مزاحمتی تحریکات کے تین مراحل

اہلِ غزہ بھوک، پیاس اور محاصرے کے باوجود ثابت قدم

0

ڈاکٹر ساجد عباسی، حیدرآباد

مزاحمتی تحریکات مختلف مراحل سے گزرتی ہیں اور اپنے مقاصد کو حاصل کرتی ہیں۔ دنیا میں ظلم اور ناجائز تسلط کے خلاف جتنی تحریکیں برپا ہوئیں اگر ان کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان تحریکات کے تین مراحل ہوتے ہیں: منفعلانہ مزاحمت (Passive Activism) رد عمل پر مبنی مزاحمت یا ارتجائی مزاحمت (Reactive Activism) اور منصوبہ بند اقدامی مزاحمت (Proactive Activism) ایسی تحریکات جو صبر و استقامت کے ساتھ اپنے مقصد کے حصول کے لیے بدلتے حالات میں مناسب حکمتِ عملی کو اختیار کرتے ہوئے ظلم کے خلاف جہدِ مسلسل کرتی ہیں ان کو کسی نہ کسی مرحلے میں کامیابی مل کر رہتی ہے۔
۱۔ منفعلانہ مزاحمت Passive Activism: اس کو اکثر عدم تشدد مزاحمت یا پُر امن مزاحمت بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا مقصدیہ ہوتا کہ سماجی یا سیاسی تبدیلی کو پُر امن ذرائع سےحاصل کیا جائے۔ اس کے لیے احتجاجی مظاہرے، بائیکاٹ، سِول نافرمانی، علامتی اقدامات اور دیگر پُر امن مزاحمتی اقدامات کیے جاتے ہیں جن کا مقصد دنیا کی توجہ کو نا انصافی کی طرف مبذول کرانا ہوتا ہے تاکہ نا انصافی کے خاتمے کے لیے عوامی رائے ہموار ہوسکے۔ اس مزاحمت کی خصوصیت یہ ہے کہ اپنے موقف پر استقامت اور صبر کے ساتھ ڈٹ جانا اور اپنے حقوق سے کسی طرح دستبردار نہ ہونا ہے، چاہے کتنے ہی مصائب کو انگیز کرنا پڑ جائے۔ اس مزاحمت میں سخت سے سخت اذیت برداشت کی جاتی ہے۔ ظالم قوم ظلم کے ذریعے مظلوموں کو ان کے اپنے ان گھروں سے جبراً نکال کر بے گھر کر دیتی ہے جن میں ان کے آباء و اجداد صدیوں سے رہتے آر ہے تھے پھر ان گھروں کو ان کی آنکھوں کے سامنے مسمار کر دیا جاتا ہے۔ ان کے باغات اور کھیتیوں کو اجاڑ دیا جاتا ہے۔ ان کی تجارت کو نیست و نابود کر دیا جاتا ہے۔لیکن مظلوم اپنی زمین کو چھوڑنے پر تیار نہیں ہوتے اورنہ ہی وہ ہجرت کرنے پر آمادہ ہوتے ہیں۔ اہلِ فلسطین نے مرحلہ وار جو مزاحمت اختیار کی ہے اس میں تین طرح کی مزاحمتیں پائی جاتی ہے۔ چنانچہ ۱۹۴۸ء میں نا جائز اسرائیلی ریاست کے قیام کے بعد جب ان کے گھروں کو مسمار کیا گیا تو وہ ہجرت کرنے کے بجائے خیموں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے اور ان خیموں میں دو تین نسلیں پرورش پاکر جوان ہوئیں۔ پہلا انتفاضہ جو ۱۹۸۷ء میں شروع ہوا اور ۱۹۹۳ء تک چلتا رہا اگرچہ اس میں بعض مقامات پر پر تشدد جھڑپیں بھی ہوئیں لیکن اس تحریک کا ایک بڑا حصہ عدم تشدد اور سِول نافرمانی پر مشتمل تھا، جیسے اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ، ٹیکس ادا کرنے سے انکار، مقامی سطح پر اسکولوں اور صحت کی خدمات کا خود انتظام اور پُر امن مظاہرے اور عام ہڑتالیں۔ یہ تمام اقدامات مسلح تصادم کے بغیر قبضے کو چیلنج کرنے کی کوششیں تھیں۔ اس میں ثقافتی مزاحمت بھی شامل ہے۔ فلسطینی شاعروں، ادیبوں اور فنکاروں جیسے محمود درویش نے ثقافتی شناخت اور مزاحمت کو ادب و فن کے ذریعے فروغ دیا۔ مغربی کنارے میں اسرائیلی دیوارِ علیحدگی اور بستیوں کی توسیع کے خلاف ہفتہ وار پُر امن مظاہرےکیے گئے۔ یہ علامتی اقدامات، عالمی یکجہتی اور بین الاقوامی میڈیا کی توجہ حاصل کرنے لیے ہوتی رہیں۔ منفعلانہ مزاحمت کے مرحلے میں مظلومین ظلم، قبضہ، جبر یا استبداد کو خاموشی سے سہتے ہیں یا اس کے خلاف پُر امن احتجاج کرتے ہیں۔ یہ خاموش استقامت اور قربانی کا دور ہوتا ہے۔ ۱۹۴۸ء کے بعد لاکھوں فلسطینی بے گھر ہو گئے۔ بے گھر ہونے کے بعد یہ مظلوم فلسطینی خیمہ بستیوں میں رہنے لگے اور ان میں کئی نسلیں پروان چڑھنے لگیں۔شمالی افریقہ اور ویتنام میں فرانسیسی نو آبادیاتی قبضے کے دوران بھی عوام طویل عرصے تک خاموشی سے جبر سہتے رہے۔ اسی طرح افغانستان میں سوویت یونین کے قبضے کے آغاز میں عوامی استقامت دیکھنے میں آئی لیکن فوری طور پر جنگی مزاحمت پیش نہیں آئی۔
حالیہ تاریخ میں passive ایکٹوازم کی چند مثالیں:
۱۔ Black lives matter کی تحریک جس کا آغاز امریکہ میں ۲۰۱۳ میں ہواتھا۔
۲۔ Fridays for Future ایک ماحولیاتی احتجاج ہے اس کا آغاز ۲۰۱۸ء میں ہوا تھا۔ Greta Thunberg سے متاثر طلبہ نے جمعہ کو اسکول جانا ترک کر کے ماحولیاتی غفلت کے خلاف خاموش احتجاج کیا تھا۔
۳۔ ہندوستانی کسانوں کا احتجاج جو ۲۰۲۰ء اور ۲۰۲۱ء کے درمیان ہوا تھا۔یہ احتجاج زرعی قوانین کے خلاف بڑے پیمانے پر پُر امن مظاہروں، دھرنوں اور دہلی کے نزدیک مہینوں طویل قیام کی شکل میں کیا گیا تھا۔ منفعلانہ مزاحمت کی اہم خصوصیات یہ ہیں کہ یہ تشدد سے خالی ہوتی ہے اور اس میں علامتی اقدامات شامل ہوتے ہیں جیسے جلوس، دھرنا اور بھوک ہڑتال وغیرہ۔ براہ راست تصادم کے بغیر نظام میں خلل ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کے ذریعے اصحابِ اقتدار کے ضمیروں کو جھنجھوڑا جاتا ہے اور عوامی رائے کو بدلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایسی مزاحمت اکثر عوامی شرکت پر منحصر ہوتی ہے۔ اس کی بہترین مثال گاندھی جی کی قیادت میں کی جانے والی تحریکِ آزادی ہند ہے جس میں مظاہرے، بائیکاٹ اور سِول نافرمانی شامل تھی۔ فلسطین کی آزادی کے حق میں عالمی سطح پر اسرائیل کے خلاف BDS تحریک (Boycott, Divestment and Sanctions) – بھی اس کی ایک مثال ہے۔
۲۔ دوسرا مرحلہ رد عمل کی بنا پر مزاحمت یا ارتجائی مزاحمت Reactive Activism کہلاتا ہے۔ جب کوئی خاص واقعہ یا ظلم ہوتا ہے تو اس کے جواب میں کی جانے والی مزاحمتی کارروائی ارتجائی مزاحمت کہلاتی ہے۔ یہ عمومی طور پر فوری، دفاعی اور بعض اوقات غیر منظم ہوتی ہے۔ ظلم کے خلاف فوری طور پر جو بھی وسائل مہیا ہیں اس کو بروئے کار لا کر مزاحمت کی جاتی ہے۔فلسطین میں گھروں کو مسمار کرنے کا سلسلہ رکنے کے بجائے اور زیادہ جارحیت کے ساتھ جاری رہا تو فلسطینی بچوں نے علامتی طور پر اپنے غصہ کے اظہار کے لیے ظالم پولیس کے مقابلے میں پتھر اٹھا لیے تھے۔ دوسرا انتفاضہ جس کا آغاز ۲۰۰۰ء میں اور اختتام ۲۰۰۵ء میں ہوا تھا، مسجد اقصیٰ میں آریل شیرون کی آمد کے خلاف ایک ردعمل تھا۔ پتھروں کے جواب میں اسرائیل کی پولیس اور فوج گولیوں سے فلسطینی نوجوانوں کو نشانہ بناتی جس سے کئی نوجوان شہید ہو جاتے اور کئی زخمی ہو جاتے اور کئی نوجوانوں کو گرفتار کر لیا جاتا تھا۔مزاحمت کے اس مرحلے میں شہادتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ جیلوں میں فلسطینی قیدیوں پر تعذیب کی جاتی اور ان جیلوں میں بڑوں کے ساتھ بچوں، بچیوں اور خواتین کو بھی قید کیا جاتا۔ اس طرح بچوں کا بچپن قید کی نذر ہو جاتا۔جیلوں ہی میں اکثر کی زندگی گزر جاتی اور ان کی رہائی کا کوئی امکان نہیں ہوتا۔ پچھلے برسوں میں اسرائیل اور غزہ کے مابین جنگیں بھی ایک رد عمل کے طور پر دیکھی جا سکتی ہیں جو غزہ کے طویل ناکہ بندی کے رد عمل کے نتیجہ میں پیش آئی تھیں۔ اسی طرح ویتنام میں امریکی فوج کے ظلم کے خلاف گوریلا حملے شروع کیے گئے تھے۔ اسی طرح افغانستان میں بھی مجاہدین نے روسی افواج کے خلاف پہاڑوں میں چھاپہ مار کارروائیاں شروع کیں۔ یہ تمام مزاحمتیں ظلم کے رد عمل کے طور پر پیدا ہوئیں اور اب تک جاری و ساری رہیں۔
۳۔ تیسرا مرحلہ Proactive Activism کہلاتا ہے – ایسی مزاحمت جو منصوبہ بندی کے ساتھ مستقبل کے خطرات کو روکنے اور قومی مقاصد کے حصول کے لیے اختیار کی جاتی ہے۔ غزہ کے طویل محاصرے نے حماس کو دقیق حکمتِ عملی پر مجبور کیا: زیرِ زمین سرنگوں کا جال بچھانا، راکٹ سازی کی ٹیکنالوجی حاصل کر کے انہیں بڑی تعداد میں تیار کرنا اور فوجی دستوں کو منظم تربیت دے کر ایک عسکری قوت پیدا کرنا جو Deterrence (روک تھام) کے طور پر استعمال ہو سکے۔
حماس اپنے آپ کو ایک قومی مزاحمتی تحریک سمجھتی ہے جو قبضے کے خاتمے، فلسطینی عوام کے تحفظ اور حقِ خود ارادیت کے لیے برسرِ پیکار ہے۔ اس زاویے سے دیکھا جائے تو حماس کی موجودہ کارروائیاں دراصل ایک پیش بندی پر مبنی مزاحمت ہیں جو ممکنہ نسل کشی اور قبضے کے نظام کو توڑنے کے لیے کی جا رہی ہیں۔ اسرائیلی ظلم و جارحیت میں مسلسل اضافہ اس بات کا سبب بنا کہ فلسطینی مزاحمتی تحریک ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے میں منتقل ہوتی گئی۔
مقبوضہ فلسطین کے اندر مسلح جدوجہد تقریباً نا ممکن بنا دی گئی تھی – فلسطینی بستیوں کو اسرائیلی آبادیوں سے دیوار بنا کر کاٹ دیا گیا تھا – اس لیے مسلح مزاحمت کا مرکز غزہ بنا۔ ابتدا میں حماس کے راکٹ کم فاصلے کے تھے، نشانے پر نہیں لگتے تھے اور اسرائیلی فوجی طاقت کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے۔ اس کے باوجود حماس نے فیصلہ کیا کہ وہ اسرائیلی جارحیت کا جواب دے گی، چاہے اس کے نتائج کچھ بھی ہوں۔
اسرائیل نے اپنا دفاعی نظام "آئرن ڈوم” تیار کیا جو حماس کے بیشتر راکٹوں کو ناکارہ بنا دیتا تھا۔ اسرائیلی قیادت اس موقع کی تلاش میں تھی کہ حماس کے کسی بھی اقدام کو بہانہ بنا کر غزہ پر ہمہ گیر یلغار کی جائے۔ ۷؍ اکتوبر کے واقعات سے قبل اسرائیل کو حماس کے منصوبے کا علم تھا مگر اس نے اسے روکنے کے بجائے ہونے دیا تاکہ بعد میں اس کا الزام حماس پر لگا کر ایک بڑی جنگ مسلط کی جا سکے۔ حماس کا مقصد صرف اسرائیلی شہریوں کو قید کر کے فلسطینی قیدیوں کی رہائی اور ناکہ بندی کے خاتمے کو ممکن بنانا تھا، نہ کہ شہری قتلِ عام؟ لیکن اسرائیلی فوج نے حملہ نا کام بنانے کے بجائے اپنے ہی شہریوں کو نشانہ بننے دیا تاکہ غزہ پر قبضے کا جواز فراہم کیا جا سکے۔
یہ پالیسی نئی نہیں تھی – ۱۹۶۷ء کی جنگ میں اسرائیل نے اردن سے مغربی کنارہ و مشرقی یروشلم، مصر سے غزہ، اور شام سے گولان کی پہاڑیاں چھین لیں۔ موجودہ منصوبہ یہ تھا کہ غزہ کو اس قدر تباہ کر دیا جائے کہ وہ باقی ہی نہ رہے، اور اس کے مکینوں کو مصر کے جزیرہ نما صحرائے سینا میں دھکیل دیا جائے۔ مگر اسرائیل اس بات کا اندازہ نہ لگا سکا کہ حماس کی مزاحمت اس قدر مؤثر ہو گی۔
اہلِ غزہ کو بھوک، پیاس اور بنیادی ضروریات سے محروم کرنے کی کوشش نے اسرائیل کے انسانیت دشمن عزائم کو دنیا کے سامنے بے نقاب کر دیا۔ لاکھوں فوجی جھونکنے کی خواہش کے باوجود، امریکہ، یورپ اور عرب حکم رانوں کی مدد کے ساتھ بھی اسرائیل حماس کو ختم نہ کر سکا۔ اتنی شدید بمباری اور غیر انسانی محاصرے کے باوجود حماس کا اب تک باقی رہنا ایک معجزے سے کم نہیں۔
اس تیسرے مرحلے میں حماس نے جارحانہ حکمتِ عملی اپنائی – اینٹی ٹینک جدید ہتھیار تیار کیے، اسرائیلی بمباری کے ملبے سے لوہا اکٹھا کیا، اَن پھٹے بموں سے مواد حاصل کر کے راکٹ بنائے اور سب سے حیران کن طور پر زیرِ زمین سرنگوں کا ایک جال بچھایا جس نے اسرائیلی کارروائیوں کو ناکام کر دیا۔ عمارتوں کے کھنڈرات بھی حماس کے لیے خفیہ اڈے بن گئے جہاں سے وہ چھاپہ مار کارروائیاں کرتے ہیں۔ اسرائیلی فوج کے بھاری جانی نقصان نے ان کا حوصلہ پست کر دیا اور کئی یونٹ نتن یاہو کے منصوبے پر عمل سے انکار کر رہے ہیں۔
یہ حکمتِ عملی ماضی میں ویتنام کی جنگ میں بھی کامیاب رہی، جب ہوچی منہ کی قیادت میں ویتنام نے امریکی افواج کو گوریلا جنگ سے شکست دی اور بالآخر سوویت یونین و چینی حمایت سے سائیگون پر قبضہ کر کے امریکہ کو پسپا کیا۔ افغانستان میں طالبان نے بھی یہی طریقہ اپنایا – گوریلا نیٹ ورک، سفارت کاری اور سیاسی بیانیہ ، اور آخرکار امریکہ کو انخلا پر مجبور کیا۔
افغان جس طرح پہاڑوں سے امریکی اڈوں تک پہنچے ویسے ہی حماس نے خیموں سے سرنگوں اور راکٹوں تک کا سفر طے کیا۔ حماس، ویتنام اور افغان مجاہدین ۔ یہ سب اس بات کا ثبوت ہیں کہ جب دلوں سے دشمن کا خوف نکل جائے، آزادی کا عزم پیدا ہو اور سینوں میں قربانی کا جذبہ موجزن ہو تو مزاحمتی تحریکیں ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے میں ترقی کرتی چلی جاتی ہیں۔
ہمت، شجاعت، صبر و استقامت اور ایمانی طاقت، یہ وہ عناصر ہیں جن کے سامنے سوپر پاورز بھی سرنگوں ہو جاتے ہیں۔ اہلِ غزہ نے سعادت مند زندگی اور شہادت کی موت کا راستہ چُنا ہے: جیتے ہیں تو صہیونیوں کے خلاف مزاحمت کے لیے اور مرتے ہیں تو شہادت کی منزل پاتے ہیں اور یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ ایسی تحریکیں صرف عسکری میدان میں ہی نہیں بلکہ نظریاتی، اخلاقی اور نفسیاتی محاذ پر بھی دنیا کی طاقتور قوموں کو للکارنے میں کامیاب رہتی ہیں۔
***

 

***

 ہمت، شجاعت، صبر و استقامت اور ایمانی طاقت ۔ یہ وہ عناصر ہیں جن کے سامنے دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں بھی سرنگوں ہو جاتی ہیں۔ اہلِ غزہ نے سعادت مند زندگی اور شہادت کی موت کا راستہ چنا ہے ۔ اور یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 24 اگست تا 30 اگست 2025

hacklink panel |
casino siteleri |
deneme bonusu |
betorder |
güncel bahis siteleri |
cratosbet |
hititbet |
casinolevant |
sekabet giriş |
2025 yılının en güvenilir deneme bonusu veren siteler listesi |
Deneme Bonusu Veren Siteleri 2025 |
deneme bonusu veren siteler |
deneme bonusu veren siteler |
taksimbet giriş |
betpas giriş |
bahis siteleri |
ekrem abi siteleri |
betebet giriş |
gamdom |
gamdom |
gamdom giriş |
gamdom |
betsat |
ronabet giriş |
truvabet |
venüsbet giriş |
truvabet |
hacklink panel |
casino siteleri |
deneme bonusu |
betorder |
güncel bahis siteleri |
cratosbet |
hititbet |
casinolevant |
sekabet giriş |
2025 yılının en güvenilir deneme bonusu veren siteler listesi |
Deneme Bonusu Veren Siteleri 2025 |
deneme bonusu veren siteler |
deneme bonusu veren siteler |
taksimbet giriş |
betpas giriş |
bahis siteleri |
ekrem abi siteleri |
betebet giriş |
gamdom |
gamdom |
gamdom giriş |
gamdom |
betsat |
ronabet giriş |
truvabet |
venüsbet giriş |
truvabet |