مذہب اور سیاست کا کھیل اپنی انتہا پر

رام مندر کے سلسلے میں کئی سیاسی مضمرات طشت از بام

فضل الرحمٰن ،لکھنؤ

2024 کے عام انتخابات میں بی جے پی اور انڈیا اتحاد کی کامیابی کے متوقع امکانات
اجودھیا میں رام مندر کی تعمیر کا بھرپور سیاسی اور دھارمک کریڈٹ لینے کی کوشش میں اترپردیش کی بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے پوری طاقت لگادی ہے۔ اجودھیا کے پرانے ریلوے اسٹیشن کو اجودھیا دھام جنکشن کا نام دیا گیا ہے جس کی جدید طرز پر تعمیر نو ہوئی اور گزشتہ دنوں وزیر اعظم نریندر مودی نے اس کا باقاعدہ افتتاح کیا۔ 22 جنوری کو اجودھیا میں ہونے والی پران پرتشٹھا نامی تقریب میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو نئی کامیابیوں سے ہمکنار کرنے والے ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر اعلیٰ اترپردیش یوگی آدتیہ ناتھ سمیت دیگر اعلیٰ لیڈران اور وزراء شریک ہوں گے اور کرّ و فر کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے روایتی ووٹروں کو یہ باور کرانے کی کوشش کریں گے کہ 500برسوں سے زیادہ کی غلامی سے اب نجات ملی ہے۔ ان کی منشا اکثریت کے سامنے ہندوؤں کا مسیحا بننے کی ہے، جس کی میڈیا پلیٹ فارموں سے خوب تشہیر کی جا رہی ہے ۔ اس سلسلہ میں تمام حربے اور طریقے استعمال کیے جارہے ہیں، چاہے وہ سیاسی ہوں یا مذہبی۔ حکومت پوری طرح سے ایک خالص مذہبی نوعیت کے پروگرام کو بھرپور کامیابی سے ہمکنار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑنا چاہتی ہے۔
ہر کس و ناکس پر یہ واضح ہے کہ سنگھ کے ایجنڈے کے مطابق عوامی عقیدت کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے یہ پیغام دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ یہ ہندو جاگرن کا وقت ہے اور ہندوستان ہی نہیں پوری دنیا میں ہندو دھرم کو قائدانہ کردار ادا کرنا ہے ۔ہندوستان اور ہندو دھرم کے لازم و ملزوم ہونے کا پیغام نہ صرف ہندوستانی عوام بلکہ دنیا بھر کو دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس میں دیگر مذاہب کے پیروکاروں کی مذہبی آزادی اور حکومت و ریاست کی غیرجانبداری جیسے سوالات پس پشت چلے گئے ہیں۔
پران پرتشٹھان کاریہ کرم میں شمولیت اور مریادا پُرش شری رام کے ساتھ عقیدت کا اظہار ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر دیگر پارٹیاں بیک فٹ پر ہیں۔ حالانکہ اس مسابقت میں دیگر پارٹیوں کے لیڈران بھی شامل ہونے کی فراق میں ہیں۔ کانگریس سمیت طاقتور علاقائی جماعت سماجوادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی اور راشٹریہ لوک دل کی اعلیٰ قیادت نے بظاہر خاموشی اختیار کررکھی ہے مگر ان جماعتوں کے ریاستی قائدین کی جانب سے یہ کوشش ضرور ہورہی ہے کہ ملک کی اکثریت کی نظروں میں کہیں ان کی شبیہ شری رام مخالف کی نہ بن جائے، چنانچہ ریاستی کانگریس کے کچھ مقامی عہدیداروں اور لیڈروں نے باقاعدہ اس بات کا اعلان کردیا ہے کہ وہ پران پرتشٹھان تقریب میں شامل ہوں گے۔
اترپردیش کی اصل اپوزیشن سماجوادی پارٹی کے رہنما اور سابق وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو کے سامنے بھی یہ مخمصہ ہے کہ وہ کیا کریں ۔ ایک طرف اپنے روایتی ووٹروں یعنی مسلمانوں کو ناراض نہیں کرنا ہے تو دوسری طرف غیرمسلموں میں بھی یہ پیغام دینا ہے کہ وہ شری رام کے مخالف نہیں اور عظیم الشان رام مندر کی تعمیر سے انہیں کوئی پریشانی نہیں ہے۔
بی جے پی کی تشہیری مہمات کے ہیرو سمجھے جانے والے وزیر اعظم نریندر مودی، وزیر داخلہ امیت شاہ اور وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سماجوادی پارٹی کو کبھی براہ راست اور کبھی اشاروں کنایوں میں ہمیشہ یہ کہہ کر کٹہرے میں کھڑا کرتے رہے ہیں کہ وہ مسلمانوں کی خوشامد کرنے والی پارٹی ہے ۔یہی انداز کانگریس کے لیے بھی اپنایا جاتا ہے، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر اسے ‘اٹلی کی پارٹی’ بتایا جاتا ہے۔ اپنے مقصد میں بی جے پی کی اعلیٰ قیادت کامیاب بھی دکھائی دیتی ہے، جس کی انتہا جنوری کے بعد ہونے والے انتخابات میں دیکھنے کو مل سکتی ہے۔ سیاسی زبانی جنگ ابھی سے تیز ہوگئی ہے ۔
وزیر اعظم نے اجودھیا دھام جنکشن اور اجودھیا میں شری بالمیکی بین الاقوامی ہوائی اڈے کا افتتاح کرتے ہوئے عوامی جلسہ میں یہ بات کہی کہ پانچ سو برسوں کی غلامی سے نجات مل رہی ہے ۔اپنے خطاب میں انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں اپوزیشن، خاص طور سے انڈیا اتحاد کو تنقید و تضحیک کا نشانہ بنایا۔
اگر سیاسی پہلو سے دیکھا جائے تو اتنا تو بہت صاف ہے کہ آئندہ لوک سبھا انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی پران پرتشٹھان کاریہ کرم یعنی رام مندر کے باقاعدہ افتتاح کا بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گی ۔
تجزیہ نگاروں کا یہی ماننا ہے کہ بھارتیہ جنتاپارٹی کے لیے اترپردیش میں ایک طرح سے واک اوور کی کیفیت ہے ۔ابھی انڈیا اتحاد قطعی شکل نہیں لے پایا ہے ۔مانا جاتا ہے کہ لوک سبھا انتخابات میں سماجوادی پارٹی، کانگریس اور بی ایس پی کی حالت کمزور رہے گی اور رام مندر کی لہر بی جے پی کو فائدہ پہنچائے گی ۔ ابھی کی صورت حال یہی اشارہ کرتی ہے، آگے اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا یہ وقت ہی بتائے گا۔
جہاں تک اسمبلی انتخابات کی بات ہے تو ابھی اس میں وقت ہے ۔جب 2022 میں اترپردیش میں اسمبلی انتخابات ہوئے تھے تو 403سیٹوں والی یوپی ودھان سبھا میں سماجوادی پارٹی کو 113 سیٹیں ملی تھیں۔ اسے 32 فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے ۔سمجھا جاتا ہے کہ 1992میں ملائم سنگھ یادو کے ذریعہ سماجوادی پارٹی کی تشکیل اور اترپردیش میں اب تک تین بار بننے والی سماجوادی پارٹی کی حکومت میں مسلمانوں کا اہم کردار رہا ہے۔ جب 2012میں اکھلیش یادو نے الیکشن جیتا اور وہ وزیر اعلیٰ بنے تو اس وقت سماجوادی پارٹی کے تقریباً 40 ممبران اسمبلی کامیاب ہوئے تھے ۔تب پارٹی کے قیام میں بنیادی کردار ادا کرنے والے اعظم خاں سینئر ترین وزیر اور مسلم چہرہ تھے۔ اب حالات یکسر بدل چکے ہیں۔ اعظم خاں پر کئی مقدمات لاد دیے گئے ہیں اور سماجوادی پارٹی کے سامنے یہ ایک چیلنج ابھر کر سامنے آیا ہے کہ کیا وہ اپنے روایتی انداز میں مسلمانوں میں یکساں طور سے مقبول رہے گی۔ خاص طور سے تب جب کانگریس اس بات کی بھرپور کوشش کررہی ہے کہ مسلمانوں کے ووٹوں کا کچھ حصہ اسے بھی ملے۔
اکھلیش یادو اس بات کو سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کی ناراضگی پارٹی کو بھاری پڑ سکتی ہے ۔ ان کے سامنے 2009 کے لوک سبھا الیکشن کی مثال ہے جب بابری مسجد کے انہدام کے وقت وزیر اعلیٰ کی کرسی پر براجمان رہنے والے اوبی سی رہنما کلیان سنگھ کو ملائم سنگھ یادو نے سماجوادی پارٹی میں شامل کرلیا تھا، چنانچہ 2004میں 36سیٹیں جیتنے والی سماجوادی پارٹی 23سیٹوں پر سمٹ گئی تھی۔ پھر بھی آج کے مقابلے میں سماجوادی پارٹی کے لیے وہ اچھے دن تھے ۔ فی الوقت سماجوادی پارٹی کے تین ایم پی لوک سبھا میں ہیں اور رامپور اور اعظم گڑھ جیسے حلقے بھی سماجوادی پارٹی گنواچکی ہے جو اس کے مضبوط علاقے مانے جاتے تھے۔
بہر حال اس سال دوتین ماہ بعد ہونے والے لوک سبھا انتخابات میں سماجوادی پارٹی نے تقریباً 65 سیٹوں پر الیکشن لڑنے کا ارادہ کیا ہے ۔اس کا عندیہ پارٹی سربراہ اکھلیش یادو نے حال ہی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے دیا۔ بقیہ سیٹیں وہ انڈیا اتحاد کی پارٹیوں کے لیے چھوڑیں گے۔ اکھلیش یادو نے اپنی حکمت عملی کا اعلان کردیا ہے اور اسے انہوں نے پی ڈی اے یعنی پچھڑے، دلت اور الپ سنکھیک کا نام دیا ہے۔ پچھڑوں میں ظاہر ہے کہ یادو ان کے لیے اولیت رکھیں گے۔
حالانکہ نریندر مودی اور امیت شاہ کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے ایک طرح کی سوشل انجینئرنگ کردی ہے اور پچھڑوں اور دلتوں پر خاص کام کرکے اور انہیں تنظیمی ڈھانچے اور حکومتی عہدوں پر جگہ دے کر روایتی ووٹر بیس والی پارٹیوں کا کھیل بگاڑ دیا ہے۔ تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ بجلی، پانی، سڑک اور روزگار جیسے موضوعات پس پشت چلے گئے ہیں اور اب دھرم کی چاشنی اپنا کام کرتی ہوئی نظر آتی ہے ۔
ان حالات میں غیر بی جے پی پارٹیوں کے لیے کم از کم اترپردیش میں تو راہ آسان نہیں نظر آتی۔ اگر 2017اور 2022کے لوک سبھا انتخابات کی نظیر کو سامنے رکھیں تو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ان دونوں انتخابات میں سماجوادی پارٹی، بی جے پی کو روک پانے میں ناکام رہی ۔ صرف یہی نہیں، سماجوادی پارٹی کا روایتی یادو ووٹ بھی اس سے الگ ہوکر بی جے پی کے پاس چلا گیا ۔2024 کے عام انتخابات میں کیا ہونے والا ہے اس کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے ۔
کانگریس کے رہنما راہل گاندھی حالانکہ بھارت جوڑو یاترا کے بعد اب ’’بھارت جوڑو نیائے یاترا ‘‘ کے ذریعہ عوام کو لبھانے کی کوشش کررہے ہیں لیکن ان کی کوشش کتنی رنگ لائے گی یہ کہنا مشکل ہے۔ وہ ماضی میں بھی اپنی سرگرمیوں سے سرخیاں بٹورنے میں تو ضرور کامیاب رہے ہیں مگر امڈنے والی بھیڑ کو ووٹ میں تبدیل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔
مستزاد یہ ہے کہ رام مندر کے معاملے نے بی جے پی اور اس کی ذیلی تنظیموں کے اندر جوش و ولولہ پیدا کر رکھا ہے ۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پران پرتشٹھا کا پروگرام ایک بڑی آبادی کی آستھا اور عقیدت سے جڑا ہوا معاملہ ہے چنانچہ کوئی بھی پارٹی یہ نہیں چاہے گی کہ اسے ہندو مخالف سمجھا جائے۔ اکھلیش یادو کی جماعت یا کانگریس کے لیے یہ مشکل کی گھڑی ہے ۔کانگریس ویسے تو اترپردیش میں مضبوط نہیں ہے مگر لوک سبھا انتخابات کی سطح پر وہ ضرور چاہے گی کہ اسے زیادہ سے زیادہ سیٹیں اترپردیش نہ سہی، دیگر ریاستوں سے ملیں۔ جہاں تک سماجوادی پارٹی کا سوال ہے تو اسے مسلم- یادو کے آگے سوچنا ہے، کیونکہ جب تک دیگر برادریوں کے ووٹ نہیں ملیں گے سیٹیں جیتنا اور لوک سبھا میں مضبوطی سے کھڑا ہونا مشکل ہوگا۔
سماجوادی پارٹی کے سامنے ایک اور کارڈ بی جے پی نے کھیل دیا ہے اور وہ ہے مدھیہ پردیش جہاں ایک یادو کو وزیر اعلیٰ بناکر بی جے پی کی قیادت نے اکھلیش یادو کو زچ کرنے کی کوشش کی ہے ۔یہ اکھلیش کے لیے ضرور باعث تشویش ہوگا۔
تجزیہ نگار یہ مانتے ہیں کہ قومی سطح پر بھاجپا کے اسٹریٹجسٹ کے طور پر نریندر مودی کے سامنے آنے کے بعد پسماندہ یا پچھڑے ووٹروں کی بڑی تعداد جن کی آبادی 35 فیصد کے آس پاس بتائی جاتی ہے بی جے پی میں چلی گئی ۔بی جے پی کی ایک حکمت عملی یہ بھی رہی کہ اس نے پسماندہ رہنماؤں کی قیادت والی پارٹیوں سے اتحاد کرلیا۔ اترپردیش میں نشاد پارٹی، اپنا دل اور راج بھر کی پارٹی اس کی مثالیں ہے۔ اس کا بھرپور فائدہ بی جے پی کو ملا ہے۔ اس کے برعکس کانگریس یا سماجوادی پارٹی اس طرح کا گٹھ جوڑ قائم کرنے میں ناکام رہی ہیں، جس کا خمیازہ انہیں بھگتنا پڑ رہا ہے ۔
رہی بات بہوجن سماج پارٹی کی تو بہن مایاوتی کی جانب سے ابھی یہ صاف نہیں ہے کہ آیا وہ انڈیا اتحاد میں شامل بھی ہوں گی یا نہیں۔ ہاں اتنا ضرور صاف ہے کہ وہ اترپردیش کے خاص طور سے مغربی حصہ میں کثیر تعداد میں مسلم امیدوار میدان میں اتاریں گی، جس کی اندرون خانہ تیاریاں انہوں نے شروع بھی کردی ہیں ۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ اترپردیش میں 2017 میں کانگریس کے ساتھ سماجوادی پارٹی کا اتحاد اور 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں سماجوادی اور بہوجن سماج پارٹی کا اتحاد بھی بی جے پی کو نہیں روک سکا تھا۔
ان سب پہلوؤں کے تجزیہ سے یہ تو واضح ہوجاتا ہے کہ نرم ہندتو نہ تو کانگریس کے لیے کارآمد ہوگا اور نہ سماجوادی پارٹی جیسی علاقائی جماعتوں کی کشتی پار لگائے گا کیوں کہ بی جے پی ہندتو کے علم بردار کے طور پر بطور سیاسی جماعت مستحکم ہوچکی ہے، جسے طاقت ان تنظیموں سے بھی ملتی ہے جو ہندتو کے امور و معاملات پر مسلسل کام کررہی ہیں ۔
قابل غور بات یہ ہے کہ بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے ذات پات پر مبنی مردم شماری کرواکے ایک بڑے آندولن اور تحریک کی راہ ہموار کی ہے۔ یہ ایک اشارہ ہے کہ غیر بی جے پی جماعتوں کو خود کو سماجی سروکاروں سے وابستہ کرنا ہوگا اور سماجی مسائل و معاملات پر تحریک چلانی ہوگی تب شاید ان کے لیے زمین زیادہ ہموار ہو ۔
اب تک کا منظر نامہ یہ بتاتا ہے کہ عوامی مسائل و مشکلات اور سماجی سروکاروں پر سڑکوں پر سنگھرش کے معاملہ میں کانگریس اور سماجوادی پارٹی کمزور ہیں۔ جہاں تک بہوجن سماج پارٹی کی بات ہے تو مایاوتی کی حکمت عملی پارٹی کے بانی کانشی رام کی حکمت عملی سے قطعی مختلف ہے اور سڑک پر سنگھرش کی راہ نہ انہیں راس آتی ہے اور نہ پارٹی کارکنوں سے وہ اس کی توقع کرتی ہیں۔
جہاں تک مسلمانوں کا معاملہ ہے تو انہوں نے اجودھیا میں بابری مسجد کا انہدام دیکھا اور اب رام للا کا پران پرتشٹھا اور رام مندر کا افتتاح دیکھنے جارہے ہیں، جس کے ساتھ طاقت و قوت کا مظاہرہ جڑا ہوا ہے۔ ایک تہذیبی شناخت کو مٹانے اور دوسری شناخت قائم کرنے کا عمل جاری ہے (فیض آباد ضلع کا نام بدل کر اجودھیا ،فیض آباد ریلوے اسٹیشن کا نیا نام اجودھیا کینٹ رکھا گیا) ، دیکھنا یہ ہے کہ 2024 کے عام انتخابات میں بی جے پی کو کتنی سیٹیں حاصل ہوتی ہیں اور اپوزیشن کس حد تک اپنا وجود ثابت کرپاتا ہے، تبھی یہ طے ہوگا کہ دھرم و سیاست کا یہ کھیل رک جائے گا یا آئندہ بھی جاری رہے گا۔
***

 

***

 رام مندر کے معاملے نے بی جے پی اور اس کی ذیلی تنظیموں کے اندر جوش و ولولہ پیدا کر رکھا ہے ۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پران پرتشٹھا کا پروگرام ایک بڑی آبادی کی آستھا اور عقیدت سے جڑا ہوا معاملہ ہے چنانچہ کوئی بھی پارٹی یہ نہیں چاہے گی کہ اسے ہندو مخالف سمجھا جائے۔ اکھلیش یادو کی جماعت یا کانگریس کے لیے یہ مشکل کی گھڑی ہے ۔کانگریس ویسے تو اترپردیش میں مضبوط نہیں ہے مگر لوک سبھا انتخابات کی سطح پر وہ ضرور چاہے گی کہ اسے زیادہ سے زیادہ سیٹیں اترپردیش نہ سہی، دیگر ریاستوں سے ملیں۔ جہاں تک سماجوادی پارٹی کا سوال ہے تو اسے مسلم- یادو کے آگے سوچنا ہے، کیونکہ جب تک دیگر برادریوں کے ووٹ نہیں ملیں گے سیٹیں جیتنا اور لوک سبھا میں مضبوطی سے کھڑا ہونا مشکل ہوگا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 14 جنوری تا 20 جنوری 2024