مضبوط ادارے خوشحال معیشت کی کنجی۔ نوبل انعام یافتگان کی تحقیق
نوبل تھیوری سے بھارت کے لیے معاشی اصلاحات کی راہ روشن
پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
غریب اور امیر ممالک کے درمیان خلیج کا حل، ادارہ جاتی استحکام میں مضمر
امسال اقتصادیات کے لیے نوبل پرائز کے اعلان سے پھر معیشت کی نئی تشریح کا سلسلہ شروع ہوا ہے کیونکہ نوبل انعام یافتگان کی تحقیق میں واضح کیا گیا ہے کہ مستقبل میں اداروں کے کردار اور خصوصی طور پر حکومت کی پالیسیوں کو عوام الناس کے لیے خوشحالی کا ذریعہ بنانا ہوگا۔ رائل سویڈش اکیڈمی آف سائنسز نے معیشت کے میدان میں دارون ایسیموگلو، سائمن جانسن اور جیمز اے رابنسن کو 2024 کا انعام دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہیں یہ انعام ادارے کیسے تشکیل پاتے ہیں اور وہ لوگوں کی خوشحالی کو کیسے متاثر کرتے ہیں، اسی کے مطالعے پر ملا ہے۔ دارون ایسیموگلو ترکی النسل امریکی ماہر اقتصادیات ہیں۔ وہ میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں اکنامکس کے پروفیسر ہیں۔ انہوں نے اپنی تحقیق میں سیاسی اور معاشی اداروں کے اثرات کو باریکی سے سمجھنے کی کوشش کی۔ ان کی تحقیق واضح کرتی ہے کہ ادارے کیسے ترقی و خوشحالی کو متاثر کرتے ہیں جنہوں نے عالمی معیشت کی گتھیوں کو سلجھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس طرح سائمن جانسن اور جیمز اے رابنسن بھی ماہرین اقتصادیات ہیں۔ ان لوگوں نے عالمی معیشت کی گتھیوں کو سلجھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ معیشت کی خصوصی اہمیت کو جس طرح ان دنوں متعارف کرایا جا رہا ہے وہ ایک معیشت اور زندگی کے قیام کا نیا دور ہے۔
امسال انعام یافتگان ماہرین معاشیات کا نظریہ ہے کہ اب نئے مطالعے، نئے تعارف، اور سمجھ بوجھ کے نئے دروازے کی ضرورت ہے۔ ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ مستقبل میں معیشت کی ایسی متحرک اہمیت ہمیں ہر مقام پر دیکھنے کو ملے گی اور حکومت و سماج مختلف طور پر علم معاشیات کی تشریح کریں گے، کیونکہ نجکاری کے ساتھ ساتھ چھوٹے طبقے میں نئی معیشت کے خواب دیکھے جانے لگے ہیں۔ مائیکرو اکنامکس کا فارمولا اکہتر ملکوں میں آزمایا بھی گیا ہے اور ناکام بھی ہوا ہے۔ کارپوریٹ گھرانوں، مڈل کلاس کاروباری اداروں اور مڈل کلاس خاندانوں کے ساتھ جب لوگوں کے سامنے سوال آتا ہے تو ہمیں سوچنا ہوگا کہ علم المعاشیات کی اہمیت کس قدر مؤثر ہے جس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ ان ماہرین اقتصادیات کا خیال اور اس کا نتیجہ یہی ہے کہ تجزیہ کاروں، معیشت کے ماہرین، پارٹیوں اور رہنماؤں کو اس پر غور و فکر کرنا ہوگا کہ وہ اپنے متعلقہ ملکوں میں معاشی آزادی کے ساتھ ساتھ اکنامکس کے نئے اصولوں کو نافذ کر کے مستقبل اور انسانی وسائل کے مسائل کو کس طرح حل کرسکتے ہیں۔
یہ ایک معمہ ہے کہ کیسے ایک نئی دنیا کا ہم سامنا کرتے ہیں اور اس دنیا کو نئی معیشت کے آنے سے مستقبل میں ایک خوشحال تہذیب کے لیے آئندہ دنوں میں محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔ یہ دلچسپ بات ہے کہ امسال کا انعام ان ماہرین اقتصادیات کو ملا ہے۔ مثلاً دارون 57 سال کے ہیں اور ستمبر 1967 میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد دارون نے امریکہ اور لندن میں تعلیم حاصل کی۔ انہیں کئی انعامات سے بھی نوازا گیا ہے۔ انہوں نے ساٹھ سے زائد تحقیقی مقالے تحریر کیے اور اپنے طلبہ کے ساتھ مل کر کام کیا ہے۔ انہوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے اپنی صلاحیت کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے۔ ایک ماہر اقتصادیات ہونے کے ساتھ ساتھ ان کا ماننا ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب "اکنامک اوریجنز آف ڈکٹیٹرشپ اینڈ ڈیموکریسی” اور "اسٹرینتھ آف سِول سوسائٹی” وغیرہ میں ایک نئے کردار کو پیش کیا ہے۔ اپنے انٹرویوز میں وہ کہتے ہیں کہ جب تک چین میں اس طرح کا نظم رہے گا، معیشت کے اوپر نئی تحقیق اور سرحدوں سے آگے دیکھنے کی روایت کو قائم رکھنا ہوگا۔ ان کے مطابق، ایسے حالات میں ہوشیار رہنے سے ہم اپنے مستقبل کو محفوظ رکھ سکیں گے۔ جب ان ماہرین اقتصادیات کی تھیوریاں ساری دنیا میں عام ہوں گی تو ایک بار پھر موضوع گفتگو بن جائیں گی کیونکہ معیشت کا تجزیہ معاشی اداروں اور سماجی ضروریات سے منسلک ہونا چاہیے اور نئی جہت میں نئی تحقیقات کا دروازہ کھلنا چاہیے۔ نوبل انعام کمیٹی بھی بہت خوش آئند ہے اور اس نے معیشت میں انعام دے کر ایک ایسا کام کیا ہے جس پر فخر کیا جاسکتا ہے۔
ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ غریب اور امیر ممالک کے درمیان بڑی خلیج پائی جاتی ہے جبکہ آمدنی میں بھی نا برابری بہت زیادہ ہے۔ جب غریب ترین ملک امیر ہوتا ہے تب بھی وہ ان تک نہیں پہنچ پاتا جو امیر ترین ہیں۔ اس طرح کی نابرابری کچھ حد تک تاریخی ہوتی ہے، لیکن اس میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ادارہ جاتی اختلافات ایسے ممالک میں موجود ہوتے ہیں۔ تاہم ترقی یافتہ دنیا کے اندر ایک مشترکہ دنیا موجود ہے جہاں کا سیاسی اور معاشی ڈھانچہ یکساں ہوتا ہے اور شاید ان میں ذہنی اشتراک بھی پایا جاتا ہے۔ اسی پر نوبل انعام یافتگان نے ایک تھیوری تشکیل دی ہے، جس کے باعث ان تینوں ماہرین اقتصادیات کو2024 کے نوبل انعام سے نوازا گیا۔
اب سوال یہ ہے کہ وہ ادارے سے کیا سمجھتے ہیں؟ ادارے دراصل سیاسی اور معاشی عظیم عمارتیں ہیں جو ملک کی ترقی کو مہمیز دیتے ہیں۔ مثلاً مغربی ممالک جو شمولیت پسند ہونے کے ساتھ جمہوری بھی ہیں۔ یہاں مضبوط قانون کی بالادستی ہوتی ہے جس کا دستور شفاف ہوتا ہے اور ہر نکتہ اپنی مناسب ترکیب میں بیان کیا گیا ہے۔ یہی قانونی نظام، آمرانہ نظام کے برعکس استحصالی ہوتا ہے۔ مثلاً ایشیا اور افریقہ کے کچھ حصوں میں وہاں کے سماج میں قانون کی گرفت کمزور ہوتی ہے اور ادارے عوام کا استحصال کرتے ہیں جس سے ملک کی ترقی رک جاتی ہے اور سماج میں بہتر تبدیلی نہیں آتی۔
2024 کے اکنامکس کے نوبل انعام یافتگان نے استعماریت کے نظریے کی وضاحت کی جہاں استعمار پسندوں کے ہاتھوں بہت سارے اداروں کا قیام عمل میں آیا۔ ان کا مقصد وہاں کی مقامی آبادی کا استحصال کرنا اور اپنے خود غرضانہ مفاد کے لیے وہاں کے وسائل کو استعمال کرنا تھا۔ استعمار پسندوں نے شمولیت پسند سیاسی اور معاشی نظام بنایا تاکہ یورپ کے مہاجرین کو زیادہ نفع حاصل ہو۔ یہ عمل ایشیا، افریقہ اور یورپ میں جاری رہا۔ وہاں انہوں نے مفید ادارے قائم کیے لیکن جو لوگ وہاں رہ گئے تھے انہوں نے استعمار کو کبھی بھی بہتر نہیں سمجھا کیونکہ وہ لوگ وہاں کے لیے مستقل سکونت اختیار کیے ہوئے تھے اور ہمیشہ مثبت رویہ اپنایا۔
اب ہم اپنی حکومت کی طرز حکم رانی کو دیکھتے ہیں تو پاتے ہیں کہ حکومت نے کاروبار میں آسانیوں (Ease of Doing Business) کو اپنایا ہے جس کے لیے مناسب ادارہ جاتی ڈھانچے (institutional structure) کی تشکیل کی یا بہت سے شعبہ جات میں اصلاح کرتے ہوئے انفراسٹرکچر، ملکی قوانین، مضبوط مالیاتی نظام اور تنازعات کے جلد حل کا انتظام بھی کیا۔ یہ سب ادارہ جاتی نظام (Setup) کا حصہ ہیں جس سے ملک میں معاشی بہتری کا دروازہ کھلا اور یہی وجہ ہے کہ ہمارا ملک اپنی کمزوریوں کے باوجود گزشتہ ایک دہائی سے دنیا کی سب سے تیزی سے بڑھتی ہوئی معیشت کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ اگرچہ ہمیں ترقی یافتہ معیشت تک پہنچنے کے لیے طویل راستہ طے کرنا ہے۔
نوبل انعام یافتگان کے مطابق جب تک جمہوری حکومت مضبوط اداروں کی بنیاد نہیں رکھتی اس وقت تک پورے ملک میں معاشی خوشحالی آدھی ادھوری ہی رہے گی۔ توقع ہے کہ اس تحقیق کو بروئے کار لاکر بھارت جہاں جمہوریت ہے، اداروں کو مضبوط کرکے اپنی معاشی ترقی کو مزید مہمیز دے گا، کیونکہ یہ مطالعہ بھارت کے لیے بہت زیادہ بامعنی (Relevant) ہے۔ اس سے قبل پروفیسر امرتیہ سین نے غربت اور انسانیت کی فلاح کے تعلق سے اپنا نظریہ پیش کیا تھا جس کا اثر زمینی طور پر کم ہی دیکھنے میں آیا ہے۔
***
اب ہم اپنی حکومت کی طرز حکم رانی کو دیکھتے ہیں تو پاتے ہیں کہ حکومت نے کاروبار میں آسانیوں (Ease of Doing Business) کو اپنایا ہے جس کے لیے مناسب ادارہ جاتی ڈھانچے (institutional structure) کی تشکیل کی یا بہت سے شعبہ جات میں اصلاح کرتے ہوئے انفراسٹرکچر، ملکی قوانین، مضبوط مالیاتی نظام اور تنازعات کے جلد حل کا انتظام بھی کیا۔ یہ سب ادارہ جاتی نظام (Setup) کا حصہ ہیں جس سے ملک میں معاشی بہتری کا دروازہ کھلا اور یہی وجہ ہے کہ ہمارا ملک اپنی کمزوریوں کے باوجود گزشتہ ایک دہائی سے دنیا کی سب سے تیزی سے بڑھتی ہوئی معیشت کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ اگرچہ ہمیں ترقی یافتہ معیشت تک پہنچنے کے لیے طویل راستہ طے کرنا ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 3 نومبر تا 9 نومبر 2024