کمیونٹی تک پہنچنے کے لیے ’’مسجد ون‘‘ تحریک شروع کی جائے گی
احمد آباد، دسمبر 21: انڈیا ٹومورو کی خبر کے مطابق ’’مسجد ون‘‘ تحریک اگلے سال (2022) کے اوائل تک گجرات میں شروع ہوگی۔ احمد آباد کی تقریباً آٹھ مساجد اس منصوبے کو مرحلہ وار عمل میں لائیں گی۔
یہ اعلان 5 دسمبر (2021) کو آل انڈیا مسلم ڈیولپمنٹ کونسل (AIMDC) کے جنوب مغربی احمد آباد کے جوہا پورہ علاقے میں مسجد سیدہ سکینہ میں ہونے والے اجلاس کے بعد کیا گیا ہے۔
AIMDC ’’مسجد ون‘‘ موومنٹ کی سربراہی کر رہا ہے اور تقریباً 500 لوگ، جن میں 200 خواتین بھی شامل تھیں، دو گھنٹے تک جاری رہنے والے اس شاندار پروگرام میں شریک ہوئے۔ اس کے علاوہ مسجد کے تہہ خانے میں خواتین کے بیٹھنے کا الگ انتظام کیا گیا تھا۔
آل انڈیا مسلم ڈیولپمنٹ کونسل (مسجد ون موومنٹ) تمام مسلم تنظیموں اور مختلف مکاتب فکر کا ایک نمائندہ ادارہ ہے۔ اس کا مقصد اور خواہش مسلم کمیونٹی میں مجموعی ترقی اور پس ماندگی کا مقابلہ کرنا ہے۔
مسجد ون موومنٹ کے پیچھے بنیادی نظریہ مسجد کو تمام مسائل کا مرکز بنانے کی اسلامی روایت کو زندہ کرنا ہے، چاہے وہ مذہبی ہو یا دنیاوی، کیوں کہ مسجد کمیونٹی تک پہنچنے کا سب سے آسان ذریعہ ہے۔
اس کے آغاز میں ایک مسجد ون موومنٹ پائلٹ پروجیکٹ احمد آباد کے پالڈی علاقے میں واقع فیض محمد سوسائٹی مسجد میں شروع ہوگا، اس کے بعد سریتا کنج مسجد اور پھر دیگر مساجد میں۔
اے آئی ایم ڈی سی کے جنرل سکریٹری محمد امتیاز نے کہا ’’ہم پہلے ہی حیدرآباد، میسور (منگلور) اور کرناٹک اور مہاراشٹر کے دیگر حصوں میں یہ تحریک شروع کر چکے ہیں۔ اب ہم احمد آباد میں ایک پائلٹ پروجیکٹ شروع کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘‘
مسجد ون موومنٹ محمد امتیاز کے دماغ کی اختراع ہے۔ انھوں نے کئی سالوں تک اس منصوبے پر کام کیا اور ذاتی طور پر مختلف مکاتب فکر کے علمائے کرام سے رابطہ کیا تاکہ انھیں ایک مشترکہ تنظیم کے تحت جمع کیا جا سکے۔ مسجد ون موومنٹ کا پہلا اجلاس 2018 میں بنگلورو میں منعقد کیا گیا تھا۔
مسجد ون موومنٹ کی بنیادی باتوں کی وضاحت کرتے ہوئے AIMDC ایگزیکیٹو اور ایڈوائزری کمیٹی کے ممبر، اویس سریش والا نے انڈیا ٹومورو کو بتایا ’’ہم صرف مسلم کمیونٹی کو درپیش مسائل کی نشاں دہی ہی نہیں کرنا چاہتے، بلکہ ہم ان کا حل بھی لانا چاہتے ہیں۔ مسجد کو مرکزی مرکز بنا کر ان مسائل کا حل نکالنا چاہتے ہیں۔‘‘
مسجد ون موومنٹ کے تحت سب سے پہلا کام مختلف مساجد کے قریب رہنے والے مسلمانوں کے بارے میں ڈیٹا اکٹھا کرنا ہے۔ ’’مسلک‘‘ کے بارے میں تفصیلات سے لے کر صحت کے مسائل، تعلیم، مالیات اور کمیونٹی کے کاروبار، ان کی مالی اور معاشی حالت اور اس طرح کی تمام تفصیلات جمع کی جائیں گی۔
اے آئی ایم ڈی سی کے ایک سیکریٹری قاسم رسول الیاس نے انڈیا ٹومارو کو بتایا ’’مسجد ون موومنٹ کے ذریعے ہم نے مسجد کو مسلمانوں کے درمیان اتحاد کا مرکز بنانے کے لیے ایک پروجیکٹ شروع کیا ہے۔ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ ہمیں مختلف سطحوں پر بہت سے لوگوں کو شامل کرنا پڑے گا اور یہ ایک طویل مدتی منصوبہ ہے۔‘‘
منصوبے کے تحت ہر مسجد کو اپنی کمیٹیاں بنانا ہوں گی اور مسجد ون موومنٹ مطلوبہ رہنما خطوط فراہم کرے گی۔ اس کے بعد مسجد اپنی صوابدید پر وہ تمام کام کرے گی جو کرنے کی ضرورت ہے۔
مختلف مساجد کے ذریعہ کیے گئے کام کا وقتاً فوقتاً تجزیہ مسجد ون موومنٹ کے ذریعے کیا جائے گا تاکہ کیے گئے کام کا جائزہ لیا جاسکے۔ نیز اس بات کا بھی جائزہ لیا جائے گا کہ کس مسجد نے کس قسم کا کام کیا ہے اور کون سی مساجد کام میں تاخیر کا شکار ہیں اور کوتاہیوں کو دور کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے جانے چاہئیں۔
مسجد ون موومنٹ کے ایک رکن نے بتایا کہ ’’احمد آباد میں 5 دسمبر (2021) کی میٹنگ میں شاید سب سے اہم پیش رفت عظمیٰ ناہید کا بطور AIDMC پریسیڈیم کا خطاب تھا۔ میرے خیال میں یہ شاید سب سے اہم پیش رفت ہے کہ بہن عظمیٰ ناہید نے مسجد کے ’’منبر‘‘ کے قریب سے تمام مرد سامعین سے خطاب کیا۔‘‘
احمد آباد کی پہلی میٹنگ ختم ہونے کے بعد AIMDC نے 5 دسمبر 2021 کو ایک بیان شائع کیا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’مسلم کمیونٹی کی تعلیم، تربیت اور سماجی و اقتصادی ترقی کا مرکز مسجد ہے۔ خود پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسجد دنیا کی تمام تر اصلاحات، انقلابات، اتحاد، اجتماعیت بشمول دنیاوی معاملات کا مرکز تھی۔ اس لیے بلا شبہ کہا جا سکتا ہے کہ انسانی تاریخ کا سب سے بڑا انقلاب مسجد کے ذریعے آیا۔‘‘
اس میں مزید کہا گیا ہے ’’بدلتے حالات اور بگڑتی ہوئی صورت حال میں مسلمانوں کے لیے یہ سب سے زیادہ ضروری ہو گیا ہے کہ وہ تعلیم، تربیت، اصلاح، رہنمائی، اتحاد و یکجہتی کی سرگرمیاں انجام دے کر مسجد کی مرکزیت اور حقیقی کردار کو زندہ کریں۔ یہ ضرورت بھی ہے اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم بھی۔‘‘
بیان میں کہا گیا ہے ’’اس تنظیم کی جانب سے ہم آپ سے اپیل کرتے ہیں کہ آپ اپنی مساجد میں درج ذیل سرگرمیاں نافذ کریں تاکہ ہمارے معاشرے کی تعمیر و بہبود کا کام منظم اور مستحکم بنیادوں پر کیا جا سکے: بیت المال (مائکرو فنانس)، تعلیمی سپورٹ فنڈ، کونسلنگ اور کیریئر گائیڈنس، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور عوامی اور اقلیتی بہبود کے لیے سرکاری اور غیر سرکاری فلاحی اسکیمیں۔‘‘