مصنوعی ذہانت، کمپیوٹر ٹکنالوجی کی دنیا میں انقلابی پیش رفت ضروری

آسانیوں کے ساتھ چیلنجیز بھی کم نہیں۔احتیاط کے ساتھ استعمال ضروری

0

شہاب فضل، لکھنؤ

چین کے چیٹ بوٹ ڈیپ سیک سے اے آئی بازار میں تہلکہ
مصنوعی ذہانت (اے آئی) انٹرنیٹ اور کمپیوٹر کی مدد سے چلنے والی وہ ٹیکنالوجی ہے جس نے کمپیوٹر کو انٹلیجینٹ یا ذہین بنادیا ہے۔ یہ مصنوعی ذہانت انسانی ذہانت کی نقل ہے چنانچہ وہ تمام کام جو روایتی طور سے انسانی ذہن کرتا رہا ہے اب اسے اے آئی کی مدد سے کیا جاسکتا ہے اور اس کا دائرہ ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ دن بدن وسیع ہوتا جارہا ہے۔ اے آئی میں ڈیٹا، الگورتھم اور کمپوٹیشنل صلاحیت کا استعمال کرکے وہ کام منٹوں میں کیا جاتا ہے جس کے لیے روایتی طریقہ میں کافی وقت درکار ہوتا ہے۔ اسی ماہ فرانس کے شہر پیرس میں اے آئی ایکشن چوٹی کانفرنس ہوئی جس میں وزیر اعظم مودی نے بھی شرکت کی۔ چوٹی کانفرنس کا مقصد اے آئی ٹیکنالوجی کو انسان دوست، سبھی کے لیے دستیاب اور مفاد عامہ کا حامل بنانا تھا۔
اے آئی ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے امریکی کمپنی اوپن اے آئی نے چیٹ جی پی ٹی کا آغاز کیا جس کی مدد سے اب مضمون نویسی اور خبرنویسی سمیت وہ تمام کام انجام دیے جارہے ہیں جن کے لیے پہلے لوگ گوگل کا استعمال کرتے تھے۔ چیٹ جی پی ٹی کو ایک چیٹ بوٹ کہا جاتا ہے اور گوگل اور میٹا سمیت کئی کمپنیوں نے اپنے اپنے چیٹ بوٹ تیار کیے ہیں، لیکن چیٹ جی پی ٹی کو اس کی سہولت اور دائرہ عمل کی وجہ سے جو مقبولیت حاصل ہوئی ہے وہ کسی اور چیٹ بوٹ کو نصیب نہیں ہوئی۔ یہ آپ کی بات کو سن کر اسے سمجھ سکتا ہے اور آپ کی ضرورت و ہدایت کے مطابق آپ کا کام مکمل کرسکتا ہے جس میں اپنے مطلب و ضرورت کی ویڈیو تیار کرنا بھی شامل ہے۔
گوگل ایک سرچ انجن ہے جس سے مواد کے اصل ذرائع تک رسائی ہوجاتی تھی، چنانچہ ویب سائٹس کے حوالے سے کچھ لکھا جاسکتا تھا۔ اب چیٹ جی پی اپنے دم پر ایک مضمون ہی نہیں بلکہ اعداد و شمار مہیا کیے جانے پر وہ انہیں اعداد و شمار کو بنیاد بناکر صارف کی پسند کے مطابق مضمون لکھ کر اسکرین پر پیش کردیتا ہے۔
اے آئی کی مدد سے ویڈیوز بھی بنائے جارہے ہیں جو اصل کے بے حد قریب ہوتے ہیں۔ اے آئی کی ٹیکنالوجی میں جیسے جیسے ترقی آتی جائے گی اصل اور نقل میں فرق کرنا مشکل ہوجائے گا۔ اسی لیے یہ کہا جارہا ہے کہ آنے والے دنوں میں اے آئی کی مدد سے فرضی ویڈیوز، تصاویر اور امیجیز وائرل کی جائیں گی اور یہ سماج کے لیے کتنا خطرناک ہوگا اس کا اندازہ بآسانی لگایا جاسکتا ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ چیٹ جی پی ٹی جیسے چیٹ بوٹ کے بڑھتے استعمال سے انسانوں اور خاص کر نو عمروں کی تخلیقی صلاحیتوں پر منفی اثر پڑنے کا اندیشہ ہے۔ نوعمر افراد سہل پسندی کا شکار تو ہوں گے ہی، وہ اپنی فطری تخلیقی صلاحیتوں سے بھی محروم ہوسکتے ہیں۔ نوعمر افراد کے لیے ٹیکنالوجی نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے، جن میں شخصیت میں مختلف نفسیاتی الجھنوں کا ظہور، نفسیاتی بیماریاں اور نشو و نما کے مسائل شامل ہیں۔ اس پر ماہرین نفسیات اور ماہرین تعلیم کے ساتھ ساتھ نیورولوجی کے ماہرین بھی غور و فکر کررہے ہیں اور انسانی ذہن و دماغ اور نوعمروں کے ذہنوں پر اس کے اثرات کا مطالعہ کررہے ہیں۔
اوپن اے آئی پر کاپی رائٹ کا مقدمہ
چونکہ چیٹ جی پی ٹی کسی صارف کے لیے مضمون تیار کرتے وقت انٹرنیٹ کے وسائل کی ہی مدد لیتا ہے اس لیے مواد پر کاپی رائٹ کا مسئلہ بھی اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ اسی کو بنیاد بناکر بھارت کی نیوز ایجنسی ایشین نیوز انٹرنیشنل (اے این آئی) نے اوپن اے آئی کے خلاف کاپی رائٹ کی خلاف ورزی کا مقدمہ کردیا ہے۔ اس مقدمے میں اخبار انڈین ایکسپریس، دی ہندو، انڈیا ٹوڈے اور این ڈی ٹی وی سمیت تمام بڑے میڈیا گھرانے اوپن اے آئی کے خلاف متحد ہورہے ہیں۔ الزام یہ ہے کہ چیٹ جی پی ٹی ان میڈیا گھرانوں کے کاپی رائٹ والے مواد کو ان کی اجازت کے بغیر استعمال کررہا ہے، حالانکہ اوپن اے آئی کا کہنا ہے کہ وہ صرف عوامی سطح پر دستیاب ڈیٹا کا ہی استعمال کرتا ہے جو غیرقانونی نہیں ہے۔ اے این آئی نے اس مقدمہ میں اوپن اے آئی سے دو کروڑ روپے ہرجانے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ اب یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ عدالت اس پر کیا رخ اپناتی ہے۔ اس معاملے میں آنے والا عدالتی فیصلہ اے آئی چیٹ بوٹس کے طریق ہائے کار پر اثر انداز ہوگا اور چیٹ جی پی ٹی جیسے اے آئی ٹولز کو اپنا ماڈل ایسا بنانا ہوگا جس میں ان پر کاپی رائٹ کی خلاف ورزی یا مواد کی چوری کا الزام نہ عائد ہو۔ حالانکہ اوپن اے آئی مختلف نیوز اداروں کے ساتھ اشتراک و تعاون کے امکانات تلاش کررہا ہے اور ان سے بات چیت کررہا ہے۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں تقریباً ۴۵۰ نیوز چینل اور سترہ ہزار اخبار ہیں، جن کا کانٹینٹ اے آئی ٹیکنالوجی کے لیے بہت کارآمد ثابت ہوسکتا ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کاپی رائٹ کی ہی وجہ سے اوپن اے آئی پر دنیا بھر میں دس سے زائد مقدمے چل رہے ہیں جن میں پبلیشر، میڈیا اور نیوز ادارے شامل ہیں۔ ان کا الزام ہے کہ چیٹ جی پی ٹی ان کے مواد کا استعمال ان کی اجازت کے بغیر کررہا ہے۔
دسمبر ۲۰۲۳ میں امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے اوپن اے آئی اور مائیکروسافٹ سے ایسے ہی معاملے میں کئی ارب ڈالر کا ہرجانہ طلب کیا ہے۔ دراصل چیٹ جی پی ٹی کے لارج لینگویج ماڈل (ایل ایل ایم) کو تیار کرنے کے لیے اوپن اے آئی نے نیویارک ٹائمز کے مضامین کا استعمال کیا تھا۔ اوپن اے آئی نے نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹیڈ پریس، نیوز کورپ اور ووکس میڈیا مواد کے اشتراک کا معاہدہ کر رکھا ہے تاہم ٹائمز، نیویارک ڈیلی نیوز اور دی سنٹر فار انویسٹیگیٹیو رپورٹنگ نے یہ معاہدہ نہیں کیا اور مواد کی چوری کا مقدمہ کردیا۔ چونکہ مائیکروسافٹ نے اپنے بِنگ سرچ انجن میں اوپن اے آئی کی ٹیکنالوجی استعمال کی ہے اس لیے مذکورہ مقدمہ میں مائیکروسافٹ بھی شامل ہے۔
چین کے ڈیپ سیک نے امریکہ سمیت پوری دنیا کو چونکادیا ہے۔ جنوری میں چین کی اے آئی اسٹارٹ اپ کے مالک لیان وین فینگ نے ایک پریس کانفرنس کے ذریعہ جب چیٹ بوٹ ڈیپ سیک کی لانچنگ کا اعلان کیا تو پوری دنیا میں تہلکہ مچ گیا۔ اس کی دو وجوہات تھیں۔ اوّل یہ کہ ڈیپ سیک ایک اوپن سورس اے آئی ٹول ہے جس کے ماڈل کو پوری دنیا میں کوئی بھی شخص کاپی کرکے اپنا اے آئی ٹول تیار کرسکتا ہے۔ دوسرے اس کی لاگت اوپن اے آئی کے بہ نسبت بہت کم تھی، جس نے اوپن اے آئی جیسی امریکی اور یوروپی کمپنیوں کو بونا ثابت کردیا۔ اس کی وجہ سے امریکی چپ بنانے والی کمپنی نویڈیا اور دیگر اے آئی کمپنیوں کے شیئر گرگئے اور انہیں کافی مالی نقصان ہوا۔
چین کی ڈیپ سیک کمپنی دو سال پہلے ایک یونیورسٹی میں اسٹارٹ اپ کے طور پر شروع ہوئی تھی۔ امریکہ نے چونکہ چین کو اے آئی ٹیکنالوجی کی سپلائی پر کئی پابندیاں لگا رکھی ہیں اس لیے وہاں اے آئی ٹکنالوجی ڈیولپ کرنے کے لئے جو ماڈل اختیار کیا گیا وہ بہت کفایتی تھا۔ ڈیپ سیک کے اے آئی چیٹ بوٹ کی لانچنگ کے فوراً بعد وہ امریکہ و یوروپ میں سب سے زیادہ ڈاؤن لوڈ کیا جانے والا ایپ بن گیا۔ اس میں کوڈنگ اور ریاضیاتی کام زیادہ آسانی سے کیے جاسکتے ہیں اور اس کی کمپیوٹنگ کی طاقت زیادہ ہے۔ امریکہ و یوروپ میں اب یہ سوال ہورہا ہے کہ یہاں اے آئی پر جو بھاری بھرکم خرچ کیا جارہا ہے وہ کس حد تک حق بجانب ہے۔ پابندیوں کے باوجود ایک چینی کمپنی نے کم لاگت میں طاقتور اے آئی ٹول تیار کرکے خاص طور سے امریکہ کو حیران ہی نہیں پریشان بھی کر دیا ہے۔
نفرت انگیزی اور فحش گوئی مہذب سماج کے لیے خطرہ
بھارت میں عوامی سطح پر اور میڈیا بشمول سوشل میڈیا کے ذریعہ منافرت و شرانگیزی کے ساتھ ساتھ فحش گوئی، بد گوئی اور فحاشی کو ایک معمول کی چیز بنا دیا گیا ہے۔ اس سے قانون کا احترام کم ہو رہا ہے۔ عدم رواداری بڑھنے سے فرقہ پرستی اپنی جڑیں مضبوط کر رہی ہے۔ اب نفرت انگیزی پر حکام کوئی کارروائی نہیں کرتے، اس وجہ سے شر پسند عناصر کے حوصلے بڑھ رہے ہیں اور اب یہ صرف کمزور طبقات کے تئیں نفرت بھڑکانے یا ان کی تضحیک تک محدود نہیں رہ گیا ہے۔ سماج میں ایسے رجحانات اور رویوں نے بدگوئی اور بدکلامی کی بھی حوصلہ افزائی کی ہے۔ گاہے بگاہے ایسے کسی معاملات پر واویلا مچتا ہے اور کارروائی کی بات ہوتی ہے مگر اس کی جڑی گہری ہیں اور کسی ایک معاملے میں کارروائی کرکے اور دوسرے کو نظرانداز کرنے سے بات نہیں بنے گی۔ حکومتی ادارے چونکہ ذمہ داری لینے سے بچ رہے ہیں اور نفرت پسند متعصب سیاستدانوں کے اثر سے وہ خاموش رہتے ہیں اس لیے عوامی سطح پر بیداری سے ہی ایسے معاملوں پرروک لگائی جاسکتی ہے۔ اگر سماج پروپیگنڈے کا شکار ہوگا تو اس سے ملک بری طرح متاثر ہوگا اور تنگ نظری مختلف معاشرتی مسائل کا باعث بنے گی۔
اس موضوع پر سوشل میڈیا پلیٹ فارموں پر کافی بحث ہورہی ہے۔ اسی ضمن میں کرانتی کمار نام سے ایک یوزر نے ایکس پر اپنا سوال اٹھاتے ہوئے لکھا کہ بی جے پی لیڈر تیجسوی سوریہ کے اشتعال انگیز بیانات سے کیا ثقافت کو خطرہ نہیں ہے۔ بی جے پی لیڈر انوراگ ٹھاکر کے اشتعال انگیز بیانوں سے کیا ثقافت کو خطرہ نہیں ہے۔ بی جے پی نیتا کپل مشرا کے اشتعال انگیز بیانوں سے کیا ثقافت کو خطرہ نہیں ہے۔ بی جے پی نیتا رمیش بدھوڑی کے اشتعال انگیز بیانوں سے کیا ثقافت کو خطرہ نہیں ہے، اورکپل مشرا کا شو: پھوہڑپن، ذو معنیٰ کامیڈی سے بھرا ہوا ہے۔ خواتین کے اوپر تبصرے کرکے جبراً مزاح پیدا کیا جاتا ہے۔ کیا اس شو سے آپ کی ثقافت کو خطرہ نہیں ہے؟
یہ سوال بہت اہم ہے مگر اصل بات یہ ہے کہ کیا عوام پر اس کا کوئی اثر پڑے گا؟ کیونکہ عوام کی طاقت ہی نفرت پسند سیاستدانوں کو ان کی حرکتوں کا مزہ چکھاسکتی ہے اور عوام کی طاقت ہی ایسے سیاستدانوں کو اقتدار سے بے دخل کرسکتی ہے۔

 

***

 چیٹ جی پی ٹی اور ڈیپ سیک جیسے چیٹ بوٹ کے بڑھتے استعمال سے انسانوں اور خاص کر نو عمروں کی تخلیقی صلاحیتوں پر منفی اثرات پڑنے کا اندیشہ ہے۔ نوعمر افراد سہل پسندی کا شکار تو ہوں گے ہی، وہ اپنی فطری اور تخلیقی صلاحیتوں سے بھی محروم ہوسکتے ہیں۔ نوعمر افراد کے لیے ٹیکنالوجی نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے، جن میں شخصیت میں مختلف نفسیاتی الجھنوں کا ظہور، نفسیاتی بیماریاں اور نشوونما کے مسائل شامل ہیں۔ اس پر ماہرین نفسیات اور ماہرین تعلیم کے ساتھ ساتھ نیورولوجی کے ماہرین بھی غور و فکر کررہے ہیں اور انسانی ذہن و دماغ اور نوعمروں کے ذہنوں پر اس کے اثرات کا مطالعہ کررہے ہیں۔لہذا احتیاط نے ساتھ آنے والی نسل کو اس کے استعمال کی اجازت دینی ہوگی ورنہ افراط و تفریط ناقابل تلافی نقصان کا باعث بن سکتی ہے ۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 23 فروری تا 01 مارچ 2025