مولانا آزاد کے سیاسی افکار اور بدلتا بھارت

مولانا اسلامی تشخص پر سمجھوتہ کے بغیر مسلمانو ں کی سیاسی ہم آہنگی چاہتے تھے

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد، حیدرآباد

مولانا ابوالکلام آزاد بیسویں صدی کی وہ عبقری شخصیت ہیں جنہوں نے اپنے افکار و نظریات کے ذریعہ ہندوستانی تاریخ کے نازک دور میں قوم و ملک کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیا۔ وہ ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ رب کائنات نے انہیں غیر معمولی صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ وہ ایک مفسر قرآن، ایک عالم دین، بیباک صحافی اور بے مثال خطیب کے ساتھ ساتھ ایک عظیم مدبر اور دور اندیش سیاستداں بھی تھے۔ مولانا آزاد کی سیاسی بصیرت کا اندازہ ان کے سیاسی افکار سے ہوتا ہے۔ ہندوستان کی جنگ آزادی، قومی اتحاد اور ملک کی تعمیر وترقی میں انہوں نے جو رول ادا کیا وہ نا قابل فراموش ہے۔ مولانا آزاد نے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہ ایک خالص مذہبی ماحول تھا لیکن انہوں نے اپنی ابتدائی زندگی میں ہی تقلید جامد و ساکت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ مولانا آزاد کے شوقِ تجسس نے انہیں زمانے کے تقاضوں کو سمجھنے اور پرکھنے کے قابل بنایا۔ اسی لیے ان کے افکار و نظریات بھی وقت کے ساتھ ڈھلتے رہے۔ جس نظریہ کو انہوں نے اپنے ابتدائی دور میں قبول کیا بعد میں اس سے کنارہ کش ہو کر دوسری راہ اپنائی۔ یہ ان کی شخصیت کا کمال تھا کہ جب وہ کوئی فیصلہ کر لیتے تو اس سے پیچھے نہ ہٹتے۔ سیاست کے میدان میں جب انہوں نے قدم رکھا تو زندگی کے آخری دور تک اس میں حصہ لیتے رہے۔ مولانا آزاد کے سیاسی افکار پر اس دور میں کافی تنقیدیں بھی ہوئیں لیکن آج ان کے ناقدین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ مولانا آزاد نے ہندوستانی مسلمانوں کو جو مشورہ دیا تھا وہ غلط نہیں تھا۔ پروفیسر مشیرالحق کے مطابق مولانا آزاد کا خیال تھا کہ ’جب تک ہم اسلام کی پیروی کریں گے ہمیں سیاست میں ہندوؤں کے پیچھے جانے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’’ہندوستانی مسلمانوں نے آنکھیں بند کرکے برطانوی حکومت کی تائید کی اور انہوں نے ہندوؤں سے اپنے سارے رشتے منقطع کر لیے جو کہ ملک کا سب سے فعال فرقہ تھا۔ ہمیں یہ کہہ کر ڈرایا گیا کہ ہندو ایک اکثریتی فرقہ ہے اور اگر ہم ان کا ساتھ دیں گے تو پھر وہ ہم کو پسپا کر دیں گے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جہاں حکومت کو مسلمانوں کے برچھوں کا نشانہ بننا چاہیے تھا وہ تو محفوظ رہی اور اس کی جگہ ان کے پڑوسی ان کے نشانے پر آگئے ‘‘ مولانا آزاد کی اس بات میں کتنی صداقت ہے کہ ملک کے اکثریتی طبقہ کو کس طرح سے مسلمانوں کے خلاف لا کھڑا کر دیا گیا اور اس کا جو خمیازہ مسلمانوں کو بھگتنا پڑا وہ بھی تاریخ کا ایک تلخ باب ہے۔ موجودہ دور میں بھی یہی حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے ملک کے دو طبقوں کے درمیان دراڑیں ڈالنے کی مذموم کوششیں جا ری ہیں۔ سیاسی مفادات کے لیے مسلمانوں کو ڈرایا جاتا کہ ہمارا ساتھ نہیں دیں گے تو یہاں کے ہندو تمہیں یہاں رہنے نہیں دیں گے۔ مولانا آزاد نے اس پرآشوب دور میں کہا کہ ’’ہمیں ہندوؤں سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں صرف خدا سے ڈرنا چاہیے۔ اگر تم ہندوستان میں رہنا چاہتے ہیں تو تمہیں اپنے پڑوسیوں کو گلے لگانا چاہیے‘‘ مولانا آزاد نے مسلمانوں کو یہ مشورہ ملک کی آزادی سے بہت پہلے دیا تھا لیکن اس کی معنویت آج بھی باقی ہے۔ ملکی سماج کو مذہب اور ذات کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی جو جارحانہ سیاست اس وقت ملک چل رہی ہے اس کو روکنے کا یہی ایک ذریعہ ہے کہ بھارت کے مسلمان ملک کے کسی طبقہ سے خوف کھائے بغیر اپنا لائحہ عمل طے کریں اور صرف خدا کی ذات پر بھروسہ کرتے ہوئے آگے بڑھیں، اسی میں ان کی کامیابی اور سربلندی کا راز مضمر ہے۔
مولانا ابوالکلام آزاد کے سیاسی افکار کی وسعت کا اندازہ ان کی اس تحریر سے ہوجاتا ہے۔ الہلال کی یکم جنوری ۱۹۱۳ء کی اشاعت میں وہ لکھتے ہیں کہ ’’اسلام نے تنگ نظری اور جنسی و مذہبی تعصب کی تعلیم نہیں دی ہے۔ وہ انسانی او صاف، خصائل کے اعتراف اور انسانی رحم و محبت کے جذبات کو محض تمیز، مذہب و قوم کے تابع نہیں کر دیتا، اسلام نے ہم کو سکھلایا کہ ہم ہر اچھے انسان کا احترام کریں خواہ وہ کسی مذہب کا پیرو اور کسی بھی قوم کا فرد ہو ’’مولانا آزاد کی سانسوں میں احترام آدمیت کا جو جذبہ تھا شاید اسی کا نتیجہ ہے کہ تحریک آزادی کے دوران وہ ملک کے تمام طبقوں میں آزادی کی لہر دوڑانے کامیاب ہو گئے۔ مولانا آزاد کے نزدیک سیاست سے مذہب کو الگ کر دیا جائے تو کچھ بھی باقی نہ رہے گا۔ اس لیے جہاں وہ مسلمانوں کو جنگ آزادی میں حصہ لینے کی ترغیب دیتے رہے وہیں انہوں نے مسلمانوں سے کبھی یہ نہیں کہا وہ اپنی مذہبی روایات اور تہذیب سے دستبردار ہو جائیں۔ وہ قرآن کی روشنی میں مذہب اور سیاست میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کر تے رہے تاکہ مسلمان بھی ہندوستانی قومی تحریک کا ایک جزو لاینفک بن جائیں۔ مولانا آزاد ہندوستان کو آزادی کی جدوجہد کو ایک دینی فریضہ مانتے تھے۔ انہوں نے اپنے ایک مضمون ’’ہندوستان کی آزادی اور مسلمان‘‘ میں مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ ’’دوسروں کے لیے ملک کی آزادی کی جدوجہد کرنا داخل حب الوطنی ہے۔ مگر آپ کے لیے ایک فرض دینی اور داخل جہاد فی سبیل اللہ‘‘ یہ وہ تاریخی جملے ہیں جس کے ذریعہ مولانا آزاد نے ہندوستانی مسلمانوں میں آزادی کا صور پھونکا۔ پوری تحریک آزادی کے دوران کسی اور طبقہ کی جانب سے یہ جرات رندانہ نظر نہیں آتی۔ ایک ایسے وقت جب کہ اس ملک کا اکثریتی طبقہ انگریزوں سے دوستی نبھاتے ہوئے ان سے مراعات حاصل کر رہا تھا، مسلمانوں کے لیے ملک کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرانا ایک دینی فریضہ بن چکا تھا۔ ہندوستان کی آزادی کے 75 سال بعد اگر کوئی ہندوستانی مسلمانوں سے ملک سے وٖفاداری کی سند مانگ رہا ہے تو اسے مولانا آزاد کی یہ تحریر بطور سند پیش کر دینا چاہیے۔ مولانا آزاد کا یہ کارنامہ ہے کہ انہوں نے ’’انگریزوں کی لڑاؤ اور حکومت کرو‘‘ پالیسی کے برعکس ملک کے دو بڑے طبقوں میں انگریزوں کے خلاف ڈٹ جانے کا جذبہ پیدا کیا۔ اسی بے مثال اتحاد کا نتیجہ تھا کہ ملک سے استبدادی نظام کا خاتمہ ہو گیا۔ مولانا آزاد کے سیاسی افکار میں ان کے متحدہ قومیت کے نظریہ پر کافی بحثیں ہو چکی ہیں۔ مولانا آزاد کا ایقان تھا کہ ہندو-مسلم اتحاد کے بغیر ملک کی آزادی ممکن نہیں ہے۔ مولانا آزاد ہندو-مسلم اتحاد کے لیے کتنے فکر مند تھے اس کا اندازہ ان کے اس تاریخی خطبہ سے ہوتا ہے جو انہوں نے کانگریس کے 1933 میں منعقدہ ایک خصوصی اجلاس میں دیا تھا۔ مولانا نے کہا تھا ’’آج اگر ایک فرشتہ آسمان کی بدلیوں میں سے اُتر آئے اور دہلی کے قطب مینار پر کھڑا ہو کر یہ اعلان کر دے کہ سوراج چوبیس گھنٹے کے اندر مل سکتا ہے بشرطیکہ ہندوستان ہندو-مسلم اتحاد سے دستبردار ہو جائے تو میں سوراج سے دستبردار ہو جاؤں کا مگر ہندو-مسلم اتحاد سے دستبردار نہیں ہوں گا۔ کیوں کہ اگر سوراج ملنے میں تاخیر ہوئی تو یہ ہندوستان کا نقصان ہو گا لیکن اگر ہمارا اتحاد جاتا رہا تو عالم انسانیت کا نقصان ہو گا‘‘ کیا موجودہ دور میں کوئی ایک سیاستداں ایسا مل سکتا ہے جو یہ تڑپ رکھتا ہو اور جو ہندو-مسلم اتحاد کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار ہو؟ مولانا آزاد نے جہاں قومی اتحاد اور متحدہ قومیت کے نظریہ کو اپنی زندگی کا مشن بنایا تھا، وہیں انہوں نے بڑی وضاحت کے ساتھ اسلامی تعلیمات اور اس کے ورثہ کو اپنے لیے قابل فخر قرار دیا۔ اس معاملے میں انہوں نے کسی قسم کے دباؤ کو قبول نہیں کیا۔ وہ ہمیشہ اپنے آپ کو ایک سچے مسلمان کی حیثیت سے منواتے رہےانڈین نیشنل کانگریس کے مارچ 1940ء میں رام گڑھ (بہار) میں منعقدہ اجلاس میں سیاسی فہم سے لبریز جو صدارتی خطبہ مولانا آزاد نے دیا تھا آج بھی اس خطبہ کا ایک ایک لفظ اپنی غیر معمولی معنویت رکھتا ہے۔ مولانا نے ببانگ دہل اعلان کیا تھا کہ:’’میں مسلمان ہوں اور فخر کے ساتھ محسوس کرتا ہوں کہ میں مسلمان ہوں۔ اسلام کی تیرہ سو برس کی شاندار روایتیں میرے ورثے میں آئی ہیں۔ اسلام کی تعلیم، اسلام کی تاریخ، اسلام کے علوم و فنون، اسلام کی تہذیب، میری دولت کا سرمایہ ہے۔ اور میرا فرض ہے کہ اس کی حفاظت کروں‘‘۔ مولانا آزاد کی اسلام اور اسلامی تہذیب و تمدن سے یہ والہانہ وابستگی اس بات کا ثبوت ہے کہ انہوں نے قومی اتحاد کے لیے اسلام کو نظر انداز نہیں کردیا تھا بلکہ وہ اسلام کے سچے علمبردار بن کر ہندوستانی مسلمانوں کو یہ درس دے رہے تھے کہ حب الوطنی کے جذبہ کو فروغ دینے کے لیے مذہب کو قربان کرنا نہیں ہے۔ مولانا آزاد جہاں مشترکہ تہذیب اور ملک کی رنگا رنگی کے قائل تھے وہیں انہوں نے مسلمانوں کو تاکید کی کہ وہ قومی دھارے کے نام پر اپنے دینی و ملی تشخص کو نہ کھو بیٹھیں۔ مولانا آزاد کے سیاسی افکار کی اسی انفرادیت نے ان کو قومی سیاست میں ایک منفرد مقام و مرتبہ عطا کیا۔ ہندوستان جیسے کثیر المذاہب ملک میں جہاں انفرادی اور اجتماعی زندگی میں مذہب کا اہم رول ہوتا ہے، اسے اگر تسلیم نہ کیا جائے تو سماج میں بے اطمینانی بڑھتی جاتی ہے۔ جب قومی سیاست میں مذہب کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے تو پھر مسائل کا انبار کھڑا ہو جاتا ہے۔ اس وقت ملک میں ایک مخصوص طبقہ یہی چاہتا ہے کہ سارے مذاہب کی آزادی کو ختم کر کے ایک خاص مذہب اور تہذیب کو ملک کے تمام باشندوں پر مسلط کر دیا جائے۔ مذہبی، لسانی اور دیگر اکائیوں کو ختم کر کے سب کو ایک رسّی میں باندھنا نہ کل ممکن تھا نہ آج ممکن ہے۔ تحریک آزادی کے دوران بھی ہندو فرقہ پرست طاقتوں کو تقویت پہنچانے کی کوشش ہوتی رہی، لیکن مولانا آزاد جیسی شخصیتوں کے ہوتے ہندو احیاء پرستوں کے عزائم پورے نہ ہو سکے۔ لیکن آج اس بات کے لیے پوری قوت لگائی جا رہی کہ کسی بھی طرح ہندوتوا کے خواب کو شرمندہ تعبیر کیا جائے۔ اس بدلتے ہندوستان میں مولانا آزاد کےسیاسی افکار کو عام کیا جائے تو امید کی جا سکتی ہے کہ ایک نیا ہندوستان وجود میں آسکتا ہے جہاں عدل و انصاف، بھائی چارہ اور آپسی تعاون و ہمدردی کے خوش گوار منظر دیکھے جا سکیں گے۔ بقول پروفیسر رشید الدین خان ’’مولانا آزاد کا بڑا انوکھا اور بہت اہم کام یہی تھا کہ انہوں نے روحِ اسلام کو روح عصر کے ساتھ ملانے کی کوشش کی اور ان مثبت، ترقی پسند اور صحت مند قدروں کو جمہوریت، قومی اتحاد، سیکولر سماج، عالمگیر انسانیت، بنیادی انسانی حقوق اور آزادیِ ملک وقوم کو اسلامی نظریہ سیاسی کے مطابق پیش کرنے کی کوشش کی‘‘ مولانا آزاد نے اپنے سیاسی افکار کی بنیاد ہی اسلامی نظریہ پر رکھی لیکن یہ ہندوستانی مسلمانوں کی بدقسمتی رہی کہ وہ مولانا آزاد کے مشن کو سمجھنے میں ناکام رہے۔ تحریک حزب اللہ کے ذریعہ مولانا آزاد نے جن اعلیٰ اسلامی قدروں کو روشناس کراتے ہوئے مسلمانوں کو اپنا فرض منصبی یاد دلانے کی کوشش کی اس کی مخالفت خود مسلمانوں کی جانب سے ہوئی۔ بعد کے دور میں وہ جب ایک قومی قائد بن کر ابھرے اور تحریک آزادی کے ہراول دستے میں شامل ہوئے تب بھی قوم نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔ وہ حالات سے اس قدر مایوس ہو چکے تھے کہ انہوں نے خلوت نشینی کا فیصلہ کر لیا تھا لیکن قوم کے مصائب کو دیکھتے ہوئے پھر عوامی زندگی میں آئے اور ایک آندھی بن کر قومی سیاست پر چھا گئے۔ آزادی کے بعد کانگریس نے بھی ان کے ساتھ انصاف نہیں کیا اور ان کی آواز صدا بہ صحرا ہو گئی۔ لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ مولانا ابوالکلام آزاد کے سیاسی افکار کی قوم کو آج بھی ضرورت ہے۔
(مضمون نگار سابق اسوی ایٹ پروفیسر سیاسیات ہیں)

 

***

 ’’میں مسلمان ہوں اور فخر کے ساتھ محسوس کرتا ہوں کہ میں مسلمان ہوں۔ اسلام کی تیرہ سو برس کی شاندار روایتیں میرے ورثے میں آئی ہیں۔ اسلام کی تعلیم، اسلام کی تاریخ، اسلام کے علوم و فنون، اسلام کی تہذیب، میری دولت کا سرمایہ ہے۔ اور میرا فرض ہے کہ اس کی حفاظت کروں‘‘


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 نومبر تا 26 نومبر 2022