مذہبی منافرت پر مبنی ایک اور حادثہ
راجستھان میں میڈیکل کالج کے مسلم طالب علم پر حملہ کرکے اسے مذہبی نعرے لگانے پر مجبور کیاگیا
(دعوت نیوز ڈیسک)
کوٹہ سٹی پولیس نے سورج اور وشنو نامی دو بدمعاشوں کو گرفتار کرلیا ہے مگر ۔۔۔؟
ملک میں آج بھی کئی ایسے مقامات ہیں جہاں پر لوگوں کی ذہنیت زہر آلود ہوچکی ہے ۔نفرت اور عصبیت کے تحت ایسے کئی امور انجام دیے جاتے ہیں جو امن وامان کے خاتمے کا باعث بنے ہوئے ہیں ۔اب تک یہ خبریں سامنے آتی رہیں کہ ہندوتوا کے کٹر نوجوان اور سر پھرے لوگ عام مسلمانوں کو ٹارگیٹ کرکے ظلم و ستم کا نشانہ بناتے رہے ہیں لیکن صد افسوس کہ یہ زہریلی ہوا ملک کے تعلیمی اداروں میں بھی داخل ہو چکی ہے ۔ اس سے قبل مظفر نگر کی ایک ٹیچر کا معاملہ سرخیوں میں رہا جہاں وہ معصوم بچوں کو مذہب کے نام پر نفرت کرنے کا درس دیتی نظر آئی اب ایک اور حادثہ رونما ہوا جس نے ملک کے تعلیمی اداروں کو سوالوں کے کٹہرے میں کھڑا کردیا ہے کہ آخراس ملک کا تعلیمی نظام کس طریقے سے چلایا جارہا ہے اوروہاں کے طلبا محفوظ بھی ہیں یا نہیں؟
دراصل بات اس شہر کوٹہ کی ہے جو ملک بھر میں ’ایجوکیشن سٹی‘کے نام سے اور بہترین کوچنگ کے لیے مشہور ہے۔پچھلے دنوں کوٹہ میں کچھ سماج دشمن عناصر کی جانب سے میڈیکل کالج کوٹہ کے سال اول کے طالب علم محمد عمیر کے ساتھ بدتمیزی کرنے، اسے مذہبی طور پر تشدد کا نشانہ بنانے اور زور و زبردستی کرنے کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ اس طالب علم کو زدوکوب کرتے ہوئے جے شری رام کے نعرے لگانے پر مجبور کیا گیا۔
میڈیا سے بات کرتے ہوئے متاثرہ طالب علم کے اہل خانہ نے ملزموں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ عمیر حافظ اور معذور شخص ہے، اسے صرف اس کی مسلم شناخت یعنی چہرے پر داڑھی کی وجہ سے ہراساں کیا گیا ہے۔اس معاملے میں پولیس نے اس واقعہ میں ملوث سورج اور وشنو کو گرفتار کیا ہے، جن کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 493/23، دفعہ 323، 341، 342، 34، 295A کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ پچھلے دنوں کچھ سماج دشمن عناصر نے میڈیکل کالج، کوٹہ کے سال اول کے طالب علم محمد عمیر کو داڑھی رکھنے کی وجہ سے زبردستی اپنی گاڑی میں بٹھا لیا، اس کے ساتھ بدتمیزی کی، مارپیٹ کی اور جئے شری رام کے نعرے لگانے پر مجبور کیا گیا۔متاثرہ طالب علم نے مہاویر نگر پولیس تھانہ افسر کو تحریری شکایت درج کرائی ہے۔ طالب علم نے معلومات دیتے ہوئے بتایا کہ وہ رات 10 بجے کے قریب اپنے دوست کے گھر جا رہا تھا۔ راستے میں میڈیکل کالج کے مین گیٹ کے قریب قبرستان کے سامنے پیچھے سے آنے والی ایک سرمئی رنگ کی ٹاٹا نیکسن نے جارحانہ انداز میں اپنی کار میری گاڑی کے آگے روک دی۔ میں نے کسی طرح اپنی گاڑی وہاں سے نکالی اور آگے بڑھا۔
طالب علم نے اپنی شکایت میں مزید کہا کہ اس کے بعد اہنسا سرکل پر انہوں نے میری گاڑی کو پیچھے سے ٹکر ماری جس کی وجہ سے میری گاڑی غیر متوازن ہوگئی، مجھے مجبوراً رکنا پڑا۔ اس کے بعد انہوں نے میری داڑھی اور ہاتھ پکڑے اور مجھے زبردستی اپنی گاڑی میں بٹھایا، مجھے تھپڑ مارا اور گالیاں بھی دیں۔
طالب علم نے پھر بتایا کہ ’’میں کسی طرح وہاں سے نکل کر اپنی گاڑی پر بیٹھ کر فرار ہوا اور آگے بھاگا، پھر انہوں نے میرا پیچھا کیا اور اپنی گاڑی کالا بادل بھون کے قریب میری گاڑی کے سامنے کھڑی کرکے مجھے پھر سے روک لیا۔ کار میں سوار لوگ مکمل طور پر نشے میں تھے، انہوں نے گستاخانہ الفاظ کہے، مجھ پر حملہ کیا اور ’جے شری رام‘ کے نعرے لگانے پر مجبور کیا۔
پولیس نے اس معاملے پر فوری کارروائی کرتے ہوئے دفعہ 323,341,342,34,295A IPC کے تحت مقدمہ نمبر 493/23 درج کیا اور ان دونوں کو گرفتار کرلیا۔
طالب علم محمد عمیر ولد پرویز احمد ضلع باران کے چھبرا قصبہ کا رہنے والا ہے اور میڈیکل کالج، کوٹہ میں ایم بی بی ایس کے سال اول کا طالب علم ہے۔طالب علم کے چچا محمد عامر نے میڈیا کو بتایا کہ ہم نے رات کے وقت ہی پولیس میں تحریری شکایت درج کرائی تھی، جس پر پولیس نے اگلی صبح کارروائی کرتے ہوئے دونوں بدمعاشوں کو گرفتار کر لیا۔
انہوں نے کہا کہ ’’ہمارا مطالبہ ہے کہ ایسے لوگوں کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے تاکہ مستقبل میں کوٹہ کے اندر کسی بھی طالب علم کے ساتھ ایسی بدسلوکی نہ ہو‘‘
ہر سال ملک بھر سے لاکھوں طلبا میڈیکل اور انجینئرنگ کے داخلے کے امتحانات کی کوچنگ کے لیے کوٹہ آتے ہیں، لیکن گزشتہ کچھ دنوں سے کوٹہ طلبا کی خودکشی کے واقعات کی وجہ سے سرخیوں میں ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی غیر قانونی سرگرمیاں سامنے آرہی ہیں جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔ اگر حکومت کی جانب سے لاپروائی برتی گئی تو عین ممکن ہے کہ کوئی بڑا مجرمانہ واقعہ وقوع پذیر ہو جائے لہذا انتظامیہ کو اس پر فوری ایکشن لینا چاہیے۔
یہ ان واقعات میں سے ایک ہے جو رپورٹ ہوا ہے ورنہ ملک میں ایسے بے شمار واقعات ہوتے ہیں جو رپورٹ نہیں کیے جاتے۔ اس کی اصل وجہ ملک کے نوجوانوں کی ذہنی اور فکری عصبیت ہے جو سیاسی قائدین کی جانب سے صرف اپنے مفادات کے لیے ان کے دماغوں میں بھری جارہی ہے۔ ملک کےنوجوان جو کہ ملک کا مستقبل ہیں اگر اسی فکر کے ساتھ آگے بڑھیں گے تو ملک بے شمار مسائل میں گھر جائے گا اور ترقی کے بجائے تنزلی اس کا مقدر بن جائے گی لہذا وقت رہتے ہی اہل علم اور دانشوروں ملک کو چاہیے کہ وہ ان حالات کے پیش نظر مستقبل کی تعمیر کے لیے کوئی لائحہ عمل بنائیں اور اب تک جن نوجوانوں کے ذہنوں کو تعصب کے زہر سے آلودہ کیا جاچکا ہے ان کی باز آباد کاری کی جانب توجہ دیں۔ عین ممکن ہے کہ صبح کا بھولا شام کو پھرسے واپس لوٹ جائے اور لوٹتے ہوئے وہ بھولا بھٹکا نہ رہے جو مفاد پرست سیاست دانوں کے دام فریب میں آکر سیدھی راہ سے بھٹک گیا تھا۔
***
***
یہ ان واقعات میں سے ایک ہے جو رپورٹ ہوا ہے ورنہ ملک میں ایسے بے شمار واقعات ہوتے ہیں جو رپورٹ نہیں کیے جاتے۔ اس کی اصل وجہ ملک کے نوجوانوں کی ذہنی اور فکری عصبیت ہے جو سیاسی قائدین کی جانب سے صرف اپنے مفادات کے لیے ان کے دماغوں میں بھری جارہی ہے۔ ملک کےنوجوان جو کہ ملک کا مستقبل ہیں اگر اسی فکر کے ساتھ آگے بڑھیں گے تو ملک بے شمار مسائل میں گھر جائے گا اور ترقی کے بجائے تنزلی اس کا مقدر بن جائے گی لہذا وقت رہتے ہی اہل علم اور دانشوروں ملک کو چاہیے کہ وہ ان حالات کے پیش نظر مستقبل کی تعمیر کے لیے کوئی لائحہ عمل بنائیں اور اب تک جن نوجوانوں کے ذہنوں کو تعصب کے زہر سے آلودہ کیا جاچکا ہے ان کی باز آباد کاری کی جانب توجہ دیں۔ عین ممکن ہے کہ صبح کا بھولا شام کو پھرسے واپس لوٹ جائے اور لوٹتے ہوئے وہ بھولا بھٹکا نہ رہے جو مفاد پرست سیاست دانوں کے دام فریب میں آکر سیدھی راہ سے بھٹک گیا تھا۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 08 اکتوبر تا 14 اکتوبر 2023