تبدیلی مذہب کا ہوّا : ملک کی اقلیتوں کو خوف زدہ کرنے کی کوشش

دلت طبقہ ذات پات کے نظام اور غیر انسانی سلوک سے دل برداشتہ

نور اللہ جاوید، کولکاتا

75 برس بعد بھی دستوری حقوق سے محرومی۔ زمینی حقائق، اسباب و عوامل بیک نظر
’’تبدیلی مذہب‘‘ سماجی پیچیدگی اور جذباتی مسئلہ رہا ہے۔ گاندھی جیسے عظیم قومی رہنما اور سماجی مصلح بھی تبدیلی مذہب کے مسئلے کو شخصی آزادی، شخصی وقار، عزت نفس کے تحفظ اور سماجی پس منظر کے تناظر میں دیکھنے کے بجائے مذہبی جذبات کی رو میں بہہ گئے اور پونا پیکٹ 1932 کے خلاف بھوک ہڑتال کی۔ بابا صاحب امبیڈکر جن کی زندگی کا مشن ہی دلتوں اور پسماندہ طبقات کا باوقار زندگی فراہم کرنا تھا اس سے دلبرداشتہ ہو گئے اور اس نتیجے پر پہنچنے پر مجبور ہوئے تھے کہ دلتوں کی آزادی ہندو مذہب کو ترک کرنے میں ہی ہے۔ چناں چہ امبیڈکر نے 14 اکتوبر 1956 کو ناگپور میں اپنے لاکھوں پیروکاروں کے ساتھ عظیم الشان ’’دیکشا تقریب‘‘ میں بدھ مت قبول کرلیا تھا۔ امبیڈکر کا یہ قدم جذباتی اور کسی وقتی ہنگامہ آرائی کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ دلتوں کی زندگی کی حقیقتوں کے طویل، سنجیدہ مطالعہ اور غور وفکر کے بعد ہی انہوں نے یہ نپا تلا قدم اٹھایا تھا۔ امبیڈکر جیسے عظیم مفکر اور سماجی رہنما سے یہ امید نہیں کی جا سکتی کہ وہ جذبات کی رو میں بہہ کر کوئی ایسا قدم اٹھائیں گے جو دلتوں کی زندگی کو بہتر نہ بنا سکے۔ مگر سوال یہ ہے کہ آخر وہ کون سے حالات تھے کہ امبیڈکر کو اتنا بڑا قدم اٹھانا پڑا۔ امبیڈکر کی سوانح حیات لکھنے والے اس بات پر متفق ہیں کہ ’صدیوں سے دلتوں کے جبرو استحصال اور اصلاح پسندوں کے اصل مسائل سے چشم پوشی کے رویے سے امبیڈکر مایوس تھے۔رہی سہی کسر پونے پیکٹ کو لے کر گاندھی جی کے اٹل رویے نے پوری کردی۔ امبیڈکر دلتوں کے سب سے مقبول لیڈر ہی نہیں بلکہ نجات دہندہ کے طور پر ابھر رہے تھے مگر گاندھی جی اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھے کہ امبیڈکر دلتوں کے متفقہ لیڈر ہیں۔ امبیڈکر کی شدید کوششوں کے بعد برطانوی حکومت 1932 میں کمیونل ایوارڈ کے تحت دلتوں کے لیے علیحدہ نمائندگی کے لیے راضی ہوئی تھی۔ تاہم گاندھی جی کے انشن کی وجہ سے امبیڈکر کو مشترکہ رائے دہندگان پر مجبور ہونا پڑا اور کچھ حلقے دلتوں کے لیے مخصوص کر دیے گئے۔ اس کے علاوہ امبیڈکر کی تحریک کے مقابلے میں گاندھی نے ’ہریجن تحریک‘ شروع کی۔ یہ وہ عوامل ہیں جن کی وجہ سے امبیڈکر اتنا بڑا قدم اٹھانے پر مجبور ہوئے کہ ان کے پاس ہندو مذہب سے اپنی وابستگی ختم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا تھا۔ 1936 میں بمبئی میں مہاروں کے ایک کنونشن میں انہوں نے پہلی مرتبہ ہندو مذہب اور اس کی رسومات کو ترک کرنے کی اپیل کی تھی جب کہ اس سے پہلے تک وہ ہندو مذہب میں بنیادی حقوق اور یکساں سلوک کے حصول کی کوشش کرتے تھے۔
المیہ یہ ہے کہ ملک کی سیاسی جماعتیں امبیڈکر کی وراثت پر قبضہ کرنے اور دلتوں میں قدم جمانے کی کوششیں تو کرتی ہیں مگر دلتوں کے بنیادی مسائل، انہیں سماجی انصاف فراہم کرنے اور ان کی عزت نفس کو بحال کرنے کے لیے ہمہ جہتی اقدامات کرنے سے گریز بھی کرتی رہی ہیں۔ چناں چہ اپنی ناکامی اور غلط پالیسیوں کو چھپانے اور دلتوں کو مطمئن کرنے کے لیے ایک خاص حکمت عملی کے تحت ’’تبدیلی مذہب‘‘ کا ہوا کھڑا کر دیا گیا جس کا واضح مقصد یہ ہے کہ اس کے ذریعہ ملک کی اقلیت بالخصوص مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف نفرت انگیز ماحول پیدا ہو۔ بی جے پی اور آر ایس ایس جیسی ہندوتوادی سیاسی اور نام نہاد ثقافتی تنظیمیں، بزعم خویش قوم پرست ہونے کا دعویٰ تو کرتی ہیں مگر یہ بھول جاتی ہیں کہ امبیڈکر نے ذات پات کی تفریق اور دلتوں کے ساتھ غیر مساویانہ سلوک سے دل برداشہ ہو کر مذہب تبدیل کیا تھا۔ وہ کسی لالچ اور فریب کا شکار نہیں ہوئے تھے۔ ان کے اجتماعی تبدیلی مذہب کے واقعہ کو 70 سال گزرنے کو ہیں مگر نصف صدی سے زائد عرصے میں بھی سماجی ناہمواریوں اور غیر انسانی سلوک کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔
تاریخ اور سیاست کا ابتدائی علم رکھنے والے اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ ذات پات کے نظام کو ہندو مذہب کی سرپرستی حاصل ہے، اچھوت، تفریق اور غیر مساویانہ رویہ ہندو سماج کی رواج کی جڑ میں پیوست ہے اور دلتوں کے ساتھ غیر انسانی امتیاز کو جواز فراہم کیا جاتا رہا ہے۔دلتوں، قبائلیوں اور سماج کے دیگر پسماندہ افراد کی ناراضگی کی یہی وجوہات ہیں۔ سوامی ویویکانند جیسے ہندو احیا پسند شخصیت نے اعتراف کیا ہے کہ سورنوں کے غیر انسانی سلوک کی وجہ سے دلتوں اور قبائلیوں نے اسلام اور دیگر مذاہب کو قبول کیا ہے۔ خود امبیڈکر نے تبدیلی مذہب کی وجہ ساورنوں کا ظلم و تشدد، زیادتی اور ناانصافی بتائی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ سورنوں نے اپنے رویے میں آج تک بھی کوئی تبدیلی نہیں لائی ہے۔ نوآبادیاتی دور میں اپنی خفت مٹانے کے لیے ’’شدھی تحریک‘‘ شروع کی تھی اور اب آزاد بھارت میں ’’گھر واپسی‘‘ جیسی مہم چلائی جارہی ہے۔ مضحکہ خیز دعوے کیے جا رہے ہیں کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کی زندگی کا مشن ہی ہندوؤں کو مسلمان بنانا ہے اور بہت جلد ہی ملک کی اقلیتیں اکثریت پر غالب آجائیں گی۔ ان پروپیگنڈوں کو حکمرانوں کی حمایت حاصل ہے۔ دلتوں کی مذہب تبدیلی اور گھر واپسی جیسے غیر ضروری ایشوز ملک کو درپیش بنیادی سماجی و اقتصادی مسائل کو حل کرنے میں ان کی ناکامیوں پر پردہ ڈال دیتے ہیں۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ عوام تو عوام ملک کی عدالتیں بھی اس طرح کے پروپیگنڈے سے متاثر ہو رہی ہیں جس کا ثبوت اس ہفتے سپریم کورٹ کا ’’تبدیلی مذہب‘‘ سے متعلق مفاد عامہ کی درخواست (جو بی جے پی کے ایک لیڈر نے دائر کی تھی) کی سماعت کے دوران تبصرہ ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ ’’زبردستی مذہب کی تبدیلی بہت خطرناک ہے، یہ قوم کی سلامتی کے ساتھ ساتھ شہریوں کی مذہبی اور ضمیر کی آزادی کو متاثر کرنے والے ہیں‘‘ بنچ نے حکومت پر زور دیا کہ وہ جواب دے کہ مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتوں نے اس طرح کے ’’زبردستی تبدیلی مذہب‘‘ کے واقعات کو روکنے کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں اور مزید کیا اقدامات کیے جاسکتے ہیں؟ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے یہ غیر معمولی تبصرے یہ تاثر دیتے ہیں کہ ’’زبردستی تبدیلی مذہب‘‘ کے واقعات ملک میں ہر روز اور کسی نہ کسی حصے میں رونما ہو رہے ہیں۔ صورت حال سنگین تر ہو چکی ہے اور اس پر توجہ نہیں دی گئی تو حالات مزید خراب ہو جائیں گے۔مگر سوال یہ ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے یہ غیر معمولی تبصرے اور یہ تاثرات کن بنیادوں پر قائم کیے گئے ہیں؟ کیا عرضی گزار نے عدالت کے سامنے زمینی حقائق اور اعداد وشمار پیش کیے تھے جو بادی النظر میں ہی ایک بڑے خطرے اور سازش کی طرف اشارہ کرتے ہوں؟ عدالت نے اپنے اس تبصرے کے بین السطور یہ بھی اشارہ دیا ہے کہ موجود قوانین ’’زبردستی تبدیلی مذہب‘‘ کے واقعات کو روکنے میں ناکام ہیں، اس لیے مزید سخت قوانین اور اقدامات کی ضرورت ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا واقعی صورت حال یہی ہے؟ کیا تبدیلی مذہب کے واقعات کی وجہ سے مسلمانوں اور عیسائیوں کی آبادی کے ڈیموگرافی میں تبدیل ہو رہی ہے؟ کیا یہ مفروضے اور پروپیگنڈے اور نفسیاتی خوف کی بنیادوں پر تو قائم نہیں کیے جا رہے ہیں؟ یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کہ تبدیلی مذاہب کے خلاف پروپیگنڈا کرنے والوں کی تھیوری ہے کہ عیسائی مشنریاں اور مسلمانوں کے تبلیغی ادارے اپنے رفاہی کاموں کے ذریعہ دلت، قبائلی اور دیہی علاقوں میں آباد پسماندہ افراد کی مدد اور لالچ دے کر لوگوں کے مذہب کو تبدیل کر رہے ہیں۔ اس کا مقصد آبادی میں اضافہ کر کے ملک کے اقتدار اعلیٰ پر اثر انداز ہونا ہے۔ اس کی وجہ سے نہ صرف ہندو خطرے میں ہیں بلکہ ملک کی سلامتی بھی خطرے میں ہے۔ سپریم کورٹ کا تبصرہ اور ریمارکس انہیں مفروضوں پر قائم ہے۔ ملک کی اعلیٰ عدلیہ کی حیثیت سے جج صاحبان عرضی گزار سے سوال کر سکتے تھے کہ یہ عرضی صرف مفروضوں پر دائر کی گئی ہے یا یہ زمینی حقائق پر مبنی ہے؟ یہ سوال کیا جانا چاہیے تھا کہ آخر ملک میں زبردستی تبدیلی مذہب کے واقعات کہاں رونما ہوتے ہیں۔ کیا جبراً تبدیلی مذہب کے الزام میں گرفتار شدہ افراد میں سے کسی ایک کو بھی سزا ہوئی ہے؟ جب کہ چند ریاستوں کو چھوڑ کر اس وقت ملک کی بیشتر ریاستوں میں جبری تبدیلی مذہب کے خلاف سخت قوانین نافذ ہیں۔ کئی ریاستوں میں آرٹیکل 25 کی پروا کیے بغیر انفرادی طور پر مذہب تبدیل کرنے والوں کو پابند بنایا گیا ہے کہ وہ مذہب تبدیل کرنے سے قبل مجسٹریٹ کو عرضی دیں اور مطمئن کریں کہ وہ کیوں مذہب تبدیل کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ شرطیں اقوام متحدہ کے چارٹر کے بھی خلاف ہیں۔علاوہ ازیں ہندوتوا اور دائیں بازوں کی تنظیمیں ملک کے چپہ چپہ میں سرگرم ہیں رفاہی اور مشنری اداروں کی نگرانی کرتی ہیں، ان کے خلاف بے بنیاد شکایات اور الزامات عائد کر کے دباو میں رکھتی ہیں۔ کیا اس صورت حال میں کوئی ادارہ جبراً یا پھر لالچ دے کر تبدیلی مذہب کرواسکتا ہے؟
دائیں بازو کی حساسیت کا اندازہ اس لیے لگایا جا سکتا ہے کہ ملک میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنے والی غیر ملکی کمپنی امیزون کے خلاف آر ایس ایس نے مورچہ کھول رکھا ہے۔ گزشتہ سال اکتوبر میں آر ایس ایس کے ہندی اخبار پنچ جنیہ میں امیزون کو بھارت کے لیے بڑا خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ یہ کمپنی ملک کے لیے ’’ایسٹ انڈیا 2‘‘ ثابت ہونے والی ہے۔ اب آر ایس ایس کے انگریزی اخبار آرگنائزر نے اپنی کور اسٹوری میں الزام لگایا ہے کہ امیزون شمال مشرقی ریاستوں میں تبدیلی مذہب کے لیے سرگرم عیسائی مشنریوں کی مالی مدد کر رہی ہے۔ آرگنائزر کی یہ پوری اسٹوری مفروضے اور صرف زبانی دعوؤں پر مبنی ہے۔ پہلے یہ دعویٰ کیا جاتا تھا کہ چھتیس گڑھ، جھارکھنڈ، بہار، اڑیسہ اور بنگال کے قبائلی علاقے میں مشنریاں ہندوؤں کو عیسائی بنارہی ہیں اب شمالی مشرقی ریاستوں سے متعلق اس طرح کے دعوے کیے جا رہے ہیں۔ پروپیگنڈے کا ہی نتیجہ ہے کہ ’نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو‘ کی رپورٹ کے مطابق 2021 میں مشنریوں، ادارے اور عیسائیوں پر حملوں کے 300 واقعات رونما ہوئے ہیں۔ امیزون پر حملہ کرنے کے مقاصد کیا ہیں؟ کیا واقعی امیزون ایسے مشنری اداروں کی مدد کر رہی ہے جن پر مذہب تبدیل کروانے کے الزامات ہیں؟ امیزون پر الزامات ایسے وقت لگائے گئے ہیں جب کمپنی نے اپنی آمدنی کا نصف سے زائد حصہ دنیا بھر میں فلاحی کاموں میں خرچ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ امیزون کے خلاف جارحانہ تنقید سے ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری پر کیا اثرات مرتب ہوں گے اس سوال کی پروا کیے بغیر صرف مفروضوں کی بنیاد پر ہزاروں کروڑ روپے کی سرمایہ کاری، لاکھوں افراد کو روزگار فراہم کرنے والی کمپنی کے خلاف مورچہ بندی کی گئی ہے اور فلاحی ادارے جو سالوں سے دیہی علاقوں میں صحت، تعلیم اور دیگر سہولیات سے محروم افراد کے درمیان کام کر رہے ہیں ان کے خلاف حکومت کے ذریعہ شکنجا کسا گیا ہے جس سے ظاہر ہے کہ دائیں بازو کے اداروں کی جارحانہ سرگرمی کے بیچ جبراً تبدیلی مذہب کے واقعات کا رونما ہونا ممکن نہیں ہے۔ اس کے برعکس دائیں بازو کی ہندو انتہاپسند وشوا ہندو پریشد، بجرنگ دل، ہندو یووا واہنی، ہندو جاگرن منچ جیسی جماعتیں ’’گھر واپسی‘‘ کے نام پر غریب اور پسماندگی کے شکار عیسائی اور مسلمانوں کو ہندو بنانے کے لیے نہ صرف کام کر رہی ہیں بلکہ جبراً تبدیلی کے واقعات بھی سامنے آتے رہتے ہیں اور ان واقعات کا میڈیا فخریہ انداز میں تشہیر بھی کرتا ہے۔
مذہب اور بھارت کا آئین
بھارت کے آئین میں مذہب، ضمیر اور فکر کی آزادی کو بنیادی حقوق میں تسلیم کیا گیا ہے۔آئین کا آرٹیکل 25 کہتا ہے کہ ’’تمام افراد کو ضمیر کی آزادی اور آزادی کے ساتھ مذہب کو اختیار کرنے ، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کا حق حاصل ہے۔ آئین یہ واضح کرتا ہے کہ تمام شہری ضمیر کی آزادی کے یکساں حق دار ہیں اور انہیں آزادی سے مذہب کا دعویٰ کرنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کا حق حاصل ہے۔آرٹیکل 27۔ آرٹیکل 28، مذہبی تعلیم یا تعلیمی اداروں کے قیام کی اجازت دیتا ہے۔یہ آرٹیکل بھارت کے آئین کی جامعیت اور سیکولر کردار کا جامع نمونہ ہے ۔انہی بنیادوں پر ہمارا ملک یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ پوری دنیا میں سب سے الگ ہے جہاں تنوع میں اتحاد ہے ،جہاں ہر ایک کو یکساں حقوق اور مواقع حاصل ہیں ۔مگر المیہ دیکھیے کہ آئین نافذ ہونے کے محض دو سال بعد ہی مذہبی آزادی پر لگام کسنے کی کوششیں شروع ہوگئیں ۔1954میں تبدیلی مذہب کے خلاف’’ انڈین کنورژن ریگولیشن اینڈ رجسٹریشن بل پیش کیا گیا ۔مگر یہ بل پاس نہیں ہوسکا تو محض چھ سال بعد پھر ’’پسماندہ کمیونٹیز مذہبی تحفظ بل‘‘ پیش کیا گیا۔ان دونوں بلوں کو پارلیمنٹ کی اکثریت کی حمایت حاصل تھی مگر وزیر اعظم پنڈت نہرو کی سیاسی بصیرت کی وجہ یہ دونوں بل پاس نہیں ہوسکے ۔نہرو نے ترقی پسند فرد ہونے کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرتے ہوئے دلیل پیش کی کہ یہ قوانین جبراً تبدیلی مذہب کے واقعات کو روکنے میں زیادہ معاون ثابت نہیں ہونے والے ہیں بلکہ ان قوانین کے نام پر لوگوں کو ہراساں کرنے کے مواقع پیدا ہوں گے اور ان قوانین کے غلط استعمال کے امکانات زیادہ ہیں ۔نہرو نے یہ بھی کہا تھا کہ زبردستی اور دھوکہ دہی کے ذریعہ مذہب تبدیل کرنے کے الزامات کو ثابت کرنا بہت ہی مشکل ہے ۔وہ بھی اس صورت میں جب مذہب تبدیل کرنے والا یہ اعتراف کرے کہ اس نے اپنی رضا و رغبت سے مذہب تبدیل کیا ہے۔ یہ تجویز کرنا کہ عقیدہ کی تبلیغ کے لیے لائسنس کا نظام ہونا چاہیے، مناسب نہیں۔ اس کے نتیجے میں پولیس کو مذہبی معاملات اور نظر و فکر کی آزادی میں مداخلت کے اختیارات مل جائیں گے۔نہرو نے یاد دلایا کہ ملک کے ہر ایک شہری کے فکر و نظر کی آزادی، ضمیر کی آزادی اور عقیدے کی آزادی کو متاثر کرنے کی ہر کوشش ملک کی سالمیت اور یکجہتی کےلیے نقصان دہ ثابت ہوگی اوریہ ملک کے حق میں مفید ثابت نہیں ہوگی۔
مرکزی سطح پر تبدیلی مذہب کو روکنے کے لیے قانون سازی میں ناکامی کے بعدتبدیلی مذہب مخالف قوانین کو ریاستی سطح پر نافذ کرنے کی کوشش شروع کردی گئی ۔اس سمت میں پہلی کامیابی 1967 میں ملی۔ اڈیشہ کی دائیں بازو کی سواتنتر پارٹی کی حکومت تبدیلی مذہب کے خلاف قانون سازی کرنے والی پہلی ریاست بن گئی۔ مدھیہ پردیش نے اس کے اگلے ہی سال تبدیلی مذہب کے خلاف قانون سازی کی ۔ گجرات اور ہماچل پردیش نے بھی اسی طرح کی قانون سازی کی۔ جب ریاست کی تقسیم ہوئی تو چھتیس گڑھ کو مدھیہ پردیش کا یہ قانون اس کے ورثے میں مل گیا ۔ان قوانین کو مختلف عدالتوں میں چیلنج کیا گیا۔بالآخر یہ مقدمہ سپریم کورٹ پہنچا۔سپریم کورٹ نے1977میں سٹینسلاس بمقابلہ ریاست مدھیہ پردیش میں فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ تبدیلی مذہب فی نفسہ، آرٹیکل 25 کے تحت بنیادی حق کے تحت شامل نہیں ہے اور اسے ریاست کے ذریعے محدودکیا جا سکتا ہے۔ یہ سپریم کورٹ کا یک طرفہ مایوس کن موقف تھا۔اس فیصلے میں سپریم کورٹ نے عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کے ذریعہ طے کردہ اصولوں کو نہ صرف نظرانداز کیا گیا بلکہ بھارت میں ذات پات کی تفریق اور اس کی سماجی وجوہات کو بھی نظر انداز کردیا گیا تھا۔امبیڈکرسماجی وجوہات اور ہندو مذہب میں رائج رواجوں کی بنیاد پر ہی تبدیلی مذہب کی وکالت کرتے تھے۔ یہ ستم ظریفی ہے کہ امبیڈکر کو نوآبادیاتی بھارت میں تبدیلی مذہب کی وکالت کرنے کی آزادی تھی اگر آج امبیڈکر زندہ ہوتے اور وہ تبدیلی مذہب کی وکالت کرتے تو وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوتے۔
سپریم کورٹ کے ذریعہ مذہبی آزادی کے قوانین میں مداخلت کا لائسنس مل جانے کے بعد تبدیلی مذہب کے خلاف قانون سازی کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا۔: (1) اڈیشہ (1967) (2) مدھیہ پردیش (1968) (3) اروناچل پردیش (1978) (4)چھتیس گڑھ (2000 اور 2006) (5) گجرات (2003) (6) ہماچل پردیش (2006 اور 2019)، (7) جھارکھنڈ (2017) اور (8) اتراکھنڈ (2018) میں تبدیلی مذہب کے خلاف قوانین بنائے گئے۔تمل ناڈو میں 2020اور راجستھان میں2006-2008میں قانون کو صدر جمہوریہ کی منظوری مل چکی ہے-
ساؤتھ ایشیا ہیومن رائٹس ڈاکیومینٹیشن سنٹر EPW میں اپنے خصوصی مضمون ان قوانین کا تجزیہ پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ تمام ریاستی قوانین نمایاں طور پر ایک جیسے ہی ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی قانون براہ راست تبدیلی مذہب پر پابندی نہیں لگاتا بلکہ ’زبردستی، رغبت، لالچ یا دھوکہ دہی‘ کے ذریعہ تبدیلی مذہب پر روک لگانے کی بات کرتا ہے مگر دھوکہ دہی، جبراً تبدیلی مذہب کی جامع تعبیر و تشریح سے گریز کیا گیا ہے۔ ریاستوں نے الگ الگ تعبیر و تشریح کی ہے۔اس مضمون میں لکھا گیا ہے کہ’’ متضاد طور پرمذہب کی آزادی ایکٹ کہا جاتا ہے۔ عقیدے کو قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے جیسی آسان اور نجی چیز اب ممکنہ طور پر تبدیل کرنے والوں کو ایک پیچیدہ بیوروکریٹک عمل سے گزرنا لازمی ہے۔ انہیں اب ضلع مجسٹریٹس کو پیشگی نوٹس دینا ہوگا جس میں اس طرح کی تبدیلی کے پیچھے ’اصل ارادے‘ کی وضاحت کرنی ہوگی۔ ثابت کرنے کا بوجھ اس شخص پر ہے جو مذہب تبدیل کرنا چاہتا ہے۔’’زبردستی‘‘ کا الزام عائد کرنے والوں کو کھلی چھوٹ ہے کہ وہ جس کے خلاف چاہیں الزام عائد کردیں ۔مدھیہ پردیش فریڈم آف ریلیجن ایکٹ کے مطابق کسی شخص کو اپنا عقیدہ بدلنے کے لیے ریاستی انتظامیہ کی اجازت حاصل کرنا ہوگا۔اسی طرح گجرات میں بھی تبدیلی مذہب کےلیے مجسٹریٹ سے اجازت کا لزوم عائد کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ شرائط نہ صرف شخصی آزادی پر حملہ ہیں بلکہ ہندوتوا طاقتوں کو بے لگام اختیارات فراہم کرتے ہیں کہ وہ اس قانون کی آڑ میں اپنے ایجنڈے کو نافذ کر سکیں۔
ان دنوں حکومت کا خیال ہے کہ شہریوں کو اپنے خیالات رکھنے اور عقائد یا نظریات کو اپنانے کے لیے حکومت کی اجازت کی ضرورت ہے جو ایک انتہائی پریشان کن رجحان ہے جو ملک کی ترقی پسندی کے تابوت میں ایک بڑا کیل ٹھونکنے کے مترادف ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہماچل پردیش اور اروناچل پردیش میں قوانین کانگریس کی حکومتوں نے نافذ کیے ہیں، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت کی دو بڑی پارٹیوں کا رویہ اس معاملے میں کس طرح یکساں ہیں ۔
اس حقیقت کو بھی نظر انداز کردیا گیا ہے ملک میں بڑے پیمانے پر تبدیلی مذہب کے واقعات نایاب ہیں۔ 1956 میں بی آر امبیڈکر اور تین لاکھ سے زیادہ ان کے پیروکاروں نے، جن میں زیادہ تر دلت تھے، ان کا بدھ مت اختیار کرنا اور 1982 میں تمل ناڈو کے گاوں میناکشی پورم میں 180 دلت خاندانوں کے قبول اسلام کا واقعہ اصلاً سماجی امتیاز کے خلاف احتجاج تھا۔ میناکشی پورم میں تبدیلی مذہب کے اجتماعی واقعے کی رپورٹنگ کرنے والے مشہور صحافی سعید نقوی نے اپنی سوانح حیات”Being the Other: The Muslim in India”میں لکھا ہے کہ اچھے خاصے تعلیم یافتہ افراد بھی یقین رکھتے ہیں کہ تبدیلی مذہب کے اس طرح کے واقعات کے پیچھےامدادی تنظیموں کا ہاتھ ہوتا ہے۔انہوں نے سوال کیا کہ جب کبھی تبدیلی مذہب کا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو اتنا واویلاکیوں مچایا جاتا ہے۔اس کا بنیادی سبب عیاری اور بے اصول سیاسی چالبازیاں ہیں ۔ہندو لیڈر تبدیلی مذہب کے ہرواقعہ پر آسمان سرپر اٹھالیتے ہیں لیکن تبدیلی مذہب کی پشت کار کارفرمااسباب کو صفائی سے چھپالیتے ہیں۔
کیا تبدیلی مذہب کی وجہ سے عیسائیوں اور مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے؟
تبدیلی مذہب کے نام پر پروپیگنڈا کرنے والوں کی یہ تھیوری ہے کہ امدادی اور فلاحی کاموں کے ذریعہ عیسائی مشنریاں ملک کے ڈیموگرافی پر اثرانداز ہونے کی کوشش کررہی ہیں۔ قبائلی علاقے میں مشنریاں سرگرمی سے قبائلیوں کو عیسائی بنارہی ہیں ،مگر سوال یہ ہے کہ نوآبادیاتی دور میں بھی اور اب گزشتہ 70سالوں سے عیسائی مشنریاں تبدیلی مذہب کرارہی ہیں تو پھر ان کی آبادی میں اضافہ ہونےکے بجائے کمی کیوں ہورہی ہے؟۔ اگر ہندوتوا طاقتوں کے پروپیگنڈے کو مردم شماری کی رپورٹوں کی بنیادوں پر جانچا اور پرکھا جائے تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ آبادیاتی ساخت (Demography) میں تبدیلی کا ہرایک دعویٰ جھوٹ اور فریب پر مبنی ہے ۔اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت کی آبادی میں 79.8فیصدہندوہیں، مسلمان 14.2فیصد بقیہ 6 فیصد میں سے زیادہ تر عیسائی، سکھ، بدھ مت اور جین ہیں۔
1951اور 2011کے درمیان بھارت میں مسلمانوں کی آبادی میں معمولی طور پر، تقریباً چار فیصد کا اضافہ ہوا ہے، جب کہ ہندوؤں کی آبادی میں تقریباً اتنی ہی کمی ہوئی ہے۔ہندوؤں کی آبادی میں معمولی کمی اور مسلمانوں کی آبادی میں معمولی اضافہ برتھ کنٹرول کے رجحان کا نتیجہ ہے نہ کہ تبدیلی مذہب کا۔
مردم شماری کے مطابق جھارکھنڈ کی آبادی کا صرف 4.3عیسائی،14.53فیصد مسلمان ہیں اور 83.67فیصد ہندو ہیں ۔ اگرچہ جھارکھنڈ میں ہندوؤں کی تعداد بہت سی ریاستوں کے مقابلے میں نسبتاً کم ہے، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ریاست کی12.84فیصد آبادی نے خود کو ’’دیگر مذاہب‘‘کے ماننے والوں کے طور پر شمار کرایا ہے جو کہ مردم شماری میں مقامی عقائد کا سب سے بڑا زمرہ ہے۔جھارکھنڈ میں’’دیگر مذاہب‘‘ کے پیروکار بنیادی طور پر ’’سورنا عقیدے‘‘ کے ماننے والے ہیں، جو فطرت کی پوجا کرتے ہیں۔ طویل عرصے سے سورنا کو مردم شماری کے دوران ایک الگ مذہب کے زمرے میں شامل کرنے کےلیے تحریک چلارہے ہیں۔جھارکھنڈ کی اقلیتی آبادی31.67فیصدہونے کے باوجود (بشمول مسلمان، عیسائی اور دیگر مذاہب) ریاست کے 24 اضلاع میں 19 میں ہندو مذہب اکثریتی مذہب ہے۔ صرف سمڈیگا ایک عیسائی اکثریتی ضلع ہے، جس کی 51.4فیصدآبادی عیسائی عقیدے کو ماننے والی ہے۔ لیکن سمڈیگا تیسرا سب سے کم آبادی والا ضلع بھی ہے۔ سب سے کم آبادی والے اضلاع کی فہرست میں سر فہرست لوہردگا اور کھنٹی ہیں، دونوں میں اقلیت میں ہندو ہیں۔ ان تینوں اضلاع میں سے کسی کی بھی آبادی چھ لاکھ سے زیادہ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ، گملا اور پچھمی سنگھ بھوم میں بھی ہندو اقلیت میں ہیں، جن دونوں کی آبادی ایک کروڑ سے زیادہ ہے۔
2001 اور 2011 کے درمیان اڈیشہ کی ہندو آبادی میں 0.72فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ 1961 میں اڈیشہ میں ہندو آبادی کا 97.57 فیصد تھے۔ اڈیشہ کے تمام اضلاع ہندو اکثریتی ہیں۔ ان میں سے صرف تین میں عیسائی آبادی فیصد کے لحاظ سے دہرے ہندسے کو عبور کرتی ہے۔ یہ سندر گڑھ (18.39فیصد) کندھمال (31.20فیصد)ور گجپتی (37.8)فیصدہے۔
چھتیس گڑھ کے قبائلی علاقوں میں عیسائی مشنریوں پر تبدیلی مذہب کرانے کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے ۔2011 کی مردم شماری کے وقت ریاست کے 18 اضلاع (2012 میں نو نئے اضلاع بنائے گئے) میں ہندو اکثریت ہے۔ عیسائی ریاست کی آبادی کا محض 1.2 فیصدمسلمان 2.20فیصد اور ہندو92.25فیصد پر مشتمل ہے۔ صرف جش پور ضلع میں عیسائیوں کی آبادی 22.26 فیصد ہے۔ باقی 17 اضلاع میں سے کسی میں بھی عیسائی آبادی 5فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔ درحقیقت ان میں سے 11 اضلاع میں عیسائی آبادی ایک فیصد سے بھی کم پر مشتمل ہے۔
مدھیہ پردیش میں حالیہ دنوں میں تبدیلی مذہب کے الزام میں کئی افراد کی گرفتاری ہوئی ہے۔کئی مشنریوں پر مدھیہ پردیش میں تبدیلی مذہب کے الزامات عائد کیے گئے ہیں ۔اس سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ ریاست میں عیسائیت کا عمل تیزی سے جاری ہے۔ تاہم حقیقت میں عیسائی ریاست کی آبادی کا محض 0.29 فیصد ہیں۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق مدھیہ پردیش کے 50 اضلاع میں سے 48 (51 واں ضلع 2013 میں بنایا گیا تھا) میں ایک فیصدسے کم عیسائی ہیں، اور باقی دو میں 4فیصد سے بھی کم ہیں۔ یہ اضلاع جھابوا 3.5فیصداور منڈلا 1.8فیصد ہیں ۔
ہماچل پردیش میں95.17فیصد ہندو ہیں ،2.18فیصد مسلمان اور 0.18فیصد عیسائی ہیں۔ ریاست کے 12 اضلاع میں سے گیارہ میں ہندوؤں کی اکثریت ہے۔ لاہول اور سپیتی میں ہندو اقلیت میں ہیں، جہاں بدھ مت کے ماننے والوں کی آبادی 62.1فیصد ہے۔ اسی طرح گجرات میں جہاں 2003 میں نریندر مودی کی وزارت اعلیٰ میں تبدیلی مذہب مخالف قانون نافذ کیا گیا تھا، وہاں عیسائی ریاست کی آبادی کا محض 0.52 فیصد ہیں (مسلمان 9.67فیصد ہیں اور ہندو88.57فیصدہیں۔) یہ اعداد و شمار اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ ڈیموگرافی میں تبدیلی کے تمام دعوے بے بنیاد ہیں ۔
پیو ریسرچ سنٹر کی ایک رپورٹ جو 29999 بھارتی بالغوں کے سروے پر مبنی ہے جو 2019 کے اواخر اور 2020 کے اوائل کے درمیان کورونا وبا سے قبل کیا گیا تھا۔ اس میں بھارتی معاشرے میں مذہبی شناخت، قوم پرستی اور رواداری پر گہری نظر ڈالی گئی ہے۔ یہ سروے انٹرویو لینے والوں نے 17 زبان بولنے والوں پر کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں مذہب کی تبدیلی کے واقعات سب سے کم ہوتے ہیں۔ اس سروے سے پتا چلتا ہے کہ مذہبی تبدیلی کا مذہبی آبادی کے سائز پر کوئی اثر نہیں پڑا ہے ۔جون 2021 میں جاری ہونے والی Pew کی تحقیقی رپورٹ بتاتی ہے کہ بھارت میں مذہبی تبدیلی کے واقعات نایاب ہیں۔
مسلمانوں کے خلاف لو جہاد اور تبدیلی مذہب پروپیگنڈے کا موقف
گزشتہ سال اترپردیش اسمبلی انتخابات سے عین قبل دہلی سےمولانا عمر گوتم کوجنہوں نے خود گہرے مطالعے کے بعد تین دہائی قبل اسلام قبول کیا تھا دو ساتھیوں کے ساتھ تبدیلی مذہب کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔اس کے معاً بعد اترپردیش کے مشہور عالم دین مولانا کلیم صدیقی کو بھی گرفتار کیا گیا۔اس وقت میڈیا کے ذریعہ بڑے بڑے دعوے کیے گئے تھے کہ تبدیلی مذہب کی ایک بڑی سازش کا پردہ فاش کردیا گیا ہے مگر آج تک کسی بھی ایسے شخص کو پیش نہیں کیا گیا جس سے متعلق کہا جاسکے کہ اس کا جبراً مذہب تبدیل کرایا گیا ہے۔یہ دونوں افراد اس وقت قید میں ہیں اور ان کے خلاف کئی مقدمات چل رہے ہیں۔چوں کہ یہ معاملات عدالت میں زیر سماعت ہیں اس پر زیادہ گفتگو سے گریز کرتے ہوئے چند ایسے سوالات ہیں جو ان گرفتاریوں پر سوال کھڑا کرتے ہیں اور انہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔مشہور انگریزی ویب سائٹ نیوز لانڈری نے اس سے متعلق تحقیقاتی رپورٹ شائع کی کہ جن لوگوں سے متعلق دعویٰ کیا گیا کہ ان کا مذہب تبدیل کرایا گیا ان میں سے کسی نے بھی نہ شکایت کی ہے اور نہ دباو میں اسلام قبول کرنے کی بات تسلیم کی ہے۔اس کے علاوہ ان دونوں کی گرفتاری کی ٹائمنگ اور اس گرفتاری کو یوگی کی سوجھ بوجھ سے جوڑنے کی کوشش اور اس پر قومی میڈیا کی پروپیگنڈا رپورٹنگ بتاتی ہےکہ یہ گرفتاریاں ایک خاص مقصد سےکی گئی تھیں تاکہ اترپردیش اسمبلی انتخابات سے قبل مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز ماحول ساز گار کیا جاسکے۔
نوآبادیاتی دور اور ملک کی آزادی کے بعد مسلمانوں کی اقتصادی حالت انتہائی خستہ ہوگئی اس لیے عیسائیوں کی طرح مسلمانوں پر فلاحی اور امدادی کاموں کے ذریعہ ہندوؤں کو مسلمان بنانے کے الزامات پر یقین کرنا مشکل تھا۔اس لیے مسلمانوں کو بدنام کرنے کےلیے ’’لو جہاد‘‘ کی ایک اصطلاح گڑھی گئی۔ 2009 میں قومی سطح پر مقبول ہوئی۔ 2014 میں مرکز میں بی جے پی کے برسراقتدار آنےکے بعد لوجہاد کے نام پر مسلمانوں کونشانہ بنانے کی باضابطہ مہم شروع کردی گئی اور اس مہم میں نہ صرف ہندوتوا طاقتیں شامل تھیں بلکہ بی جے پی کے قومی لیڈروں نے بھی اس کو ایک خطرے کے طور پر پیش کیا کہ سازش کے تحت ہندو لڑکیوں کو مسلم لڑکے محبت کے دام پھنساکر مسلمان بنارہے ہیں۔اس کے بعد بی جے پی کی زیر اقتدار ریاستوں میں اس کے خلاف قانون سازی بھی گئی ۔تعجب خیزبات یہ ہے کہ کئی معالوں کی پولیس جانچ کی گئی اور یہاں تک کہ این آئی اے نے بھی جانچ کی مگر کسی جانچ میں سازش کی تھیوری کو تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔ ہمارے ملک میں بین المذاہب شادیاں کوئی نئی بات نہیں ہے۔اعدادو شمار کے مطابق ایک فیصد سے بھی کم بین المذاہب شادیاں ہوتی ہیں ۔
نامور تاریخ دان ہربنس مکھیا نے جو قرون وسطیٰ کے بھارت کی تاریخ کے ماہر ہیں بتایا کہ لو جہاد کی تقریباً پانچ سال پرانی تاریخ ہے۔ ابھی تک کسی نے لو جہاد کے بارے میں نہیں سنا تھا۔ لو جہاد ایک افسانہ ہے۔ایسے ہی گزشتہ ایک صدی سے آر ایس ایس ہندو خواتین کے اغوا کی بات کرتے ہوئے یہ دعویٰ کرتی ہے کہ اغوا کا مقصد تبدیلی مذہب ہے۔ ہندو مہاسبھا کے پمفلٹ میں مسلمانوں کو اکثر غنڈوں اور جنسی حملہ آوروں کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔ 1920 کی دہائی میں، ہندو احیاء پسند تنظیموں نے کبھی کبھار اس طرح کے الزامات لگائے تھے۔مگر اس طرح کے الزامات پر کوئی کان دھرنے کوتیار نہیں تھا۔حالیہ برسوں میں مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے ’’لو جہاد‘‘ باضابطہ ایک تھیوری بن چکی ہے۔سنگھ پریوار کا ’’گھر واپسی‘‘پروگرام اورلو جہاد مہم متوازی طور ایک ساتھ چلتے ہیں ۔2014میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے چند دن بعد ہی آگرہ میں گھر واپسی کا پہلا واقعہ سامنے آیا۔ اسی سال دسمبر میں ہندو جاگرن سمیتی نے پچاس مسلم خاندانوں کو مذہب تبدیل کرانے کا دعویٰ کیا ۔ہر خاندان کو ایک مکان دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ بعد میں، اتر پردیش اقلیتی کمیشن کے ایک وفد نے پایا کہ ان خاندانوں نے جلد ہی دوبارہ اسلام قبول کر لیا ہے۔2019میں دوسری مرتبہ مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد بھی حالات نہیں بدلے۔ وبائی مرض کے دوران ہریانہ اور دہلی میں غریب مسلم خاندانوں کے مذہب تبدیل کرنے کے واقعات سامنے آئے۔2016میں کیرالا کے کوزی کوڈ میں منعقدہ بی جے پی کی قومی کونسل کی میٹنگ میں مبہم انداز میں وزیر اعظم مودی نے ’’گھرواپسی‘‘ کی بات کی تھی۔ پارٹی کے نظریاتی رہنما دین دیال اپادھیائے کو یاد کرتے ہوئے کہا ’’پچاس سال پہلے، پنڈت اپادھیائے نے کہا تھاکہ مسلمانوں سے پرہیز نہ کریں بلکہ ان کو پاک کریں، ان کے ساتھ ووٹ کی منڈی کا مال جیسا سلوک نہ کریں بلکہ انہیں اپنا سمجھیں ۔ بنیادی مفروضہ یہ تھا کہ مسلمان ہندو تھے جو بھٹکے ہوئے تھے اور انہیں صفائی کی ضرورت تھی۔
مورخ آدتیہ مکھرجی بتاتے ہیں کہ ’’گھر واپسی، بیٹی بچاؤ، مسلم بہو لاؤ‘‘ یہ سب ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔یہ مہمات ایک دوسرے کے متوازی چلتی ہیں۔ایک طرف وہ ہندولڑکیوں کو بچانے کی بات کرتے ہیں تو دوسری طرف ہندو لڑکوں کی مسلم لڑکیوں سے شادی کرنے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں ۔ظاہر ہے کہ یہ تضاد ہے۔جرمنی میں نازی ازم کے عروج کے دوران بنائے گئے نیورمبرگ قوانین کو یاد کرتے ہوئے جن کے تحت یہودی مرد غیر یہودی عورتوں سے شادی نہیں کر سکتے تھے،آدتیہ مکھرجی کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ فاشسٹ حکمت عملی کا حصہ ہے۔ یہ ایک پیٹرن ہے۔ لو جہاد اسی طرز کا ایک حصہ ہے۔چاروگپتا کہتے ہیں کہ لوجہاد کے ذریعہ ہندوؤں میں مردانہ صلاحیتوں میں اضافہ کرنے کے ساتھ مسلم مردوں کو بدتمیزاور شہوت پرست قرار دینا ہے تاکہ مسلمانوں پر ترقی کے دروازے بند کردیے جائیں۔ دراصل یہ ہندوؤں کی تعداد میں کمی کے خوف کا بھوت گڑھ کر ذات پات اور طبقاتی تقسیم والے سماج پر یکساں ہندو شناخت اور ہندو قوم کی تعمیر اوراس کی احیا کی ایک کوشش ہے۔وہ کہتے ہیں کہ لوجہاد کی پوری مہم دو دقیانوسی تصورات پر قائم ہے۔ ایک طرف وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں مسلمان مرد بدمعاش اور شہوت پرست جنسی ہیجان میں مبتلا ہوتے ہیں ۔دوسری طرف یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ہندو عورتیں کمزور ہیں جو اپنا دفاع کرنے یا اپنی مرضی کا انتخاب کرنے سے قاصر ہیں۔ اقلیتوں کے تئیں بے اعتمادی کی فضا ہموار کرنے کے ساتھ پدرانہ سماج کو تھوپنے کی کوشش ہے۔ہادیہ کیس میں سپریم کورٹ نے اسی ذہنیت پر حملہ کیا تھا۔گزشتہ سال نومبر میں الہ آبادہائی کورٹ نے بھی پسند کی شادی کو درست ٹھہراکر ہندوؤں کے پدرانہ سماج اور اس کی ذہنیت پر حملہ کیا تھا۔
اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ تبدیلی مذہب اور اس پر کیے جانے والے پروپیگنڈے کو فوری تسلیم کرنے کے بجائے حقائق کی روشنی میں جانچا جائے۔اگر کہیں دلت اور پسماندہ طبقات میں کوئی مذہب تبدیل کرتا ہے تو اس کو کسی سازشی تھیوری سے دیکھنے کے بجائے اس کے اسباب پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔دوسروں کو لعن طعن اور مورد الزام ٹھہرانے کے بجائے اگر سماجی خامیوں کے اصلاح کی کوشش کی جائے تو حالات بہتر ہوسکتے ہیں۔

 

***

 تاریخ اور سیاست کا ابتدائی علم رکھنے والے اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ ذات پات کے نظام کو ہندو مذہب کی سرپرستی حاصل ہے، اچھوت، تفریق اور غیر مساویانہ رویہ ہندو سماج کی رواج کی جڑ میں پیوست ہے اور دلتوں کے ساتھ غیر انسانی امتیاز کو جواز فراہم کیا جاتا رہا ہے۔دلتوں، قبائلیوں اور سماج کے دیگر پسماندہ افراد کی ناراضگی کی یہی وجوہات ہیں۔ سوامی ویویکانند جیسے ہندو احیا پسند شخصیت نے اعتراف کیا ہے کہ سورنوں کے غیر انسانی سلوک کی وجہ سے دلتوں اور قبائلیوں نے اسلام اور دیگر مذاہب کو قبول کیا ہے۔ خود امبیڈکر نے تبدیلی مذہب کی وجہ ساورنوں کا ظلم و تشدد، زیادتی اور ناانصافی بتائی ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 27 نومبر تا 03 نومبر 2022