میڈیا نے اپنے سروکار بدلے تو سوشل میڈیا نے امکانات کے دروازے کھول دئے

فرضی خبروں کی اشاعت روکنے کے لئے تعزیری قوانین متعارف کرنے کی ضرورت

شہاب فضل، لکھنؤ

جمہوریت میں میڈیا کی حرکتوں سے واقفیت لازمی، نوجوانوں کو ڈیجیٹل میڈیا کی افادیت کا احساس کرایا جائے
بھارتی میڈیاشدید اتھل پتھل اور تبدیلیوں کے دور سے گزر رہا ہے جس نے میڈیا میں اعتبار، اخلاقیات، میڈیا کنٹرول، جواب دہی، ضابطہ بندی، اظہار رائے کے حدود ، فرضی خبریں، سٹیزن جرنلزم، متبادل میڈیا، سوشل میڈیا ، اجارہ داری، کارپوریٹ قبضہ، غیرجانب داری، حکومت مخالف یا حکومت حامی جیسے سوالات و موضوعات پر تیکھی بحث کو جنم دیا ہے۔
مختلف سطحوں پر باہم مربوط یا ایک دوسرے پر منحصر معاشروں، کمیونٹیوں، حکومتوں اور ملکوں کے لیے میڈیا ایک ناگزیر ضرورت ہے تو دوسری طرف سوشل میڈیا نے فاصلوں کو ختم کردیا ہے اور اطلاعاتی نظریات (کمیونیکیشن تھیوریز) اور پریکٹیسوں کو انقلابی تبدیلیوں سے دوچار کیا ہے۔ بھارت میں میڈیا کی کیا صورت حال ہے، کون سے نمایاں رجحانات ہیں، پرنٹ اور ٹی وی جرنلزم کے منہج اور طور طریقوں میں سرمایہ کی ریل پیل کا کیا اثر ہورہا ہے، ٹی آر پی اور وائرل ہونے کے چکر میں وہ کس حدتک پاپولسٹ بنتے جارہے ہیں اور ان کے سروکار بدل رہے ہیں، متبادل میڈیا کس حدتک پاپولسٹ رجحان کا پیروکار ہے اور اس کے کیا اثرات مرتب ہورہے ہیں، انہیں سب امور پر میڈیا کے ماہرین اور عمل دخل رکھنے والے صحافیوں سے’ہفت روزہ دعوت‘ کی خاص بات چیت میں آنے والے برسوں میں مثبت تبدیلیوں کی جھلک نظر آئی اور مواقع سے فائدہ اٹھانے کے امکانات بھی آشکار ہوئے۔
میڈیا میں اعتبار اور ساکھ کا مسئلہ
انگریزی اخبار بزنس اسٹینڈرڈ کے یوپی سربراہ مسٹر سدھارتھ کلہنس نے اپنے تیس برس سے زائد محیط تجربہ کی روشنی میں کہا کہ صحافت میں غیرجانبداری تلاش کرنے کے بجائے یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ کس کا جانبدار اور حامی ہے۔ اگر میڈیا عوام کے حمایتی ہیں، ان کے مفاد، دکھ درد، سروکار کو اولیت دیتے ہیں تو وہی حقیقی میڈیا یعنی سچی صحافت ہے۔
میڈیا میں بگاڑ کب یا کیوں آیا اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ 1977 میں میڈیا نے ایمرجنسی مخالف سیاستدانوں کا ساتھ دیا، تبھی سے بھارت میں سیاستدانوں کے ساتھ میڈیا کی وابستگی کا ایسا دور شروع ہوا جس میں ہم حاکموں یا حکمراں سیاستدانوں سے فائدہ اٹھانے کا رجحان پنپتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔ میڈیا کا ایک دھڑا حکومت کے ساتھ اور ایک دھڑا اپوزیشن کے ساتھ ہوگیا۔ اب یہ رجحان اتنا زیادہ بڑھ گیا ہے کہ ’پالتو‘ بننے کی دوڑ سی لگ گئی ہے اور ساتھ ہی میڈیا نے ایک خالص کاروبار کی شکل اختیار کرلی ہے۔ مسٹر کلہنس کے بقول یہیں سے میڈیا نے اعتبار کھونا شروع کیا۔
انڈین فیڈریشن آف ورکنگ جرنلسٹس (آئی ایف ڈبلیو جے) کے آل انڈیا سکریٹری اور کنفیڈریشن آف ایشین جرنلسٹس یونین سے وابستہ مسٹر کلہنس مانتے ہیں کہ نیو میڈیا؍ انٹرنیٹ میڈیا کے ابھار نے مین اسٹریم میڈیا کو بہت بڑا چیلنج پیش کیا ہے اور مین اسٹریم میڈیا نے جو اعتبار حالیہ برسوں میں کھویا ہے اسے نیو میڈیا نے حاصل کیا ہے۔ان کے بقول اعتبار اور ساکھ کا مسئلہ ہی مین اسٹریم میڈیا کو ختم کرے گا۔
عوامی مسائل و مشکلات سے دوری اور سرمایہ کا عمل دخل
مسٹر کلہنس نے کہاکہ ہماری میڈیا کی سمجھ جمہوریت کے سلسلہ میں ادھ کچی یا آدھی ادھوری ہے۔ اس نے ایک پارٹی کو ہی سرکار مان لیا ہے اور عام لوگوں کے مسائل و مصائب سے منھ موڑ لیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ابھی ایسا کوئی مستند ڈاٹا موجود نہیں ہے جس سے یہ پتہ چل سکے کہ کتنے فیصد لوگ مین اسٹریم میڈیا کو دیکھتے یا پڑھتے ہیں اور کتنے لوگ متبادل میڈیا سے معلومات حاصل کرتے ہیں؟ تاہم اتنا تو واضح ہے کہ اصل لڑائی ساکھ اور رسائی کی ہے۔ ساکھ یا برانڈ بنانے میں وقت لگتا ہے اور جس تیزی کے ساتھ میڈیا کی ساکھ گری ہے اگر اس میں سدھار نہیں آیا تو مین اسٹریم میڈیا کا بڑا نقصان ہوگا۔ انہوں نے اپنے خیال کو مزید واضح کرتے ہوئے کہاکہ سرمایہ کسی کانہیں ہوتا ، جس کی زیادہ سے زیادہ رسائی ہوگی اسی کو اشتہارات ملیں گے، لیکن جب ساکھ نہیں رہ جائے گی تو عوام تک رسائی بھی کم ہوجائے گی ۔سرمایہ ہر حال میں کامیابی نہیں دلاتا۔ انہوں نے اخبار آبزرور کی مثال پیش کی جسے امبانی کنبہ نے اسپانسر کیا تھامگر وہ ناکام ہوگیا۔
سوشل میڈیا کا ذکر کرتے ہوئے سدھارتھ کلہنس نے کہا کہ یہ پورے عالم کو وسیع ایک جال (ورلڈ وائڈ ویب) ہے جس کو کسی ایک ملک کے قانون سے باندھا نہیں جاسکتا ، چنانچہ اسے ’پالتو‘ بھی بنانا بہت مشکل ہے ۔اس کا ریونیو ماڈل بھی ایسا ہے جس سے وجود کا بحران نہیں پیدا ہوتا۔ ویور اور سبسکرپشن کے بھروسے پر یہ اپنا وجود آسانی سے برقرار رکھ سکتے ہیں اور اپنی رسائی لگاتار بڑھا سکتے ہیں، چنانچہ ساکھ اور رسائی کے معاملہ میں پرنٹ یا ٹی وی میڈیا کا اس کے سامنے ٹک پانا آسان نہیں ہوگا۔
سرمایہ کے عمل دخل کے حوالہ سے مسٹر کلہنس نے لکھنؤ سے شائع ہونے والے ہندی کے فور پی ایم (شام نامہ اور یوٹیوب چینل) کی مثال پیش کی۔ انہوں نے کہاکہ فور پی ایم نے حکومت کا حمایتی بننے کے بجائے لگاتار عوامی مسائل پر حکومت کو گھیرا، چنانچہ اس کی مقبولیت بڑھتی چلی گئی۔ پھر فور پی ایم کے مالک سنجے شرما نے میوزک کمپنی بنانے کی ٹھانی ، جس کے لیے انہیں ممبئی میں کسی ٹھکانے کی تلاش تھی۔ اس تگ و دو میں ملک کے ایک مشہور کاروباری گھرانے کا ساتھ مل گیا اور اب وہ دو کشتیوں میں سوار ہیں ۔مسٹر کلہنس کے بقول حالات حاضرہ پر مبنی ان کا نیوزاور ویوز چینل اگر حکومت کا حمایتی بن گیا تو ان کے سبسکرائبراور ویورز یقیناً کم ہوجائیں گے۔
مابعد صداقت کے دور سے میڈیا بھی متاثر
بی بی سی سے وابستہ رہے سینئر صحافی قربان علی جو تین زبانوں میں تیس برس سے زائد عرصہ تک مین اسٹریم میڈیا میں صحافتی خدمات انجام دے چکے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ یہ پوسٹ ٹروتھ یعنی مابعد صداقت کا دور ہے جس میں غیرمصدقہ معلومات کی بھرمار ہے اور افواہوں اور جھوٹی باتوں کو پھیلانے کا چلن ہے چنانچہ اخبارات ، ٹی وی اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز بھی اس سے اچھوتے نہیں ہیں۔ انہوں نے کہاکہ سوشل میڈیا نے ہر کسی کو یہ حق دے دیا ہے کہ وہ جس طرح چاہے اپنے خیالات اور آراء کو پیش کرے۔ چیک اور بیلینس تو ہے ہی نہیں اور جو چاہے جو کہے، نئی ٹکنالوجی کے ساتھ یہ خرابی جڑی ہوئی ہے مگر فرضی خبریں تو اخباروں میں پہلے سے چھپتی رہی ہیں۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے بتایا کہ 10 دسمبر 1990ء کو تین معروف ہندی اخباروں نے یہ خبر شائع کی کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے جے این میڈیکل کالج میں 100 لوگوں کو مارڈالا گیا۔ اس خبر نے اشتعال پیدا کیا اور فساد بھڑک اٹھا۔ اس خبر پر ضلع انتظامیہ نے یونیورسٹی بند کرادی۔ اس خبر کی تصدیق کے لیے بی بی سی نے انٹرویو کیے، پریس کونسل کی رپورٹ آئی کہ خبر اشتعال انگیز تھی ۔ پریس کونسل نے ان اخباروں کو سینسر کیا اور ان کی ملامت کی۔ اس زمانہ میں یہاں انٹرنیٹ نہیں تھا ، تب بھی چند اخباروں نے شرارت کرتے ہوئے ایک جھوٹی خبر شائع کی اور امن و امان کو درہم برہم کردیا۔ انٹرنیٹ کے زمانہ میں اب بھی دھڑلّے سے فرضی خبریں آتی ہیں۔
ایک جمہوری سیٹ اپ میں آزاد میڈیا کا ہونا ضروری ہے مگر قربان علی کے بقول بھارت میں آزاد میڈیا نہیں کے برابر ہے اور کارپوریٹ میڈیا نے حالات مزید خراب کیے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ مغرب میں سو خرابیاں ہیں مگر آزاد میڈیا اینٹی اسٹیبلشمنٹ رخ اپناتا ہے جس سے حکومتیں اور رہنما اپنی من مانی نہیں کرپاتے ۔ بھارت میں صورت حال بہت مختلف ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مسلمانوں میں شعور کی کمی ہے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے سنجیدگی سے کبھی میڈیا کی ضرورت محسوس نہیں کی اور نہ ہی زیادہ صحافی پیدا کیے ۔
کچھ بھی شائع کرنے اور دکھانے کی چھوٹ !
دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں 17برس تک انگریزی میں ملّی گزٹ کامیابی کے ساتھ نکالتے رہے اور ایک خلا کو پُر کرنے کی کوشش کی۔ اپنے صحافتی تجربات کے حوالے سے انہوں نے کہاکہ انگریزی اخباروں کا حال ابھی ایک حدتک ٹھیک ہے، لیکن ہندی اخباروں میں نفرتی خبریں دھڑلے سے چھپ رہی ہیں ، ٹی وی چینلوں میں بھی یہ رجحان غالب نظر آتا ہے۔ موجودہ مرکزی حکومت میں اس روش کو بڑھاوا ملا ہے ۔انہیں پوری آزادی ملی ہوئی ہے۔ انہیں حکومت سے اشتہارات بھی خوب مل رہے ہیں ، چنانچہ جو مواد پہلے آر ایس ایس کے آرگن میں ہی نظر آتا تھا وہ اب سارے میڈیا میں نظر آنے لگا ہے۔ جہاں تک ٹی وی چینلوں کی بات ہے تو سب کے مالک بڑے بزنس مین ہیں، ان کے بجلی کے قرضے معاف ہوگئے ، دیگر مالی فائدے بھی ملتے رہتے ہیں۔انہیں کچھ بھی لکھنے اور دکھانے کی چھوٹ اگر ختم ہوجائے تو وہ فوراً راہ راست پر آجائیں گے۔
حکومت سے ٹکرانے کا انجام
ڈاکٹر ظفرالاسلام خاں نے ملّی گزٹ کی مثال دیتے ہوئے کہاکہ کسی رپورٹ کے معاملے میں ہمارے ایک رپورٹر کو گرفتار کرلیا گیا۔ پریس کونسل بھی چونکہ حکومت کا ادارہ ہے اس لیے وہاں بھی بیشتر معاملات میں سرکاری لائن اپنائی جاتی ہے۔ پولیس سے بھی ایک نوٹس اخبار کے ڈیکلیئریشن کو ختم کرنے کے سلسلہ میں آئی ۔ اس طرح سے ہراساں کیے جانے پر اخبار کو بند کرنے کا فیصلہ کرنا پڑا۔ کیرالا کے میڈیا ادارے ’میڈیا ون‘ سے متعلق سوال پر انہوں نے کہاکہ وہ ایک بڑا ادارہ تھا اس لیے ان کے لیے عدالتی چارہ جوئی آسان تھی۔ جب وزارت اطلاعات و نشریات کی جانب سے میڈیا ون نیوز چینل کو قومی سلامتی کا بہانہ بناکر بند کرنے کا فرمان جاری کیا گیا تو انہوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جس نے پابندی کو ختم کرتے ہوئے کہاکہ قومی سلامتی کا دعویٰ کرکے حقوق نہیں چھینے جاسکتے۔
فرضی خبروں کی نشرو اشاعت
ڈاکٹر ظفرالاسلام خاں نے کہاکہ انٹرنیٹ میڈیا پہلے امریکہ میں سامنے آیا، جہاں میڈیا حکومت کا غلام نہیں ہے ، چنانچہ وہاں سوشل میڈیا پر فرضی خبریں اتنی عام نہیں ہیں جتنی بھارت میں ہوتی ہے۔ اپنی ہی ایک مثال دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ابھی حال ہی میں زی نیوز نے یہ فرضی خبر چلائی کہ وقف بورڈ دہلی کے مندروں پر دعوے کررہا ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ 2019 میں ویسٹ دہلی کے رکن اسمبلی پرویش ورما نے دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر کو یہ شکایت ارسال کی کہ ان کے حلقہ میں پچھلے چند برسوں میں 54 غیر قانونی مساجد بن گئی ہیں۔ اس پر ڈاکٹر ظفرالاسلام خاں نے دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین کی حیثیت سے معاملہ کی جانچ کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی۔ کمیٹی نے ہر مسجد کو جاکر دیکھا اور انہیں قانونی پایا، ساتھ ہی اپنی رپورٹ میں مسجد کی زمین پر کچھ مندروں کے ہونے کا بھی ذکر کردیا، کچھ مندر پارک میں تو کچھ فٹ پاتھ پر تھے، لیکن اس سلسلہ میں کوئی مطالبہ نہیں کیا۔ کمیٹی کی اس رپورٹ کا بہانہ بناکر زی نیوز نے یہ خبر چلانی شروع کردی کہ مندروں کی زمین پر قبضہ کیا جارہا ہے۔ اس فرضی اور گمراہ کن خبر کو کئی دیگر چینلوں نے بھی چلانا شروع کردیا۔ ڈاکٹر ظفرالاسلام خاں نے اس سلسلہ میں جب وضاحتی مضمون شائع کیا تب جاکر چینل والے خاموش ہوئے۔
ملّی گزٹ کے بانی نے کئی دیگر فرضی خبر وں کا بھی ذکر کیا جس میں مجرم کا نام مسلمان بتاکر اے این آئی اور دیگر کئی میڈیا اداروں کے ٹویٹر سے سیکڑوں ٹویٹ کیے گئے مگر اصلی قاتل جو ہندو تھا اس کا نام ایک بار بھی ٹویٹ نہیں کیا گیا۔
یوٹیوب چینلز اور نیوز پورٹلز
یوٹیوب اور ویب پورٹل نے کسی کو بھی اب اپنا مواد تخلیق کرنے اور ناظرین کے سامنے پیش کرنے کی آزادی فراہم کی ہے ۔ڈاکٹر ظفرالاسلام خاں اسے ایک بہتر موقع قرار دیتے ہیں ۔ انہوں نے کچھ پورٹلوں اور یوٹیوب چینلوں کی مثالیں بھی پیش کیں جن پر حالات حاضرہ کا متوازن تجزیہ پیش کیا جارہا ہے اور فرضی خبروں کی کاٹ کی جارہی ہے ۔
جہاں تک ملّی گزٹ جیسے اخبار کی ضرورت کا سوال ہے تو انہوں نے کہاکہ ایسے اخبارات کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے مگر پیشہ ور صحافیوں اور مالی وسائل کے ساتھ ہی اخبارات نکالے جاسکتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ آج کے میڈیا کی ضروریات مختلف ہیں۔ میڈیا کی سمجھ ہونی چاہیے ورنہ اچھی نیت ہونے کے باوجود کامیابی ملنی مشکل ہوگی ۔انہوں نے نیشن اینڈ دی ورلڈ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس کا نوّے فیصد مواد ای میل اور کٹ پیسٹ پر مبنی ہوتا تھا،چنانچہ وہ کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوا۔
میڈیا میں نیوز کو وائرل کرنے کی مقابلہ آرائی
نیو میڈیا اور سوشل میڈیا کی افادیت و اثر پر ڈاکٹر عمیر انس متعدد مقالے شائع کرچکے ہیں ۔ وہ ڈجیٹل میڈیا کی ٹریننگ کے لیے ورکشاپ منعقد کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے ایک خاص بات چیت میں کہاکہ سوشل میڈیا کے موجودہ دور میں میڈیا اور ناظرین؍قارئین کے درمیان کی دوری ختم ہوگئی ہے۔ اب ناظرین کیا چاہتے ہیں اور کسی مواد کے وائرل ہونے کے کتنے امکانات ہیں اسی اعتبار سے مواد پیش کیا جاتا ہے جس میں صداقت اور توازن کا خیال رکھنے سے زیادہ توجہ وائرل ہونے کی صلاحیت پر دی جاتی ہے ۔میڈیا پر اس طرح کا دباؤ خطرناک ہے، چنانچہ یہی وجہ ہے کہ بھارت فرضی خبروں کے معاملہ میں دنیا میں پہلے نمبر پر ہے ۔اس سلسلہ میں سپریم کورٹ آف انڈیا نے بھی کوئی مؤثر قدم نہیں اٹھایا ہے اس کی وجہ سے نفرت اور تشدد کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ دوسری طرف کئی دیگر ملکوں میں فرضی خبر وائرل کرنے پر سزا کا قانون تجویز کیا گیا ہے تاکہ فرض خبر وائرل کرنے کی کوئی ہمت نہ کرے۔
ڈاکٹر عمیر انس نے کہاکہ مین اسٹریم میڈیا ہو یا سوشل میڈیا ان کو سماج کے تئیں ذمہ دار اور جواب دہ ہونا چاہیے ۔ انہوں نے کہاکہ سوشل میڈیا پاپولسٹ مواد پیش کرنے کے نقصانات اقلیتی طبقات کو ہوتے ہیں جنہیں حملوں کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔پاکستان جیسے ملک میں عیسائی اور دیگر اقلیتوں کو اس کی وجہ سے مسائل کو سامنا کرنا پڑتا ہے تو دوسری طرف جرمنی جیسے ملک میں ترک اور عرب مسلمانوں کو پاپولسٹ مواد ڈال کر نشانہ بنایا جاتا ہے ۔
سوشل میڈیا کے مثبت امکانات سے فائدہ اٹھانے پر زور
جسٹ میڈیا فاؤنڈیشن نامی ایک تنظیم سے وابستہ ڈاکٹر عمیر انس کا ماننا ہے کہ سوشل میڈیا نے عمدہ موقع فراہم کیا ہے ، حالانکہ بھارت میں مسلمانوں نے اس موقع کو بڑی حد تک مِس کردیا ہے ۔ خبر اور حالات حاضرہ پر مبنی ایک ہزار سوشل میڈیا اکاؤنٹس میں سے بمشکل تمام دس بیس مسلمان ہی ہوں گے جن کے اکاؤنٹ پر زیادہ فالوورز ہوں اور ان کا کانٹینٹ دلچسپ اور متوازن ہو۔ آج جب سوشل میڈیا کے ڈبیٹس ہماری جمہوریت کو متاثر کررہے ہیں تو سوشل میڈیا کے تعلق سے یہ غیر حساسیت یا اس کا غلط استعمال خطرناک ہے ۔ امیزون پرائم اور نیٹ فلکس کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر انس نے کہاکہ مسلم مخالف ڈرامے اور فلمیں کثیر تعداد میں بازار میں آچکی ہیں، ان کی کاٹ کے لیے ضروری ہے کہ مثبت ڈرامے اور دستاویزی فلمیں زیادہ سے زیادہ تعداد میں تیار کی جائیں۔ انہوں نے کہاکہ صرف یہی کافی نہیں کہ ہم اپنے حقوق کے تحفظ کی بات کریں بلکہ ملک و قوم کو متاثر کرنے والے دیگر امور میں بھی اپنی حصہ داری دکھائیں تاکہ جس طرح دھرو راٹھی کا یوٹیوب چینل عوام میں مقبول ہے اسی طرح ہمارا چینل بھی اپنے مواد کے دم پر ہر طبقہ میں قبولیت حاصل کرے، اس سے برادران وطن میں مسلم ایشوز کو سمجھنے اور دلائل کو قبول کرنے کے لیے آمادگی ہوگی۔ انہوں نے مدارس میں بھی سوشل میڈیا کے استعمال اور مثبت کانٹینٹ تیار کرنے کی ٹریننگ دیے جانے پر زور دیا تاکہ دینی تعلیم حاصل کرنے والے طلباء اور علمائے دین بھی سوشل میڈیا کا مثبت استعمال کرسکیں۔
ڈاکٹر عمیر انس نے بتایا کہ جسٹ میڈیا فاؤنڈیشن کی جانب سے نہ صرف ویڈیو پروڈکشن، کیمرہ ، اسکرپٹ رائٹنگ اور موضوع کے انتخاب وغیرہ کی ٹریننگ دی جاتی ہے بلکہ فاؤنڈیشن نے اردو صحافت میں پہلے ’جسٹ میڈیا ایوارڈ‘ کا بھی اعلانیہ جاری کیا ہے۔ یہ ایوارڈ تحقیقاتی صحافت، آرٹی آئی ، قانونی آگہی، طنزو مزاح، سائنس و ٹکنالوجی، صنفی مسائل، انسانی حقوق، فائنانس و ڈیولپمنٹ، سفارتی ؍اسٹراٹیجی امور کی رپورٹنگ، اردو پوڈ کاسٹ، انسداد دہشت گردی، اردو ڈاکیومنٹری فلم، پرسنل لاء (وقف) اور ماحولیاتی مسائل کے زمرہ جات میں دیے جائیں گے ۔
صحافت تجارت نہیں ،ایمانداری کا نام
راجیہ سبھا کے سابق رکن مسٹر محمد ادیب نے میڈیا ادارہ قائم کرنے کے ہدف کے ساتھ چند سال پہلے ایک مہم چلائی تھی جو اگست 2020 میں ایک یوٹیوب چینل کے قیام پر منتج ہوئی۔ فی الوقت اس یوٹیوب چینل کے تین ہزار سات سو کے قریب سبسکرائبرس ہیں۔ ایک خاص بات چیت میں انہوں نے کہا کہ صحافت ایمانداری کا نام ہے جو آج کی میڈیا میں بہت کم ہے۔ جب میڈیا تجارت بن جائے تووہ زمین پر ایک بوجھ ہے۔ انہوں نے کہاکہ گاندھی جی نے ہریجن نام کا اخبار نکالاتھا، مولانا آزاد نے الہلال اور البلاغ جاری کیا، مولانا محمد علی جوہر نے کامریڈ نکالا، ان کا مقصد ایک مثبت پیغام دینا اور قوم کی رہنمائی کرنا تھا ۔ آج کی صحافت یا تو ڈری ہوئی ہے یا بکی ہوئی ہے۔
تنقید کے بجائے تعمیر پر توانائی صرف کریں
وطن سماچار کے نام سے نیوز پورٹل اور یو ٹیوب چینل چلانے والے نوجوان صحافی محمد احمد نے ان تمام امور پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ مین اسٹریم میڈیا نے اپنی ساکھ کھوئی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے لیکن ہمیں مثبت امکانات پر فوکس کرنا چاہیے ۔انہوں نے کہاکہ یہ شکست خوردہ قوم کی نشانی ہے کہ ہم ہر وقت تنقید کریں اور تعمیری سرگرمیاں نہ شروع کریں۔ انہوں نے کہا کہ نوجوانوں کو اپنے خول سے باہر نکلنا چاہیے اور محدود وسائل کا معقول استعمال کرنے کی وکالت کی۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 06 اکتوبر تا 12 اکتوبر 2024