مشرق وسطیٰ کو جہنم کدہ بنانے کےصہیونی عزائم

جنگ میں امریکہ کی شمولیت اسرائیل کے وقار کو بچانے کی آخری جد وجہد

0

نوراللہ جاوید، کولکاتا

طاقت کا غرور جلد ہی خاک آلود ہوگا۔ طویل مدتی جنگ خطہ کو تباہ و برباد کرے دگی
ٹرمپ کو امریکہ میں اور نیتن یاہو کو اسرائیل میں شدید مخالفت کا سامنا
یہ المیہ نہیں تو کیا ہے کہ محض دو دن قبل ’مملکتِ خداداد‘ نے جس کی تشکیل کلمۂ طیبہ لا الہ الا اللہ کی بنیاد پر ہوئی تھی، غزہ اور فلسطین میں گزشتہ 20 مہینوں سے جاری جارحیت اور بے گناہوں کے قتلِ عام میں امریکہ کی شمولیت اور حصہ داری کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو ’’میان آف پیس‘‘ قرار دیتے ہوئے نوبل کمیٹی کو نوبل امن انعام دینے کی سفارش کر دی۔ اور اسی Man of Peace نے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرکے مشرقِ وسطیٰ کے امن و امان کو طویل مدت تک کے لیے خطرے میں ڈال دیا ہے ۔
ٹرمپ نے اپنے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ امریکہ کو اب کسی نئی جنگ میں نہیں جھونکیں گے۔ ان کے لیے امریکہ کی معیشت اور مفادات (America First) سب سے زیادہ عزیز ہیں۔ ان کی پوری توجہ امریکی معیشت کو مستحکم اور مضبوط کرنے پر ہوگی۔ اگرچہ اس کے لیے ٹرمپ جارحیت اور فسطائیت کا ہی سہارا لے رہے تھے۔ معیشت کے استحکام کے لیے دنیا بھر میں ہتھیاروں کی سودے بازی پر امیر ترین ممالک کو مجبور کیا جا رہا تھا۔
ٹرمپ نے اپنے عوام سے کیے گئے وعدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے امریکہ کو ایک ایسی جنگ میں دھکیل دیا ہے جس کا مقدر انسانیت کی تذلیل، تباہی و بربادی اور خود امریکہ و اسرائیل کی رسوائی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔
ممکن ہے کہ اسرائیل اور امریکہ کا ناپاک گٹھ جوڑ ایران میں حکومت کی تبدیلی میں کامیاب ہو جائے اور اپنے من پسند، ایران کے سابق حکم راں محمد رضا شاہ پہلوی کے بیٹے کو ایران پر مسلط بھی کر دے۔ مگر کیا امریکہ اور اسرائیل اس بات کی ضمانت دے سکتے ہیں کہ محمد رضا پہلوی کے بیٹے کا انجام افغانستان کے سابق حکم راں اشرف غنی جیسا نہیں ہوگا؟ کیا کسی ملک کے عوام پر اپنی مرضی کا حاکم مسلط کرنے کا جمہوریت اور امن کے چمپینوں کے پاس کوئی اخلاقی جواز ہے؟
غزہ میں عام شہریوں پر بمباری، ہسپتالوں اور اسکولوں کو زمین بوس کرنے والا اسرائیل، ایران پر جنگی جرائم میں ملوث ہونے کا الزام عائد کر رہا ہے کہ ایرانی حملے میں اسرائیل کے دو ہسپتال زد میں آئے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ بین الاقوامی میڈیا میں اسرائیلی ہسپتالوں کو جزوی نقصان پہنچنے پر خوب واویلا کیا جا رہا ہے مگر کوئی یہ سوال نہیں پوچھ رہا کہ ہسپتالوں کے قرب و جوار میں فوجی تنصیبات قائم کرنے کا کیا جواز ہے؟ سوال یہ ہے کہ سلامتی کونسل میں آٹھویں مرتبہ "غزہ میں جنگ بندی” کی قرارداد کو ویٹو کرنے والے امریکی صدر ٹرمپ کے پاس ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کا کوئی اخلاقی جواز بھی ہے؟ جب کہ ایران بار بار اعادہ کرتا رہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پُرامن ہے اور وہ جوہری توانائی کے ذریعے اپنے ملک کی معیشت کو مستحکم کرنا چاہتا ہے۔ ایٹمی ہتھیار بنانے کا اس کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ واضح رہے کہ ایران، جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے (NPT) پر دستخط کنندہ ممالک میں شامل ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ادارہ IAEA (International Atomic Energy Agency) کی رپورٹ میں بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس کے پاس اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ ایران جوہری ہتھیاروں کی تیاری کر رہا ہے۔
سوال یہ بھی ہے کہ ان حقائق کے باوجود ایران کا جوہری پروگرام امریکہ کے لیے کس طرح خطرہ ثابت ہو سکتا ہے؟ اور کیا پیشگی خطرے اور اندیشے کی بنیاد پر کوئی ملک کسی بھی دوسرے ملک کے جوہری پروگرام پر حملہ کرنے کا حق رکھتا ہے؟
اسرائیل کو ایران پر حملہ کرنے کا حق کس نے دیا؟
بین الاقوامی قوانین اور جنیوا معاہدہ اس سے متعلق کیا کہتے ہیں؟
آج جس ایران کے جوہری پروگرام کو عالمی امن کے لیے خطرہ قرار دے کر امریکہ اور اسرائیل جارحیت کا مظاہرہ کر رہے ہیں، وہ 1979 میں اسلامی انقلاب کی دین نہیں ہے، بلکہ ایران میں حکومت کی تبدیلی کے بعد جس شخص کو اقتدار تک پہنچانے کی کوشش کی جا رہی ہے، اس کے والد محمد رضا پہلوی نے 1950 میں ایران کا جوہری پروگرام شروع کر دیا تھا۔ شاہ کا ویژن توانائی کی پیداوار اور ایک حد تک ہتھیاروں کی تیاری، دونوں کے لیے ایران کی جوہری صلاحیتوں کو بڑھانا تھا۔ امریکہ، جرمنی اور فرانس، سب نے محمد رضا شاہ پہلوی کی مدد کی اور اس کی حمایت کی۔ بلکہ 1979 میں اسلامی انقلاب کے بعد آیت اللہ خمینی کی قیادت والی حکومت نے جوہری منصوبے کے کچھ حصوں کو یہ کہتے ہوئے روک دیا تھا کہ یہ مہنگا ہے اور مغربی ٹیکنالوجی پر ایران کے مسلسل انحصار کی نمائندگی کرتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ جب 1950 میں ایران کا جوہری پروگرام عالمی امن کے لیے خطرناک نہیں تھا تو اب کیسے ہو گیا؟ سوال یہ بھی ہے کہ اگر ایران جوہری ہتھیار بنانے پر بضد ہوتا تو پھر 2015 میں ایران جوہری معاہدے (جسے باضابطہ طور پر Joint Comprehensive Plan of Action یا JCPOA کہا جاتا ہے) میں شامل نہ ہوتا۔ اس معاہدے میں جوہری افزودگی کی صلاحیتوں کو محدود کرنے کے عوض ایران کو پابندیوں میں ریلیف دیا گیا تھا۔ ایران، چین، روس، امریکہ، فرانس، جرمنی، برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان طے پانے والے اس معاہدے میں افزودگی کی حد 3.67 فیصد تک لانے کا وعدہ کیا گیا۔
آئی اے ای اے کے مطابق ایران نے معاہدے کی شرائط کی تعمیل بھی کی۔ ایران نے IAEA کو باقاعدہ نگرانی تک رسائی کی اجازت دینے پر بھی اتفاق کیا۔ لیکن ٹرمپ نے 2018 میں امریکی صدر کے طور پر اپنی پہلی مدت کے دوران معاہدے سے دستبرداری اختیار کرکے ایران کی جوہری صلاحیت کو محدود کرنے کی کوششوں کو نقصان پہنچایا۔ ٹرمپ کے اس اقدام کی وجہ سے ایران 2015 کی شرائط کو ترک کرنے پر مجبور ہو گیا اور آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون بھی ترک کر دیا۔
ٹرمپ کی دوسری مدت، جس کو ابھی محض چھ مہینے ہوئے ہیں، کے آغاز سے ہی ایران نے مذاکرات پر رضا مندی کا اظہار کیا۔ دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات بھی ہوئے مگر اس دوران اسرائیل نے ایران پر حملے کرکے مذاکرات کی تمام کوششوں کو نقصان پہنچایا۔ اسرائیلی جارحیت کے دوران یورپی یونین نے مذاکرات کی پہل کی اور ایران نے مثبت جواب بھی دیا مگر ٹرمپ نے ایران پر حملہ کرکے مذاکرات کی کوششوں کو سبوتاژ کیا۔ اس صورتِ حال میں ایرانی وزارتِ خارجہ یہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ مذاکرات کی آڑ میں ایران کو کمزور کرنا دراصل امریکہ کا مقصد ہے۔ ہم نے جب بھی مذاکرات پر رضا مندی ظاہر کی ہم پر حملہ کیا گیا۔ ایسے میں مذاکرات کا کیا سوال باقی رہ جاتا ہے؟
ان حقائق سے ظاہر ہوتا ہے کہ مغرب، بالخصوص امریکہ کا مقصد ایران کی جوہری صلاحیتوں کو محدود کرنا نہیں ہے بلکہ اس کے مقاصد کچھ اور ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ آخر اسرائیل اور امریکہ اس جنگ سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟
کیا امریکہ اور اسرائیل کا گٹھ جوڑ ایران میں حکومت کی تبدیلی میں کامیاب ہو جائے گا؟
تیسرا سوال یہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کو عالمی طاقتیں بار بار جنگ میں کیوں جھونک رہی ہیں؟
کیا ایران اور امریکہ کی جنگ کے اثرات سے مشرقِ وسطیٰ کے عرب ممالک محفوظ رہیں گے؟
کیا خطے کی بدامنی کی آگ میں ان کے ملک نہیں جھلسیں گے؟
یہ جنگ کب تک جاری رہے گی؟
ایران اور امریکہ کی جنگ کے بعد غزہ کا مستقبل کیا ہوگا؟
اور آخری سوال یہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کی اس ہنگامہ آرائی میں بھارت کہاں کھڑا ہے؟
کیا بھارت کو امریکہ کی حمایت کرنی چاہیے یا پھر ایران کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے؟
یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کہ اہم مواقع پر ایران نے اپنے پڑوسی ملک پاکستان کی حمایت کرنے کے بجائے ہندوستان کا ساتھ دیا تھا۔
امریکہ اور اسرائیل اخلاقی جواز سے محروم اور غیر قانونی اقدامات کے مرتکب
اسرائیل کا وجود ہی غیر قانونی اور غیر اخلاقی ہے۔ ظاہر ہے کہ جس کا وجود غیر اخلاقی اور غیر قانونی ہو، اس سے قانونی اقدامات کی امید نہیں کی جا سکتی۔
گزشتہ 20 مہینوں میں اسرائیل مسلسل غیر قانونی اقدامات کا ارتکاب کر رہا ہے۔ بلکہ انسانیت سوز مظالم اور غیر انسانی حرکتوں کی وجہ سے اسرائیل کے حامی یورپی ممالک بھی اس سے پہلو تہی کرنے لگے ہیں۔
چنانچہ اسرائیل کا ایران پر حملہ کسی بھی درجے میں قانونی جواز نہیں رکھتا۔
اسرائیل کا مؤقف ہے کہ اس نے ایرانی جوہری حملے کی توقع میں گزشتہ ہفتے کے دوران ایران کی فوجی اور جوہری تنصیبات پر حملے کیے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کا چارٹر، جو دوسری جنگِ عظیم کے بعد ریاستوں کے حقوق کی بانی دستاویز ہے، جارحانہ جنگ کو غیر قانونی قرار دیتا ہے اور فوجی کارروائی کی اجازت صرف دفاع کے طور پر دیتا ہے۔
صرف سلامتی کونسل کو کسی بھی ملک کے خلاف جنگ شروع کرنے کا فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل ہے۔
ریڈنگ یونیورسٹی میں پبلک انٹرنیشنل لا کے پروفیسر مارکو میلانووک نے اپنے مضمون میں لکھا ہے:
"اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام اسرائیل کے وجود کے لیے خطرہ ہے۔ اس بات کے بھی بہت کم ثبوت ہیں کہ ایران نے اسرائیل پر ایٹمی ہتھیار سے حملہ کرنے کے لیے کوئی اٹل عزم کر رکھا ہے۔”
اسکائی نیوز کے مطابق برطانیہ کے چیف قانونی مشیر رچرڈ ہرمر نے وزیراعظم کیئر اسٹارمر کو مشورہ دیا کہ وہ ایران پر کسی بھی حملے میں ملوث نہ ہوں جب تک کہ ہمارے اہلکاروں کو نشانہ نہ بنایا جائے۔
ایتھنز یونیورسٹی میں بین الاقوامی قانون کی پروفیسر ماریا گاونیلی نے الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا:
"آنے والے حملے کے پیشِ نظر دفاعی کارروائی کرنا بین الاقوامی قانون میں غیر قانونی ہے اور ہم سب اس بارے میں بالکل واضح ہیں۔”
پروفیسر ماریا گاونیلی کہتی ہیں کہ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس کا وجود مسلسل خطرے میں ہے، اس لیے کارروائی ناگزیر تھی۔ مگر اس کے لیے اقوامِ متحدہ کے جوہری نگران بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کی طرف سے کسی قسم کے ثبوت کی ضرورت ہوگی۔ ظاہر ہے کہ ایسا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔ بین الاقوامی قوانین کے تناظر میں ایران پر اسرائیلی حملہ غیر قانونی اور غیر اخلاقی ہے۔ یہ کسی بھی ملک کی خود مختاری پر حملہ کرنے کے مترادف ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ نے خود اپنے ملک کے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس جنگ کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا ہے۔ امریکی قوانین واضح طور پر کہتے ہیں کہ امریکی کانگریس کی منظوری کے بغیر صدر جنگ شروع کرنے یا کسی جنگ میں شامل ہونے کا فیصلہ نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ کی کارروائی کی مذمت صرف ڈیموکریٹس نہیں کر رہے، بلکہ خود ان کی اپنی جماعت ریپبلکن کے ارکان بھی مخالفت کر رہے ہیں اور جلد از جلد کانگریس سے منظوری لینے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔
یہ سوال الگ ہے کہ آیا کانگریس ٹرمپ کی منشا کے برخلاف جنگ میں شمولیت کے خلاف فیصلہ دے گی یا حمایت میں؟ مگر یہ واضح ہے کہ ٹرمپ کا بیانیہ کمزور ہوتا جا رہا ہے اور "امریکہ کو پھر سے عظیم بنانے” کا نعرہ صرف انتخابی نعرہ ثابت ہو رہا ہے۔
انہوں نے بھی اپنے سابق پیش رو کی طرح صہیونی قوتوں کے زیرِ اثر فیصلے کرنے پر خود کو مجبور پایا۔ دنیا جانتی ہے کہ اسرائیلی جارحیت امریکی منشا کے برخلاف نہیں تھی۔ ایران پر حملے کے پہلے دن سے ہی اسرائیل کو امریکہ کی حمایت حاصل تھی۔
مگر سوال یہ ہے کہ کیا وجہ ہے کہ دنیا کو جنگ سے آزاد کرانے کا وعدہ کرنے والے ٹرمپ جنگ کا حصہ بننے پر مجبور ہو گئے؟
دراصل ٹرمپ کو یقین تھا کہ ایران کے لیے اسرائیل کافی ہے اور ایران، اسرائیلی حملے کا بھرپور جواب دینے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ مگر گزشتہ ایک ہفتے کے دوران ایران نے سفارتی سطح پر بھی اور ہتھیاروں کے معاملے میں بھی اسرائیل پر فوقیت حاصل کی ہے۔ نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیل کے پاس ہتھیاروں کے ذخائر کم ہو رہے ہیں۔ اس کی دفاعی صلاحیت محدود ہوتی جا رہی ہے۔ اگر یہ جنگ دونوں ملکوں کے درمیان طویل مدت تک جاری رہی تو اسرائیل کے پاس ہتھیار ختم ہو جائیں گے۔ یہی وہ صورتِ حال ہے جس کی وجہ سے امریکہ کو اسرائیل کی حمایت میں کھل کر سامنے آنا پڑا ہے۔
ایران میں حکومت کی تبدیلی کا خواب دیکھنے والے امریکہ اور اسرائیل اب تک کوئی ایسا فوٹیج پیش نہیں کر سکے جس میں تہران میں موجودہ حکومت کے خلاف احتجاج ہو رہے ہوں۔
بلکہ ایران سے باہر جلاوطنی کا سامنا کرنے والے ایرانی بھی اپنے ملک پر جارحیت کے خلاف کھڑے ہیں۔ دوسری طرف اسرائیل، ایران کے میزائلوں کی بارش سے ہونے والی تباہی کے اثرات کو روکنے کے لیے میڈیا پر قدغن لگانے کے لیے قانون سازی کر رہا ہے۔ اسرائیلی افواج نے بدھ کے روز باضابطہ طور پر میڈیا کو ایڈوائزری جاری کرتے ہوئے کہا کہ ایران اور اسرائیل کی جنگ کی رپورٹنگ کس طرح کرنی ہے، تباہی کے مناظر کس حد تک دکھانے ہیں، کیونکہ اسرائیلی وزیر اعظم کے خلاف ناراضگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اسرائیلی عوام میں مشقت برداشت کرنے کی عادت نہیں ہے۔ بڑے پیمانے پر اسرائیلی شہری ملک چھوڑ رہے ہیں۔
امریکہ کے سابق صدر بل کلنٹن کا یہ تجزیہ صد فیصد درست معلوم ہوتا ہے کہ ایران پر حملہ نیتن یاہو کی حکم رانی کو باقی رکھنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ جیسا کہ کسی کے لیے بھی روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اسرائیل کا مقصد "دفاع” نہیں بلکہ یہ حملے محض اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو کے لیے "سہولت کی جنگ” ہیں جو ایرانی جوہری تنصیبات کے خلاف اپنی مہم میں ایک پتھر سے کئی پرندے مار رہے ہیں۔
غزہ کی پٹی میں اسرائیل کی جاری نسل کشی سے دنیا کی توجہ ہٹانے کے لیے، جہاں بھوک سے مرتے ہوئے فلسطینیوں کا روزانہ کی بنیاد پر قتلِ عام ہو رہا ہے کیونکہ وہ خوراک اور دیگر امداد کی تلاش میں نکلتے ہیں، نیتن یاہو نے اپنے ملک میں بدعنوانی کے بے شمار الزامات سے توجہ ہٹانے میں بھی وقتی کامیابی حاصل کی ہے۔
تاہم یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا جوہری تنصیبات پر حملہ کرکے امریکہ اپنے مقاصد حاصل کر چکا ہے؟ اس معاملے میں امریکی میڈیا خود بھی الجھن کا شکار ہے اور ٹرمپ پر سوالات اٹھا رہا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران عدم استحکام اور حکومت کی تبدیلی کا امکان ہے
امریکہ کے دعوے کے مطابق ایران کے تین جوہری ٹھکانوں کو تباہ کرنے میں کامیابی کے بعد، اس نے اور اسرائیل نے اپنا مقصد حاصل کرلیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اب امریکہ اور اسرائیل یک طرفہ جنگ بندی کا اعلان کردیں گے؟ ظاہر ہے کہ اس کی کوئی امید نہیں ہے۔ اگرچہ امریکی حکام ایران میں حکومت کی تبدیلی کے منصوبے پر کھل کر بات کرنے سے گریز کر رہے ہیں، خود امریکی صدر بھی اس پر بولنے میں تذبذب کا شکار ہیں، تاہم ماہرین بتاتے ہیں کہ ایران پر حملے کے منصوبے کو اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ عدم استحکام کا شکار ہو جائے جو حکومت کی تبدیلی پر منتج ہو۔
ایران پر اسرائیل کا جاری فوجی حملہ خطے کی حالیہ تاریخ میں سب سے زیادہ نتیجہ خیز سرحد پار حملوں میں سے ایک ہے۔ جوہری تنصیبات کے خلاف ٹارگیٹڈ آپریشن سے کہیں زیادہ، ہائی پروفائل قتل اور جدید ترین سائبر حملے شامل ہیں۔ اب تک کی سب سے اہم پیش رفت میں کئی سینئر ایرانی کمانڈروں کا قتل کیا جا چکا ہے، جن میں میجر جنرل محمد باقری، اسلامی انقلابی گارڈ کور (IRGC) کے کمانڈر حسین سلامی اور اس کی ایرو اسپیس فورسز کے سربراہ امیر علی حاجی زادہ شامل ہیں۔
اسرائیلی اور امریکی حکمتِ عملی کے ماہرین کبھی احتیاط سے تو کبھی کھلے عام یہ دلیل دیتے رہے ہیں کہ ایران کے جوہری عزائم کا واحد پائیدار حل حکومت کی تبدیلی ہے۔ موجودہ مہم اس دیرینہ مقصد سے ہم آہنگ ہے، نہ صرف فوجی ذرائع سے بلکہ ایران کے اندر نفسیاتی، سیاسی اور سماجی دباؤ کے ذریعے بھی۔
منہو یونیورسٹی آئرلینڈ میں بین الاقوامی تعلقات کے اسسٹنٹ پروفیسر محمد اسلمی نے لکھا ہے کہ حالیہ پیش رفت سے پتہ چلتا ہے کہ آپریشن کو اندرونی بغاوت کے ابتدائی مراحل کو بھڑکانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ اعلیٰ فوجی حکام کے قتل، نفسیاتی جنگ، غلط معلومات کی مہم اور ریاستی اداروں کو علامتی طور پر نشانہ بنانا؛ تہران میں اسرائیلی حمایت یافتہ سائبر حملوں اور درست حملوں نے مبینہ طور پر سرکاری عمارتوں اور وزارتوں کو نشانہ بنایا، حتیٰ کہ عارضی طور پر قومی ٹیلی ویژن کی نشریات میں خلل بھی ڈالا ہے – جو اسلامی جمہوریہ کے مواصلاتی ڈھانچے کا ایک اہم ستون ہے۔
اسرائیلی حملوں کے بعد ایرانی عوام کے لیے اسرائیلی پیغام رسانی میں شدت آ گئی ہے، جس میں IRGC کو قومی محافظوں کے طور پر نہیں بلکہ ایرانی عوام کے بڑے مظلوموں کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اس پیغام میں اسلامی جمہوریہ کو ایرانی قوم سے اس طرح کے نعروں کے ساتھ الگ کرنے کی کوشش کی گئی تھی: "یہ ایران کی جنگ نہیں ہے، یہ حکومت کی جنگ ہے۔”
امریکی حملے کے بعد ایرانی شہریوں اور عوام کے ردِ عمل کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کی حکمتِ عملی کے برعکس اثر پیدا ہو رہا ہے۔ ایران میں بڑے پیمانے پر بغاوت کے بھڑکنے یا قومی اتحاد منتشر ہونے کے بجائے، حملوں نے سیاسی خطوط پر عوامی جذبات کو مستحکم کیا ہے۔ حکومت کے دیرینہ ناقدین سمیت ایرانیوں نے اس پر ناراضگی ظاہر کی ہے۔ قومی خود مختاری پر غیر ملکی حملہ قرار دیا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ "عورت، زندگی، آزادی” تحریک کے کارکنان، جنہوں نے 2022 میں پولیس کی حراست میں مہسا امینی کی موت کے بعد ملک گیر احتجاج کو منظم کیا تھا، غیر ملکی فوجی مداخلت کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں۔
پروفیسر محمد اسلمی کے بقول، جیسے ہی بمباری سے تباہ شدہ عمارتوں اور گرے ہوئے ایرانی فوجیوں کی تصاویر گردش کرنے لگیں، ہمدردی اور یکجہتی کے موڈ نے لمحہ بہ لمحہ حکومت کی تبدیلی کے مطالبے کی جگہ لے لی۔ بہت سے لوگوں کے لیے بات چیت سیاسی اصلاحات سے قومی دفاع کی طرف منتقل ہو گئی ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ متعدد عوامی شخصیات اور اسلامی جمہوریہ کے سابق مخالفین نے ایران کی حمایت میں آواز اٹھائی اور اسرائیلی حملوں کی مذمت کی۔ فٹ بال لیجنڈ علی دائی نے اعلان کیا، "میں غدار بننے کے بجائے مرنے کو ترجیح دیتا ہوں” اور کسی بھی غیر ملکی حملے کے ساتھ تعاون کو مسترد کیا۔ ایک سابق جج اور سیاسی قیدی محسن برہانی نے IRGC اور دیگر مسلح افواج کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا، "میں وطن کے تمام محافظوں کے ہاتھ چومتا ہوں۔” AYBU یونیورسٹی ترکی، سنٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے اسسٹنٹ پروفیسر عمیر انس، ایران میں حکومت کی تبدیلی کے امریکہ اور اسرائیل کے عزائم پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ امریکہ اور اسرائیل کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ خامنہ ای دوسرے خلیجی حکم رانوں کی طرح ہیں۔ خامنہ ای اپنی بہت سی ناکامیوں کے باوجود، تاریخ میں ایک ایسے رہنما کے طور پر یاد رکھے جائیں گے جنہوں نے اسلامی جمہوریہ کے تصور کو حقیقت میں بدل دیا۔ خمینی نے انقلابی استحکام اور قانونی حیثیت فراہم کی لیکن خامنہ ای نے نئی ریاست کی تعمیر کی۔ خامنہ ای نظام اور نظریے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ایرانی انقلاب کا ماڈل خلیجی بادشاہت کی طرح حکومت کا مرکز نہیں ہے۔ اسلامی انقلاب نے ایک ریاستی ادارہ اور ایک فعال ریاست و معاشرے کے تعلقات کی تکمیل کی ہے۔ اپنے جانشین کا نام لے کر خامنہ ای نے تسلسل کا واضح پیغام دیا ہے اور اپنے بیٹے کو نامزد نہ کر کے انہوں نے خود کو آئینی قرار دیا ہے۔ ایران میں حکومت کی تبدیلی اس لیے کارگر نہیں ہو سکتی کیونکہ اسلامی انقلاب کا نظریہ کامیابی سے ایک فعال ریاستی نظام میں تبدیل ہو چکا ہے۔ امریکی بمباری نے ایران کو متحد کر دیا ہے اور پہلویوں، ایم ای کے، یا کسی اور کی حمایت کرنے والی موجودہ آوازوں کو بدنام کر دیا ہے۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کی رائے کے تناظر میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اقتدار پر حکومت یا خامنہ ای کی گرفت کو کمزور کرنے کے بجائے، اسرائیلی و امریکی اقدامات نے ایران کی موجودہ حکومت کو تقویت بخشی ہے۔ قومی اتحاد پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہو گیا ہے۔ حکومت کی تبدیلی اور انقلاب لانے کی تمام کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ عالمی طاقتیں ایران کے سیاسی نظام کی تاریخی لچک کو سمجھنے میں ناکام رہی ہیں۔ ایران پر جیسے جیسے بم گرائے جائیں گے اور جرنیلوں کی موت ہوتی رہے گی، اس سے ایران کا سماجی تانا بانا بکھرنے کے بجائے مزید مضبوط اور مستحکم ہوتا ہوا نظر آئے گا، اور شاید یہی اسرائیل اور امریکہ کی سب سے بڑی ناکامی ہوگی۔
ایران پر جارحیت اور بھارت کی خاموشی آخر معنی خیز کیوں ہے؟
بین الاقوامی تعلقات جذباتی اور مذہبی بنیادوں پر استوار نہیں ہوتے بلکہ معاشی اور سماجی مفادات کے پیش نظر ملکوں کے درمیان تعلقات قائم ہوتے ہیں۔ آج امریکہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے تو اس لیے نہیں کہ وہ یہودیوں کو مظلوم اقوام کے طور پر دیکھتا ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت عالمی معیشت پر صہیونی قوتوں کا غلبہ ہے۔ ان کی منشا کے بغیر کوئی حکومت کام نہیں کر سکتی۔ چنانچہ اس جنگ میں بھارت کو بھی اپنے مفادات کی حفاظت اور ترجیحات کو مدنظر رکھنا لازمی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ بھارت کے لیے اسرائیل سے تعلقات زیادہ اہم ہیں یا ایران سے؟
انگریزی اخبار دی ہندو میں کانگریس کی سینئر لیڈر سونیا گاندھی کا مضمون، جس میں غزہ میں اسرائیل کی سفاکیت اور ایران پر جارحیت پر بھارت کی خاموشی پر سخت تنقید کی گئی ہے، کو سیاسی بیان بازی قرار دے کر بی جے پی اور اس کے حامی رد کر سکتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں بھارت نے خاموشی سے ایران سے دوری اختیار کی اور مغرب کے ساتھ کھڑے ہونے کا پیغام دیا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے اس بیان کی توثیق سے انکار کر دیا گیا جس میں تہران پر بلا اشتعال اسرائیلی حملے پر تنقید کی گئی تھی۔ امریکہ کے حملے کے بعد بھی وزیر اعظم مودی نے ایرانی صدر سے بات کر کے تشویش کا اظہار کیا مگر حملے کی مذمت کرنے سے گریز کیا۔ اس سے قبل بھارت نے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) میں ایران کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ اسرائیلی حکومت بلکہ صہیونی ایجنڈے اور ہندوتوا قوتوں کے درمیان نظریاتی اتحاد کا یہ مظہر ہے۔ حالیہ پاک-ہند تنازع میں امریکہ کی قلا بازیوں کے باوجود بھارت کا یہ موقف حیرت انگیز ضرور ہے۔
سفارتی اعتبار سے بھی بھارتی حکام کا یہ رویہ احسان فراموشی کے مترادف ہے۔ کئی قومی اخبارات میں کام کر چکے مشہور صحافی افتخار گیلانی نے انگریزی اخبار کشمیر ٹائمز میں "How Iran Quietly Saved India From UN Sanctions in 1994 And Got Nothing in Return” کے عنوان سے ایک اسٹوری لکھی ہے۔ اس مضمون میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح ایران نے 1994 میں خاموشی سے ہندوستان کو بین الاقوامی پابندیوں اور اقوام متحدہ میں سفارتی ذلت سے بچایا – اور کس طرح بعد کے سالوں میں ہندوستان اس احسان کو لوٹانے میں ناکام رہا۔ افتخار گیلانی کا یہ مضمون پڑھنے کے قابل ہے۔
ایسے میں یہ سوال لازمی ہے کہ کیا بھارت کی موجودہ حکومت اپنے نظریات کی وجہ سے بھارت کے مفادات کو خطرے میں ڈال رہی ہے؟ ایران پر جارحیت پر خاموشی نہ صرف دیرینہ روایات سے انحراف ہے بلکہ مغرب سے قربت حاصل کرنے کی چاہت نے بھارت کی خارجہ پالیسی میں خود مختاری اور وسعتِ نظری سے محرومی کی بھی عکاسی کی ہے۔ بھارتی حکومت کے اس رویے کی وجہ سے ایران اور بھارت کے درمیان چا بہار پورٹ معاہدہ بھی خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
یہ صورت حال ایران کے لیے ایک بڑا سبق ہے۔ حالیہ برسوں میں ایران نے مسلم ممالک شام، لبنان، عراق اور یمن میں پراکسی وار کے ذریعے مسلم امت کے تصور کو نقصان پہنچایا تھا۔ اب جب کہ عالمی استعماری قوتیں ایران کو ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں تو وہ مسلم امت کا سبق پڑھاتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ آج ایران جس پراکسی وار کی قیمت چکا رہا ہے، کوئی بعید نہیں کہ ایران پر حملے کے لیے سہولت فراہم کرنے والے مسلم ممالک بھی اس آگ سے محفوظ نہ رہ جائیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ مسلم ممالک اور بھارت اس جارحیت سے کیا سبق لیتے ہیں۔ کیا وہ بدلتے جیوپولیٹکس میں اپنی آزادانہ راہ کا تعین کریں گے یا پھر عالمی استعماری قوتوں کے ہاتھوں کھلونا بنے رہیں گے؟

 

***

 امریکی صدر ٹرمپ نے خود اپنے ملک کے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس جنگ کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا ہے۔ امریکی قوانین واضح طور پر کہتے ہیں کہ امریکی کانگریس کی منظوری کے بغیر صدر جنگ شروع کرنے یا کسی جنگ میں شامل ہونے کا فیصلہ نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ کی کارروائی کی مذمت صرف ڈیموکریٹس نہیں کر رہے بلکہ ان کی اپنی جماعت ریپبلکن کے ارکان بھی مخالفت کر رہے ہیں اور جلد از جلد کانگریس سے منظوری لینے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 29 جون تا 05 جولائی 2025