مسئلہ کشمیر کا مستقل حل ضروری

مسئلہ کشمیر پر ثالثی کروں گا‘‘ ٹرمپ، لیکن بھارت خاموش کیوں؟‘‘

زعیم الدین احمد ،حیدرآباد

ہند طاس معاہدے سے شملہ معاہدے تک۔ نقصانات فقط عوام کا مقدر!
برصغیر ہند و پاک میں حالیہ دنوں میں جو کچھ ہوا وہ نہ صرف خطہ بلکہ دنیا بھر کے لیے تشویش کا باعث بنا ہے۔ مئی کے مہینے میں جو کچھ کشمیر اور اس کے اطراف ہوا، وہ ایک بار پھر ہمیں یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتا، برصغیر کی فضا میں بارود کی بو آتی رہے گی۔
نئی کشیدگی کا آغاز
اس سب کی ابتدا پہلگام میں کیے گئے ایک خونریز حملے سے ہوئی، جہاں 26 بے گناہ شہری ہلاک ہوئے۔ بھارت نے اس حملے کا الزام پاکستان میں موجود تنظیم لشکرِ طیبہ پر عائد کیا۔ لیکن پاکستان اس کی تردید کرتے ہوئے غیر جانب دار بین الاقوامی تحقیقات کا مطالبہ کیا، مگر صورتحال دن بہ دن خراب ہوتی چلی گئی۔
7 مئی کو بھارت نے “آپریشن سندور” کے تحت پاکستان میں موجود دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملہ کیا، جس کے بعد دونوں طرف سے حملے اور جوابی حملے شروع ہو گئے۔ بھارتی افواج نے پاکستان کے تین فوجی اڈوں کو نشانہ بنایا تو پاکستان نے “آپریشن بنیان مرسوس” کے ذریعے زمین سے فضاء میں مار کرنے والے میزائلوں کے ساتھ وار کیا۔
جنگ کا پھیلاؤ اور عالمی تشویش
یہ حملے محض سرحدی جھڑپیں نہیں تھیں، بلکہ دونوں ممالک نے کھلم کھلا ایک دوسرے کے فوجی تنصیبات پر حملے کیے، جو کسی بھی لمحے ایک بڑی جنگ میں تبدیل ہو سکتے تھے۔ ایٹمی صلاحیت رکھنے والے دو ممالک کے درمیان یہ کشیدگی بین الاقوامی برادری کے لیے ایک الارم بن گئی۔ اقوامِ متحدہ، امریکہ، فرانس، چین، سعودی عرب اور ترکی نے فوری طور پر تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی اور ثالثی کی پیشکش کی۔
امریکہ کی مداخلت: جنگ بندی اور ثالثی
صورتحال کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے، امریکہ نے براہ راست مداخلت کی۔ صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے دونوں ممالک سے الگ الگ بات چیت کی اور پھر مشترکہ مذاکرات کے ذریعے دونوں کو جنگ بندی پر آمادہ کیا۔ 10 مئی کو صدر ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’’ٹروتھ‘‘ پر اعلان کیا کہ بھارت اور پاکستان نے ‘‘مکمل اور فوری جنگ بندی‘‘ پر اتفاق کر لیا ہے۔
ٹرمپ نے لکھا:
”مجھے ہندوستان اور پاکستان کی قیادت پر بہت فخر ہے، جنہوں نے یہ جانتے ہوئے کہ لاکھوں معصوم لوگ مارے جا سکتے ہیں، وقت پر دانشمندی سے فیصلہ کیا۔ مجھے فخر ہے کہ امریکہ اس تاریخی اور بہادرانہ فیصلے تک پہنچنے میں آپ کی مدد کرنے میں کامیاب رہا۔‘‘
یہ پہلا موقع تھا جب کسی تیسرے ملک، خاص کر امریکہ نے براہ راست جنگ بندی کا اعلان کیا ہو۔ اس سے بھی بڑھ کر ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش بھی کر دی۔ ان کے مطابق، ’’ہم صرف جنگ بندی نہیں چاہتے بلکہ ایک مستقل امن چاہتے ہیں اور اگر بھارت و پاکستان راضی ہوں تو امریکہ ایک بااعتماد ثالثی کا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔‘‘
بھارت کی خاموشی، پاکستان کا خیر مقدم
بھارت کی جانب سے کوئی باضابطہ ردِ عمل سامنے نہیں آیا۔ بھارت کا مؤقف روایتی طور پر یہی رہا ہے کہ کشمیر ایک دو طرفہ مسئلہ ہے اور اس پر کسی تیسرے فریق کی ثالثی ناقابلِ قبول ہے۔ شملہ معاہدے کے تحت بھارت ہمیشہ اس مسئلے کو ’’بائی لیٹرل‘‘ یعنی باہمی بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر زور دیتا رہا ہے۔ مگر اس بار نئی دہلی کی خاموشی خود ایک ’’بیان‘‘ بن کر ابھری ہے، جس سے کئی نئی قیاس آرائیاں جنم لینے لگی ہیں۔
دوسری جانب صدر ٹرمپ کی اس پیشکش کو پاکستان نے نہ صرف کھلے دل سے قبول کیا بلکہ وزیر اعظم شہباز شریف نے امریکی صدر کا شکریہ ادا کیا۔ پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے بھی اس بات کا اعادہ کیا کہ کشمیر کے مسئلے کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کے حقِ خودارادیت کی بنیاد پر ہی ممکن ہے۔
ہند طاس معاہدے کی معطلی: پانی کی جنگ؟
صورتحال کی سنگینی صرف عسکری یا سفارتی سطح پر محدود نہیں رہی۔ بھارت نے یک طرفہ طور پر 1960 کے ہند طاس معاہدے کو معطل کرنے کا اعلان کیا۔ اس معاہدے کے تحت دریائے سندھ، جہلم اور چناب کے پانی پاکستان کو ملتے رہے ہیں جب کہ بھارت کو بیاس، راوی اور ستلج کے حقوق حاصل ہیں۔
معاہدے کی معطلی کا مطلب یہ ہوا کہ بھارت اب پاکستان جانے والے دریاؤں کا پانی روک سکتا ہے یا ان پر ڈیم بنا سکتا ہے۔ یہ قدم جنوبی ایشیا میں ’’واٹر وار‘‘ کے خدشے کو جنم دیتا ہے۔
پاکستان کا ردعمل: شملہ معاہدہ ختم
جواب میں پاکستان نے بھی ایک بڑا اعلان کرتے ہوئے 1972 کے شملہ معاہدے کو ’’کالعدم‘‘قرار دے دیا۔ پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے بیان میں کہا کہ بھارت نے جب یک طرفہ طور پر ہند طاس معاہدے کو ختم کیا ہے تو وہ شملہ معاہدے کی روح اور اصولوں کو بھی پامال کر رہا ہے۔
اس اقدام کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان اب کشمیر پر کسی "دو طرفہ” بات چیت کا پابند نہیں رہا اور وہ اقوام متحدہ یا کسی بین الاقوامی فورم پر مسئلہ کشمیر کو پوری شدت کے ساتھ اٹھا سکتا ہے۔ اس بیان نے جنوبی ایشیائی سفارت کاری کو ایک نئے موڑ پر لا کھڑا کیا ہے۔
میڈیا کا کردار: سنسنی پیدا کرنا یا ذمہ داری اٹھانا ؟
اس پوری صورتحال میں میڈیا کا کردار بھی سخت تنقید کی زد میں ہے۔ میڈیا نے واقعات کو جس انداز میں پیش کیا، وہ حب الوطنی سے زیادہ جنگی جنون کو ہوا دینے والا تھا۔ جھوٹی خبریں، افواہیں، غیر مصدقہ ویڈیوز اور سنسنی خیز تجزیے—ان سب نے عوامی جذبات کو اشتعال میں مبتلا کر دیا۔
اسی طرح پاکستانی سوشل میڈیا پر بھی فرضی خبروں اور گمراہ کن اطلاعات کا طوفان امڈ آیا۔ ایسے میں عوام کا خوف اور بے چینی بڑھنا ایک فطری امر تھا۔ حکومتوں کو میڈیا کے اس کردار پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔
اصل مسئلہ: کشمیر
یہ پوری کشیدگی ایک بار پھر یہ حقیقت سامنے لے آئی کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان اصل تنازعہ کشمیر ہی ہے۔ جب تک اس کا دیرپا حل نہیں نکلتا، ایسے تصادم ہوتے رہیں گے۔
کشمیر کے مسئلے کو اب محض ایک ’’علاقائی تنازع‘‘ کے بجائے انسانی مسئلہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ لاکھوں کشمیری گزشتہ 77 برس سے ایک غیر یقینی کیفیت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ دنیا کو، اور خاص طور پر جنوبی ایشیا کے رہنماؤں کو اب یہ طے کرنا ہوگا کہ وہ ایک پرامن، خوشحال مستقبل چاہتے ہیں یا جنگ، تباہی اور تنہائی۔
مئی 2025 کی یہ جنگ محض چند دنوں کی کشیدگی نہیں تھی، بلکہ ایک فیصلہ کن موڑ ہے۔ پہلی بار امریکہ نے براہِ راست مداخلت کرتے ہوئے نہ صرف جنگ بندی کرایا بلکہ ثالثی کی کھلی پیشکش بھی کی۔ بھارت کی خاموشی برقرار ہے، جو اس کے سابقہ موقف کا عکاس نہیں ہے جبکہ پاکستان نے کھل کر اس کا خیر مقدم کیا، جو وہ پہلے سے چاہتا ہے، اگر دونوں ممالک ماضی کے معاہدوں کو رد کرتے ہیں تو تیسرے ملک کو اس میں دخل اندازی کا موقع مل جائے گا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا جنوبی ایشیا کے دو نیوکلیائی ملک جنگ کی راہ ترک کر کے مذاکرات، تعاون اور پائیدار امن کی طرف بڑھیں گے، یا پھر تاریخ میں تباہی کے نئے باب کا اضافہ کریں گے۔

 

***

 صورتحال کی سنگینی صرف عسکری یا سفارتی سطح پر محدود نہیں رہی۔ بھارت نے یک طرفہ طور پر 1960 کے ہند طاس معاہدے کو معطل کرنے کا اعلان کیا۔ اس معاہدے کے تحت دریائے سندھ، جہلم اور چناب کے پانی پاکستان کو ملتے رہے ہیں جب کہ بھارت کو بیاس، راوی اور ستلج کے حقوق حاصل ہیں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 18 مئی تا 24 مئی 2025