مذہب کی بنیاد پر معاشی بائیکاٹ: سماجی نفرت کا نیا روپ

اقلیتوں کے خلاف غیر اعلانیہ جنگ کا نیا ہتھیار

مخدوم (سینئر صحافی، ممبئی)

مذہبی بنیاد پر مقاطعہ کے خلاف اجتماعی مزاحمت کی ضرورت
مذہب کی بنیاد پر بائیکاٹ محض معاشی مسئلہ نہیں بلکہ سماجی ناانصافی اور امتیاز کی گہری جڑ ہے۔ ایسے بائیکاٹ معاشرے میں نفرت، شک اور تشدد کو جنم دیتے ہیں جس سے اقلیتیوں بالخصوص مسلمانوں کو سماجی اور نفسیاتی عدم تحفظ کا سامنا ہوتا ہے۔ایک سروے کے مطابق 35 فیصد مسلمان خود کو ہندوستان میں محفوظ نہیں سمجھتے اور بائیکاٹ کی مہمات اس احساس کو مزید بڑھاتی ہیں۔ اس کا اثر نہ صرف معاشرے پر بلکہ ملک کی قومی یکجہتی اور بین الاقوامی ساکھ پر بھی پڑتا ہے۔
ملک کے اندر بعض مخصوص گروہ مسلمانوں کے خلاف معاشی بائیکاٹ جیسے ہتھیار استعمال کر رہے ہیں تاکہ سماج میں کشیدگی اور تفرقہ پیدا کیا جا سکے۔ یہ عمل محض کسی ایک طبقے کے خلاف نہیں بلکہ دراصل ملک دشمن سرگرمیوں کے زمرے میں آتا ہے۔ اس کا مقصد وہی ہے جو دشمن ممالک چاہتے ہیں: بھارت میں خوف، نفرت اور تصادم کا ماحول پیدا کرنا۔
ایسی صورت حال میں جب دہشت گردانہ وارداتوں کے ذمہ داروں کو کٹہرے میں کھڑا کیا جانا چاہیے، بھارتی مسلمانوں کو ہی مورد الزام ٹھیرانا سراسر ناانصافی ہے۔ پہلگام حملے میں سید عادل جیسے بھارتی مسلمانوں نے سیاحوں کی جان بچانے کے لیے اپنی جان قربان کر دی۔ ایسے میں مسلمانوں کے خلاف معاشی بائیکاٹ مسلط کرنا ان کی حب الوطنی کی توہین ہے۔
بھارت کا جمہوری نظام تنوع کے احترام پر قائم ہے۔ ہمارا آئین ہر مذہب، ذات اور عقیدے کو مساوی حقوق دیتا ہے۔ لیکن حالیہ برسوں میں خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف معاشرتی اور معاشی بائیکاٹ کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ کہیں دکانیں بند کرائی جا رہی ہیں، کہیں ان کے کاروبار کا بائیکاٹ کرنے کی اپیلیں کی جا رہی ہیں اور کہیں سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مہمات چلائی جا رہی ہیں۔
دنیا بھر میں بھارت کو اس کی ’’وحدت میں کثرت‘‘ کے لیے جانا جاتا ہے۔ لیکن اب ملک کے مختلف علاقوں میں کچھ تنظیمیں اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمس کھلے عام مخصوص برادریوں، بالخصوص مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کی مہم چلا رہے ہیں۔ ’’ان سے پھل نہ خریدو‘‘، ’’ان کی دکانوں سے خریداری نہ کرو‘‘، یا ’’ان کی ٹیکسی استعمال نہ کرو‘‘ جیسے جملے اب صرف تقریروں تک محدود نہیں رہے، بلکہ یہ بینروں، پوسٹروں، سوشل میڈیا مہمات اور بعض اوقات پرتشدد واقعات کی صورت میں بھی سامنے آ رہے ہیں۔
ایسے نعرے صرف نفرت کی علامت نہیں بلکہ بھارتی سماج کی بنیادوں کو ہلا دینے والے رجحانات ہیں۔ مذہب کی بنیاد پر معاشی بائیکاٹ کوئی معمولی سماجی انحراف نہیں بلکہ یہ براہ راست قومی اتحاد، معیشت کے استحکام اور آئینی اقدار پر حملہ ہے۔ اگرچہ یہ بائیکاٹ سماجی نظر آتے ہیں لیکن ان کے اثرات سیاسی، معاشی اور اجتماعی شعور کو گہرائی تک زخمی کرتے ہیں۔ اس لیے اس مسئلے کو صرف جذباتی زاویے سے نہیں، بلکہ ایک باشعور اور حساس شہری کے نقطہ نظر سے دیکھنا ضروری ہے۔
یہ معاشرتی بائیکاٹ کی مہمات صرف فرقہ وارانہ نفرت کو ہوا نہیں دیتیں بلکہ انسانی حقوق، قومی سالمیت اور مقامی قوانین کو بھی چیلنج کرتی ہیں۔
عام شہریوں پر اثرات
ایسے بائیکاٹس کا پہلا اور سب سے شدید اثر ان شہریوں پر پڑتا ہے جو روزانہ کی کمائی پر زندگی گزارتے ہیں۔ ممبئی، پونے، اندور، پریاگ راج، وارانسی، بلندانہ اور بیلگاوی جیسے شہروں سے ایسی کئی حقیقی کہانیاں میڈیا میں سامنے آئی ہیں جہاں محض نام کی بنیاد پر مسلم دکانداروں سے گاہکوں نے منہ موڑ لیا گیا۔
کسی بھی معاشی بائیکاٹ کا پہلا وار سماج کے نچلے طبقے پر ہوتا ہے—خواہ وہ ریڑھی والا ہو، رکشہ راں ہو، ٹھیلا لگانے والا، پھل فروش ہو یا چائے والا ہو۔ جب اسے ’مسلمان‘ کہہ کر نشانہ بنایا جاتا ہے تو اس کی روزی روٹی متاثر ہوتی ہے، چاہے اس نے کوئی جرم نہ کیا ہو۔ اس سے دو بڑے نتائج نکلتے ہیں:
(1) سماجی تقسیم میں اضافہ
(2) معاشی عدم مساوات میں شدت
آکسفام انڈیا اور این سی ڈی ایچ آر کی 2022 کی رپورٹ کے مطابق، بائیکاٹ کے شکار افراد کو اوسطاً 30 سے 70 فیصد تک معاشی نقصان اٹھانا پڑا۔ کئی جگہوں پر مسلمانوں کی دکانیں ’سماجی دباؤ‘ کی وجہ سے بند ہو گئیں اور بعض علاقوں میں خود پولیس نے بھی دکانیں بند کرنے کا مشورہ دیا۔
مثال کے طور پر 2023 میں شمالی بھارت کے ایک گاؤں میں ایک واٹس ایپ گروپ میں پیغام گردش کرنے لگا کہ ہندو، مسلمانوں سے خریداری نہ کریں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہاں کے 18 مسلم دکانداروں کی آمدنی صرف ایک ہفتے میں 80 فیصد تک گھٹ گئی۔ بعض کو گاؤں چھوڑنے پر بھی مجبور ہونا پڑا۔ سی ایس ڈی ایس-لوک نیتی کی 2022 کی رپورٹ کے مطابق 52 فیصد مسلم شہریوں نے محسوس کیا کہ انہیں سماجی لین دین میں غیر اعلانیہ امتیاز کا سامنا ہے۔ یہ رجحان مکالمے کا خاتمہ، انتہا پسندی کے فروغ اور نفرت کا باعث بنتا ہے۔
غیر رسمی شعبے میں مسلمانوں کا کردار
بھارتی معیشت 90 فیصد سے زائد حد تک غیر رسمی شعبے پر انحصار کرتی ہے۔ اسٹیٹ بینک آف انڈیا (SBI) کی 2022-23 رپورٹ کے مطابق غیر رسمی شعبہ ملک کی مجموعی مالیت (GVA) میں 44.25 فیصد کا حصہ ڈال رہا ہے اور تقریباً 74.3 فیصد روزگار اسی سے پیدا ہوتا ہے۔ اس شعبے میں مسلمانوں کی بڑی شرکت ہے۔
غیر رسمی شعبے کی اہمیت
آمدنی میں حصہ: 2022-23 میں غیر رسمی شعبے نے بھارت کی کل GVA میں تقریباً 44 فیصد کا حصہ ڈالا۔
روزگار: ملک کی 74.3 فیصد افرادی قوت اسی شعبے سے وابستہ ہے جس میں اقلیتوں کا نمایاں کردار ہے۔
مسلمانوں کی شراکت
مسلم برادری غیر رسمی شعبے میں کئی طرح کے کاروبار میں سرگرم ہے:
تجارت و خدمات: پھل فروش، رکشہ و ٹیکسی ڈرائیور، چھوٹے دکاندار، ہنر مند کاریگر، گھریلو صنعتیں
صنعت: چھوٹی صنعتوں میں نمایاں شرکت
ٹیکسٹائل: کپڑے کی پیداوار و فروخت میں مؤثر کردار
زراعت و متعلقہ کاروبار: زرعی مصنوعات کی فروخت، مویشی پروری، کھیت و کھلیان سے جڑے کاروبار
ریٹیل ٹریڈ: پھل فروش، ٹھیلہ لگانے والے، چائے والے، چھوٹے دکاندار
درزی، دستکار، فنکار: مختلف ہنر مند مصنوعات میں ماہر
پبلک ٹرانسپورٹ: رکشہ، ٹیکسی اور ٹرک ڈرائیورز
گوشت، پولٹری، بیکری، کھانے پینے کی دکانیں: ان شعبوں میں مسلمانوں کی غالب حیثیت
یہ تمام شعبے ملکی معیشت کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
قومی معیشت پر اثرات
بھارت کی معیشت خریدار اور بیچنے والے کے باہمی تعلق پر قائم ہے، جہاں مذہب، ذات یا زبان سے قطع نظر ہر شہری کسی نہ کسی طور پر پیداواری یا صارف کی حیثیت رکھتا ہے۔ نیشنل سیمپل سروے آرگنائزیشن (NSSO) کی 2018 رپورٹ کے مطابق، اقلیتی مسلم برادری ملک کی جی ڈی پی میں تقریباً 11–12 فیصد حصہ ڈالتی ہے۔ یہ برادری چھوٹی صنعتوں، دستکاری، ٹیکسٹائل، بیکری، پھل منڈی، ٹیکسی اور ریٹیل تجارت میں مضبوطی سے موجود ہے۔
اگر انہیں خوف یا عملی بائیکاٹ کی وجہ سے معاشی عمل سے باہر کیا گیا تو پوری معاشی زنجیر متاثر ہوتی ہے۔ پھل فروشوں کے بائیکاٹ کا مطلب ہے کہ کسانوں کی پیداوار مارکیٹ تک نہیں پہنچے گی۔ ٹیکسی ڈرائیوروں کے بائیکاٹ کا مطلب ہے گاڑی بنانے والوں کی مصنوعات متاثر ہوں گی۔ یہ براہِ راست ‘میک اِن انڈیا’ اور ‘اسٹارٹ اَپ انڈیا’ جیسے سرکاری منصوبوں کے لیے خطرہ ہے۔
بھارت جیسے جمہوری ملک میں ‘معاشی سماجی بائیکاٹ’ اگرچہ غیر رسمی عمل ہے، مگر اس کے نتائج اتنے ہی سنگین ہوتے ہیں جیسے کوئی باضابطہ بحران—یعنی منڈی میں انتشار، روزگار کی کمی اور باہمی اعتماد کا فقدان۔
چند اعداد و شمار:
ٹیکسٹائل انڈسٹری میں مسلمانوں کی 36 فیصد شراکت
چمڑے کی مصنوعات، پھل بازار، ٹیکسی سروس، اور ریٹیل سیلز میں ~25–30 فیصد
چھوٹی صنعتوں میں مسلم کاروباریوں کا 20 فیصد حصہ
یہ تمام شعبے نہ صرف سماجی بلکہ قومی پیداوار، روزگار اور مقامی منڈیوں کی سرگرمیوں کو تقویت دیتے ہیں جب بائیکاٹ سے یہ زنجیر ٹوٹ جاتی ہے۔
مثلاً اگر کسی شہر میں مسلم پھل فروشوں کا بائیکاٹ کیا جائے تو اس سے کسان، ٹرانسپورٹر اور تاجر سب متاثر ہوتے ہیں اور معاشی سرگرمیوں کی رفتار سست پڑ جاتی ہے۔
اس کے علاوہ ایسے واقعات بھارت کی بین الاقوامی ساکھ کو بھی متاثر کرتے ہیں، جیسے ’ایز آف ڈوئنگ بزنس‘ اور ’شامل ترقی‘ کا تصور۔
معاشی بائیکاٹس کے ممکنہ نتائج
مذہب کی بنیاد پر کیے جانے والے معاشی بائیکاٹ سے ملک کی معیشت پر درج ذیل اثرات مرتب ہو سکتے ہیں:
صرف و خرچ میں کمی: مسلم برادری کی معاشی سرگرمیوں کے بائیکاٹ سے قومی معیشت کی مجموعی کھپت میں کمی آئے گی۔
آمدنی میں کمی: غیر رسمی شعبے کے کاروبار متاثر ہونے سے ملک کی مجموعی مالیت (GVA) میں گراوٹ آئے گی۔
روزگار پر اثر: غیر رسمی شعبے میں مسلمانوں کی نوکریاں متاثر ہوں گی جس سے بیروزگاری بڑھے گی۔
سماجی کشیدگی: ایسے بائیکاٹس سماجی ہم آہنگی کو متاثر کرتے ہیں۔
اقلیتوں پر منفی اثر: مسلم اقلیت کی معیارِ زندگی گِر سکتی ہے۔
سماجی نفرت اور قومی یکجہتی کو خطرہ
مذہب کی بنیاد پر کیے جانے والے بائیکاٹ محض معاشی مسئلہ نہیں بلکہ معاشرتی عدم مساوات کی ایک گہری جڑ ہیں۔ ایسے بائیکاٹ کی اپیلیں معاشرے میں نفرت، شبہات اور دشمنی کا ماحول پیدا کرتی ہیں۔ اکثر اوقات یہ ماحول پُرتشدد رخ اختیار کر لیتا ہے جیسے کہ اسکول کے بچوں کی تذلیل، عوامی سطح پر شرمندہ کرنا اور جسمانی حملے وغیرہ۔
سنہ 2022 میں کیے گئے سی ایس ڈی ایس (CSDS) کے ایک سروے کے مطابق، 35 فیصد مسلم شہریوں نے محسوس کیا کہ وہ بھارت میں خود کو ’’مکمل طور پر محفوظ‘‘ نہیں سمجھتے۔ بائیکاٹ کی مہمات اس احساس کو مزید تاریک بناتی ہیں۔
ایسا ماحول شہریوں کے درمیان عدم تحفظ کو بڑھاتا ہے جو قومی اتحاد کے لیے نہایت نقصان دہ ہے۔ ’’کثرت میں وحدت‘‘ بھارت کی روح ہے اور مذہبی بائیکاٹ اسی روح کو مجروح کرتے ہیں۔
آئینی اور قانونی دائرے میں حل
بھارتی آئین ہر شہری کو ذاتی آزادی، مساوات اور پیشے کے انتخاب کی آزادی دیتا ہے۔ مذہب کی بنیاد پر امتیاز روا رکھنا آرٹیکل 15 کی خلاف ورزی ہے۔ نیز، انڈین پینل کوڈ (IPC) کی دفعات 153A (مذہب، نسل، جائے پیدائش وغیرہ کی بنیاد پر دشمنی کو ہوا دینا) اور 505(2) (سماجی دشمنی کو ہوا دینے والے بیانات) کے تحت بائیکاٹ کی اپیلوں پر قانونی کارروائی کی جا سکتی ہے۔
اسی طرح آئین کا آرٹیکل 19(1)(g) ہر فرد کو اپنے پیشے، تجارت یا جائز کاروبار کے آزادانہ انتخاب کا حق دیتا ہے۔
بھارتیہ نیایا سنہیتا (BNS) 2023 کے تحت، مذہبی نفرت پھیلانا، دشمنی پیدا کرنا یا معاشی بائیکاٹ جیسے پُرتشدد اقدامات اپنانا فوجداری جرائم ہیں۔
لہٰذا مسلم تاجروں یا دکانداروں کا بائیکاٹ یا ان سے خریداری پر پابندی صرف غیر اعلانیہ سماجی تشدد ہی نہیں بلکہ ایک آئینی جرم بھی ہے۔
مہاراشٹر سماجی بائیکاٹ انسداد قانون، 2016
سال 2016 میں مہاراشٹر حکومت نے "مہاراشٹر پروہیبیشن آف پیپل فرام سوشل بائیکاٹ (پریوینشن، پروہیبیشن اینڈ ریڈریسل) ایکٹ” نافذ کیا۔ یہ قانون سماجی، مذہبی، ذات پات یا روایتی بنیادوں پر کسی بھی قسم کے بائیکاٹ کی سختی سے ممانعت کرتا ہے۔ اس قانون کی اہم دفعات درج ذیل ہیں:
• دفعہ 3: مذہبی رسوم، پیشہ، کھانے کی ثقافت، شادی، معاشی لین دین یا سماجی شرکت کی بنیاد پر بائیکاٹ ممنوع ہے۔
• دفعہ 6: بائیکاٹ نافذ کرنے یا اس کی ترغیب دینے والے کو تین سال قید اور جرمانہ ہو سکتا ہے۔
• دفعہ 8: اس قانون کے تحت جرائم ناقابل ضمانت اور سنگین نوعیت کے شمار ہوتے ہیں۔
• دفعہ 10: متاثرین براہ راست پولیس یا ضلع افسران کو شکایت درج کر سکتے ہیں اور مقدمات خصوصی عدالتوں میں چلائے جاتے ہیں۔
یہ قانون نہ صرف بائیکاٹ نافذ کرنے والوں کو سزا دیتا ہے بلکہ سماجی ہم آہنگی کو بھی یقینی بناتا ہے۔ جب مسلم دکاندار، مزدور، ڈرائیور یا طلبہ مذہبی شناخت کی بنیاد پر بائیکاٹ کا شکار ہوتے ہیں تو یہ قانون ایک حفاظتی ڈھال بن کر سامنے آتا ہے۔
یہ قانون اس وقت مؤثر ثابت ہو سکتا ہے اگر:
• پولیس نظام مستعد ہو؛
• متاثرہ شہریوں کو قانون کا علم ہو؛
• انصاف تک رسائی کو آسان بنایا جائے۔
اس کے مؤثر نفاذ کے لیے مقامی سطح پر بیداری اور انتظامی چوکسی ضروری ہے۔ ساتھ ہی قومی انسانی حقوق کمیشن (NHRC) اور اقلیتی کمیشن کو ایسے واقعات پر نظر رکھنی چاہیے اور کارروائی کرنی چاہیے۔ ہر باشعور شہری کو سماجی بھائی چارہ، آئینی اقدار اور اجتماعی شعور کی میراث کے تحفظ کے لیے مستعد رہنا چاہیے۔ سماجی کارکنوں، وکلاء، بلدی اداروں اور صحافیوں کو اس موضوع پر بیداری مہم چلانی چاہیے۔
بین الاقوامی اثرات اور بھارت کی شبیہ
بھارت عالمی سطح پر ایک جمہوری، پرامن اور ہم آہنگ معاشرے کے طور پر جانا جاتا ہے۔ مگر اس طرح کے واقعات بھارت کی بین الاقوامی ساکھ کو داغدار کرتے ہیں۔
یونائیٹڈ اسٹیٹس کمیشن آن انٹرنیشنل ریلیجیس فریڈم (USCIRF) نے اپنی 2023 کی رپورٹ میں بھارت میں اقلیتوں پر بڑھتے ہوئے حملوں پر تشویش ظاہر کی۔ اس رپورٹ کو دی گارڈین، بی بی سی، الجزیرہ جیسے عالمی ذرائع ابلاغ نے اجاگر کیا۔ مذہبی بائیکاٹ ایسے الزامات کو تقویت دیتے ہیں اور تجارتی مراعات جیسے جنرلائزڈ سسٹم آف پریفرینس (GSP) جیسے اسکیموں میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔
یورپی یونین کے تجارتی معاہدے انسانی حقوق کی شرائط سے مشروط ہیں اور ایسے بائیکاٹ بھارت کے تجارتی سودوں کو متاثر کر سکتے ہیں۔
علاوہ ازیں، خلیجی ممالک کی متعدد بین الاقوامی کمپنیاں اور سرمایہ کار بھارت سے اپنا سرمایہ نکالنے کا سوچ سکتے ہیں۔ 2020 میں جب کچھ بھارتی سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر اسلام مخالف بیانات اور ‘بائیکاٹ مسلمس’ جیسے ہیش ٹیگ چلائے گئے تو خلیجی ممالک نے سخت رد عمل دیا۔ کویت، قطر اور یو اے ای کی مارکیٹوں میں بھارتی مصنوعات کو نشانہ بنایا گیا۔
ایسے ماحول میں بھارت کی قدروں پر مبنی جمہوری شناخت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کار اقلیتوں کے لیے ماحول کا جائزہ لیتے ہیں۔ اگر بھارت ’’ہیومن رائٹس ڈیوڈیلیجنس‘‘ کے پیمانوں پر پورا نہ اترا تو سرمایہ کاری رک سکتی ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کی ’’ورلڈ رپورٹ 2025‘‘ نے بھارت میں انسانی حقوق کی صورتِ حال پر تشویش ظاہر کی جس میں اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں پر تشدد، قوم پرستانہ بیانیے اور امتیازی پالیسیوں کا ذکر کیا گیا۔ مذہبی بائیکاٹ بھارت کی بین الاقوامی ساکھ کو مزید نقصان پہنچا سکتے ہیں جس سے تجارت اور سرمایہ کاری متاثر ہو سکتی ہے۔
امریکہ میں بھی "اقتصادی بلیک آؤٹ” جیسی بائیکاٹ مہمات سامنے آ رہی ہیں جو عوامی برہمی کو ظاہر کرتی ہیں۔ اگرچہ یہ مہمات بھارتی تناظر سے مختلف ہیں مگر دنیا بھر میں بائیکاٹ کو احتجاج کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے جو بالواسطہ طور پر بھارت پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے۔
بائیکاٹ نہیں، مکالمہ وقت کی ضرورت
جب کوئی مذہب کی بنیاد پر بائیکاٹ کرتا ہے تو وہ صرف کسی فرد یا برادری کو نشانہ نہیں بناتا بلکہ درحقیقت بھارتی آئین کو رد کرتا ہے۔ یہ بھارت کی خوشحالی، مساوات، معاشی ترقی اور عالمی وقار پر حملہ ہے۔
ایسے واقعات کے انسداد کے لیے قانونی اقدامات موجود ہیں، لیکن ان سے بڑھ کر ضروری ہے کہ عوامی شعور کو بیدار کیا جائے۔ شہریوں کو سمجھنا ہوگا کہ بائیکاٹ کی اپیلیں دوسروں کو ہی نہیں، بلکہ ہمیں معاشی و اخلاقی طور پر بھی کمزور کرتی ہیں۔
مذہبی بائیکاٹ صرف ایک برادری کو متاثر نہیں کرتے بلکہ پوری قوم کے معاشی، سماجی اور قومی مفادات کو خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔ اگر ہم باہمی بقا، مکالمے اور مفاہمت کی روایت کو ترک کر دیں تو اس کے اثرات صرف حال پر نہیں بلکہ آنے والی نسلوں پر بھی تباہ کن ہوں گے۔
غیر منظم شعبہ خاص طور پر مسلم برادری بھارت کی سماجی و معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ مذہب کی بنیاد پر معاشی بائیکاٹ اقلیتوں کے لیے ہی نہیں بلکہ پوری قوم کی معیشت اور سماجی ہم آہنگی کے لیے خطرناک ہے۔ اس لیے تمام طبقات کی شرکت کو یقینی بنانا لازم ہے۔
ہمارا آئین ہر شہری کو مذہب، پیشے اور اظہارِ رائے کی آزادی دیتا ہے۔ جو لوگ یہ حقوق چھیننا چاہتے ہیں وہ نہ صرف قانوناً مجرم ہیں بلکہ اخلاقی طور پر بھی ناکام۔
آئی پی سی کی دفعہ 153A مذہب کی بنیاد پر دشمنی کو سنگین جرم قرار دیتی ہے۔ دفعہ 295A مذہبی جذبات کو مجروح کرنے اور دفعہ 505 نفرت انگیز یا جھوٹے بیانات دینے والوں کو سزا دیتی ہے۔
ایسے میں جب سوشل میڈیا پر کسی مخصوص برادری کے خلاف بائیکاٹ کی اپیل کی جاتی ہے تو یہ نہ صرف سماجی ناانصافی ہے بلکہ قابلِ سزا جرم بھی ہے۔ پولیس اور انتظامیہ کو ایسی حرکات پر فوری اور سخت کارروائی کرنی چاہیے۔ صرف "مشورہ” دینا یا یہ کہنا کہ "تحقیقات جاری ہیں” انصاف کے نظام کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔
ساتھ ہی نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن، اقلیتی کمیشن اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کو اس مسئلے کے حل کے لیے سرگرم کردار ادا کرنا ہوگا۔ ان اداروں کو مقامی واقعات پر نظر رکھنی چاہیے، حکومت کو رپورٹیں پیش کرنی چاہییں، میڈیا کے ذریعے بیداری پیدا کرنی چاہیے اور متاثرین کو قانونی امداد فراہم کرنی چاہیے۔
تعلیم، میڈیا اور بیداری کا کردار
مذہب کی بنیاد پر بائیکاٹ کے خلاف لڑائی صرف قانونی نہیں بلکہ ذہنی تبدیلی کی بھی متقاضی ہے۔ اس تبدیلی کے لیے تعلیمی ادارے، میڈیا اور سماجی رہنما مؤثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اسکولوں اور کالجوں میں آئینی اقدار پر مبنی بیداری پروگرامس چلائے جائیں، نصاب میں تنوع کے احترام کو شامل کیا جائے اور ایسی کہانیاں و فلمیں دکھائی جائیں جو سماجی ہم آہنگی کو فروغ دیں۔
میڈیا کو صرف "غیر جانبداری” کے نام پر خاموش تماشائی بننے کے بجائے انصاف کا ساتھ دینا چاہیے۔ جب میڈیا محض غیر جانبداری کا دعویٰ کرتا ہے تو ناانصافی بڑھتی ہے۔ میڈیا کو بائیکاٹ سے متاثرہ شہریوں کی کہانیاں اجاگر کرنی چاہئیں، سماجی ہم آہنگی پر مبنی پروگرام تیار کرنے چاہئیں اور نفرت سے پاک مکالمے کے لیے پلیٹ فارم مہیا کرنے چاہئیں۔
اب وقت آ گیا ہے کہ ہر شہری سوچے کہ ہم اپنے عمل سے کیسا بھارت بنا رہے ہیں۔ تعصب سے بھرا ہوا زہریلا بھارت یا ’’وحدت میں کثرت‘‘ کی خوشبو سے مہکتا ہوا بھارت؟ مذہبی بائیکاٹ کی مخالفت اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی بات ہی نہیں بلکہ ہمارے آئینی اقدار کے دفاع کا تقاضا بھی ہے۔ اس لیے بطورِ قوم، ہمیں ان عناصر کو روکنا ہوگا جو ’’معاشی بائیکاٹ‘‘ کے نام پر سماجی دراڑیں پیدا کر رہے ہیں۔ یہی بھارت کی قومی یکجہتی کے تحفظ کا اصل راستہ ہے۔
(بشکریہ : انڈیا ٹومارو ڈاٹ نیٹ)

 

***

 آئینی اور قانونی تحفظات
آرٹیکل 15 مذہبی بنیاد پر امتیاز کی ممانعت کرتا ہے۔
آرٹیکل 19(1)(g) ہر شہری کو پیشہ، تجارت یا کاروبار کے انتخاب کی آزادی دیتا ہے۔
آئی پی سی کی دفعات 153A، 295A اور 505 مذہبی منافرت اور اشتعال انگیزی کو جرم قرار دیتی ہیں۔
مہاراشٹر سوشل بائیکاٹ ایکٹ 2016 سماجی بائیکاٹ کو ناقابل ضمانت جرم قرار دیتا ہے۔
ایسی مہمات سے ہندوستان کی عالمی شبیہ متاثر ہوتی ہے۔ USCIRF، یورپی یونین اور GCC ممالک نے ان معاملات پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اس کا اثر غیر ملکی سرمایہ کاری اور تجارتی معاہدوں پر بھی پڑ سکتا ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 18 مئی تا 24 مئی 2025