکومت کا یہ قدم ثابت کرتا ہے کہ سچائی، معروضیت اور جرأت و بے باکی سے کی جانے والی صحافت سے اقتدار پر متمکن طاقتور حکمراں طبقہ بھی لرزہ براندام ہو جاتا ہے۔
آخر میڈیا ون کا قصور کیا ہے؟ چینل کے خلاف حکومت کی کارروائیوں کے پس پردہ مقاصد کیا تھے۔ یہ سوالات اس لیے اہم ہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ چینل کے خلاف غیر قانونی سرگرمی، مالی ہیرا پھیری اور دیگر بے ضابطگیوں کی کوئی شکایت حکومت کے پاس نہیں تھی۔ قابل غور بات یہ ہے کہ 2014 کے بعد جانچ ایجنسیوں اور محکمہ انکم ٹیکس کے چھاپے اور کارروائی کے ذریعہ میڈیا ہاوسس کو ڈرایا اور دھمکایا جاتا رہا ہے مگر چینل ون کے معاملے میں ایسا نہیں کیا گیا۔ کیا اس کا مقصد چینل ون کے انتظامیہ کو محض خوف زدہ کرنا نہیں تھا بلکہ خاموش کرنا تھا؟ کیا اسی لیے قومی سلامتی کے سوال کو چینل کے ساتھ جوڑ دیا گیا اور جماعت اسلامی ہند سے اس کے تعلق کا شگوفہ چھوڑ کر پورے معاملے کو سنسنی خیز بنا دیا گیا؟
قومی سلامتی کا یہ وہ سوال ہے جس کے سامنے عدالتیں بھی بے بس ہو جاتی ہیں۔چنانچہ اسی معاملے میں کیرالا ہائی کورٹ کی ایک رکنی اور ڈویژن بنچ دونوں نے یہ جاننے کے باوجود کہ قومی سلامتی کے لیے خطرہ کے حق میں جو ثبوت اور دعوے پیش کیے گئے ہیں وہ انصاف کے پیمانے پر پورے نہیں اترتے، کیرالا ہائی کورٹ کی بنچ نے آئی بی کی رپورٹ کی بنیاد پر حکومت کے دعوے کو من و عن تسلیم کرلیا۔ ظاہر ہے کہ یہ انصاف کے تقاضے کے خلاف تھا۔ قومی سلامتی کا یہی وہ سوال ہے جس کے نام پر ہی آج ملک کی جیلوں میں بے قصور نوجوانوں کی بڑی تعداد بند ہے۔ وہ ضمانتوں کے لیے عدالتوں کی خاک چھان رہے ہیں مگر ہر بار ضمانت کی درخواست قومی سلامتی متاثر ہونے کا خطرہ بتا کر رد کر دی جاتی ہے۔
دراصل میڈیا ون ’’مادھیمم براڈکاسٹنگ لمیٹڈ‘‘ کے تحت چلتا ہے اور اس کمپنی کے شیئر ہولڈرس میں چند غیر مسلموں کے ساتھ زیادہ تر شیئر ہولڈرس مسلمان ہیں۔نیوز روم اور اس کی پالیسی اقلیتوں، کمزور طبقات اور دلتوں کی آواز بننا ہے۔اپنی نشریات کے دس سالوں میں چینل ون نے اقلیتوں، کمزوروں اور حاشیہ پر دھکیلے گئے افراد کی ایک طاقتور آواز بن کر ابھرا ہے۔ اس نے بے خوف ہوکر اقلیتوں کے مسائل کی صحافتی دیانت داری کے ساتھ موثر و معروضی ترجمانی کی ہے۔ اس چینل کی یہی وہ خصوصیت ہے جو اس کو حکومت کی نگاہوں میں مغضوب بناتی ہے۔ کیرالا اب بھی بڑی حد تک فرقہ پرستوں کی پہنچ سے دور ہے۔ یہاں کی سیاست نفرت اور مسلم دشمنی سے پراگندہ نہیں ہے۔ یہ صورت حال آر ایس ایس اور بی جے پی کے لیے سازگار نہیں ہے۔ کیرالا کے ماحول کو فرقہ پرستانہ اور نفرت انگیز بنانے میں اگر کوئی رکاوٹ ہے تو اس طرح کے نیوز چینلس اور اخبارات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج سوال کھڑے کیے جا رہے ہیں کوئی بھی حکومت مبہم اور غیر مصدقہ بنیاد پر کسی بھی نیوز چینل کے لائسنس کی تجدید کرنے سے انکار کیسے کر سکتی ہے۔
مالی بے ضابطگیوں اور کیبل ایکٹ کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے چینلوں کے خلاف پہلے بھی کارروائیاں ہوئی ہیں اور لائسنس کی تجدید پر روک لگی ہے مگر قومی سلامتی کی بنیاد پر کسی نیوز چینل کے لائسنس کے اجرا سے انکار کا شاید یہ پہلا معاملہ تھا ۔
’’میڈیاون‘‘ کی انتظامیہ اور ’’مادھیمم براڈکاسٹنگ لمیٹڈ‘‘ کے شیئر ہولڈرس نے 15 مہینوں تک کیرالا ہائی کورٹ سے لے کر سپریم کورٹ تک ملک کے عدالتی نظام پر جس یقین و اعتماد کے ساتھ اور بہادری سے مقابلہ کیا ہے وہ نہ صرف ’’میڈیا ون‘‘ کے لیے یادگار ہے بلکہ آزاد بھارت کی میڈیا کی تاریخ کا سب سے روشن باب بھی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ بھارت میں میڈیا پر حملہ اور اس کی آواز کو دبانے کی یہ پہلی کوشش ہے، اس سے قبل بھی میڈیا کی آزادی پر حملے ہوئے ہیں، ایمرجنسی کے تاریک دور میں سنسر شپ لگائی گئی، 2014 کے بعد گرچہ اعلانیہ سنسر شپ نہیں لگائی گئی مگر اندرون خانہ میڈیا کی آزادی سلب کرنے کا کھیل جاری رہا۔ کچھ میڈیا ہاوسیس نے معمولی مزاحمت کے بعد خودسپردگی اختیار کی، بیشتر میڈیا ہاوسیس تین چار بڑے کارپوریٹ گھرانے کی ملکیت کا حصہ بن گئے۔ کچھ میڈیا ہاوسیس نے ہندوتوا کی غلامی قبول کرلی۔ اس دوران پرنٹ میڈیا کے کچھ گوشے بالخصوص انگریزی اخبارات نے صحافتی معروضیت کو برقرار رکھنے کی جدوجہد کی مگر اکثر نے اپنے ادارتی صفحے بی جے پی لیڈروں کے غیر معیاری مضامین کے لیے وقف کر دیے۔ ممبئی سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی اعجازالرحمن کی انگریزی اخبار مڈ ڈے میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق چار مشہور قومی انگریزی اخبارات میں وزیر اعظم مودی سمیت بی جے پی کے نصف درجن سینئر سیاست دانوں کے 600 سے زائد مضامین شائع ہوئے ہیں جب کہ اپوزیشن جماعتوں کے لیڈروں کے مضامین کی تعداد سو سے بھی کم رہی۔
مادھیمم براڈکاسٹنگ لمیٹڈ کی زیر ملکیت نشر ہونے والا ملیالم نیوز چینل میڈیا ون ملک کا واحد نیوز چینل ہے جس کے پروموٹرس کی اکثریت کا تعلق مسلم طبقے سے ہے اور جس نے جرأت و بے باکی کے ساتھ معروضیت پر مبنی صحافت کے ذریعہ ملیالم زبان بولنے والوں کے درمیان مقبول ترین چینلوں میں اپنا مقام بنایا ہے۔ میڈیا ون کا یہی طرز عمل صحافت کو اپنے پاوں کی جوتی بنا کر رکھنے والے حکمراں طبقے کو پسند نہیں آیا۔ دس سال تک نشریات کے بعد جنوری 2022 میں میڈیا ون کو اپنے لائسنس کی تجدید کروانی تھی۔ مرکزی حکومت کی وزارت اطلاعات و نشریات نے اس درمیان ہی مادھیمم براڈکاسٹنگ لمیٹڈ کو شو کاز نوٹس دیتے ہوئے بتایا کہ میڈیا ون کی نشریات قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں اسی وجہ سے وزارت داخلہ نے اسے سیکیورٹی کلیئرنس نہیں دی۔ چینل نے فی الفور وجہ نمائی نوٹس کا جواب دیتے ہوئے حکومت سے درخواست کی کہ ان کی نشریات قومی سلامتی کے لیے خطرہ کس طرح ہے اس کی وضاحت کی جائے۔ مگر چینل کے جواب کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے جنوری 2022 کے اختتام پر چینل کے لائسنس کی تجدید نہیں کی گئی۔ اس کے ساتھ ہی چینل ون کی جد وجہد کے صبر آزما دور کی شروعات ہوئی۔ پہلے کیرالا ہائی کورٹ کی ایک رکنی بنچ اور اس کے بعد ڈویژن بنچ میں درخواست رد کیے جانے کے بعد سپریم کورٹ میں اپیل کی گئی ۔سپریم کورٹ نے پہلے مرحلے میں چینل کو نشریات جاری رکھنے کی عارضی اجازت دے دی اور اب 5 اپریل کو سپریم کورٹ کا حتمی فیصلہ آیا ہے جس میں میڈیا ون کے لائسنس کے اجرا کی ہدایت دی گئی ہے۔
چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندر چوڑ اور جسٹس اندرا کوہلی پر مشتمل بنچ نے جو فیصلہ سنایا ہے وہ نہ صرف میڈیا کی آزادی کے اعتبار سے تاریخی ہے بلکہ یہ فیصلہ قومی سلامتی،میڈیا کی آزادی اور انصاف کے فطری تقاضوں تک رسائی کے اعتبار سے ایک سنگ میل ہے۔ اس فیصلے سے حکومت کے متکبرانہ مزاج پر جو چوٹ پہنچی ہے اس کی کسک حکومت کو دیر تک محسوس ہوتی رہے گی۔
اس فیصلے سے مخالفین یا پھر ناپسندیدہ عناصر کو دیش دروہی، قومی سلامتی کے لیے خطرہ اور ملک دشمن قرار دینے کے چلن پر بریک لگ سکتا ہے۔ یہ الزامات اس قدر سنگین ہوتے ہیں کہ جس پر بھی لگائے جاتے ہیں وہ خوف زدہ ہو جاتا ہے اور ظلم و زیادتی کے خلاف جدو جہد کرنے کے بجائے خود کو حالات کے حوالے کر دیتا ہے مگر میڈیا ون نے خود کو حالات کے حوالے کرنے کے بجائے عدالتی نظام پر بھروسہ کیا اور قانونی جدو جہد کا راستہ اختیار کیا، اگرچہ یہ راستہ کٹھن و اعصاب شکن تھا۔ خفیہ محکمہ کی رپورٹ اور قومی سلامتی جیسے بھاری بھرکم الفاظ اور الزامات کی زد میں آنے کے بعد بہت ہی کم ادارے اپنے آپ کو بچا پاتے ہیں مگر اپنے نظام میں شفافیت، طریقے کار میں حسن کارکردگی اور غیر معمولی عزم و حوصلہ کے بدولت میڈیا ون نے قانونی جنگ جیت کر یہ ثابت کیا ہے یقین واعتماد، دلائل کی قوت اور بہتر حکمت عملی سے جنگ لڑی جائے تو کامیابی مل سکتی ہے۔اس درمیان میڈیا ون کے پروموٹرس، ایڈیٹرس، ادارتی عملہ اور دیگر کارکنان نے جس طریقے سے یکجہتی اور اتحاد کا مظاہرہ کیا وہ بھی میڈیا کی تاریخ کا روشن باب ہے۔ اکثر اوقات ادارے پر مصیبت کے دور میں ساتھ کام کرنے والے جلد ہی اپنے ٹھکانے تبدیل کرنے لگتے ہیں مگر اس معاملے میں بھی میڈیا ون خوش قسمت رہا کہ اس کا عملہ اس کے ساتھ مضبوطی کے ساتھ کھڑا رہا۔ میڈیا ون کی ایک اور بڑی کامیابی یہ ہے کہ ملیالم میڈیا میں اس نے اپنے حق میں رائے عامہ کو ہموار رکھا۔ کیرالا کی حکمراں سی پی آئی ایم اور اپوزیشن جماعت کانگریس اور دیگر بڑی جماعتوں کی میڈیا ون کو اخلاقی حمایت حاصل رہی۔ اس کے ساتھ ہی کیرالا ورکنگ جرنلسٹ تو اس معاملے میں فریق بن کر عدالتی جدوجہد کا ساتھی بنا رہا ہے جس سے ثابت ہوتاہے کہ میڈیا ون نے فرقہ واریت سے گریز کرتے ہوئے اپنی نشریات کی دس سالہ مدت میں معروضیت و صحافتی اقدار کو روا رکھتے ہوئے صحافتی ذمہ داری ادا کی ہے۔ نیوز چینل کی سطح پر چینل ون کی طرح کوئی بھی ایسا مستحکم نیوز چینل نہیں تھا جو اقلیتوں کی ترجمانی، اقلیتوں کے خلاف جاری پروپیگنڈہ کا جواب دے سکے۔اگرچہ ملیالم زبان کی پہنچ بہت ہی محدود ہے تاہم نیوز چینل کی طاقت اور اس کی آواز کافی مستحکم تھی لیکن جماعت اسلامی ہند سے چینل کے تعلق کو جوڑ کر جس طریقے سے پورے معاملے کو سنسنی خیز بنانے کی کوشش کی گئی وہ حکومت کی بدنیتی اور اقلیت مخالف سوچ کا مظہر ہے۔ ساتھ ہی یہ سمجھنے کی بھی ضرورت ہے کہ جماعت اسلامی ہند کو بدنام کرکے حکومت کیا حاصل کرنا چاہتی تھی، اور یہ سوال بھی اہم ہے کہ میڈیا ون کے معاملے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ اتنا اہم کیوں ہے؟ آخر صحافی اور میڈیا ہاوسیس اس فیصلے کو اپنی جیت کیوں سمجھ رہے ہیں اور اس فیصلے کے مستقبل میں کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ تیسرا اہم سوال یہ ہے کہ کیا سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد میڈیا ون کی جدوجہد کی راہیں آسان ہوگئی ہیں اور آیا مستقبل میں مرکزی حکومت دوبارہ اس پر پلٹ وار نہیں کرے گی؟
الیکٹرانک میڈیا جسے عرف عام میں قومی میڈیا بھی کہا جاتا ہے اس سے یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ اس فیصلے کو پرائم ٹائم کا موضوع بنائے گا یا مباحثہ کرواتے ہوئے مختلف زاویوں سے اس کا تجزیہ کرے گا۔ اس کی وجوہات جگ ظاہر ہیں تاہم پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعہ سنجیدہ اور معروضی صحافت کرنے والے سینئر صحافیوں نے اس فیصلے کو نہ صرف اہمیت کی نگاہوں سے دیکھا بلکہ تمام صحافی اور قومی پرنٹ میڈیا نے اعتراف کیا ہے کہ میڈیا ون کی قانونی جدو جہد اور سپریم کورٹ کا فیصلہ دونوں ملک کی صحافت کے لیے تاریخی لمحہ ہیں۔ اس فیصلے سے سنسرشپ اور کارروائی کے خوف سے آزاد ہو کر صحافت کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔ ملک کے بیشتر موقر انگریزی اخبارات دی ہندو، انڈین ایکسپریس، ٹائمس آف انڈیا، ہندوستان ٹائمس، ٹیلی گراف اور دکن ہیرالڈ نے اس فیصلے پر جو ادارتی نوٹ شائع کیے ہیں ان میں فیصلے کا خیرم مقدم کرنے کے ساتھ ساتھ آرٹیکل 19اے اور آرٹیکل 19(2) کے ذریعہ قومی سلامتی کے نام پر میڈیا کو آزادی سے محروم کرنے کی کوشش پر سپریم کورٹ کے عزت مآب جج صاحبان کے تبصرے کو حوصلہ افزا قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ میڈیا کی آزادی کی بحث کے دائرہ کار کو مزید وسیع کیا جائے۔ دراصل میڈیا پر لگام کسنے کے لیے حکومت جس انداز سے آگے بڑھ رہی ہے اس سے تمام میڈیا ہاوسیس کے سامنے بندش اور کارروائی کا خطرہ کھڑا ہو گیا ہے کہ کسی بھی وقت مہر بند لفافے کے ذریعہ اس کے پر کتر ے جا سکتے ہیں۔ سینئر صحافی پنکج پچوری کہتے ہیں کہ وہ میڈیا ون سے متعلق زیادہ نہیں جانتے مگر اس معاملے میں سپریم کورٹ نے جو فیصلے سنائے ہیں اور آزاد صحافت کے حوالے سے جو باتیں کہی ہیں وہ کافی اہم ہیں۔ اس کے اثرات کئی سالوں تک باقی رہیں گے۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ آزاد صحافت کے لیے سنگ میل کیوں ہے؟
مرکزی حکومت نے میڈیا ون کے لائسنس کی تجدید نہیں کرنے کی دو اہم وجوہات پیش کی تھیں۔ پہلی یہ کہ وہ اسٹیبلشمنٹ مخالف ہے یعنی شہریت ترمیمی ایکٹ، این آر سی اور دیگر امور میں اس کی نشریات حکومت مخالف ہیں۔ دوسری وجہ یہ بتائی گئی کہ اس کے تعلقات جماعت اسلامی ہند سے ہیں، اس کے اسٹیک ہولڈرس میں جماعت اسلامی کے ممبران شامل ہیں۔ اس سے قومی سلامتی کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ حکومت نے اپنا یہ دعویٰ عدالت میں مہر بند لفافے میں جمع کرایا تھا۔ اس معاملے کی سماعت کے بعد عدالت کا جو فیصلہ آیا ہے وہ صرف نیوز چینل کو چلانے کے تعلق سے نہیں ہے بلکہ سپریم کے چیف جسٹس کی قیادت والی بنچ نے قومی سلامتی کے نام پر دفاع کرنے کے حق سے محروم کرنے، حکومت کے ذریعہ کسی بھی معاملے میں عدالت میں مہر بند لفافے جمع کرانے کی روایت اور درخواست کنندہ کو رسائی دینے سے انکار اور کیا میڈیا کا اسٹیبلشمنٹ مخالف ہونا جرم ہے جیسے امور میں فیصلے سنائے ہیں۔ گویا ایک فیصلے میں تین فیصلے ہیں اور تینوں کافی اہم ہیں جس کے مستقبل میں گہرے اثرات مرتب ہوں گے ۔
(1)مہر بند لفافہ اور خفیہ محکمہ کی رپورٹ تک درخواست دہندگان کو رسائی دینے سے انکار پر عدالت نے عالمی سطح پر تسلیم شدہ اصول کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کسی بھی مقدمے میں ملزم کو اہم ثبوتوں تک رسائی ہونی چاہیے جن کا استغاثہ اس کے خلاف استعمال کرنے کاا ارادہ رکھتی ہے تاکہ ملزم اپنے دفاع میں دلائل تیار کر سکے۔ بنچ نے مہر بند لفافے کے طریقے کار پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ہر ایک معاملے میں مہر بند لفافے کے ذریعہ فریق ثانی کو انصاف سے محروم نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ’’تمام تحقیقاتی رپورٹس کو خفیہ قرار نہیں دیا جا سکتا ہے کیونکہ اس سے شہریوں کے حقوق اور آزادی متاثر ہوں گی‘‘ تحقیقاتی ایجنسیوں کی رپورٹ افراد اور اداروں کی زندگی، آزادی اور پیشے پر فیصلوں کو متاثر کرتی ہے اور ایسی رپورٹس کو افشاء سے مکمل استثنیٰ دینا ایک شفاف اور جواب دہ نظام کی خلاف ورزی ہے۔ اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے کہا کہ اگر خفیہ محکمے کی رپورٹ کو خفیہ رکھنا ناگزیر ہے تب بھی عدالت کے مدد گار (amicus curiae) کے ذریعہ درخواست دہندہ کو اپنے دفاع کے لیے مواقع فراہم کیا جاسکتا ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ عدالت کے ذریعہ تقرر کردہ امیکس کیوری کو عدالت خفیہ محکمہ کی رپورٹ اور مہر بند لفافے تک رسائی دے گی اور امیکس کیوری درخواست گزار اور اس کے وکیل کو سماعت کی کارروائی کے آغاز سے قبل مہر بند لفافے کے مواد سے آگاہ کرے گی۔ میڈیا ون کے معاملے میں کیرالا کی ایک رکنی اور ڈویژن بنچ نے مہر بند لفافے میں چینل کے خلاف جمع کرائے گئے ثبوتوں تک رسائی دینے سے انکار کردیا تھا۔میڈیا ون کے ایڈیٹر اور سینئر صحافی پرمود رامن بتاتے ہیں جب انہیں آف ایر کیا جا رہا تھا تو انہیں معلوم ہی نہیں تھا کہ ان کا قصور کیا ہے؟ ان کی نشریات کن بنیادوں پر قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔ اس لیے اندھیرے میں ہی قانونی جنگ لڑنی پڑی۔
(2)قومی سلامتی کے نام پر اظہار رائے کی آزادی سے محروم کرنے کی کوششوں کے سوال پر سپریم کورٹ نے کہا کہ اگرچہ ہم سمجھتے ہیں کہ عدالتوں کے لیے قومی سلامتی کی تعریف کرنا ناقابل عمل اور غیر دانشمندانہ قدم ہے تاہم یہ بھی ہم مانتے ہیں کہ قومی سلامتی کے دعوے مفروضہ بنیادوں پر قائم نہیں کیے جاسکتے۔ قومی سلامتی کے لیے خطرہ بتا دینا کافی نہیں ہے بلکہ اس کے لیے ٹھوس شواہد بھی پیش کرنے ہوں گے۔ عدالت نے کہا کہ قومی سلامتی ان چند بنیادوں میں سے ایک ہے جن کی بنیاد پر کسی بھی شہری کی آزادی پر قدغن لگائی جاسکتی ہے مگر اس کے لیے ریاست کو منصفانہ طریقے اختیار کرنے ہوں گے۔ اگر ریاست (حکومت) منصفانہ طریقے سے کام نہیں کرتی ہے تو اس کو عدالت کے سامنے کیس کے حقائق کا جواز پیش کرنا ہوگا۔ ریاست کو عدالت کو مطمئن کرنا ہوگا کہ قومی سلامتی کے جو خدشات ظاہر کیے گئے ہیں اس کی بنیاد ٹھوس ہے۔دوم یہ ہے کہ ریاست کو عدالت کو مطمئن کرنا پڑے گا کہ قدرتی انصاف کے اصولوں کی تنسیخ جائز ہے۔ ریاست کو اب یہ ثابت کرنا ہوگا کہ یہ وہ دو مقاصد ہیں جن کی تکمیل ریاستی کارروائی کرنا چاہتی ہے۔ عدالت نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ شہریوں کو ان کے حقوق سے محروم کرنے کے لیے قومی سلامتی کو غیر معمولی طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ میڈیا ون کیس میں عدالت نے کہا کہ قومی سلامتی کے لیے خطرہ کے جن اندیشوں کا اظہار کیا گیا اس کے لیے دیے گئے دلائل غیر تسلی بخش ہیں اور حقاق اور دعووں کے درمیان کوئی یکسانیت نہیں ہے۔
(3)چینل کے اسٹیبلشمنٹ مخالف ہونے سے متعلق حکومت کے دعوے پر سپریم کورٹ نے جو ریمارکس کیے وہ بہت ہی اہم ہیں۔ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے کہا کہ مہر بند لفافے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ میڈیا ون کی نشریات اسٹیبلشمنٹ مخالف ہے کیونکہ چینل نے شہریت ترمیمی ایکٹ (سی اے اے) اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (این آر سی) اور زرعی بل پر حکومت اور عدلیہ کی واضح تنقید کی ہے اور یہ اس کے اسٹیبلشمنٹ مخالف ہونے کے واضح ثبوت ہیں۔ اس معاملے میں سپریم کورٹ کے بنچ نے واضح کیا کہ حکومت کی پالیسیوں پر تنقیدی خیالات کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ نہیں کہا جا سکتا۔ ایسی اصطلاحات کا استعمال بذات خود یہ ثات کرتا ہے کہ حکومت کی منشا ہے کہ پریس کو اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ دینا چاہیے یعنی وہ حکومت کے ہر موقف کی تائید کرے۔ ظاہر ہے کہ یہ پریس کی آزادی کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے کہ میڈیا سے اسٹیبلشمنٹ کے وفادار ہونے کی توقع رکھی جائے۔ اس معاملے میں عدالت نے ایک اہم نکتے کی طرف توجہ دلائی کہ سیاسی و سماجی معاملات اور نظریات پر یکساں نظریہ قائم کرنے کی ذہنیت سے جمہوریت کو سنگین خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ پریس کا کام ہی سچائی کو سامنے لانا اور اسٹیبلشمنٹ کو عوام کے سامنے جواب دہ بنانا ہے۔عدالت نے ایک آزاد اور خود مختار پریس کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس کا کام جمہوریت کو مضبوط کرنا ہے ۔میڈیا کی درجہ بندی صرف اس بنیاد پر اینٹی اسٹیبلشمنٹ کے طور پر نہیں کی جا سکتی کہ وہ تنقیدی خیالات کا اظہار کرتا ہے، عدالت نے کہا کہ تنقید نہ کرنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ میڈیا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہے۔ ایک آزاد پریس کا کردار ایک جمہوری معاشرے میں اہم ہے کیونکہ یہ ریاست کے کام کاج پر روشنی ڈالتا ہے۔
وزارت داخلہ کے ذریعہ کلیئرنس نہ دیے جانے کی دوسری وجہ یہ بتائی گئی کہ چینل کے کئی پروموٹروں کا تعلق جماعت اسلامی ہند کیرالا سے ہے۔ اس معاملے میں دوا ہم باتیں سپریم کورٹ نے کہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی ہند کوئی کالعدم تنظیم نہیں ہے اس لیے یہ دعویٰ کرنا کہ جماعت اسلامی سے چینل کے روابط سے ملک کی خود مختاری متاثر ہوگی غلط ہے جبکہ قومی سالمیت، ریاست کی سلامتی، غیر ملکی ریاستوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات یا امن عامہ کی بنیادوں پر آرٹیکل 19(2) کے تحت اظہار رائے کی آزادی پر کچھ معقول پابندیاں عائدکی جاسکتی ہیں۔دوسری اہم بات یہ کہی کہ ایسا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا کہ چینل کے تمام شیئر ہولڈرز جماعت اسلامی سے تعلق رکھتے ہیں۔
سپریم کورٹ کے 136 صفحات پر مشتمل اس فیصلے سے تین اہم نکات سامنے آتے ہیں۔ پہلی بات یہ کہ قومی سلامتی اور خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر انصاف کے بنیادی تقاضوں کو پامال نہیں کیا جاسکتا۔دوسری یہ ہے کہ میڈیا سے اسٹیبلشمنٹ کا وفادار ہونے کی توقع رکھنا میڈیا کی آزادی کے سراسر خلاف ہے۔ تیسری اہم بات یہ ہے کہ کسی تنظیم سے تعلقات کو بنیاد بنا کر لائسنس کے حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا ہے۔ یہی وہ تین نکتے ہیں جن کی بنیاد پر سپریم کورٹ کے فیصلے کو سنگ میل قرار دیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ حالیہ دنوں میں حکومت نے میڈیا کو ہم خیال بنانے کے لیے کئی کارروائیاں کی ہیں۔ چنانچہ آج صورت حال یہ ہے کہ بیشتر نیوز چینلوں سے ایک ہی طرح کے خیالات اور فکر ناظرین تک پہنچائی جارہی ہے۔ اس کی وجہ سے تنوع کی موت ہو رہی ہے اور معاشرہ میں عدم رواداری بڑھ رہی ہے۔ اختلاف رائے کو جگہ نہیں مل رہی ہے۔ دہشت گردی مخالف قوانین کا بے دریغ استعمال ہورہا ہے، کئی کشمیری صحافیوں بشمول پلٹزر پرائز کے فاتحین کو تک مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ انہیں سفر کرنے سے روک دیا گیا ہے۔کیرالا سے تعلق رکھنے والے صحافی صدیق کپن، جنہیں ہاتھرس عصمت دری کیس کی کوریج کے لیے جاتے ہوئے گرفتار کیا گیا تھا انہیں بلا وجہ انسداد دہشت گردی کے قوانین کے تحت دو سال جیل میں کاٹنے پڑے۔
ایک ایسے وقت جب ملک میں جمہوری ادارے کمزور ہو رہے ہیں، سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ خزاں کے موسم میں ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا لے کر آیا ہے۔ اسی وجہ سے آزادی صحافت کی ہمنوا صحافتی برداری اور میڈیا کی تنظیمیں اس فیصلے میں اپنی فتح کو دیکھ رہی ہیں۔
سوشل میڈیا کو باقاعدہ بنانے کے نام پر جس طریقے سے آئی ٹی ایکٹ میں تبدیلی کر کے مخالف آوازوں کو دبانے کی کوششوں کا اغاز کیا گیا ہے وہ اظہار خیال کی بنیادی آزادی کے لیے ایک بڑا خطرہ بن کر سامنے آیا ہے۔ سوشل میڈیا کمپنیوں کو دباو میں لایا جا رہا ہے۔ پریس انفارمیشن بیورو کو کوئی میکانزم طے کیے بغیر جعلی خبروں کی شناخت کرنے کی آزادی دے دی گئی ہے۔ اس سے اظہار خیال کی آزادی متاثر ہوگی۔ اس کا تحفظ کیسے کیا جاسکتا ہے، اس کی وجہ سے سوشل میڈیا بالخصوص یوٹیوب، فیس بک اور دیگر پلیٹ فارمس پر صحافتی ذمہ داری ادا کرنے والے صحافیوں کے سامنے چیلنجز اب بھی باقی ہیں۔ چنانچہ یہ خدشہ ہمیشہ لاحق رہتا ہے کہ حکومت کسی بھی سوشل میڈیا پر دباو بنا کر اکاؤنٹ بند کرواسکتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس جانب بھی توجہ دی جائے اور کسی بھی اکاؤنٹ کو بند کرانے سے قبل اکاؤنٹ ہولڈر کو اپنی بات رکھنے کا موقع ملنا چاہیے۔ اسی صورت میں بھارت میں آزاد صحافت پھل پھول سکتی ہے۔
میڈیا ون اور مادھیمم اخبارات بے آوازوں کی آواز
ہفت روزہ دعوت کے انہی صفحات میں ہم نے دو تین ماہ قبل آکسفیم انڈیا اور نیوز لانڈری کی مشترکہ رپورٹ کے حوالے سے لکھا تھا کہ قومی میڈیا کا دائرہ کار وقت گزرنے کے ساتھ سکڑتا جا رہا ہے۔ یہ عام لوگوں کی آواز بننے کے بجائے طاقتور اور اشرافیہ کے مفادات کا محافظ بن گیا ہے۔میڈیا پر مخصوص طبقات کا دبدبہ ہے اسی وجہ سے اس کا کوریج بھی خاص طبقات کے مفادات کے تابع ہوتا ہے۔ اس تناظر میں مادھیمم براڈکاسٹنگ لمیٹڈ کے تحت چینل ون بے آواز لوگوں کی آواز بن کر نمودار ہوا ہے۔ اگرچہ اس کے قارئین و ناظرین کا تعلق ملیالم زبان سے ہے تاہم بھارت کی صحافتی تاریخ میں انقلاب لانے کا سہرا اسی کے سر ہے۔ اس نے ہم عصر متبادل میڈیا کے لیے ایک نئی راہ ہموار کی ہے۔
نیوز چینل کے آغاز سے قبل آئیڈیل پبلیکیشنز ٹرسٹ کے تحت روزنامہ مادھیمم کی اشاعت 1987 میں کی گئی۔ گزشتہ 40 سالوں نے روزنامہ مادھیمم نے کئی سنگ میل عبور کیے۔ 2021 کے سروے کے مطابق اس کی اشاعت 1.5 لاکھ ہے اور کل 4 لاکھ قارئین ہیں۔ بھارت میں کل دس ایڈیشن شائع ہوتے ہیں جبکہ 6 ایڈیشن خلیجی ممالک سے شائع ہوتے ہیں۔ 25ویں سالگرہ کے موقع پر بڑے پیمانے پر قارئین تک رسائی کے لیے مادھیمم نے اپنا ٹیلی ویژن MediaOne TV کو لانچ کیا تھا۔اس کے لیے 2010 میں مادھیمم براڈکاسٹنگ لمیٹڈ کی تشکیل کی گئی۔ سابقہ یو پی اے حکومت نے 2011 میں اس کے لائسنس کی منظوری دی اور 2013 سے اس کی نشریات کا آغاز ہو گیا۔
میڈیا ون کا دائرہ کار صرف نیوز چینل تک محدود نہیں بلکہ انٹرٹینمنٹ کا بھی چینل ہے۔پیشہ ور،قابل،انتہائی ہنر مند اور سماجی طور پر باشعور صحافیوں کی نئی نسل کو آگے لانے کے لیے 2010 میں ایم بی ایل میڈیا اسکول کے نام سے ایک میڈیا انسٹیٹیوٹ بھی قائم کیا گیا ہے۔اس وقت بھارتی میڈیا چند ارب پتی کارپوریٹ گھرانوں کی ملکیت میں ہے۔ ان چند ارب پتیوں کے اپنے کاروباری مفادات ہے۔اس کے ذریعہ انہیں قابو کرنا بے حد آسان ہے۔ایسے میں مادھیمم براڈکاسٹنگ لمیٹڈ اور میڈیا ون کا آزادانہ وجود کیسے برداشت کیا جا سکتا تھا؟ میڈیا ون کے ایڈیٹر اور سینئر صحافی پرمود رامن اس سوال کے جواب میں کہتے ہیں کہ این آر سی اور شہریت ترمیمی ایکٹ پر ہماری رپورٹنگ غیر متوازن نہیں تھی، دیگر میڈیا ہاوسیس کی طرح ہم نے بھی رپورٹنگ کی۔ ہاں ہم نے حکومت کے موقف کی تائید نہیں کی مگر جمہوریت اور بھارت کے آئین کے دائرہ میں رہ کر ہم نے ان متنازع قوانین کا جائزہ لیا۔ وہ کہتے ہیں کہ میڈیا ون چینل کا نیوز روم بھارت کے لسانی جغرافیائی اور علاقائی تنوع کا بہترین امتزاج ہے۔ہم خوشگوار ماحول میں معروضی صحافت کرتے ہیں۔میڈیا ون اور مادھیمم براڈکاسٹنگ لمیٹڈ کی یہ سب سے بڑی کامیابی ہے کہ کیرالا کی تمام جمہوری قوتیں، سول سوسائٹی اور میڈیا کے ادارے اس کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں۔ کیرالا کانگریس کے سینئر لیڈر ششی تھرور کا ٹوئیٹ اس کا ثبوت ہے۔ میڈیا ون اور مادھیمم براڈکاسٹنگ لمیٹڈ کا انتظامی ڈھانچہ اور کام کاج کرنے کا طریقہ کار آزاد صحافت کا فروغ دینے کے متمنی افراد کے لیے ایک سبق ہے کہ کس طرح سخت ماحول میں اصول و قوانین کی پابندی کے ساتھ پریس کی آزادی کا چراغ روشن رکھا جا سکتا ہے۔
چند سوالات اب بھی باقی ہیں
اس پورے قضیے نے حکومت کی بدنیتی کو اچھی طرح بے نقاب کیا ہے۔ ایک طرف میڈیا کے ان عناصر کو بے لگام چھوڑ دیا گیا ہے جہاں دن رات فرقہ واریت اور نسلی تفریق کے زہر اگلے جاتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے ذریعہ متعدد مرتبہ سخت تنبیہ کے باوجود نیوز چینلس ابھی تک بے لگام ہیں۔اسی سال جنوری میں بھی عدالت نے اس پر حکومت کی سخت تنبیہ کی تھی۔سپریم کورٹ کی ہدایت کے باوجود نہ ان چینلوں کے خلاف کوئی کارروائی ہو رہی ہے اور نہ ہی ان کے ذریعہ قومی سلامتی کو نقصان پہنچنے والے عمل کا نوٹس لیا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ سے بیرون ملک بھارت کے مفادات کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ دوسری طرف حکومت جس طریقہ سے اپنے مخالفین اور ان کے نظریہ اور فکر سے اختلافات کرنے والوں کے خلاف دہشت گردی اور ملک سے بغاوت کرنے کے مقدمات دائر کر رہی ہے اس سے قومی سلامتی جیسا اہم مسئلہ اپنی معنویت کھو رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سے ملک کو براہ راست نقصان پہنچ رہا ہے۔ گزشتہ سال اپریل میں امریکی وزارت خارجہ کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ بھارت میں مقامی اور قومی دونوں سطحوں پر سرکاری اہلکار جسمانی طور پر میڈیا اور آزادانہ تنظیموں کو ڈرانے میں ملوث ہیں۔ بی بی سی کے دفتر پر چھاپہ اور اب آکسفیم انڈیا جیسا ادارہ جو ملک میں معاشی اور سماجی برابری قائم کرنے کے لیے کوشاں ہے اس کے خلاف جانچ کا آغاز یہ ثابت کرتا ہے کہ غیر ملکی ایجنسیاں جن خدشات کا اظہار کر رہی ہیں اس کے بنیادی ٹھوس شواہد موجود ہیں۔
جماعت اسلامی ہند، صالح انقلاب برپا کرنے کے لیے کوشاں جماعت ہے
میڈیا ون کے معاملے میں جماعت اسلامی ہند کو جوڑ کر جس طریقے سے متنازع بنانے کی کوشش کی گئی ہے اس سے حکومت کی فرقہ پرستانہ اور مسلم مخالف سوچ و فکر کی عکاسی ہوتی ہے۔ جبکہ جماعت اسلامی ہند گزشتہ 75 سالوں میں ملک کی تعمیر و ترقی اور صالح معاشرہ کے قیام کے لیے کام کر رہی ہے۔ جماعت اسلامی ہند نے افراد سازی کے ذریعہ زندگی کے ہرشعبے میں صالح اور انقلابی سوچ کے حامل نوجوان فراہم کیے ہیں ۔جماعت اسلامی ہند کی 75 سالہ تاریخ روز روشن کی طرح عیاں ہے۔یہاں پر اس کی خدمات کو بیان کرنے کا کوئی موقع و محل نہیں ہے تاہم تعلیم کے فروغ، صالح معاشرہ کے قیام، افراد سازی اور قومی یکجہتی اور بھائی چارہ کے فروغ کے لیے اس نے جو خدمات انجام دی ہیں اس کی مثال دوسری تنظیموں میں نہیں ملتی۔ دوسری طرف دائیں بازو کی جماعتیں ہیں جن کے افراد آئے دن اقلیتوں کے خلاف زہر اگلتے ہیں اور نسل کشی کی بات کرتے ہیں۔ ایسے میں یہ سوال ہے کہ صرف مسلم تنظیمیں اور اداروں کو ہی قومی سلامتی کے حوالے سے سوالوں کی زد میں کیوں لایا جاتا ہے جبکہ فرقہ واریت کا زہر اگلنے اور نفرت کا ماحول تیار کرنے والے افراد اور ادارے ملک کی سالمیت کے لیے سب سے بڑا خطرہ بنے ہوئے ہیں؟ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس خطرے کا حکومت کب اداراک کرے گی اور ان عناصر کے خلاف کارروائی کرنے کی جرأت کب کرے گی؟ دو مرتبہ جماعت اسلامی ہند کے خلاف پابندی لگائی گئی مگر یہ پابندی غیر قانونی سرگرمیوں کی وجہ سے نہیں بلکہ آر ایس ایس کے خلاف کارروائی میں توازن قائم کرنے کے لیے تھی۔چنانچہ اس پابندی کو خود سپریم کورٹ نے برخاست کیا ہے ۔
***

 

***

 میڈیا ون کے معاملے میں جماعت اسلامی ہند کو جوڑ کر جس طریقے سے متنازع بنانے کی کوشش کی گئی ہے اس سے حکومت کی فرقہ پرستانہ اور مسلم مخالف سوچ و فکر کی عکاسی ہوتی ہے۔ جبکہ جماعت اسلامی ہند گزشتہ 75 سالوں میں ملک کی تعمیر و ترقی اور صالح معاشرہ کے قیام کے لیے کام کر رہی ہے۔ جماعت اسلامی ہند نے افراد سازی کے ذریعہ زندگی کے ہرشعبے میں صالح اور انقلابی سوچ کے حامل نوجوان فراہم کیے ہیں ۔جماعت اسلامی ہند کی 75 سالہ تاریخ روز روشن کی طرح عیاں ہے۔یہاں پر اس کی خدمات کو بیان کرنے کا کوئی موقع و محل نہیں ہے تاہم تعلیم کے فروغ، صالح معاشرہ کے قیام، افراد سازی اور قومی یکجہتی اور بھائی چارہ کے فروغ کے لیے اس نے جو خدمات انجام دی ہیں اس کی مثال دوسری تنظیموں میں نہیں ملتی۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 اپریل تا 22 اپریل 2023