مسئلہ فلسطین پر مولانا مودودیؒ کا موقف

ابوالاعلی سید سبحانی

مسجد اقصی اور فلسطین کا قضیہ اسلامی دنیا کے مفکرین اور تحریکات کے لیے اوّل روز سے دلچسپی اور فکرمندی کا باعث رہا ہے۔ اس قضیے سے متعلق بیسویں صدی کے تمام ہی اسلامی مفکرین اور تمام ہی اسلامی تحریکات بہت ہی واضح موقف اور پوزیشن رکھتے تھے۔ مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ کا موقف بھی اس سلسلہ میں بہت ہی دوٹوک اور واضح تھا، مولانا مودودی نے “سانحہ مسجد اقصی” کے عنوان سے اس مسئلہ پر تفصیل کے ساتھ اظہار خیال کیا ہے۔ اس مسئلہ پر تاریخی اور شرعی لحاظ سے گفتگو کرنے کے ساتھ ساتھ وہاں کے  موجودہ سیاسی حالات کا تفصیلی تجزیہ کرتے ہوئے مولانا مودودی نے مندرجہ ذیل چار حقائق بیان کیے ہیں:
* “اول: یہ کہ یہودی آج تک اپنے منصوبوں میں اس بنا پر کامیاب ہوتے رہے ہیں کہ دنیا کی بڑی طاقتیں ان کی حامی و مددگار بنی رہی ہیں اور ان کی اس روش میں آئندہ بھی کسی تغیر کے امکانات نظر نہیں آتے، خصوصاً امریکا کی پشت پناہی جب تک اسے حاصل ہے، وہ کسی بڑے سے بڑے جرم کے ارتکاب سے بھی باز نہیں رہ سکتا۔
* دوم: یہ کہ اشتراکی بلاک سے کوئی امید وابستہ کرنا بالکل غلط ہے۔ وہ اسرائیل کا ہاتھ پکڑنے کے لیے قطعاً کوئی خطرہ مول نہ لے گا۔ زیادہ سے زیادہ آپ اس سے ہتھیار لے سکتے ہیں، اور وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ اشتراکیت کا قلادہ اپنی گردن میں ڈاک لیں اور اسلام کو دیس نکالا کر دیں۔
* سوم: یہ کہ اقوامِ متحدہ ریزولیوشن پاس کرنے سے بڑھ کر کچھ نہیں کرسکتی۔ اس میں یہ دم خم نہیں ہے کہ اسرائیل کو کسی مجرمانہ اقدام سے روک سکے۔
* چہارم: یہ کہ عرب ممالک کی طاقت اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے لیے قطعی ناکافی ہے۔ پچھلے 22 سال کے تجربات نے یہ بات پوری طرح ثابت کردی ہے۔”
مولانا مودودی کو اس بات کا احساس تھا کہ اگر اس مسئلہ کو محض اہل فلسطین یا اہل عرب کا مسئلہ مان لیا گیا تو پوزیشن کافی کمزور ہوجائے گی، اور اس مسئلہ کی نوعیت پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے، چنانچہ مولانا کا ماننا تھا کہ مسجد اقصی نہ تو صرف اہل فلسطین کا مسئلہ ہے اور نہ صرف عرب دنیا کے ممالک کا مسئلہ ہے، بلکہ یہ پوری امت اور دنیا بھر میں رہنے بسنے والے تمام مسلمانوں کا مسئلہ ہے، اور پوری امت کو اس کے لیے مجتمع اور ایک آواز ہونا پڑے گا۔
مولانا مودودی مسجد اقصی کے خلاف صیہونی سازش کو یہودیوں کی بین الاقوامی سازش مانتے تھے، اور یہ بات بھی مانتے تھے کہ اس کے لیے دنیا بھر کی مسلم حکومتوں کو ایک موقف اختیار کرنا ہوگا، چنانچہ مذکورہ چار حقائق کو بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
“ان حقائق کے سامنے آجانے کے بعد نہ صرف مسجدِاقصیٰ، بلکہ مدینہ منورہ کو بھی آنے والے خطرات سے بچانے کی صرف ایک ہی صورت باقی رہ جاتی ہے، اور وہ یہ ہے کہ تمام دنیا کے مسلمانوں کی طاقت اس یہودی خطرے کا مقابلہ کرنے اور اسلام کے مقاماتِ مقدسہ کو مستقل طور پر محفوظ کردینے کے لیے مجتمع کی جائے۔ اب تک یہ غلطی کی گئی ہے کہ فلسطین کے مسئلے کو ایک عرب مسئلہ بنائے رکھا گیا۔ دنیا کے مسلمان ایک مدت سے کہتے رہے کہ یہ اسلام اور مسلمانوں کا مسئلہ ہے مگر بعض عرب لیڈروں کو اس پر اصرار رہا کہ نہیں، یہ محض ایک عرب مسئلہ ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ اب مسجداقصیٰ کے سانحے سے ان کی آنکھیں بھی کھل گئی ہیں اور ان کی سمجھ میں یہ بات آگئی ہے کہ صیہونیت کی عظیم بین الاقوامی سازش کا مقابلہ، جب کہ دنیا کی بڑی طاقتوں کی پوری تائید و حمایت بھی اس کو حاصل ہے، تنہا عربوں کے بس کا روگ نہیں ہے۔ دنیا میں اگر ایک کروڑ ساٹھ لاکھ یہودی ایک طاقت ہیں تو ستر، پچہتر کروڑ مسلمان بھی ایک طاقت ہیں، اور ان کی تیس-بتیس حکومتیں اس وقت انڈونیشیا سے مراکو اور مغربی افریقہ تک موجود ہیں۔ ان سب کے سربراہ اگر سرجوڑ کر بیٹھیں، اور روئے زمین کے ہرگوشے میں بسنے والے مسلمان ان کی پشت پر جان ومال کی بازی لگادینے کے لیے تیار ہوجائیں تو اس مسئلے کو حل کرلینا، ان شاء اللہ کچھ زیادہ مشکل نہ ہوگا۔”
مولانا مودودیؒ اسرائیل کو ایک ناجائز ریاست مانتے تھے، اس کے جارحانہ اور مجرمانہ عزائم سے خوب واقف تھے، “اس ریاست کا وجود برداشت نہیں کیا جاسکتا، اس کو ختم ہونا چاہیے” یہ مولانا مودودی کا اسرائیلی ریاست سے متعلق دوٹوک موقف تھا۔ مولانا مودودی کا ماننا تھا کہ اسرائیلی ریاست کے باقی رہتے ہوئے مسجد اقصی کے حل کی کوئی صورت ممکن نہیں۔ اور مسجد اقصی کا مسئلہ اسی صورت میں حل ہوسکتا ہے جبکہ ناجائز یہودی ریاست کا خاتمہ ہو اور فلسطین کو آزاد کرالیا جائے،اس کے علاوہ اس مسئلہ کا کوئی دوسرا حل نہیں ہے۔
مولانا مودودی فلسطین کو واپس 1917ء یعنی اعلان بالفور سے پہلے کی پوزیشن پر دیکھنا چاہتے تھے، مولانا مودودی کا کہنا تھا کہ اعلان بالفور کے بعد دنیا بھر سے فلسطین میں آنے والے یہودیوں کو وہاں سے واپس چلے جانا چاہیے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 15 اکتوبر تا 21 اکتوبر 2023