مساوات و انسانیت کی بنیاد پر نیا بنگلہ دیش!۔ملک کو ایک نئی تحریک کی ضرورت

صرف نمائشی نہیں ،منصفانہ اور شفاف انتخابات کروائے جائیں: ڈاکٹر شفیق الرحمٰن

0

ڈھاکہ: ( دعوت انٹرنیشنل نیوز ڈیسک)

جماعت اسلامی بنگلہ دیش کا رجسٹریشن بحال کرنے کا مطالبہ۔ انصاف اور حقوق کی لڑائی جاری رکھنے کا عزم
بنگلہ دیش جماعتِ اسلامی کے امیر ڈاکٹر شفیق الرحمٰن نے ایک اور تحریک کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے پر زور لفظوں میں کہ اس ملک کے عوام کسی عارضی یا نمائشی انتخابات کے خواہاں نہیں بلکہ وہ ایک حقیقی، آزاد اور منصفانہ انتخاب چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انتخابات طاقت کے زور یا کالے دھن کے سائے میں نہیں ہونے چاہئیں اور اگر ایسا کوئی انتخاب کروانے کی کوشش کی گئی تو عوام اس کے خلاف ایک نئی جدوجہد کا آغاز کریں گے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ راستہ آسان نہیں ہوگا۔ جولائی-اگست 2024 میں ایک تحریک برپا کی گئی تھی اور اب قوم کو ایک اور تحریک دینے کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر شفیق الرحمٰن نر سنگدی ضلع جماعت کے زیر اہتمام ستاری پارہ کالی کمار انسٹیٹیوشن اسکول و کالج کے میدان میں منعقدہ ایک بڑے عوامی اجتماع سے خطاب کر رہے تھے۔ انہوں نے نوجوانوں کی بہادری کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا ’’میں آج کے نوجوانوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں—تم نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا ہے۔ تم ہمارے قومی ہیرو ہو۔ ہم ان شہداء کے لیے دعا گو ہیں، جنہوں نے 2024 کی جدوجہد میں اپنی جانیں قربان کیں۔ اللہ انہیں شہادت کا مرتبہ عطا فرمائے، ان کے اہلِ خانہ کو صبر دے، زخمیوں کو شفا دے اور ہمیں وہ قوت عطا فرمائے کہ ہم ان کی چھوڑی ہوئی ذمہ داریوں کو نبھا سکیں۔‘‘
انہوں نے دہرایا کہ ’’بنگلہ دیش میں انتخابات ضرور ہوں گے مگر نمائشی نہیں، بلکہ وہ انتخابات جن میں عوام کو حقِ رائے دہی کا مکمل اختیار حاصل ہو، جو پیسے اور طاقت کے دباؤ سے پاک ہوں۔ ووٹر لسٹ کو درست کرنا انتہائی ضروری ہے۔ جعلی ووٹرز کو نکالا جائے، وفات پا چکے افراد کے نام حذف کیے جائیں اور وہ نوجوان جو اب تک ووٹر لسٹ میں شامل نہیں، انہیں فوری طور پر شامل کیا جائے۔‘‘
انہوں نے جولائی-اگست کی تحریک کے دوران عالمی یکجہتی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح ملک کے اندر عوام نے احتجاج کیا اسی طرح ہمارے بیرونِ ملک بھائیوں نے بھی قربانیاں دیں۔ ’’انہوں نے حوالہ جات روک کر، مالی معاونت کو بند کر کے، آمرانہ حکومت کو انتباہ دیا۔ ہم ان کی قربانیوں کو سلام پیش کرتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہر بیرونِ ملک مقیم بھائیوں و بہنوں کو ووٹ کا حق دیا جائے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ وہ سرکاری اہلکار جو اپنے فرائض ادا کرنے میں ناکام رہے، جو عوامی سرمائے سے خریدی گئی گولیوں کو عوام پر استعمال کرتے رہے، انہیں مستقبل میں کوئی عہدہ نہیں دیا جانا چاہیے۔ ’’لیکن ایماندار اور محبِ وطن افسران کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ عوام ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے‘‘
انہوں نے جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے خلاف منفی پروپیگنڈے کا ذکر کرتے ہوئے کہا: ’’کیا جماعت اسلامی کے کارکنان غیر ملکی ہیں؟ ہرگز نہیں! ہم یہیں پیدا ہوئے، یہیں پلے بڑھے اور یہیں رہتے ہیں۔ ہمارے کردار کے اصل گواہ تم ہی ہو!‘‘۔انہوں نے ایک ایسے بنگلہ دیش کے قیام کی خواہش کا اظہار کیا جہاں ہر شخص باہمی احترام کے ساتھ زندگی گزار سکے، جہاں مرد و زن محفوظ اور باعزت طور پر کام کر سکیں اور جہاں ہر مذہب کے ماننے والوں کو مکمل آزادی حاصل ہو۔‘‘
ڈاکٹر شفیق الرحمٰن نے کہا کہ ’’آپ نے دیکھا کہ جماعت اسلامی کے تمام دفاتر—مرکزی، ضلعی، تحصیل، حتیٰ کہ یونین سطح تک—سیل کر دیے گئے۔ جماعت وہ واحد جماعت ہے جس کا اندراج ختم کر دیا گیا۔ فاشزم کے خاتمے کے باوجود ہم اب تک اپنے قانونی اندراج سے محروم ہیں، اور ہم اس کے لیے قانونی جنگ لڑ رہے ہیں۔ یہ بنگلہ دیش کے لیے شرم کی بات ہے! ہمارا رجسٹریشن اس لیے منسوخ کیا گیا کیونکہ ہم نے ظلم کے آگے جھکنے سے انکار کر دیا۔ فاشزم کے زوال کے بعد، ہمارا حق بحال کیا جانا چاہیے۔‘‘
نہوں نے کہا کہ ’’جھوٹے مقدمات میں گرفتار کیے گئے جماعت اسلامی کے اکثر قائدین رہا ہو چکے ہیں مگر یہ افسوسناک ہے کہ جماعت اسلامی کے سابقہ قائم مقام سکریٹری اے ٹی ایم اظہر الاسلام تاحال اسیری میں ہیں۔ عوام ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا ’’ہم نے اپنے بہت سے قائدین کو کھو دیا، مگر اللہ نے اپنے ایک بندے کو زندہ رکھا۔ اسے فوراً عزت کے ساتھ رہا کیا جائے۔ اگر اس میں تاخیر کی گئی تو جماعت اسلامی عوام کے جائز مطالبات کے ساتھ سڑکوں پر نکلے گی۔‘‘
امیر جماعت اسلامی بنگہ دیش نے کہا کہ ’’پچھلے پندرہ سالوں میں ملک کی دولت لوٹ کر 26 لاکھ کروڑ ٹکا بیرونِ ملک منتقل کر دیے گئے۔ جو حکم راں یہاں کی دولت لوٹ کر کینیڈا میں ’بیگم پارا‘ بنا چکے ہیں وہ اس ملک کو اپنا نہیں سمجھتے۔ وہ عوام کے خزانے کو لوٹ کر دوسرے ممالک میں عیش کرتے ہیں۔ لیکن اب پردے ہٹ چکے ہیں عوام سب جان چکے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ’’ہم چاہتے ہیں کہ ہر قاتل کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔ ہم انصاف کے خواہاں ہیں مگر ایسا انصاف نہیں جو ظلم پر مبنی ہو۔ ہم نے ظلم برداشت کیا ہے اور ہم نہیں چاہتے کہ کوئی اور اس کا شکار ہو۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ ان مجرموں نے جو جرائم کیے ہیں وہ ان ہی کے بوجھ تلے دب جائیں گے۔ ملک کے اندر اور باہر جو دولت لوٹی گئی، اسے واپس لا کر قومی خزانے میں جمع کی جائے تاکہ ملک کی یکساں ترقی ممکن ہو سکے۔‘‘

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 23 فروری تا 01 مارچ 2025