مصنوعی ذہانت سب کے لیے ہومگر شفافیت کے ساتھ

بھارت کو AI کے میدان میں عالمی قیادت کے لیے مزید فاصلہ طےکرنا ضروری

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

مختلف شعبہ ہائے زیست جیسے طب،تعلیم ،تجارت اورزراعت کے ساتھ ساتھ مصنوعی فوج بھی تیار
ٹکنالوجی کی وسعت بڑھ گئی ہے تو چند ممالک AI پر اپنا شکنجہ کسنا چاہتے ہیں اس لیے چوٹی کانفرنس کا مقصد ہرگز یہ نہیں ہونا چاہیے کہ نام نہاد یکساں افکار کے ممالک کو ہی AI سے قوت ملے بلکہ اس کے لیے سبھی ممالک کی شمولیت ضروری ہے ۔ اب ڈیجیٹل دنیا محض ترقی یافتہ یا مغربی ممالک تک محدود نہیں ہے۔ AI کے اصول اور عمل آوری کے سب سے اہم ادارہ کی قیادت پر فائز ہونا بھارت کے لیے بڑے فخر کی بات ہے۔ وہ اس لیے کہ ہمارا ملک ٹکنالوجی کے شعبہ میں تیزرفتاری سے ترقی کرتا ملک ہے۔
پچھلے دنوںنئی دلی میں منعقدہ مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence)کے عالمی شراکت داری چوٹی سمٹ کے بعد جاری متفقہ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ممبر ممالک زراعت اور شعبہ صحت میں مصنوعی ذہانت کے اطلاق کو بہتر کرنے پر باہمی تعاون کریں گے۔ اس شراکت داری میں فی الحال 29ممالک شامل ہوئے ہیں۔ ان ممالک کے مندوبین نے اس امر پر زور دیا ہے کہ مصنوعی ذہانت کو بہتر اور ترقی یافتہ بناکر گلوبل ساؤتھ کی ضرورتوں کو اولیت دی جائے۔
گزشتہ چند سالوں میں مصنوعی ذہانت کے شعبہ میں بڑی تیزی سے ترقی ہوئی ہے۔ نتیجتاً ٹکنالوجی کے شعبہ میں زبردست انقلاب آیا ہے۔ ساتھ ہی اس کے غلط استعمال کے اندیشے بھی بڑھ رہے ہیں۔ ہو نہ ہو اس کا کنٹرول چند ہاتھوں تک محدود ہوسکتا ہے۔ اس لیے نئی دلی کانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ میں عالمی فریم ورک بنانے پر سمجھوتہ ہوا ہے تاکہ مصنوعی ذہانت کے معاملے میں بھروسہ اور اس کی سلامتی کو متعین کیا جاسکے جس سے سبھوں کو فائدہ ہو اس پر سبھوں کی رضامندی بھی حاصل ہوئی ہے ۔اگر مصنوعی ذہانت زرعی پیداوار بڑھانے اور شعبہ طب کو موثر اور بہتر بنانے میں معاون ہوتی ہے توان شعبوں سے متعلق فوائد سبھی ممالک کو حاصل ہوں گے اور ترقی پذیر ممالک کی بڑی آبادی طبی سہولیات اور طبی خدمات بہتر طریقے سے حاصل کرسکیں گے۔ مرکزی وزیر راجیو چندر شیکھر نے واضح کیا ہے کہ سمٹ کی شراکت تمام 29ممالک کے لیے ایک مشترکہ تحریک ہوگی۔ جس کا بھرپور فائدہ گلوبل ساؤتھ کے ممالک کے ساتھ ساتھ ساری دنیا کو ملے گا۔ اس سمٹ کا ہمارے ملک میں انعقاد اس کا ثبوت ہے کہ ملک ڈیجیٹل ٹکنالوجی کے عالمی مشترکہ مساعی میں قائدانہ اہم رول ادا کررہا ہے۔ مصنوعی ذہانت سے بھارت کی ترجیحات ہے کہ اس کی وساطت سے کام کی رفتار بڑھے اور اس کے خطرات پر حتی المقدور قابو پایا جاسکے۔ برطانیہ میں وقوع پذیر مصنوعی ذہانت کے متعلق سلامتی سمٹ میں بھارت نے اس کے خطرات پر بڑی قوت سے اپنے موقف کو واضح کیا تھا۔ بھارت کے علاوہ مختلف ممالک ، سائبر مجرموں اور ڈیٹا چوری کے چیلنجز سے نبرد آزما ہورہے ہیں۔ اگر ایسے جرائم میں مصنوعی ذہانت کے استعمال پر قدغن نہیں لگایا گیا تو اس میں اضافے کا مزید امکاننظر آرہا ہے۔ ساری دنیا میں حکومتیں ٹکنالوجی کی ترقی میں نجی اداروںکے مقابلے میںدھیمی رفتار سے چل رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی دنیا اس دو دھاری تلوار پر ضابطہ بندی میں ناکام نظر آرہی ہے اور مصنوعی ذہانت (AI) کی ترقی بے قابوہونے کے درپےہے ۔ان تمام خطرات کے مد نظر دنیا بھر میں کئی سمجھوتے ہوئے ہیں اس لیے اب AIکو ضابطہ بند کرنا اور عالمی رائے عامہ ہموار کرنا مشکل نہیں ہونا چاہیے۔
گزشتہ سال 30 نومبر کو اوپن آرٹیفیشل انٹلی جنس کے ذریعہ چیٹ جی پی ٹی کی شروعات سے ہی مصنوعی ذہانت کا استعمال زندگی کے بیشتر شعبہ حیات میں بڑی تیزی سے بڑھا ہے۔ یہ بات درستہے کہ اب تک مصنوعی ذہانت کو مفید اور بہتر مقاصد کے لیے ہی استعمال کیا جارہا ہے۔ مگر کچھ دنوں سے اس کے غلط استعمال کی کئی مثالیں بھی منظر عام پر آرہی ہیں۔ اس لیے اب ضروری ہوگیا ہے کہ مصنوعی ذہانت کی ٹکنالوجی کا استعمال انسانیت کی فلاح و بہبود اور ترقی کے لیے ہو جس کا تعین بھی کیا جائے۔ AI کو محفوظ، تعمیری، اورفلاحی کاموں میں استعمال میں لانے کے لیے جون 2020میں گلوبل پارٹنر شپ آن آرٹیفیشل انٹلیجنس (GPI) کا قیام ہوا تھا۔ 12 دسمبر 2023کو GPAI کا بھارت منڈپم میں منعقدہ سہ روزہ عالمی گلوبل پارٹنر شپ آن آرٹیفیشل انٹلیجنس کے گلوبل سمٹ کا افتتاح وزیراعظم مودی کے ہاتھوں ہوا۔ توقع ہے کہ بھارت گلوبل پارٹنر شپ کی قیادت کرے گا۔ ایک رپورٹ کے مطابق AI کا استعمال حیاتیاتی (Biological)اسلحہ کی تیاری میں کیا جاسکتا ہے۔ جس سے بڑے پیمانے پر تباہی طے ہے ۔ اسی سال چالیس ہزار مختلف ممکنہ خطرناک سالوں کا نقشہ فراہم کرنے کی بھی کوشش کی گئی تھی۔ اب یہ خطرہ بھی سامنے آرہا ہے کہ انسانی رسائی کے بغیر ہی ہدف کو متعین کرکے تباہ کن ہتھیار بنائے جاسکیں گے ۔ ڈیٹا کا تجزیہ کرکے اپنے مقصد براری کے لیے کمزوریوں کی نشاندہی کرکے سائبر حملوں میں AI کا استعمال بڑی تیزی سے جڑ پکڑ رہا ہے۔ اس لیے وزیر اعظممودی نے بھی اپنے افتتاحی کلمات میں AIٹکنالوجی کے دہشت گردوں کے ہاتھوں میں جانے کے امکانات کا بھی ذکر کیا ہے۔ انہوں نے AI کو اکیسویں صدی کی ترقی کا اہم وسیلہ ہونے کے ساتھ تباہی کا سامان بھی بتایا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق صہیونی درندوں نے AIٹکنالوجی کا استعمال کرکے بیس ہزار بچوں، عورتوں اور مریضوں کا وحشیانہ قتل عام کیا ہے مگر غزہ کے مجاہدین کواللہ نے کئی گنا استقامت بخشی ہے۔
علامہ اقبال نے سچ کہا تھا :
اللہ کو پامردی مومن پر بھروسا
ابلیس کو یوروپ کی مشینوں کا سہارا
امریکی اور یوروپی ممالک اپنی شیطنیت سے اس ٹکنالوجی کے غلط استعمال سے شاید نہ چلیں۔ اب تو مائیکرو سافٹ کمپنی AIکے ذریعہ روبوٹ تیار کرنے کے لیے زرعی کمپنیوں کے ساتھ شراکت کررہی ہے۔ بل اینڈ ملنڈا گیٹس فاونڈیشن اس ٹکنالوجی کا استعمال جراثیم اور مہلک امراض سے تحفظ کرنے والے فصلوں کی تیاری کے لیے ریسرچ پر سرمایہ کاری کرنے جارہا ہے۔ اس طرح آئی ٹی ایم واٹسن علاج کے لیے لی گئی تصویر کا تجزیہ کرکے کینسر کی مناسب شناخت کے لیے AIٹکنالوجی کو استعمال میں لارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ محققین ڈیپ مائنڈ کے الفا فولڈ سے پروٹین کے اسٹرکچرس کی پیشن گوئی کررہے ہیں۔ اس سے نئی ادویات کی دریافت اور علاج و معالجہ کے شعبہ میں بہتری آسکتی ہے۔ اب تو اس کا استعمال ای کامرس یا آن لائن شاپنگ کے لیے ہورہا ہے ۔اس کے ذریعے بنائے گئے چیٹ بوٹ جو گاہکوں سے براہ راست بات کرسکتے ہیں اب وہاں کسی انسان کی ضرورت نہیں ہوگی۔ تعلیمی میدان میں بھی اس کو استعمال کیا جارہا ہے ۔اساتذہ کمپیوٹر میں اینیمیشن اور گرافکس دکھا کر بچوں کو پڑھا رہے ہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ باقاعدہ مصنوعی ذہانت کا استعمال کئی ممالک اپنی فوج کو مظبوط کرنے اور جنگ کے پیمانے بدلنے کے لیے بھی استعمال کررہے ہیں۔
اگر بھارت مصنوعی ذہانت کا عالمی قائد بننا چاہتا ہے تو اسے پہلے اپنے قومی مفاد اور اجتماعی عالمی فلاح کے اصولوںکو سامنے رکھ کر آگے بڑھنا ہوگا۔ خوشی کی بات ہے کہ مرکزی حکومتکامیابی سے سیمی کنڈکٹر کی تیاری میں بھرپور قوت صرف کررہی ہےجس سے AIکے شعبہ میں زبردست کامیابی کی امید ہے۔ AIسسٹم کے لیے بڑے پیمانہ پر ڈیٹا کی ضرورت ہوگی جس سے اسے بہتر طریقے سے ٹریننگدی جاسکے گی ۔ وزیراعظم نے اشارہ کیا ہے کہ سرکاری ایجنسیاں ڈیٹا فراہم کریں گیں اس کے علاوہ AIٹکنالوجی کے میدان میں آگے بڑھنے کے لیے ہمیں سائنس جس میں میتھمیٹکس مٹیریل سائنس، کمپیوٹر سائنس، لسانیات، نیورو سائنس وغیرہ کو فروغ دینا ہوگا ،ساتھ ہی ملک میں جلد از جلد مصنوعی ذہانت ٹکنالوجی میں انجینئرس کی بڑی کھیپ تیار کرنی ہوگی تاکہ لاکھوں کی تعداد میں روزگار ملے۔
یاد رہے کہ اس ٹکنالوجی کا فائدہ چند ممالک کو زیادہ ہو اور دیگر ممالک کہیں اس سے محرم نہ رہ جائیں۔ اب چونکہ ٹکنالوجی کی وسعت بڑھ گئی ہے تو چند ممالک AI پر اپنا شکنجہ کسنا چاہتے ہیں اس لیے چوٹی کانفرنس کا مقصد ہرگز یہ نہیں ہونا چاہیے کہ نام نہاد یکساں افکار کے ممالک کو ہی AI سے قوت ملے بلکہ اس کے لیے سبھی ممالک کی شمولیت ضروری ہے ۔ اب ڈیجیٹل دنیا محض ترقی یافتہ یا مغربی ممالک تک محدود نہیں ہے۔ AI کے اصول اور عمل آوری کے سب سے اہم ادارہ کی قیادت پر فائز ہونا بھارت کے لیے بڑے فخر کی بات ہے۔ وہ اس لیے کہ ہمارا ملک ٹکنالوجی کے شعبہ میں تیزرفتاری سے ترقی کرتا ملک ہے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 31 دسمبر2023 تا 06 جنوری 2024