مسئلہ فلسطین پر بھارتی موقف میں تبدیلی کیوں؟

بھارت نے اس بارتنازعے کے دوران اسرائیل کی کھلی حمایت کا موقف اختیار کیا ہے:امریکی تھنک ٹینک

اسد مرزا

’’گزشتہ ایک سال کے دوران جس طرح سے بھارتی حکومت نے مسئلہ فلسطین پر اپنے روایتی موقف میں تبدیلی کی ہے، اس کی اصل وجہ بھارت کا امریکہ کی طرف جھکاؤ اور اسرائیل کو زیادہ ترجیح دینا ہے، جس کی بنیاد دراصل ذہنی سطح پر بھارت اور اسرائیل کا اسلاموفوبک خوف ہے۔‘‘
1947 میں بھارت نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطین کی تقسیم کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ بھارت پہلی غیر عرب ریاست تھی جس نے 1974 میں فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن (PLO) کو فلسطینی عوام کا واحد اور جائز نمائندہ تسلیم کیا تھا۔ بھارت 1988 میں فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرنے والے اولین ممالک میں شامل تھا۔
یہ تمام تاریخی ریکارڈ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ فلسطین کے ساتھ بھارت کے دیرینہ سفارتی تعلقات ہمیشہ سے فلسطینی کاز کی حمایت پر مبنی رہے ہیں۔ دوسری طرف، اگرچہ بھارت نے 1950 میں اسرائیل کے قیام کو تسلیم کر لیا تھا لیکن 1992 تک اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم نہیں کیے تھے اور سابقہ بھارتی حکومتیں زیادہ تر اسرائیل کے ساتھ خاموشی سے معاملات طے کرتی رہیں۔
تاہم، گزشتہ ایک سال کے دوران بھارت نے کھل کر اسرائیل کی حمایت کرنی شروع کر دی ہے اور کبھی کبھار ہی فلسطینی کاز کی بات کرتا ہے۔ یہی بھارت ان ممالک میں شامل تھا جنہوں نے غزہ میں "انسانی جنگ بندی” کا مطالبہ کرنے والی اقوام متحدہ کی مختلف قراردادوں کی حمایت نہیں کی۔ موقع کے لحاظ سے اس نے فلسطینی کاز کی بات کی، جیسا کہ گزشتہ ماہ نیویارک میں فلسطینی صدر محمود عباس کے ساتھ ملاقات میں وزیر اعظم مودی نے فلسطینی کاز کی حمایت کا اظہار کیا۔
اسی طرح بھارت غزہ کی اسرائیل کے خلاف جاری جنگ میں واضح طور پر اسرائیل کی طرف داری کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت ہر سال تقریباً دو بلین ڈالر مالیت کا اسلحہ اسرائیل سے خریدتا ہے، جو اسرائیل کی کل برآمدات کا 30 فیصد ہے۔
سیاسی اور خارجی سطح پر بھی وزیر اعظم مودی نے 2014 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ہمیشہ کھلے عام اسرائیل کی حمایت کی ہے اور جس طرح انہوں نے گزشتہ سال 7 اکتوبر کو حماس کے حملے کی مذمت کی تھی، اس سے بھارتی حکومت کی فلسطین کے تئیں پالیسی واضح ہو جاتی ہے۔
واشنگٹن ڈی سی کے ولسن سنٹر میں ساؤتھ ایشیا انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر، مائیکل کوگل مین نے لکھا ہے کہ بھارت نے اس بار اسرائیل-فلسطین تنازعے کے دوران اسرائیل کی کھلی حمایت کا موقف اختیار کیا ہے۔ ان کے مطابق بھارت موجودہ تنازعے کو انسداد دہشت گردی کے تناظر میں دیکھتا ہے اور اسرائیلی حملوں کو انسداد دہشت گردی کی کارروائی سمجھتا ہے۔
مزید یہ کہ جنگ کے آغاز سے ہی بھارت میں اسرائیل حامی ریلیاں معمول بن گئی ہیں جنہیں حکومت کی حمایت حاصل ہے، جبکہ فلسطین کے حامی مظاہرین کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بھارتی سوشل میڈیا پر فلسطینیوں کے خلاف جذبات کو فروغ دیا جا رہا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت میں اسلاموفوبیا نے جڑ پکڑ لی ہے۔
اس تمام پس منظر میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بھارتی حکومت کا ردعمل محض "انسداد دہشت گردی” کی پالیسی ہے یا یہ ہندو قوم پرستی، مسلمانوں پر ہندو بالادستی اور امریکہ کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششوں کا نتیجہ ہے؟ "Hostile Homelands: The New Alliance Between India and Israel” کے مصنف آزاد عیسیٰ کے مطابق، بھارت کو ہمیشہ فلسطین کے دوست کے طور پر دیکھا گیا ہے لیکن جو بات لوگ بھولتے نظر آتے ہیں وہ یہ ہے کہ بھارت بھی دوسری ریاستوں کی طرح ایک ریاست ہے جو اپنے مفادات کے مطابق اپنے خارجی امور طے کرتی ہے۔ 1950 اور 1960 کی دہائیوں میں اس نے بھارت کو استعمار مخالف اور فلسطین کے حامی کے طور پر دیکھا، کیونکہ اس نے اس بات کو یقینی بنایا کہ بھارت کو عرب تیل تک باآسانی رسائی ملے اور پاکستان کو کشمیر کے سوال پر عرب دنیا کی حمایت حاصل نہ ہو سکے۔ بعد میں جب اس نے عالمی معیشت میں شامل ہونا اور امریکہ کے قریب ہونا چاہا تو نئی دہلی نے اسرائیل کے قریب ہونا شروع کر دیا۔ نریندر مودی کے دور میں یہ تعلقات ایک اسٹریٹجک تعلقات کے نقطہ پر مرکوز ہو گئے ہیں۔
’’لوگوں کو بتایا جا رہا ہے کہ اسرائیل کی حمایت کرنے سے بھارت کو ہندو ریاست کے طور پر دوبارہ قائم کرنے اور بھارت کو عالمی طاقت میں تبدیل کرنے میں مدد ملے گی،‘‘ عیسیٰ نے وضاحت کی۔
تاہم، کوگل مین کے نزدیک حماس اور اسرائیل دونوں کی مذمت کرنا بالکل مناسب ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’مجھے نہیں لگتا کہ یہ اس بات کا معاملہ ہے کہ پہلے یا دوسرے سے کیا مطلب نکلتا ہے۔ اس وقت جنگ بندی کے مطالبے میں بھارتی حکومت کی بے حسی کے پیچھے بھی ایک انتخابی ایجنڈا ہے۔ بھارت ایک انتخابی آمریت میں تبدیل ہو چکا ہے، پی ایم مودی حکومت کی بنیادی توجہ کسی بھی قیمت پر انتخابات جیتنے پر مرکوز رہتی ہے‘‘
کوگل مین کا مزید کہنا ہے کہ بھارت کے لیے اصل مسئلہ چین کی وجہ سے بھی اہم ہے۔ بھارت جانتا ہے کہ چین مشرق وسطیٰ میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑے پیمانے پر بڑھا رہا ہے، ایران کے ساتھ اپنی اسٹریٹجک شراکت داری سے لے کر ایران-سعودی عرب کے درمیان تعلقات کے معاہدے کی حالیہ ثالثی تک۔ اس پس منظر میں بھارت سفارتی سطح پر یہ توقع رکھتا ہے کہ موجودہ حالات میں اسے امریکہ کے ساتھ تعلقات بہتر رکھنے چاہئیں اور اپنے مفادات کا دفاع کرنا چاہیے۔ اور اگر عرب ممالک سے اس کی اسرائیل حمایت پر کوئی سوال اٹھتا ہے تو پھر وہ اپنی اسرائیل کی حمایت پر نظر ثانی کرسکتا ہے۔
دراصل کوگل مین اور آزاد عیسیٰ کی طرح ہی ایک اور سیاسی تجزیہ نگار اشوک سوئین، جو کہ سویڈن کی اُپسالا یونیورسٹی کے شعبۂ امن اور تنازعات کی تحقیق کے سربراہ ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اس وقت بھارت میں ہندو قوم پرستی اپنے عروج پر ہے اور یہ بھارتی موقف کے پس پردہ ایک بڑا کام کر رہی ہے۔ ساتھ ہی بھارتی میڈیا، جو کہ ہندو قوم پرست حکومت کے زیرِ اثر ہے، وہ بھی فلسطین مخالف بیانیے کو فروغ دینے میں اپنا پورا کردار ادا کر رہا ہے۔ جبکہ بھارت کے بیشتر عوام اب بھی فلسطین کی جدوجہدِ آزادی کی حمایت کرتے ہیں، لیکن حکومت اپنے جابرانہ رویے کے ساتھ اسے منظرِ عام پر آنے نہیں دیتے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اسرائیل کے لیے بھارتی حکومت کی حمایت کسی سیاسی نظریے یا سفارتی امور میں آگے بڑھنے کی کوشش کے بجائے بڑی حد تک اسلاموفوبیا سے متاثر ہے۔
مجموعی طور پر جو رویہ بھارتی حکومت نے فلسطین کاز کی حمایت نہ کر کے اپنایا ہے اس سے اس کی اسلام مخالف ذہنیت صاف عیاں ہوجاتی ہے اور ہم صرف امید ہی کر سکتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں اسے عرب ممالک کے ساتھ تعلقات استوار رکھنے کی وجہ سے اپنے رویے پر نظر ثانی کرنے کے لیے مجبور ہونا پڑے گا۔
***

 

***

 بھارت غزہ کی اسرائیل کے خلاف جاری جنگ میں واضح طور پر اسرائیل کی طرف داری کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت ہر سال تقریباً دو بلین ڈالر مالیت کا اسلحہ اسرائیل سے خریدتا ہے، جو اسرائیل کی کل برآمدات کا 30 فیصد ہے۔سیاسی اور خارجی سطح پر بھی وزیر اعظم مودی نے 2014 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ہمیشہ کھلے عام اسرائیل کی حمایت کی ہے اور جس طرح انہوں نے گزشتہ سال 7 اکتوبر کو حماس کے حملے کی مذمت کی تھی، اس سے بھارتی حکومت کی فلسطین کے تئیں پالیسی واضح ہو جاتی ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 13 اکتوبر تا 19 اکتوبر 2024