’’میڈیا جہاد ‘‘کا نیا شوشہ ۔اترپردیش رکن اسمبلی کے دماغ کا فتور
پارلیمنٹ کا سرمائی اجلاس جاری، عوام کے حقیقی مسائل پر مباحث ندارد! راہل گاندھی کا مائک بند ہونے پر او بی سی اور دلتوں کی یاد تازہ
محمد ارشد ادیب
مدھیہ پردیش اور ہماچل پردیش میں مسلم تاجروں کے بائیکاٹ کی دو مثالیں- ایک جگہ خاموشی دوسری جگہ معافی
وارانسی کے تاجر سے امبانی کے نام پر ٹھگے جانے کا واقعہ قابل افسوس ادھورے پل کی مکمل کہانی، گوگل میپ نے دکھایا موت کا راستہ
اِدھر قومی دارالحکومت دلی میں پارلیمنٹ کا سرمایہ اجلاس جاری ہے اُدھر شمالی ہند کی کچھ ریاستوں میں پارلیمانی جمہوریت کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ شمال مشرقی ریاست منی پور کا معاملہ ہو یا اتر پردیش کے شہر سنبھل کا، پہلے ہفتے میں دونوں ایوانوں میں کسی بھی موضوع پر سنجیدہ بحث نہیں ہو سکی۔ مذہبی مقامات کے تحفظ سے متعلق 1991 میں اسی پارلیمنٹ سے منظور شدہ قانون کو نظر انداز کر کے زیریں عدالتوں میں متنازعہ معاملوں کو قابل سماعت ماننے پر قانونی ماہرین کی جانب سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں لیکن اس کے باوجود جمہوریت کے سب سے بڑے ایوان میں اقتدار کی اونچی مسندوں پر بیٹھے ہوئے ارباب حل و عقد خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
راہل گاندھی کا مائک پھر بند
اپوزیشن جماعتیں حکومت پر ان کی آواز دبانے کا الزام لگاتی رہی ہیں۔ اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے پارلیمنٹ کے اندر کئی بار مائک بند ہونے کی شکایت کی لیکن اس بار کانگریس کے اپنے پروگرام میں ہی ان کا مائک بند ہو گیا۔ دراصل کانگریس پارٹی نے یوم دستور کے موقع پر دلی کے تال کٹورا اسٹیڈیم میں دستور کے تحفظ کے لیے ایک پروگرام منعقد کیا تھا۔ راہل گاندھی جب اپنی تقریر میں او بی سی اور دیگر ذاتوں کے اعداد و شمار کا ذکر کر رہے تھے کہ اچانک ان کے مائک سے آواز آنی بند ہو گئی جس سے پارٹی کارکنوں میں بے چینی پھیل گئی اور وہ راہل گاندھی زندہ باد کے نعرے لگانے لگے۔ پانچ چھ منٹ کے بعد مائک آن ہو گیا لیکن راہل گاندھی نے اس واقعے کو پارلیمنٹ میں مائک بند ہونے سے جوڑ دیا جس سے ان کی حاضر جوابی کے سب قائل ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ اسی طرح سے ملک میں پسماندہ طبقات اقلیتوں اور دلتوں کے حقوق کی جب بھی آواز اٹھائی جاتی ہے تو مائک بند ہو جاتا ہے۔
میڈیا جہاد کا الزام
اتر پردیش میں برسر اقتدار جماعت کے ایک رکن اسمبلی نے جو پہلے صحافی ہوا کرتے تھے لیکن اب سرکار کی چاپلوسی میں میڈیا کا گلا گھوٹنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے پچھلے دور حکومت میں یہ ان کے میڈیا کے مشیر بھی رہ چکے ہیں۔ یو پی کی ضمنی انتخابات کے دوران انہوں نے مسلم صحافیوں کی ایک لسٹ سوشل سائٹ’ ایکس‘ پر شیئر کرتے ہوئے الزام لگایا کہ صحافیوں کی یہ جماعت جھوٹ پھیلا رہی ہے۔ یو پی کانگریس کے نوجوان لیڈر انل یادو نے ڈاکٹر شلبھ منی ترپاٹھی کی ایکس پوسٹ کو شیئر کرتے ہوئے تبصرہ کیا "دیکھیں یہ شلبھ منی ہیں، پہلے صحافی تھے اور اب رکن اسمبلی کم دنگائی زیادہ ہیں۔ انہوں نے ایک لسٹ جاری کی ہے جس میں مسلم صحافیوں کے نام لکھے ہیں جسے انہوں نے میڈیا جہاد کا نام دیا ہے۔ اگر ان صحافیوں کی جان و مال کا خطرہ ہوتا ہے تو یہی سازش کردہ ذمہ دار ہوگا” انل یادو نے ہفت روزہ دعوت سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے کئی صحافیوں سے اس موضوع پر اظہار خیال کیا، سبھی نے صحافیوں کو مذہب کی بنیاد پر نشانہ بنانے کی مذمت کی لیکن عملی اقدام کسی نے نہیں کیا۔ انل یادو کے مطابق ایک سابق صحافی اپنی ہی برادری کے صحافیوں کی جان و مال کو خطرے میں کیسے ڈال سکتا ہے؟ اس سے اس کے اندر کے منفی جذبات اور نفرت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ شلبھ منی ترپاٹھی کے ساتھ کام کرنے والے کچھ دیگر صحافیوں نے بھی بتایا ہے کہ بطور صحافی شلبھ منی سے ان کے اچھے تعلقات تھے اور ساتھ اٹھنا بیٹھنا اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شامل ہونا معمول کی بات تھی لیکن سیاست میں آنے کے بعد ان کی شخصیت کا رخ بدل چکا ہے اب وہ وہی دیکھتے اور سنتے ہیں جو ان کے سیاسی آقاؤں کو پسند آئے۔ پارٹی ترجمان کی حیثیت سے میڈیا کے مباحث میں ان کی ایک طرفہ دلیلوں کو دیکھا اور سنا جا سکتا ہے۔ انل یادو کے مطابق صحافتی تنظیموں کو ایسے لیڈروں کے خلاف حرکت میں آنا چاہیے جو صحافیوں میں بھی ہندو مسلم کی بنیاد پر تفریق کرتے ہیں۔ آلٹ نیوز کے صحافی محمد زبیر کا معاملہ آپ کے سامنے ہے۔ شاتم رسول یتی نرسمہانند کا ویڈیو شیئر کرنے کے معاملے میں ان کے خلاف جو مقدمہ دائر کیا گیا تھا اس میں بی این ایس 152 دفعہ کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ یو پی پولیس نے الٰہ آباد ہائی کورٹ میں باقاعدہ اس کی جانکاری دی ہے۔ پریس کلب آف انڈیا نے اس کی مذمت کرتے ہوئے ایف آئی آر واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
مدھیہ پردیش کے سودیسی میلہ سے مسلم تاجروں کو نکالا گیا
مذہبی منافرت اور اسلاموفوبیا مسلم تاجروں کے معاشی بائیکاٹ تک پہنچ چکا ہے۔ چنانچہ ایم پی کے ضلع داموہ میں سودیشی میلے سے مسلم تاجروں کو باہر نکال دیا گیا ہے۔ میلہ میں شامل تاجروں کے مطابق پہلے انہیں میلے میں اپنا سامان بیچنے کے اسٹال دیے گئے اور اس کے لیے پیسے بھی جمع کرائے گئے۔ دو دن گزرنے کے بعد انہیں میلے سے اپنے اسٹال ہٹانے کا حکم دے دیا گیا۔ خبر کے سوشل میڈیا میں وائرل ہونے کے بعد میلہ کی انتظامیہ نے صفائی دیتے ہوئے کہا ہے کہ مقامی تاجروں کو بڑھاوا دینے کے لیے یہ میلہ لگایا گیا تھا اور اسی لیے باہری تاجروں کو اس میں شرکت سے روک دیا گیا ہے۔ یہ مذہبی تفریق کا معاملہ نہیں ہے لیکن ان کے پاس تاجروں کے اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا کہ پہلے ان سے پیسے لے کر اسٹالس کیوں الاٹ کیے گئے؟ ہماچل پردیش میں کشمیری تاجروں سے مقامی خاتون نے معافی مانگی!
مدھیہ پردیش کی طرح ہی ہماچل پردیش میں کشمیری تاجروں سے ایک مقامی خاتون نے بدسلوکی کی۔ معاملہ جب تھانے پہنچا تو خاتون کو کشمیری تاجروں سے معافی مانگنی پڑی۔ اطلاعات کے مطابق ضلع کانگڑا میں دو کشمیری تاجر گرم کپڑے بیچنے آئے تھے، اس دوران ایک مقامی خاتون نے خود کو پنچایت کی رکن بتاتے ہوئے کشمیری تاجروں کو اپنا مال ہماچل پردیش میں فروخت کرنے سے روکا۔ تاجروں نے کہا کہ ہم بھی ہندوستانی شہری ہیں ہمیں بھی حق حاصل ہے کہ ہم اپنے ملک میں جہاں چاہیں اپنا مال بیچیں۔ اس پر جب خاتون نے ان سے جے شری رام کا نعرہ لگانے کا مطالبہ کر دیا تو تاجروں نے کہا کہ کیا وہ کلمہ پڑھ سکتی ہیں؟ بس اسی پر بات بگڑ گئی اور تاجروں نے مقامی پولیس میں اس کے شکایت کر دی۔ کانگڑا کی ایس پی کے مطابق خاتون سشما کے خلاف مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا معاملہ درج کیا گیا۔ سشما بی ڈی سی ممبر ہے اس کے باوجود اس نے مذہبی منافرت پھیلانے کی کوشش کی حالانکہ اس نے اپنے رویے پر ندامت کا اظہار کرتے ہوئے معافی مانگ لی ہے۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ دفعہ 370 ہٹنے کے بعد بھی ایک طبقہ کشمیر کے باشندوں کو ہندوستانی شہری تسلیم کیوں نہیں کرتا؟ کیا انہیں صرف کشمیر کی زمین چاہیے کشمیری نہیں؟ امتیازی سلوک اور بد سلوکی کے یہ معاملات صرف مسلمانوں یا کشمیریوں تک محدود نہیں ہیں دلتوں اور دیگر کمزور طبقات کے ساتھ بھی اسی طرح کا سلوک ہو رہا ہے۔ مدھیہ پردیش کے شہر اندور میں نارد چمار نام کے ایک دلت کو صرف اس لیے پیٹا گیا کیونکہ اس نے سرپنچ کے بور ویل سے پانی بھر لیا تھا۔ اجیت یادو نام کے ایک صارف نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا "اور یہیں پر ایک ڈھونگی ہندوؤں کو جوڑنے نکلا ہے، اس کے جیسے لوگوں کو شرم نہیں آتی ہے؟ یہ بہت ہی قابل مذمت اور دردناک واقعہ ہے۔ سبھی مجرموں کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے۔ واضح رہے کہ مدھیہ پردیش کے متنازعہ بابا دھریندر شاستری نے پچھلے دنوں ہندوؤں کو جوڑنے کے لیے مذہبی یاترا نکالی تھی جسے سوشل میڈیا کے ساتھ مین اسٹریم میڈیا میں بھی بھرپور کوریج ملا۔ اسی سے حوصلہ پاکر باگیشور دھام کے اس بابا نے آئندہ سال برنداون سے دلی کی پد یاترا کا اعلان کر دیا ہے۔
امبانی کے نام پر بنارس کے تاجر سے ٹھگی
امبانی کے نام پر سائبر ٹھگ بھی سرگرم ہو گئے ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی پارلیمانی حلقے وارانسی میں ایک تاجر کے ساتھ دھوکہ دہی اور سائبر ٹھگی کا واقعہ پیش آیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق سرویش نامی تاجر کے پاس ایک فون کال آئی۔ کال کرنے والی لڑکی موہتا نے بتایا ہے کہ وہ ریلائنس انڈسٹریز کے مالک مکیش امبانی کے دفتر سے بول رہی ہے۔ امبانی جی بنارس میں کچھ بڑا منصوبہ بنا رہے ہیں، انہیں کچھ اچھے لوگ چاہئیں آپ اس نمبر پر ان سے بات کر لیجیے۔سرویش کے مطابق چار مرتبہ فون کرنے کے بعد اس نمبر پر ایک شخص سے بات ہوئی اس نے خود کو امبانی ظاہر کرتے ہوئے بتایا کہ ’’میں پانچ سو کروڑ کا ہسپتال بنانے کی سوچ رہا ہوں، نریندر مودی سے بات ہو گئی ہے، یوگی سے بات کر کے زمین کا انتظام کرنا ہے۔‘‘ سرویش اس کے جھانسے میں آگئے اور سیکیورٹی کے نام پر ساڑھے چار لاکھ روپے ٹرانسفر کر دیے۔ بعد میں جب اسے بتایا گیا ہے کہ اس کے پیسے غلطی سے دہشت گردوں کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر ہو گئے ہیں اس لیے یہ ڈیل کینسل کی جاتی ہے۔ سرویش جب تک کہ کچھ سمجھ پاتے دوسری طرف سے فون کال کاٹ دی گئی۔ اب سرویش پولیس کی مدد سے ٹھگوں کو تلاش کر رہے ہیں۔ سائبر ٹھگی اور ڈیجیٹل اریسٹ کے معاملے ہر روز پیش آ رہے ہیں لیکن سائبر پولیس انہیں روکنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔ اب تو عام لوگ آن لائن خریدنے سے بچنے کا مشورہ دینے لگے ہیں۔
ادھورے پل کی مکمل کہانی، گوگل میپ نے دکھایا موت کا راستہ
اتر پردیش کے بریلی اور بدایوں اضلاع کی سرحد پر واقع رام گنگا اوور برج پر ایک حادثے میں تین نوجوانوں کی جان چلی گئی یہ معاملہ لاپرواہی اور بد عنوانی کی بد ترین مثال ہے۔اطلاعات کے مطابق تینوں نوجوان ایک شادی سے لوٹ رہے تھے رات میں انہوں نے راستے کی تلاش میں گوگل میپ کے جی پی ایس کا استعمال کیا۔ گوگل کی رہنمائی میں وہ ادھورے پل پر چڑھ گئے نتیجتاً تینوں نوجوان کار سمیت پل سے نیچے 50 فٹ گہرائی میں جا گرے۔ ان کی موقع پر ہی جان چلی گئی ۔ اب اس معاملے میں پولیس نے معاملہ درج کر لیا ہے گوگل کے ریجنل مینیجر سمیت پی ڈبلیو ڈی کے 4 افسران کے خلاف مقدمہ درج ہوا ہے۔مقامی لوگوں کے مطابق پُل تقریباً پورا بن چکا تھا لیکن بریلی سائیڈ کا کچھ حصہ پچھلے سال کی بارش میں بہہ گیا تھا گوگل نے اس کو اپڈیٹ نہیں کیا اور یہ حادثہ پیش آ گیا ۔ اس میں بدایوں کے محکمہ پی ڈبلیو ڈی کی لاپرواہی سامنے آئی ہے کہ جب پل بہنے کی اطلاع ان کے پاس آگئی تو انہیں بدایوں کی طرف سے پل کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنی چاہیے تھیں لیکن انہوں نے صرف نوٹس بورڈ لگا کر اپنی ذمہ داری سے پلہ جھاڑ لیا ۔حادثہ پیش آنے کے بعد اب اس راستے پر نوٹس بورڈ کے ساتھ ساتھ بیریکیٹنگ بھی کر دی گئی ہے لیکن جس گھر کے تین بچے نوجوانی میں حادثے کے شکار ہو گئے ان کے درد کا مداوا کون کرے گا۔۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر پہلے ہی نوٹس لیتے تو حادثے کو روکا جا سکتا تھا۔
تو صاحبو! یہ تھا شمال کا حال، آئندہ ہفتے پھر ملیں گے کچھ تازہ اور دل چسپ احوال کے ساتھ۔ تب تک کے لیے اللہ اللہ خیر سلا۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 08 دسمبر تا 14 دسمبر 2024