مذہبی آزادی حاصل ہونے کے باوجود بے انتہا پابندیاں کیوں ہیں؟
آئین میں دیے گئے حقوق کو سلب کرنے کی منظم سازش نا مناسب
شہاب فضل، لکھنؤ
امتیاز اور تفریق کا رویہ شہریوں تک محدود نہیں، سماجی جہدکار اور تنظیمیں بھی نشانے پر
چھتیس گڑھ کے شہر بِھلائی میں گائے کا گوشت استعمال کرنے کے الزام کے بعد بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد سے تعلق رکھنے والے حملہ آوروں کی دہشت سے تنگ آکر لوکیش سونی نام کے ایک شخص نے خود کو اپنے مکان کے ایک کمرے میں بند کر کے خودکشی کرلی۔ سونی کے لواحقین کے مطابق بجرنگ دل کے لوگوں کے حملہ کے خوف سے سونی نے اپنی جان لے لی۔ بجرنگ دل کے لوگوں نے جب سونی کے گھر پر دھاوا بولا تو مقامی پولیس بھی موجود تھی جو پورے واقعہ کی تفتیش کر رہی ہے۔
پچھلے دنوں پیش آنے والا اس طرح کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ گائے کا گوشت فروخت کرنے، کھانے یا گھر میں رکھنے کے الزام میں متعدد افراد کا قتل یا ان کی لنچنگ ہوچکی ہے۔ ملک میں گئو رکشا کے نام پر مسلح اور منظم حملہ آوروں کے حملے اور تشدد کا اکثر کمزور طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد شکار ہوتے ہیں اور بعض معاملات میں پولیس نے حملہ آوروں کو گرفتار بھی کیا ہے۔
۲۸ ستمبر ۲۰۱۵ کو گریٹر نوئیڈا کے بسہاڑا گاؤں میں محمد اخلاق کی لنچنگ کی خبر عالمی سطح پر سرخیوں میں رہی تھی جس کے بعد ملک کے مختلف حصوں میں اس طرح کے کئی واقعات پیش آ چکے ہیں۔ ۲۰۱۴ کے بعد ہریانہ اس طرح کے معاملات میں کافی بدنام ہوا جہاں گروگرام، فریدآباد، نوح وغیرہ کے علاقوں میں نام نہاد گئو رکشا کے نام پر غنڈوں کے ہجوم نے متعدد افراد کی جانیں لیں۔ اگست ۲۰۲۴ میں پلول کے علاقہ میں آرین مشرا نام کا ایک نوجوان ان کا شکار ہوا تھا۔ گئو رکشکوں نے فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارموں پر اپنے اکاؤنٹس بھی بنا رکھے ہیں جن کے ذریعے سے وہ اپنے ہم خیال لوگوں کو جوڑتے ہیں۔
۲۰۱۴ کے بعد اس طرح کے واقعات میں شدت آئی کیونکہ ہریانہ میں بی جے پی کی حکومت نے گاؤ کشی مخالف قوانین سخت کیے اور پولیس کی مدد کے لیے گائے تحفظ کمیٹیوں کے قیام کی بھی راہ ہموار کی۔ ریاستی حکومت نے ‘‘ہریانہ گئو سیوا آیوگ’’ کی تشکیل کی تاکہ ان قوانین پر سختی سے عمل ہوسکے۔ حکومت نے گائیوں کی اسمگلنگ اور ذبیحہ روکنے کے لیے ایک اسپیشل ٹاسک فورس بھی بنائی۔ ان حکومتی اقدامات کے ساتھ ساتھ بجرنگ دل اور گئو رکشا دل کی اکائیاں بھی اس محاذ پر سرگرم ہوگئیں اور انہوں نے گائیوں کی اسمگلنگ اور خرید و فروخت وغیرہ کے شک میں لوگوں کے یہاں چھاپے تک مارنے شروع کردیے۔ ان کے قانون ہاتھ میں لینے اور حکومتی اداروں کی جانب سے ان کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہ ہونے یا انہیں کھلی چھوٹ ملنے کے بعد لنچنگ اور حملوں کے واقعات میں تیزی آگئی۔
انصاف کے لیے سرگرم جہدکار اور تنظیمیں بھی ان سے محفوظ نہیں ہیں۔
امر واقعہ یہ ہے کہ نہ صرف عام لوگ اس طرح کے تشدد کا شکار ہوئے ہیں بلکہ متاثرین اور مظلومین کے حق و انصاف کے لیے لڑنے والے جہدکاروں کو بھی نشانہ بنانے کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔
متاثرین کی قانونی مدد، انصاف کے حصول اور حقوق انسانی کے معاملات میں سرگرم تنظیم ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس (اے پی سی آر) کے قومی سکریٹری محمد ندیم خاں کے خلاف بھی کچھ ایسا ہی معاملہ دہلی پولیس نے بنایا۔ انہیں دہلی کی مقامی عدالت سے عارضی طور سے راحت تو مل گئی ہے مگر مختلف نت نئے بہانوں سے پولیس کی مزید کارروائی کے خدشات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔
دراصل حیدرآباد کی ایک نمائش میں ندیم خان حقوق انسانی کے کاز، مشرقی دہلی کے فساد اور سی اے اے مخالف مظاہرہ کے سلسلہ میں، اے پی سی آر کی جدوجہد کی تفصیل بیان کر رہے تھے جس کی ویڈیو ریکارڈنگ سوشل میڈیا پر سامنے آنے کے بعد ان پر سنگین دفعات میں دہلی پولیس نے مقدمہ درج کیا، جس کے بعد سے وہ تھانہ پولیس اور عدالتی دوڑ بھاگ میں الجھے ہوئے ہیں۔
آلٹ نیوز کے صحافی محمد زبیر کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے جو قابل تعذیر اور غیر قانونی حرکات کو جب اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کے ذریعہ سامنے لاتے ہیں تو قانون شکنی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کے بجائے الٹا انہیں ہی نشانہ بنایا جاتا ہے اور بے جا قانونی کارروائی کے ذریعہ انہیں ہراساں کیا جاتا ہے۔ متنازعہ شخص یتی نرسنگھا نند کی نفرت پر مبنی تقریر کے ایک حصے کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر شیئر کرنے پر ان کے خلاف غازی آباد پولیس نے مقدمہ درج کرلیا۔ حالانکہ الٰہ آباد ہائی کورٹ نے محمد زبیر کی گرفتاری پر حکم امتناعی جاری کیا اور اس طرح انہیں پولیس کارروائی سے راحت دے دی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جس متنازعہ ویڈیو کو انہوں نے شیئر کیا تھا وہ انٹرنیٹ پر پہلے سے ہی موجود تھا۔
دوسری طرف تلنگانہ میں ‘غیر قانونی’ کانکنی کے خلاف دیہی عوام کے احتجاج کی تائید کرنے والے اور انہیں اپنی حمایت دینے والے حقوق انسانی کے کارکنوں کو مقامی پولیس نے گرفتار کرلیا۔ اس سلسلہ میں آل انڈیا فورم فار رائٹ ٹو ایجوکیشن، حیدرآباد نے ۲۰ جنوری ۲۰۲۵ کو ایک بیان جاری کرکے مشہور حقوق انسانی جہدکار پروفیسر ہراگوپال، سِول لبرٹیز کمیٹی کے صدر پروفیسر جی لکشمن اور کنوینر ایم راگھواچاری کی گرفتاری پر نکتہ چینی کی ہے۔
دراصل تلنگانہ کے بالمور منڈل میں میلارام گاؤں کے عوام نے گاؤں کے مضافات میں واقع پہاڑیوں میں غیر قانونی کانکنی کے خلاف تحریک چھیڑ رکھی ہے۔ ان کے بھوک ہڑتال میں شامل ہونے کے لیے جانے والے مذکورہ جہدکاروں کو پولیس نے راستہ میں حراست میں لے لیا۔ متعدد دیہی عوام کو بھی پولیس نے گرفتار کیا ہے۔
پروفیسر جگموہن سنگھ، پروفیسر مدھو پرساد اور ڈاکٹر پرساد وی کے دستخط سے جاری بیان میں آل انڈیا فورم فار رائٹ ٹو ایجوکیشن نے ان گرفتاریوں کو حکومت کی غیرجمہوری حرکت قرار دیا۔ بیان میں یہ بات زور دے کر کہی گئی ہے کہ ‘‘غیر بی جے پی حکومتیں، بی جے پی حکومتوں کی پالیسی اپنا رہی ہیں جو تشویش کی بات ہے’’۔ فورم نے اس یقین کا اظہار کیا کہ عوام دوست پالیسیاں نہ اپنائے جانے سے بی جے پی کی جمہوریت مخالف حرکات اور پالیسیوں کو شکست دینے کی جدوجہد کمزور ہوگی اور فاشسٹ فرقہ پرست طاقتوں کی شکست کے ہدف کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ خیال رہے کہ تلنگانہ میں کانگریس کی حکومت ہے۔
اتر پردیش کے ضلع بریلی میں بہیڑی علاقہ کے ایک گاؤں جسونت میں ایک جگہ پر اجتماعی طور سے جمعہ کی نماز پڑھنے پر پولیس نے مقامی مسلمانوں پر ایف آئی آر درج کرلی اور بھارتیہ نیائے سنہیتا (بی این ایس) کے سیکشن ۲۲۳ میں ان لوگوں کو ملزم بنا دیا۔ پولیس نے کسی کی گرفتاری تو نہیں کی مگر متعلقہ افراد کو ۴۱ اے کا نوٹس تھما دیا۔ اس کارروائی سے یہ واضح ہے کہ گاؤں میں کوئی مسجد نہ ہونے پر مسلمانوں کو کسی جگہ اجتماعی طور سے نماز ادا کرنے سے بھی روکا جا رہا ہے۔
ایک طرف پر امن طریقے سے نماز ادا کرنے والے مسلمانوں کے ساتھ یہ معاملہ ہے تو دوسری طرف یو پی میں مختلف مقامات پر پولیس اور انتظامیہ کے اہلکاروں کے ذریعہ بند مندروں کو ڈھونڈنے اور وہاں پوجا پاٹھ کرانے کی خبریں مل رہی ہیں۔ سنبھل، وارانسی اور علی گڑھ سمیت متعدد شہروں میں اس طرح کی کارروائی میں پولیس اور ضلع انتظامیہ کو سرگرم اور متحرک دیکھا گیا۔ رویے اور عمل کا یہ فرق بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک صارف وسیم اکرم تیاگی نے یہ پوسٹ لکھی: ‘‘جس ریاست میں حکومت کنبھ منا رہی ہے۔ ہزاروں کروڑ روپے اس پر خرچ ہو رہے ہیں۔ سرکار کے کئی وزیر کنبھ میں شامل ہونے کا کارڈ بانٹتے پھر رہے ہیں اسی ریاست میں نماز پڑھنے کو کریمنلائز کیا گیا ہے۔ سرکار تو خود ایک خاص دھرم کا پرچار کر رہی ہے اور دوسروں کو اپنے مذہب کی عبادت کرنے کے جرم میں ماخوذ کر رہی ہے۔ یہ آئین پر حملہ نہیں تو کیا ہے؟’’
ان واقعات کی روشنی میں ہم یہ کہنے میں بالکل حق بجانب ہیں کہ آئین ہند میں جو حقوق اور آزادیاں دی گئی ہیں عملی طور سے انہیں چھینا جا رہا ہے۔ آئین کا آرٹیکل ۱۹ اظہار رائے، پر امن طریقے سے جمع ہونے، ایک دوسرے سے جڑنے، بلا روک ٹوک آنے جانے اور پیشہ اختیار کرنے کی آزادی دیتا ہے، مگر عملی طور سے کئی حقوق ایسے ہیں جن پر حکومت نے قدغن لگا دیا ہے اور اس کے لیے پولیس کی تحریری اجازت لینا لازمی کر دیا گیا ہے۔
آرٹیکل ۲۵ سے لے کر آرٹیکل ۲۸ تک کے قوانین مذہب پر عمل درآمد کرنے کی آزادی سے متعلق ہیں۔ ان میں بھی حکومت و انتظامیہ کا رویہ مداخلتی ہے اور نگرانی و کنٹرول کرنے اور کسی نہ کسی بہانے سے شہریوں کو پریشان کرنے والا ہے۔ اس میں امتیازی سلوک واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ شہریوں کے ساتھ یہ فرق تعصب پر مبنی ہے اور انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے۔
یہ نتیجہ اخذ کرنا کوئی مبالغہ نہیں ہوگا کہ حکومت کی مخصوص طبقات کو نشانہ پر رکھنے کی غیر جمہوری حرکات نہ صرف انہیں بیگانہ بنانے کا کام کر رہی ہیں بلکہ یہ احساس بھی دلوں میں جاگزیں کر رہی ہیں کہ آئین ہند میں جو کچھ لکھا ہوا ہے وہ اب باقی رہنے والا نہیں ہے اور اس طرح جمہوریت کی جڑوں کو کھوکھلا کرکے عوام میں اپنے زیادہ سے زیادہ ہم نوا پیدا کرکے سیاسی تنگ نظر ذہنیت کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ یہ عمل سماج میں ٹکراؤ اور منافرت کو خطرناک حد تک بڑھا سکتا ہے جس کے نتائج کا اندازہ ہر آگاہ اور بیدار مغز شخص کو ہونا چاہیے اور اس کے روک تھام کی تدابیر بھی کرنی چاہیے۔
***
حکومت کی مخصوص طبقات کو نشانہ پر رکھنے کی غیر جمہوری حرکات نہ صرف انہیں بیگانہ بنانے کا کام کر رہی ہیں بلکہ یہ احساس بھی دلوں میں جاگزیں کر رہی ہیں کہ آئین ہند میں جو کچھ لکھا ہوا ہے وہ اب باقی رہنے والا نہیں ہے اور اس طرح جمہوریت کی جڑوں کو کھوکھلا کرکے عوام میں اپنے زیادہ سے زیادہ ہم نوا پیدا کرکے سیاسی تنگ نظر ذہنیت کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ یہ عمل سماج میں ٹکراؤ اور منافرت کو خطرناک حد تک بڑھا سکتا ہے جس کے نتائج کا اندازہ ہر آگاہ اور بیدار مغز شخص کو ہونا چاہیے اور اس کے روک تھام کی تدابیر بھی کرنی چاہیے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 02 فروری تا 08 فروری 2025