مذہبی شخصیات اور کتابوں کے بارے میں اسلام کا موقف 

اسلام نہ صرف ماقبل کے غیر محرف آسمانی ادیان کو تسلیم کرتا ہے بلکہ ان کے احترام کی بھی تعلیم دیتا ہے

محمد جرجیس کریمی
سنیئر رکن ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی علی گڑھ

  حضرت محمد ﷺ آخری رسول کی حیثیت سے مبعوث ہونے سے پہلے دنیا کی قومیں اور آبادیاں مختلف مذہبی خانوں اور گھرانوں میں بٹی ہوئی تھیں،  وہ ایک دوسرے کو نہ تسلیم کرتی تھیں اور نہ ہی وہ ایک دوسرے سے آشنا تھیں۔ بھارت کے رشیوں اور منیوں نے آریہ ورت سے باہر کی دنیا کو اللہ کے پیغام سننے سمجھنے کا کبھی مستحق نہیں سمجھا تھا، ان کے نزدیک پرمیشور صرف آریہ ورت کی ہدایت اور رہنمائی کا خواہاں تھا۔ یہود، بنی اسرائیل کے سوا کہیں اور کسی نبی یا رسول کی بعثت کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ عیسائی صرف اپنے آپ کو اللہ کی فرزندی کا اہل سمجھتے تھے۔ زرتشت نے مجوسیوں کے سوا سب کو یزداں کے جلوہ نورانی سے محروم گردانا تھا۔ یہ صرف حضرت محمد ﷺ کے رسالت کی عالمگیری ہے کہ اس نے دنیا کی تمام انسانیت کی ہدایت اور رہنمائی کا دعوی کیا اور اپنی رسالت و نبوت کو کسی ملک قوم قبیلہ اور زبان کے ساتھ مخصوص نہیں کیا۔ ان کی نگاہ میں عرب و عجم، احمر و اسود، شمال و جنوب، مشرق و مغرب غرض کہ دنیا کے تمام ملکوں و قوموں میں اللہ کا نور دیکھا اور ہر زبان میں اس کی آواز سنی۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے
وَلَـقَدۡ بَعَثۡنَا فِىۡ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوۡلًا اَنِ اعۡبُدُوا اللٰهَ وَاجۡتَنِبُوا الطَّاغُوۡتَ‌ۚ فَمِنۡهُمۡ مَّنۡ هَدَى اللٰهُ وَمِنۡهُمۡ مَّنۡ حَقَّتۡ عَلَيۡهِ الضَّلٰلَةُ‌ ؕ فَسِيۡرُوۡا فِىۡ الۡاَرۡضِ فَانْظُرُوۡا كَيۡفَ كَانَ عَاقِبَةُ الۡمُكَذِّبِيۡنَ‏ (النحل:36) ترجمہ: ہم نے ہر امّت میں ایک رسول بھیج دیا اور اس کے ذریعہ سے سب کو خبر دار کر دیا کہ ”اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو“ اس کے بعد ان میں سے کسی کو اللہ نے ہدایت بخشی اور کسی پر ضلالت مسلّط ہو گئی۔ پھر ذرا زمین میں چل پھر کر دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا ہے۔
   اس طرح کی اور بھی آیات قران مجید میں وارد ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے دنیا کے ہر قوم کی رشد و ہدایت کا انتظام کیا اور وہاں پیغمبر و رسول مبعوث فرمائے۔ یہ اسلام کی خصوصیات میں سے ایک اہم خصوصیت ہے کہ اس نے مبعوث ہونے والے تمام رسولوں اور نبیوں کی رسالت و نبوت کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ ہر مسلمان کے ایمان کی درستگی کا معیار بھی مقرر کیا۔ یعنی کوئی شخص اس وقت تک مسلمان نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ تمام انبیاء اور رسولوں کی رسالت و نبوت کا اقرار نہ کر لے۔ قران مجید میں تقریبا 24-25 انبیاء و رسل کا تذکرہ نام بنام کیا گیا ہے اور ان کی رسالت و نبوت کا حوالہ دیا گیا ہے۔ ان پر اتاری گئی کتابوں کے حوالے بھی مذکور ہیں۔ ان کے علاوہ اسلام کے نزدیک پیغمبروں کی کثیر تعداد ایسی ہے جن کا تذکرہ نام بنام نہیں کیا گیا ہے مگر ان کا حوالہ قرآن میں دیا گیا ہے۔ احادیث میں وارد ہے کہ تقریبا ایک لاکھ 24 ہزار انبیاء مبعوث ہوئے ہیں۔ بعض دوسری روایات میں کم و بیش اتنی ہی تعداد بیان کی گئی ہے۔ نبی اکرم ﷺ کے بیان کردہ ارشاد کے مطابق یہ ثابت ہوتاہے کہ دنیا کی تمام بڑی بڑی قوموں اور ملکوں میں اللہ تعالی کے  انبیاء اور رسول آئے ہیں ان میں چین، ایران، بھارت اور دنیا کے دوسرے خطے ہیں، جہاں انسانوں کی بود و باش رہی ہے۔ یقینی طور پر اللہ تعالی نے وہاں رسولوں اور نبیوں کو بھیجا ہے۔ اس کے برعکس دنیا کی دوسری قوموں کا حال دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے صرف اپنی قوم اور برادری کو اللہ کی محبوبیت، ہدایت اور رہنمائی کے لیے مخصوص جانا ہے۔
علامہ سید سلیمان ندوی رقم طراز ہیں ’’ایک یہودی کے لیے حضرت موسیٰ کے سوا کسی اور کو پیغمبر ماننا ضروری نہیں ہے۔ ایک عیسائی دوسرے تمام پیغمبروں کا انکار کر کے بھی عیسائی رہ سکتا ہے۔ ایک ہندو دنیا کی تمام لوگوں کو ملیچھ، شودر اور چنڈال کہہ کر بھی پکا ہندو رہ سکتا ہے۔ ایک زرتشتی تمام عالم کو بحر ظلمات کہہ کر بھی نورانی ہو سکتا ہے اور وہ ابراہیم موسیٰ و عیسیٰ علیہم السلام کو نعوذ باللہ جھوٹا کہہ کر بھی دینداری کا دعویٰ کر سکتا ہے۔ لیکن حضرت محمد ﷺ نے یہ ناممکن کر دیا کہ کوئی ان کی پیروی کا دعوی کرے اور ان سے پہلے کے کسی پیغمبر کا انکار کر سکے۔۔۔۔۔۔ کوئی شخص اس وقت تک محمدی نہیں ہو سکتا جب تک وہ پہلے حضرت موسیٰ حضرت عیسیٰ اور ایران و بھارت میں بھیجے گئے انبیاء و رسولوں کو فی الجملہ ان کی رسالت و نبوت کو تسلیم نہ کر لے۔ وہ دنیا کے تمام رسولوں کی صداقت حقانیت راست بازی اور معصومیت کا نہ صرف  اقرار کر لے اور یقین نہ کر لے کہ ان کے ذریعہ اللہ تعالی نے عرب کی طرح ہر قوم کو اپنی ہدایت اور رہ نمائی سے سرفراز کیا ہے۔‘‘
اسلام میں ایک بنیادی اصول لا نفرق بین احد من رسلہ بیان کیا گیا ہے۔
(البقرہ 136 آل عمرآن 84)
رسولوں اور پیغمبروں میں تفریق کے معنی یہی ہیں کہ ان میں سے بعض کو مانیں اور بعض کو نہ مانیں، اسلام نے اس کی ممانعت کی ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
ترجمہ: بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں کا انکار کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان فرق کریں اور کہتے ہیں کہ ہم بعض کو مانیں گے اور بعض کو نہیں مانیں گے اور چاہتے ہیں کہ اس کے بیچ میں کوئی راستہ نکالیں وہی تو حقیقت میں کافر ہیں اور کافروں کے لیے ہم نے یہاں اہانت والا عذاب تیار کر رکھا ہے اور جو اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے اور ان رسولوں میں سے کسی کے دام فرق نہیں کیا تو وہی لوگ ہیں جن کا اجر خدا ان کو دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا رحمت والا ہے۔
  بعثتِ نبوی کے وقت یہود و نصاریٰ میں مذہبی تعصب اس حد تک موجود تھا کہ ان میں سے ہر ایک اپنے سوا باقی تمام مذاہب کو جھوٹا اور نجات کے لیے کافی نہیں سمجھتا تھا۔ قرآن مجید نے ان کی اس ذہنیت اور سوچ کا پردہ چاک کیا۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: اور یہود کہتے ہیں کہ نصرانیوں کی بنیاد کسی شے (یعنی صحیح عقیدے) پر نہیں اور نصرانی کہتے ہیں کہ یہودیوں کی بنیاد کسی شے پر نہیں، حالانکہ وہ (سب اللہ کی نازل کردہ) کتاب پڑھتے ہیں، اسی طرح وہ (مشرک) لوگ جن کے پاس (سرے سے کوئی آسمانی) علم ہی نہیں وہ بھی انہی جیسی بات کرتے ہیں، پس اللہ ان کے درمیان قیامت کے دن اس معاملے میں (خود ہی) فیصلہ فرما دے گا جس میں وہ اختلاف کرتے رہتے ہیں۔
اس کے برعکس نبی رحمت ﷺ نے پیغمبرِ امن و سلامتی ہونے کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے یہ کبھی نہیں کہا کہ دنیا کے دیگر مذاہب جھوٹے اور ان کی ماننے والے جہنمی ہیں بلکہ اعلان فرمایا کہ دنیا کا ہر مذہب اپنی اصل میں سچا اور خدا کی طرف سے عطا کردہ ہے، بشرطیکہ اس میں کوئی تحریف اور حذف و اضافہ نہ ہوا ہو۔ اسی طرح سن 7ھ میں آپ ﷺ نے قیصرِ روم اور شاہ حبشہ وغیرہ عیسائی حکمرانوں کے نام جو دعوتی خطوط ارسال فرمائے ان میں یہ درج نہ تھا کہ عیسائیت جھوٹا مذہب ہے اسے ترک کردو بلکہ انہیں جو  دعوت دی گئی  اسے قرآن نے یوں بیان فرمایا:
’’اے اہلِ کتاب (الہامی کتاب کے ماننے والو)! آؤ ایک ایسے کلمہ کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں اور ہم خدا کو چھوڑ کر اپنے میں سے بعض کو رب نہ بنائیں۔
  قران مجید اور آخری نبی ﷺ نے سابقہ نبیوں اور رسولوں کی صحیح حیثیت کو بھی واضح کیا ہے۔ چنانچہ سابقہ قوموں میں نبوت و رسالت کے حوالے سے ایک دھندلا سا خاکہ پایا جاتا تھا اور یہ سمجھا جاتا تھا خاص طور سے یہود کے ہاں کہ نبی کے معنی پیشن گوئی کرنے والے کے ہیں اور جس کے متعلق وہ یقین رکھتے تھے کہ اس کی دعا یا بد دعا اللہ کے یہاں مقبول ہو جاتی ہے۔ اس کو نبی کا درجہ دے دیتے تھے۔ چنانچہ حضرت ابراہیم، حضرت لوط، حضرت اسحاق، حضرت یعقوب اور حضرت یوسف (علیہم السلام) کی نبوت اور رسالت کا محض ایک مبہم سا خاکہ ان کے یہاں موجود تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مقابلے میں شام کے کاہن مالک کی پیغمبرانہ شان ان کے نزدیک زیادہ نمایاں معلوم ہوتی ہے۔ حضرت داؤدؑ اور حضرت سلیمانؑ کی حیثیت ان کے ہاں حکمران اور بادشاہ کی تھی، اس کے علاوہ یہود کے ہاں انبیاء اور رسل کی زندگیوں کے حوالے سے نازیبا باتیں بھی ملتی ہیں۔
عیسائیت میں بھی رسالت و نبوت کا کوئی واضح تصور موجود نہیں تھا۔ انجیل میں رسالت کی مکمل تعریف موجود ہے نہ ان کی سچائی اور صداقت پرکھنے کا کوئی معیار بیان کیا گیا ہے۔ حضرت زکریاؑ اور حضرت یحییؑ کی پیغمبرانہ شان ان کے ہاں مسلم نہیں۔ لیکن قرآن مجید کی آیات میں اور رسول اکرم ﷺ کی فرمودات میں رسالت و نبوت کے منصب کی حقیقت ظاہر کی گئی ہے، اس کی خصوصیات کا اظہار کیا گیا اور بلا تفریق اور امتیاز سارے نبیوں اور رسولوں کو یکساں مقام پر فائز کیا گیا۔ آپ نے واضح فرمایا کہ نبوت و رسالت اللہ تعالی کا بخشا ہوا ایک منصب ہے جس کو اللہ تعالی نے خاص مقصد سے عنایت فرمایا ہے تاکہ وہ لوگوں کو ہدایت کی راہ دکھائیں اور سچائی اور نیکی کی طرف رہنمائی کریں۔ تمام انبیاء اور رسول ہادی، بشیر، نذیر، معلم، داعی اور مبلغ کی حیثیت سے مبعوث کیے گئے تھے۔ اللہ تعالی اپنے فرشتوں کے ذریعے ان پر اپنا پیغام نازل کیا تھا وہ خود گناہوں سے پاک اور برائیوں سے محفوظ و معصوم ہوتے تھے۔ قرآن مجید کی مختلف آیات میں مختلف انبیاء اور رسولوں کے نبوی اور رسالاتی مقام و کردار کی وضاحت کی گئی ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
ترجمہ: ہم نے اے محمدؐ تمہارے پاس وحی بھیجی جس طرح نوح اور ان کے بعد کے رسولوں کے پاس بھیجی اور ہم نے ابراہیم کو اور اسماعیل کو اور اسحاق کو اور یعقوب کو اور ان کے خاندان کو اور عیسیٰ کو اور ایوب کو اور یونس کو اور ہارون کو اور سلیمان کو وحی بھیجی اور داؤد کو زبور عطا کی اور بہت سے رسولوں کو بھیجا جن کا حال تم سے ہم نے پہلے بیان بھی کیا ہے اور ان رسولوں کو جن کا حال ہم نے تم سے بیان نہیں کیا۔ اور خدا نے موسیٰ سے بات کی ان رسولوں کو خوشخبری سنانے والا اور خبردار کرنے والا بنا کر بھیجا تاکہ لوگوں کو رسولوں کے آجانے کے بعد خدا کے آگے کوئی عذر باقی نہ رہ جائے۔ اور خدا غالب و دانا ہے۔
قرآن مجید میں جن انبیاء کا تذکرہ موجود نہیں ہے مگر وہ حضور اکرم ﷺ سے پہلے گزر چکے ہیں اور ان کے متبعین ان کو اپنے نبی اور رسول کی حیثیت سے مانتے ہیں ان کی شناخت اور پہچان کا قرآن مجید نے یہ معیار مقرر کیا کہ اگر انہوں نے اپنی قوم کو توحید کی تعلیم دی ہے تو وہ اللہ کے پیغمبر ہیں کیوں کہ اللہ کے پیغمبروں نے اسی بات کی دعوت پیش کی ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
وَمَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ قَبۡلِكَ مِنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا نُوۡحِىۡۤ اِلَيۡهِ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنَا فَاعۡبُدُوۡنِ ترجمہ: ہم نے تم سے پہلے جو رسول بھی بھیجا ہے اس کو یہی وحی کی ہے کہ میرے سوا کوئی خدا نہیں ہے، پس تم لوگ میری ہی بندگی کرو۔
ان تمام تفصیلات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اسلام نے تمام ملکوں کے پیغمبروں اور رسولوں اور نبیوں کو جو خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ سے پہلے گزرے ہیں ان سب نے اپنی قوم کو ایک ہی تعلیم دی ہے اور وہ توحید ہے۔ ان کی دعوت کا بنیادی نکتہ اللہ تعالی کی وحدانیت کی طرف بلانا اور بت پرستی سے اجتناب کرنے کی تعلیم دینا تھا۔ ان کی نسبت یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ اپنی قوم کے نبی اور رسول نہ تھے اور اتنی بڑی بڑی قومیں نبیوں رسولوں کے وجود سے خالی تھیں۔ یہ اسلام کی امتیازی خصوصیات میں سے ہے جس کے ذریعے سے دنیا میں مذاہب کی وحدت، انسانوں کی روحانی مساوات، نبیوں اور رسولوں کی محبت اور ان کا یکساں ادب و احترام واجب قرار دیا گیا۔ چنانچہ بنی اسرائیل کے وہ رسول اور نبی جن کو ماننے والے دنیا میں چند لاکھ سے زیادہ نہ تھے، محمد رسول اللہ ﷺ کی توثیق و تصدیق کے بعد ان کی عظمت و جلالت، ادب و احترام کرنے والے کروڑوں ہو گئے۔ حضرت مریم اور حضرت عیسی علیہ السلام جو چھ سو برس تک یہودیوں کی جھوٹی تہمت سہتے رہے، محمد رسول اللہ ﷺ نے آکر دفعتاً اس کو مٹا دیا اور ان کی پاکی کی شہادت پیش کی، جس کی بدولت آج پوری دنیا ان کی عصمت کی شہادت دینے پر مجبور ہے۔ بھارت، ایران، چین اور دوسرے ملکوں کے سچے رہنماؤں کا ان کے ملک سے باہر کوئی ادب نہ تھا لیکن جہاں جہاں اسلام کے ماننے والے گئے ان کے جائز ادب و احترام کو اپنے ساتھ لیتے گئے۔ عرب جو رسولوں کے ناموں تک سے واقف نہ تھے اور نبوت و رسالت کے راز سے تک نا آشنا تھے، نبیوں اور رسولوں کی سیرتوں سے ناواقف تھے، ان کے ادب و احترام کو نہ جانتے تھے، جن کو اپنے دیوتاؤں کے سامنے حقارت آمیز تضحیک کیا کرتے اور جو حضرت موسیٰ کی فضیلت کا ذکر سن کر غصہ سے لال پیلے ہو جاتے تھے، حضرت محمد ﷺ کی تعلیم سے ان کا یہ حال ہوا کہ وہ ایک ایک رسول اور نبی کے نام و نشان اور تاریخ و سیرت سے واقف ہو گئے اور ان کے ناموں پر اپنی اولادوں کے نام رکھنے لگے۔ اور آج بھی اہل ایمان میں کتنے ہی لوگ ہیں جو ان کے ناموں سے موسوم ہیں اور ان کی نبوت و رسالت کی تصدیق و توثیق اور شہادت پیش کرتے ہیں۔ ان پر ایمان کو اپنے دین و ایمان کا جز سمجھتے ہیں۔ دنیا کے کسی قوم میں یہ رواج نہیں ہے کہ نبیوں اور رسولوں کے نام ادب سے لیے جائیں مگر اسلام کے ماننے والے بلا کسی تفریق و امتیاز کے نبیوں اور رسولوں کا نام نہ صرف ادب سے لیتے ہیں بلکہ ان پر درود و سلام بھی بھیجتے ہیں۔
(جاری)
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 24 دسمبر تا 30 دسمبر 2023