مساجد پر دشمنوں کی یلغار، مسلمانوں کے لیے لمحہ فکریہ
دعوت الی اللہ ہی بڑھتی ہوئی مذہبی منافرتکا واحد علاج
ڈاکٹر ساجد عباسی، حیدرآباد
کیا ملک کے موجودہ حالات کافی نہیں کہ امتِ مسلمہ اپنا احتساب کرے؟
مولانا سید ابولاعلیٰ مودودیؒ نےکتنا صحیح کہا تھا کہ ’’ہندو قوم دو ٹانگوں پر کھڑی ہے، ایک ٹانگ ہے انگریزوں سے آزادی کی جدوجہد اور دوسری ٹانگ ہے مسلم دشمنی۔ ملک آزاد ہونے کے بعد ہندو قوم کا وجود ایک ٹانگ پر منحصر ہوگا اور وہ ہے مسلم دشمنی‘‘۔ یعنی مسلم دشمنی ہی میں ہندوقوم کا اتحاد ہے۔چنانچہ ہم آزادی کے بعد سے دیکھ رہے ہیں کہ معاشرہ کو مسلسل ہندو-مسلم منافرت کے زہر سے مسموم کیا جارہا ہے۔چونکہ ہندتوا تحریک، آزادی سے بہت پہلے شروع ہوچکی تھی اس لیے کانگریس کے دورحکومت میں بھی بھیانک فسادات کروائے گئے جس میں معصوم مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ اسی فرقہ پرستی کی وجہ سے ملک تقسیم ہوا۔
بابری مسجد کے قضیے کے موقع پر ایک قانون بنایا گیا کہ بابری مسجد کو مستثنیٰ کرکے ۱۹۴۷ء کے بعد سے جو بھی عبادت گاہوں کا موقف ہے ان کو اسی پر برقرار رکھا جائے گا اور کسی عبادت گاہ پر یہ سوال نہیں اٹھا یا جائے گا کہ اس کی تاریخی حیثیت کیا ہے۔اس کو۱۹۹۱ء مذہبی مقامات ایکٹ کہا جاتا ہے۔لیکن سپریم کورٹ کے ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس چندراچوڑ جاتے جاتے اس ایکٹ کی قانونی حیثیت کو مجروح کرکے چلے گئے جس کے نتیجہ میں ہر عبادت گاہ کے بارے میں چھان بین کا جواز پیدا ہو گیا ۔اب نچلی عدالتوں میں پیٹیشن دائر کرکے کسی بھی مسجد کے بارے میں کہا جاسکتا ہےکہ یہ مسجد نہیں بلکہ مندر تھی ۔اس طرح سے یہ مسلم امت کے ساتھ بڑی دھوکہ دہی کی گئی ۔ایک قانون بنا کر بابری مسجد پر رام مندر بنانے کی راہ ہموارکرنا پھر مندربنانے کے بعد اس قانون کو ختم کرنے کےراستے تلاش کرکے بے شمار مساجد کے تقدس کو پامال کرنا خود قانون کے ساتھ ایک بدترین مذاق ہے۔ چنانچہ پچھلے دنوں یو پی کے شہر سنبھل کی جامع مسجد میں سروے کے دوران فساد برپا کیا گیا جس میں چار مسلم بے گناہ نوجوانوں کی جان چلی گئی ۔اس کے بعد اجمیر کی درگاہ کے بارے میں یہ بات کہی جارہی ہے کہ یہ بھی کسی زمانے میں شیو کا مندرتھا ۔اسی طرح کے سوالات جامع مسجد دہلی کے بارے میں بھی اٹھائے جارہے ہیں ۔صدیوں پرانی مساجدکے بارے میں کبھی یہ سوال پیدانہیں ہوا تھا کہ ان مساجد کو مندروں کو ڈھاکر بنایا گیا ہے تو کیسے حالیہ سالوں میں یہ سوال پیدا ہو رہا ہے؟ کیااس دورِ جدید میں ایسی کوئی مشین ایجادہوئی ہے جو ان مساجدکی بنیادوں میں مندروں کے آثار کووثوق کے ساتھ بتلائے ۔یہ دہشت گردی کے سوا کچھ نہیں ہے۔بابری مسجد کی بنیادوں میں جب کھدائی کی گئی تو وہاں کوئی مندر کے ثبوت تو نہیں ملے تھے۔ محض اکثریت کی خواہش اور آستھا کی بنیادپر عدالت نے اپنافیصلہ سنایا تھا جو بجائے خود انصاف کے منافی تھا اور اب جو کچھ ہورہا ہے وہ حکومت کی نگرانی میں اس کے پلان کے مطابق ہورہا ہے تاکہ: ۱- عوام کا ذہن حکومت کے مختلف محاذوں پر ناکامی کی طرف نہ جائے۔ ۲- لوگ الیکشن میں ای وی ایم کے استعمال پر سوالات نہ اٹھائیں۔ ۳- بہوجن سماج کا دماغ اپنے اصل دشمنوں یعنی برہمنوں کی طرف نہ جائے جو صدیوں سے نچلی ذاتوں پر ظلم کرتے آ رہے ہیں۔ اس لیے ان کی مجبوری ہے کہ عام ہندوؤں کے سامنے مسلمانوں کو ایک مستقل دشمن بناکر پیش کیاجائے تاکہ اصل دشمن نظروں سے اوجھل رہے۔ ۴- مسلمانوں پر ظلم کرکے ان کو معاشی طورپر اتنا پسماندہ کردیا جائے کہ وہ اسلام کے داعی بن کرنہ اٹھ سکیں ۔۵- مغل بادشاہوں کے دورکو ہندوؤں کے لیے بدترین ظلم کا دور قراردے کر عام ہندوؤں کے اندر اتنی نفرت بھردی جائے کہ ہندوعوام کو مسلمانوں کے قتل عام کے لیے ذہنی طور پر تیار کیا جائے۔ ۶- گجرات کے تجربے نے یہ ثابت کردیا کہ کسی بھی ہندو لیڈرکی تیز تر ترقی کا آسان طریقہ یہ ہے کہ مسلمانوں پر کاری ضرب لگاکر ان کی جان، مال، مساجد اوران کی اوقاف کو نشانہ بنایا جاے۔ ۷- بی جے پی کے اقتدار کو مستحکم کرنے کے لیے ہندوؤں کے اندر خوف پیداکرکے یہ باور کرایا جائے کہ یہی پارٹی ہندوؤں کی بقا کی ضامن ہے ۔
یہ وہ مذموم مقاصد ہیں جن کے حصول کے لیے یک نکاتی ایجنڈا بنا لیا گیا ہے کہ میڈیا کے ذریعے دن رات ہندو-مسلم منافرت کو بڑھایا جاتارہے۔وہ ہندوؤں کو سیاسی فوائد کے لیے تو متحد کرنا چاہتے ہیں لیکن اس اتحاد کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس سے ان کے اندر سے ذات پات ختم کیا جائے۔اگر ذات پات ختم ہوجائے تو سناتن دھرم کی بنیاد ہی ختم ہوجائے گی۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ بھوجن سماج نام نہاد اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کی اس مکاری کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ جس دن ملک کا بہوجن سماج اس مکاری کو سمجھ جائے گا وہ دن ملک میں بھوجن سماج کی ذہنی غلامی سے آزادی کے حصول کا آغاز کا دن ہوگا۔اس لیے مسلم دشمنی ان کی بہت ہی ناگزیر مجبوری ہے ۔چنانچہ جو لوگ اس عیاری کو سمجھنے والے ہیں وہ بھی مسلم دشمنی کے جذبات سے مغلوب ہوکر ہندتوا کا ساتھ دے رہے ہیں۔بھارت کے ان پڑھ تو درکنار پڑھے لکھے لوگ بھی اندھ بھکتی کا شکار ہو گئے ہیں۔ کسی میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ مسلم دشمنی کے بیانیے کو چیلنج کرے۔ کوئی بھی اٹھ کر مغل بادشاہوں پر لگائے ہوئے الزامات کو چیلنج نہیں کرنا چاہتا۔ اگر واقعی وہ ظالم ہوتے تو ان کے ہم عصر ہندو تاریخ داں، مصنف اور شاعر ضرور اس بارے میں لکھتے۔تلسی داس کا دور اکبر شہنشاہ کا ہم عصر دورتھا لیکن اس نےمغل بادشاہ بابر کے بارے میں کوئی ایسی بات نہیں لکھی کہ اس نےرام مندر کو توڑ کر بابری مساجد بنائی تھی، اور نہ ہی کسی قسم کے ظلم کا تذکرہ اپنی کتابوں میں بیان کیا ۔
سوال یہ ہے کہ بھارت کی بالخصوص شمال کی ریاستوں میں ظلم کی انتہا کے اس ماحول میں کیا کیا جائے؟ اللہ تعالیٰ نے کیوں ہم پر ان ظالموں کو مسلط کیا ہے؟
ہم جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی بھی کام حکمت سے خالی نہیں ہے۔دراصل اللہ تعالیٰ ملک کے مسلمانوں کو غفلت سے جگا کر ان سے اہم کام لینا چاہتا ہے۔جس قدر غفلت ہوتی ہے اسی شدت کے ساتھ جگایا جاتا ہے۔ہلکی سی آزمائش شاید غافل امت کو جگانے کے لیے ناکافی ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا ہمیں اس سے شدید تر حالات کا انتظار ہے جو ہمیں بدلنے پر مجبور کریں۔کیا یہ حالات کافی نہیں ہیں کہ امت مسلمہ اپنا احتساب کرے ۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہمارے اندرون میں ایسا انقلاب آئے جو ہمیں بیرون میں انقلاب برپاکرنے والا بنادے۔امت مسلمہ میں جن امور میں فی الفوراصلاح درکارہے وہ یہ ہے :
۱) سب سے پہلی چیز ہے شرک سے بے زاری۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن اصلی حالت میں موجود ہو اور پھر بھی امت مسلمہ شرک جیسے بدترین گناہ کی مرتکب ہو، یہ اللہ کے غضب کو دعوت دینے والی بات ہے۔قرآن میں صاف کہا گیا ہے کہ شرک ظلم عظیم ہے۔
۲) دوسری چیز ہے تعلق باللہ۔ امت مسلمہ جب اللہ رب العالمین سے جو ساری طاقتوں کا مالک ہے، اس سے جڑے گی تو طاقت حاصل کرتی رہے گی۔ جب اسی سے منقطع رہے گی تو آسانی سے مٹ جائے گی۔تاریخ ہمیں بتلاتی ہے کہ کئی قومیں مٹ گئیں۔ہم جانتے ہیں کہ ایک دورمیں بدھ مت کے ماننے والے سارے بھارت میں ایک قوم کی حیثیت سے آباد تھے لیکن برہمن وادیوں کے ہاتھوں نسل کشی کے نتیجے میں ناپید ہوگئے۔جو بچ گئے تھے ان کو طبقوں میں بانٹ کر ان کو ذہنی و جسمانی غلام بنالیا گیا جبکہ ظالم اقلیت میں تھے اور مظلوم اکثریت میں تھے۔اللہ تعالیٰ سے تعلق پیداکرنے کے دو ذرائع ہیں۔ پہلا یہ کہ تمسک بالکتاب یعنی قرآن سے فہم وادراک اور عمل کی سطح پر تعلق پیداہو۔دوسرا ذریعہ ہے نمازکا قیام جس سے ایک بندہ اللہ سے جڑا رہتا ہے اور اس سے روحانی قوت حاصل کرتا رہتا ہے۔ترکِ نماز کے نتیجے میں جب اللہ تعالیٰ سے تعلق ٹوٹ جاتا ہے تو امت شیطان کی چالوں کا شکار ہوجاتی ہے ۔اورشیطان کا سب سے پہلا وار یہ ہوتا ہے کہ عوام کو خواہشاتِ نفس کے پیچھے لگادیتا ہے(سورۃ مریم ۵۹)
تیسری چیز ہے اپنے مقصدِ وجود کا ادراک و شعور۔ امتِ مسلمہ سے اللہ کو جو مطلوب ہے وہ قرآن میں صاف طور پر بیان کیا گیا ہے کہ وہ حق کی قولی و عملی شہادت دے (سورۃ البقرۃ۱۴۳) اور کتمانِ حق سے بچے (سورۃ البقرۃ ۱۵۹) اگر امتِ مسلمہ اپنا مقصدِ وجود پورا نہ کرے تو خود اس کا وجود خطرہ میں پڑجاتا ہے۔
آزادی کے بعد سے ۲۰۱۴ء تک قدرے امن کا ماحول دستیاب تھا ۔امن کے ماحول میں دعوت الی اللہ کے میدان میں بہت کام کیا جاسکتا تھا ۔جب ہم نے امن کے ماحول کو شہادت علی الناس کے لیے خاطرخواہ استعمال نہیں کیا تو اللہ نے اس امن کو خوف سے بدل دیا۔ جب ملک میں جمہوریت تھی تو اس سے فائدہ اٹھاکر دعوت الی اللہ کا فریضہ انجام دیا گیا ہوتا تو ملک فاشزم کی طرف اس تیزی سے آگے نہ بڑھتا۔ ملک میں بڑھتی ہوئی مذہبی منافرت کا ایک ہی علاج ہے اور وہ ہے دعوت الی اللہ۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 15 دسمبر تا 21 دسمبر 2024