مذہب کی تبلیغ جرم نہیں ہے :کرناٹک ہائی کورٹ

سیاسی جنگیں عوامی میدان میں لڑیں، ایجنسیاں ہتھیار نہ بنیں۔ ای ڈی کو سپریم کورٹ کی پھٹکار

0

ابو منیب

آندھرا پردیش وقف بورڈ: P-4 منصوبہ اور غریبوں کی امید
تلنگانہ: طلبہ کا بند، تعلیم کے حق کی پکار ذات پات کے سروے پر سیاسی ہلچل: شفافیت کا مطالبہ یا محض سیاسی ہنگامہ؟
پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس کی گونج پورے ملک کی سیاست کو جھنجھوڑ رہی رہی ہے—کہیں بہار میں الیکشن کمیشن کا متنازعہ ایس آئی آر، کہیں پہلگام جیسے اندوہناک واقعے کے ذمہ دار اب تک قانون کی گرفت سے باہر، کہیں آپریشن سندور کے دوران لڑاکا طیاروں کے گرائے جانے کا ابہام اور کہیں ٹرمپ کی جانب سے ہند-پاک کشیدگی ختم کرنے کے دعوے۔ ان شوریدہ حالات میں کچھ خبریں جنوبی ہند سے بھی ابھریں—اہم اور دور رس نتائج کی حامل—مگر شور و غوغا میں گویا دب کر رہ گئیں۔
پہلی خبر کرناٹک سے ہے، جہاں ہائی کورٹ نے آئینی تشریح کی ایک روشن مثال قائم کرتے ہوئے تین مسلم شہریوں کے خلاف درج ایف آئی آر کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔ کرناٹک ہائی کورٹ نے ایک ایسا فیصلہ سنایا ہے جسے فکری آزادی، مذہبی رواداری اور آئینی حق کے باب میں ایک روشن مثال کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ عدالت نے کہا کہ اگر مکالمہ پُرامن ہو اور اس میں جبر، فریب، لالچ اور دھوکہ نہ ہو تو پھر مذہبی عقائد کا اظہار نہ صرف جائز ہے بلکہ یہ ہر شہری کا آئینی حق ہے جسے روکا نہیں جا سکتا۔
قضیہ یہ ہے کہ ضلع باگل کوٹ کے جام کھنڈی علاقے میں واقع ایک قدیم رام تیرتھ مندر کے احاطے میں تین مسلم شہریوں پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ وہ اسلام سے متعلق پمفلٹ تقسیم رہے تھے، اور دینِ اسلام کی تعلیمات سے متعلق گفتگو کر رہے تھے۔ شکایت کنندہ نے اسے ہندو مذہب کی توہین اور تبدیلیِ مذہب کی کوشش قرار دے کر عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا۔
شکایت میں دعویٰ کیا گیا کہ یہ افراد لوگوں کو اسلام کی طرف مائل کرنے کے لیے نہ صرف تنقید آمیز باتیں کر رہے تھے بلکہ ملازمت اور گاڑی وغیرہ کا لالچ بھی دے رہے تھے۔ اسی بنیاد پر ان کے خلاف بھارتیہ نیایا سنہتا 2023 کی دفعات 299 اور 351(2) نیز کرناٹک مذہبی آزادی قانون 2022 کی دفعہ 5 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
مگر جسٹس کرشنا دیو سنگھ کی سنگل بنچ تمام نکات کو پرکھنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچی کہ مذکورہ واقعہ میں کوئی زبردستی، فریب یا غیر قانونی ترغیب کا پہلو نہیں پایا گیا اور اگر کوئی فرد اپنے مذہب کے بارے میں بات کرتا ہے تو یہ اس کا آئینی حق ہے نہ کہ جرم؟
جسٹس کرشنا دیو سنگھ کی بنچ نے دو نکات پر فیصلہ دیا:
-1 شکایت کنندہ کا قانونی جواز (Locus Standi):
قانون کی دفعہ 4 کے مطابق مذہب کی تبدیلی کی شکایت صرف وہی افراد درج کرا سکتے ہیں جن کا براہِ راست تعلق متاثرہ شخص سے ہو — جیسے والدین، بہن بھائی یا شریک حیات۔ اس مقدمے میں شکایت کنندہ ایک فریق ثالث تھا، اس لیے مقدمہ قانونی لحاظ سے قابلِ سماعت نہیں تھا۔
-2 تبدیلی مذہب کی کوشش کا فقدان:
عدالت نے کہا کہ اگر تمام الزامات کو بظاہر درست مان بھی لیا جائے، تب بھی اس میں تبدیلی مذہب کی وہ شرائط موجود نہیں ہیں جو قانون کے تحت جرم بن سکیں — جیسے جبر، فریب، ترغیب یا دھوکہ۔ اس لیے ایف آئی آر کا اندراج اور چارج شیٹ کی تیاری دونوں بے بنیاد قرار دیے گئے۔
یہ فیصلہ آئین کے آرٹیکل 25 کی روح کے عین مطابق ہے جو ہر شہری کو مذہب اختیار کرنے، اس پر عمل کرنے اور اسے پرامن طریقے سے دوسروں تک پہنچانے کا حق دیتا ہے۔ اس آزادی کو دبانا دراصل اس سائینٹفک مزاج کی راہ میں رکاوٹ ہے جس کی بنیاد مکالمے، غور و فکر اور فکری خود مختاری پر رکھی گئی ہے۔یہ فیصلہ صرف مذہبی آزادی کی توثیق نہیں کرتا بلکہ اس سے عدالت نے یہ اصول اخذ کیا ہے کہ ہر شہری کو اپنے عقائد کے اظہار اور دوسروں سے مکالمے کا حق حاصل ہے — بشرطیکہ یہ مکالمہ کسی جبر، لالچ یا فریب سے پاک ہو۔
یہ وہ نازک مگر ضروری لکیر ہے جو فکری خود مختاری اور سماجی حساسیت کے درمیان توازن قائم رکھتی ہے اور یہی کسی مہذب، آئینی ریاست کی اصل پہچان ہے۔
اس فیصلے کی ستائش محض تین افراد کی رہائی کے طور پر نہیں کی جانی چاہیے بلکہ اسے ایک آزاد فکری فضا اور مذہبی ہم آہنگی کے استحکام کی صورت میں دیکھا جانا چاہیے۔ عدالت نے نہ صرف قانون کی تشریح کی بلکہ اس کے ذریعے معاشرے کو یہ پیغام دیا کہ:
"ہر فرد کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ سنے، سمجھے، سوال کرے، قبول کرے یا انکار کرے — مگر یہ فیصلہ اس کا اپنا ہو، کسی زبردستی یا پروپیگنڈے کا نتیجہ نہ ہو۔”
ایسے فیصلے آئینی اداروں پر عوامی بھروسے کو نئی زندگی دیتے ہیں اور ساتھ ہی ایک ایسے معاشرے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں جو فکری بلوغت، مکالمے کی گنجائش اور مذہبی و فکری تنوع کو اپنی اصل طاقت مانتا ہے۔
سیاسی کھیل یا اداروں کی ساکھ؟ عدالت عظمیٰ نے کی ای ڈی کی سرزنش
کرناٹک سے ایک اور خبر جو سیاسی گرما گرمی کا ایک نیا موڑ لاتی ہے، وہ ہے سپریم کورٹ کی جانب سے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) کی سرزنش۔
یہ قصہ میسورو اربن ڈیولپمنٹ اتھارٹی (MUDA) سے جڑا ہے، جہاں وزیر اعلیٰ سدارامیا کی اہلیہ بی ایم پربھاوتی اور ریاستی وزیر بائرتھی سریش کے خلاف زمین کی الاٹمنٹ میں مبینہ بے ضابطگیوں پر ای ڈی نے سمن جاری کیے تھے۔ الزامات کے مطابق، پربھاوتی کو ایک قیمتی زمین دی گئی، جس کے بدلے سابقہ زمین کی واپسی میں کروڑوں کی مالی بے ضابطگی ہوئی۔
جب پربھاوتی نے کرناٹک ہائی کورٹ سے رجوع کیا تو عدالت نے ای ڈی کے سمنوں پر روک لگائی۔ ای ڈی نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا، مگر چیف جسٹس بی آر گوائی نے ای ڈی کے وکیل ایڈیشنل سالیسیٹر جنرل ایس وی راجو کو ایسی سرزنش کی جو شاید برسوں ملک کی فضاؤں میں گونجتی رہے گی۔ انہوں نے کہا "سیاسی معرکے عوام کے میدان میں لڑے جاتے ہیں، ایجنسیوں کو ہتھیار بنا کر کیوں؟ راجو صاحب، ہمیں ایسی باتیں کہنے پر مجبور نہ کریں جو ہم کہنا نہیں چاہتے۔” چیف جسٹس نے مہاراشٹر میں ای ڈی کے کردار کا ذکر کرتے ہوئے خبردار کیا کہ یہ رویہ پورے ملک میں نہیں دہرایا جانا چاہیے۔
عدالت نے ای ڈی کی عرضی مسترد کرتے ہوئے ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا۔ سدارامیا نے اسے "انتقامی سیاست پر طمانچہ” قرار دیا، جبکہ تجزیہ نگار اسے ایجنسیوں کی غیر جانب داری پر ایک بڑا سوالیہ نشان قرار دے رہے ہیں۔ یہ فیصلہ ایک ایسی داستان ہے جہاں عدالت عظمیٰ نے قانون کی حکم رانی کو سربلند کیا اور اداروں کی ساکھ کو سیاسی کھیل سے بچانے کی کوشش کی۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ جمہوریت کی روح اداروں کی غیر جانب داری میں پنہاں ہے، اور اگر یہ روح زخمی ہوئی تو عوام کا بھروسا بھی مجروح ہو جائے گا۔
آندھرا پردیش: وقف بورڈ کا نیا عہد، P-4 کے ساتھ امید کی کرن
اس دوران آندھرا پردیش سے ایک ایسی خبر سامنے آئی ہے جو محروم دلوں میں امید کی جوت جگاتی ہے۔ یہ خبر ہے وقف بورڈ کے اس غیر معمولی فیصلے کی جس نے وزیر اعلیٰ چندرابابو نائیڈو کے P-4 ماڈل (پبلک-پرائیویٹ-پیوپل پارٹنرشپ) کو اپناتے ہوئے مسلم معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے ایک نیا راستہ کھولا ہے۔
دراصل P-4 پروگرام کا آغاز وزیرِ اعلیٰ چندرابابو نائیڈو نے مارچ 2025 میں تلگو نئے سال اگادی کے موقع پر کیا تھا۔ اس اسکیم کا بنیادی مقصد ریاست میں معاشی عدم توازن کو ختم کر کے غربت سے پاک آندھرا پردیش کی بنیاد رکھنا ہے۔P-4 منصوبے کی روح یہ ہے کہ معاشرے کے دس فیصد امیر کبیر لوگ بیس فیصد پسماندہ ترین خاندانوں کی فلاح و ترقی میں رہنمائی کریں۔ ان سرپرستوں کو ’’مارگ درشی‘‘ (رہنما) کہا جاتا ہے اور جن خاندانوں کو یہ سہارا دیا جاتا ہے وہ ’’بنگارو کُٹمبم‘‘ (سنہری خاندان) کہلاتے ہیں۔
یہ منصوبہ صرف مالی امداد تک محدود نہیں—بلکہ تعلیم، پیشہ ورانہ تربیت، سماجی رہنمائی اور خود اعتمادی کی بحالی جیسے عناصر بھی اس کا حصہ ہیں۔ وقف بورڈ نے اس وژن کو اپناتے ہوئے صرف وعدے نہیں کیے، بلکہ عملی اقدامات کا آغاز کر دیا ہے۔
بورڈ نے نہ صرف اپنی جائیدادوں کے تحفظ کا عزم کیا ہے، بلکہ ان سے مستقل آمدنی کے لیے ایک جامع منصوبہ بندی بھی کی ہے۔ اس سلسلے میں ریاست بھر میں پھیلی 1300 سے زائد دکانوں کے کرایوں کی جانچ کے لیے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی جا رہی ہے۔ ساتھ ہی ان متولیوں کے خلاف فوجداری کارروائی کی بھی تیاری کی جا رہی ہے جو وقف املاک کی غیر قانونی فروخت میں ملوث پائے گئے۔
مزید برآں، گنٹور میں وقف اراضی پر مجوزہ آئی ٹی پارک کے خلاف مسلم قائدین نے جو احتجاجی یادداشت پیش کی ہے وہ ایک طرح سے اس نئے عہد کی محرک ثابت ہوئی ہے۔ پیغام واضح ہے کہ وقف کی املاک نہ بکتی ہیں، نہ نیلام ہوتی ہیں؛ یہ ملت کی امانت ہیں اور اسی کی فلاح پر صرف ہوں گی۔ غرض اگر اس اسکیم کو ایمان داری و دیانت داری کے ساتھ نافذ کیا جائے تو یہ ماڈل نہ صرف آندھرا پردیش بلکہ ملک کی دیگر ریاستوں کے لیے بھی ایک مثالی بن سکتا ہے۔
تاہم، سوال یہ ہے کہ کیا وقف بورڈ واقعی اس ویژن کو سیاسی دباؤ سے بالاتر ہو کر نافذ کرے گا؟ اور کیا ملت کا اعتماد اس پر بحال ہو سکے گا؟
یہ ایک نئی کہانی ہے جو ابھی تحریر ہو رہی ہے اور اس کا انجام اس بات پر منحصر ہے کہ نیت کتنی صاف اور ارادہ کتنا پختہ ہے۔
تلنگانہ: طلبہ کی آواز، تعلیم کا حق
اب خبر تلنگانہ سے جہاں 23 جولائی کو طلبہ تنظیموں نے ایک زوردار آواز بلند کی جب اسٹوڈنٹس فیڈریشن آف انڈیا (SFI) آل انڈیا اسٹوڈنٹس فیڈریشن (AISF) اور پروگریسیو ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس یونین (PDSU) کی قیادت میں اسکولوں اور کالجوں کو بند کیا گیا۔ یہ احتجاج تعلیمی شعبے کے حل طلب مسائل کے خلاف منظم کیا گیا تھا۔ طلبہ نے مطالبہ کیا کہ فوری طور پر ایک مستقل وزیر تعلیم کا تقرر کیا جائے، نجی اداروں کی بے لگام فیسوں کو معقول
حد میں رکھنے کے لیے قانون سازی کی جائے اور قومی تعلیمی پالیسی 2020 (NEP) کے خلاف ریاستی اسمبلی قرارداد منظور کرے۔
طلبہ کا ماننا ہے کہ NEP 2020 تعلیم کو کارپوریٹ مفادات کے ہاتھوں بیچتی ہے، مقامی زبانوں اور ریاستی خودمختاری کو کمزور کرتی ہے اور پسماندہ طبقات کے لیے عدم مساوات کو بڑھاتی ہے۔ اس کے علاوہ، اسکالرشپس، فیس ری ایمبرسمنٹ، اور میس چارجز کی ادائیگی میں تاخیر نے غریب طلبہ کے خوابوں کو چکنا چور کیا ہے۔
یہ بند حکومت کے لیے ایک واضح پیغام تھا کہ تعلیم کو نظر انداز کرنے کی قیمت قوم کے مستقبل سے چکانی پڑتی ہے۔ لہٰذا حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ روشن مستقبل کے لیے بلند ہونے والی ان صداوں پر توجہ دے۔
تلنگانہ میں 42 فیصد بی سی ریزرویشن پر بڑھتا ہوا تنازعہ
تلنگانہ میں حالیہ ذات پات کا سروے اور 42 فیصد پسماندہ طبقات (بی سی) کے لیے ریزرویشن کے حکومتی اعلان پر سیاسی منظرنامہ خاصا تبدیل ہو گیا ہے۔ ریاستی حکومت اسے سماجی انصاف کی طرف ایک تاریخی قدم قرار دے رہی ہے، وہیں اپوزیشن، سول سوسائٹی اور یہاں تک کہ بعض سابق حکومتی عہدیداران بھی اس عمل میں شفافیت اور آئینی تقاضوں کی کمی کی جانب اشارہ کر رہے ہیں۔
بی آر ایس کے ایم ایل سی ڈاکٹر سرون داسوجو نے وزیر اعلیٰ ریونت ریڈی کو ایک کھلا خط لکھ کر الزام عائد کیا ہے کہ ریاستی حکومت نے سوشیو اکنامک، ایجوکیشنل، ایمپلائمنٹ، پولیٹیکل اینڈ کاسٹ سروے (SEEPEC) اور بوسانی کمیشن کی رپورٹ کو اسمبلی اور عوام دونوں سے پوشیدہ رکھا۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر سروے میں واقعی کوئی وزن ہے تو اس کی تفصیلات کو سامنے لانے سے گریز کیوں کیا جا رہا ہے؟
اسمبلی میں 42 فیصد ریزرویشن کے بلز منظور ہونے کے باوجود ان کی منظوری کا عمل الجھن کا شکار ہے۔ اطلاعات ہیں کہ صدر جمہوریہ نے بلوں پر کچھ وضاحتیں طلب کرتے ہوئے انہیں واپس لوٹا دیا ہے، مگر اس پر حکومتی وضاحت تاحال سامنے نہیں آئی۔ اس دوران آرڈیننس کا سہارا لے کر 42 فیصد ریزرویشن نافذ کرنے کی کوشش پر بھی اعتراضات اٹھ رہے ہیں کہ کیا یہ طریقہ آئینی اور سیاسی طور پر درست ہے؟
سروے سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار پر کئی محققین، تنظیموں اور سیاسی شخصیات نے بھی سوال اٹھائے ہیں۔ بند مکانات، ڈیٹا کی تفصیلات دینے سے انکار اور معلوماتی تضادات کی تعداد لاکھوں میں بتائی جا رہی ہے۔ ڈاکٹر سرون کا دعویٰ ہے کہ او سی (جنرل کیٹیگری) کو بڑھا چڑھا کر اور بی سی کی آبادی کو گھٹا کر پیش کیا گیا۔ جبکہ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ اعداد و شمار ایک وسیع اور منظم عمل کے تحت جمع کیے گئے۔
بی جے پی اور بی آر ایس دونوں نے سروے کے طریقہ کار پر تنقید کی ہے مگر ان کے تحفظات کی نوعیت مختلف ہے۔ بی جے پی کا اعتراض خاص طور پر مسلم بی سی کی شمولیت پر مرکوز ہے، جبکہ بی آر ایس کا فوکس ڈیٹا کی شفافیت اور آئینی طریقہ کار پر ہے۔
دوسری طرف وزیر اعلیٰ ریونت ریڈی نے واضح طور پر کہا ہے کہ یہ اقدام ریاست میں سماجی انصاف کے فروغ کے لیے ضروری ہے اور کہا کہ کانگریس مقامی انتخابات میں بی سی طبقات کو 42 فیصد ٹکٹ دے کر اس کو زمینی سطح پر نافذ کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ سروے پر سوالات اٹھا رہے ہیں وہ دراصل پسماندہ طبقات کی ترقی کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
تلنگانہ کا کاسٹ سروے اور بی سی ریزرویشن بلاشبہ ایک اہم اور دور رس اثرات کا حامل قدم ہے۔ ایک طرف یہ اقدام سماجی انصاف کے ایجنڈے کو تقویت دیتا ہے تو دوسری طرف اس کی شفافیت، طریقہ کار اور آئینی راستوں پر اٹھنے والے سوالات بھی کم اہم نہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ بی سی طبقات کو ان کا جائز حصہ دینا طویل عرصے سے زیر بحث مسئلہ رہا ہے اور موجودہ حکومت نے اسے عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی ہے۔ تاہم، جمہوری نظام میں شفافیت اور عوامی اعتماد کسی بھی اصلاحاتی عمل کی بنیاد ہوتا ہے۔
اگر حکومت سروے کے نتائج، رپورٹوں اور بلوں کی مکمل تفصیلات عوام کے سامنے رکھتی ہے تو نہ صرف اعتماد میں اضافہ ہوگا بلکہ تنقید کی گنجائش بھی کم ہو جائے گی۔ دوسری طرف اپوزیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ محض سیاسی فائدے کے لیے نہیں بلکہ اصولی بنیادوں پر سوالات اٹھائے — تاکہ عوامی مفاد ہی فیصلہ کن ہو۔
یہ معاملہ اب صرف سیاسی نہیں بلکہ سماجی توازن، آئینی عمل اور عوامی اعتماد کا بھی امتحان بن چکا ہے۔
سوال یہ نہیں کہ بی سی کو 42 فیصد ریزرویشن ملتا ہے یا نہیں — بلکہ سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب کچھ صاف، شفاف اور آئینی طریقے سے ہو رہا ہے یا نہیں؟
اور یہی وہ نکتہ ہے جس پر تلنگانہ کی سیاست کا اگلا موڑ منحصر ہو سکتا ہے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 03 جولائی تا 09 اگست 2025