مرتدین و ملحدین کے رسول اللہ ﷺ پر اعتراضات کی حقیقت

دلائل کے ساتھ شبہات کا ازالہ دعوت دین کا حصہ 

ڈاکٹر ساجد عباسی

یہ انسانیت کا المیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس شخصیت کو رحمت للعالمین بنا کر دنیا میں مبعوث فرمایا ایسی شخصیت کی بھی مخالفت کی جاتی رہی ہے۔ یہ مخالفت اس دور میں بھی کی گئی جب رسول اللہ (ﷺ) نے نبوّت کا اعلان فرمایا تھا اور آج بھی کی جارہی ہے جبکہ آپ نے محض 23 سالوں میں انسانی تاریخ کا ایسا مثالی اور ہمہ گیر انقلاب برپا کیا جس نے انسانوں کے افکار و اخلاق کو بدل کررکھ دیا ۔یہ انقلاب اتنا جامع اور مکمل تھا کہ جس نے زندگی کے روحانی ،اخلاقی ،سماجی ،معاشی اور سیاسی شعبہ ہائے حیات میں قیامت تک کے لیے بہترین نمونہ پیش کیا ۔
دورِ نبوت میں جو الزامات لگائے گئے وہ یہ تھے کہ آپ ساحر ہیں ۔جو بھی آپؐ سے ملتا اور آپ کی باتوں کو سنتا تو وہ اپنا دل ہار بیٹھتا اور آپؐ کا گرویدہ بن جاتا ۔اس لیے آپؐ پر یہ الزام لگایا جاتا کہ آپؐ کے اعلان نبوت کے بعد معاشرہ میں افتراق و انتشار پیدا ہوگیا۔سگے رشتہ داروں کے درمیان دوریاں پیدا ہوگئیں ۔ایک یہ الزام لگایا جاتا تھا کہ آپ کاہن ہیں ۔جس طرح کاہن غیب کی خبریں دیتے ہیں اسی طرح آپؐ بھی غیبی امور کی خبریں دے رہےہیں ۔کبھی یہ الزام لگایا جاتا کہ آپؐ شاعر ہیں جب کہ وہ جانتے تھے کہ آپؐ جو کلام پیش کررہے ہیں اس کو شاعری کی کسی صنف سےموسوم نہیں کیا جاسکتا۔ جب آپ اللہ کا کلام پڑھ کرسناتے تو مکہ کے شعراء و خطیب لاجواب ہوجاتے ۔ان سے کہا جاتا کہ اگر تم یہ الزام لگاتے ہوکہ محمد خود ساختہ کلام پیش کررہے ہیں تو اس جیسا کلام تم خود بناکر دکھادو۔مشرکین مکہ کا یہ بھی مطالبہ تھا کہ جب اللہ نے آپ کو رسول بناکر بھیجا تھا تو فرشتوں کو نازل کرکے ان سےآپ کی رسالت کا اعلان کیوں نہیں کروایا گیا ۔یا پھر آپ کو مکہ کا مال دار ترین آدمی بنادیا جاتا جس کے پاس باغ ہوتے اور آپؐ کا قصر جیسا ایک عالی شان گھر ہوتا۔ قرآن نے ان تمام اعتراضات کا جواب دیا ہے۔
مدینے میں ہجرت کے بعد اعتراضات کی نوعیت بدل جاتی ہے۔جب دلیل کے ذریعے فکری بنیاد پر اسلام پر اعتراض کرناممکن نہ رہا تو مدینہ میں منافقین اور یہود و نصاری ٰ کی طرف سے آپ کی ذات پر حملے کیے گئے ۔آپؐپر یہ الزام لگایا گیا کہ آپ نے اپنی بیٹے کی مطلقہ بیوی (بہو) سے نکاح کیا ۔قرآن نے بتلایا کہ منہ بولے بیٹے کی روایت کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے لیے ہی اس نکاح کو اللہ کے حکم سے انجام دیا گیا ہے۔آپ کو اذیت میں مبتلا کرنے کے لیے آپ کی چہیتی بیوی حضرت عائشہؓ پر بہتان لگایا گیا ۔اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کے ذریعے اس بہتان سے حضرت عائشہؓ کی براءت فرمائی۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا مِّنَ الْمُجْرِمِينَ وَكَفَى بِرَبِّكَ هَادِيًا وَنَصِيرًا (الفرقان:31) اے محمدؐ ، ہم نے تو اِسی طرح مجرموں کو ہر نبی کا دشمن بنایا ہےاور تمہارے لیے تمہارا رب ہی رہنمائی اور مدد کو کافی ہے۔
آج کل مرتدین جو خود کو سابق مسلمان (Ex-Muslims)کہلواتے ہیں انہوں نےچند احادیث کے سیاق وسباق کو نظرانداز کرکے بدنیتی سے اس کے متن کو من گھڑت معنی دے کر اہانت رسول کو اپنا مقصدِ زندگی بنالیا ہے۔ ان میں جو سب سے بڑا اعتراض ہے وہ یہ ہے کہ محمدؐ نے عائشہ سے چھ سال کی عمر میں نکاح کیا تھا۔دوسرا اعتراض یہ ہے کہ عام مسلمانوں کو چار نکاح تک پابند کیا گیا لیکن آپ نے گیارہ نکاح فرمائے ہیں۔ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ آپ نے اپنی بہو سے نکاح کیا۔ایک اور اعتراض یہ ہے کہ آپ نے بنو قریظہ کے مردوں کا قتل کیا اور ان کے سردار کی بیٹی کو لونڈی بنایا ۔یہ کمبخت ان اعتراضات کو اتنے گھناؤنے طریقے سے پیش کرتے ہیں کہ ان کی اہانت آمیز گفتگو کو تحریر میں نہیں لایا جاسکتا۔قرآن کی تعلیمات کی روشنی میں مسلم علماء ان مرتدین کے یوٹیوب کی streams میں شریک بھی نہیں ہوسکتےجن میں علانیہ اہانتِ رسول ہورہی ہو۔چونکہ ان ظالموں کے پروگراموں میں اہانت رسول کافوری طور پر رد نہیں ہوپاتا اس لیے ان کے یوٹیوب چینلز سے ہونے والی اہانتِ رسول سے وہ مسلم لڑکے اور لڑکیاں متاثر ہورہے ہیں جو اسلامی تعلیمات سے نابلد ہیں۔
یہاں چند اعتراضات کا جائزہ لیا جائےگا تاکہ ہماری نوجوان نسل ان اعتراضات کی حقیقت کو جان لے۔
۱۔ کیا واقعی رسول اللہ (ﷺ) کا نکاح حضرت عائشہ سے چھ سال کی عمر میں ہوا تھا؟
جس حدیث کو بنیاد بناکر سوشل میڈیا پر رسول اللہ (ﷺ) کی شان میں دن رات گستاخی کی جاتی ہے۔ یہ بخاری کی حدیث نمبر ۳۸۹۶ ہے جو اس طرح سے ہے: حضرت خدیجہؓ کی وفات نبی کریم (ﷺ) کی مدینہ سے ہجرت سے تین سال پہلے ہوگئی تھی ۔نبی کریم (ﷺ)نے آپ کی وفات کے تقریباًدو سال بعد عائشہؓ سے نکاح کیا اس وقت ان کی عمرچھ سال تھی جب رخصتی ہوئی تو وہ نو سال کی تھیں۔
یہ حدیث ہشام اور ان کے والد عروہ سے مروی ہے ۔اسی ایک راوی سے مسلم اور نسائی میں بھی اس حدیث کو بیان کیا گیا ہے۔اسلام کی ابتداء میں پیدائش کی تاریخوں کو اس صحت کے ساتھ طرح ریکارڈ نہیں کیا گیا جس طرح اموات کی تاریخوں کو کیا گیا ۔
مغربی دنیا میں اسلام دشمنوں کی طرف سے حضوراکرم (ﷺ) کے لیے Pedophile جیسا گندہ لفظ بولا جاتا ہے جس سے مراد ایسا شخص ہے جو نابالغ بچوں میں جنسی دلچسپی رکھتا ہو۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اس حدیث کی حقیقت کو ساری دنیا کے سامنے پیش کیا جائےتاکہ رسول اللہ (ﷺ) پر اہانت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے ختم کردیا جائے۔
یہ حدیث سب سے پہلے قرآن سے متصادم ہے۔قرآن میں جہاں بھی نکاح یا منگنی کا لفظ آیا ہے وہاں نساء کا لفظ آیا ہے۔یعنی نکاح نساء سے مطلوب ہے نہ کہ رضیعہ سےیاصبیّہ یا طفلہ سےیا جاریہ سے؟ قرآن میں دودھ پیتی بچی کے لیے رضیعہ،اس سے بڑی کے لیے طفلہ اور اس سے بڑی بچی کے لیے صبیّہ اور اس سے بڑی کے لیے جاریہ کا لفظ آیا ہے جو سنِ بلوغ سے پہلے کھیلنے کودنے کی عمر ہوتی ہے ۔نساء سے مراد عورت ہے جو شادی اور نکاح کے مطلب کو جانتی ہے اور شادی کے لیے اپنی مرضی ظاہر کرنے کے قابل ہوتی ہے۔چھ سال کی بچی سے شادی کے بارے میں رضامندی لینا بے معنی ہے جب وہ نکاح کے مفہوم سے نابلد ہوتی ہے۔اورچھ سال کی عمر میں ایک لڑکی مہر کی رقم کو اپنی حفاظت میں رکھنے پربھی قادر نہیں ہوتی ۔اللہ تعالیٰ نے قرآن میں یتیموں کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ ان کے مال ان کو اس وقت دیے جائیں جب وہ نکاح کی عمرکو پہنچیں اور ان کے اندر سمجھداری پیداہو:
وَابْتَلُواْ الْيَتَامَى حَتَّىَ إِذَا بَلَغُواْ النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُواْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ (النساء)۔۔اور یتیموں کی آزمائش کرتے رہو یہاں تک کہ وہ نکاح کے قابل عمر کو پہنچ جائیں۔ پھر اگر تم اُن کے اندر اہلیت پاو تو ان کے مال ان کے حوالے کردو۔
اس آیت میں یہ فرمایاگیا ہے کہ یتیموں کو ان کے مال اس وقت حوالے کرو جب وہ بلوغتِ نکاح (physical maturity) اور بلوغتِ رشد (mental maturity) کی عمر کو پہنچیں۔ صرف مال حوالے کرنے کے معاملے میں جب یہ دو شرائط رکھی گئیں ہیں تو نکاح میں بھی مہر کا مال عورت کے حوالے کر دیا جاتا ہے اور مزید یہ کہ عورت اور اس کے ولی کی رضا مندی اور دو گواہوں کی موجودگی میں مرد اور عورت کے درمیان ایک معاہدہ طے پاتا ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ نکاح میں سن ِ نکاح کے ساتھ سنِ رشد بدرجۂ اولیٰ لازمی شرط ہوگی ۔
بلوغتِ رشد سے مراد عاقل ہونا ہے جس میں عورتیں نکاح کے مفہوم اور اس کے مقتضیات کو جان لیں اور ان کے اندر اتنی اہلیت ہوکہ مہر کی رقم ولی کی مددسے خود طے کریں اور اس کی خود حفاظت کرسکیں۔کیا چھ سال کی عمر بلوغت اوررشد کی عمر ہوسکتی ہے؟ یہ ناممکن ہے کہ رسول اللہ (ﷺ)کا کوئی عمل قرآن کے مزاج کے خلاف ہو۔
علاوہ ازیں زیرِ بحث حدیث امام بخاری کی دوسری تین صحیح احایث سے بھی ٹکراتی ہے۔ان احادیث کو بیان کرنے سے قبل ایک تاریخی حقیقت سامنے رکھنا چاہیے جس کو بالاتفاق تمام اسلامی مورخین نے لکھی ہیں کہ حضرت عائشہؓ کی بڑی بہن سیدہ اسماءؓ بنت ابو بکر کی وفات 12جمادی الاولیٰ 73ہجری کو ہوئی جب آپ کی عمر سو سال تھی۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حضرت اسماءؓ کی عمر ہجرت کے وقت 27 سال تھی اور حضرت عائشہؓ اپنی بہن اسماء سے دس سال چھوٹی تھیں۔اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہےکہ حضرت عائشہ ؓکی عمر ہجرت کے وقت 17سال تھی۔اس حساب سے نکاح کے وقت حضرت عائشہ ؓکی عمر 15سال تھی جو 11نبوی میں ہوا، اور رخصتی کے وقت 18سال تھی جو ہجرت کے بعد پیش آئی ۔
زیر غورحدیث صحیح بخاری کی دوسری تین احادیث سے متصادم ہے وہ حسب ذیل یہ ہیں :
ان میں سے ایک حدیث ہے جس کا نمبر ہے 6993۔جو اس طرح سے ہے:حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں جب میں بچی تھی یعنی کھیلنے کودنے کی عمر میں تھی اس وقت سورۃ القمر کی آیت بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ وَالسَّاعَةُ أَدْهَى وَأَمَرُّ نازل ہوئی۔سورۃ القمر 8 نبوی میں نازل ہوئی۔
اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہجرت کے وقت آپ کی عمر 17 سال تھی ۔یعنی 15 سال کی عمر میں آپ کا نکاح رسول اللہ (ﷺ) سے ہواتھا۔
بخاری کی ایک اور حدیث نمبر 2297 میں حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں : میں نے جب سے ہوش سنبھالا تو اپنے والدین کو اسی دین ِ اسلام کا پیروکار پایا۔کوئی دن ایسا نہیں گزرتا تھاجب رسول اللہ (ﷺ)ہمارے یہاں صبح و شام دونوں وقت تشریف نہ لاتے ہوں۔ پھر جب مسلمانوں کو بہت زیادہ تکلیف ہونے لگی تو ابوبکرؓ نے بھی ہجرت حبشہ کا ارادہ کیا۔لیکن مالک ابن الدغنہ کی امان ملنے کے بعد ہجرت کا ارادہ ترک کیا۔کچھ عرصہ بعدابوبکرؓنے اس کی امان اس کو واپس کردی ۔
ہجرت حبشہ 5 نبوی میں ہوئی۔اگر حضرت عائشہؓ کی عمر 11 نبوی میں چھ سال تھی تو اس حدیث کی رو سے 5نبوی میں آپ پیدا ہوئیں تھیں جبکہ ہجرت حبشہ سےبہت قبل ہی حضرت عائشہ ہوشمند  تھیں اور اپنے والد ابوبکرؓاور رسول اللہ (ﷺ) کی رفاقت کو شب و روز دیکھ رہی تھیں۔
ایک اوربخاری کی صحیح حدیث نمبر 2880 ہے جو اس طرح سے نقل ہوئی ہے:
احد کی لڑائی کے موقع پر مسلمان نبی کریم (ﷺ) کے پاس سے ہٹ گئے تھے ۔انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عائشہؓ بنت ابی بکر اور ام سلیمؓ [انسؓ کی والدہ] کو دیکھا کہ یہ اپنے ازار سمیٹے ہوئے تھیں اور تیز چلنے کی وجہ سے مشکیزے سے پانی چھلکاتی ہوئی جارہی تھیں ابو معمر کے علاوہ جعفر بن مہران نے بیان کیا کہ مشکیزے کو اپنی پشت پر لیے ادھر سے ادھر جلدی جلدی لیے پھرتی تھیں اور قوم کو اس میں سے پانی پلاتی تھیں ،پھر واپس آتی تھیں اور مشکیزوں کو بھر کر لے جاتی تھیں اور قوم کو پانی پلاتی تھیں ،میں ان کےپاؤں کے پازیب دیکھ رہا تھا۔
اس حدیث کو بخاری کی حدیث نمبر 2664 سے ملاکر دیکھیں جو حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے غزوہ احد کے موقع پر میراجائزہ لیا۔میں اس وقت چودہ سال کا تھا۔آپؐ نے مجھے جنگ میں شرکت کی اجازت نہیں دی ۔پھر غزوہ خندق کے موقع پر جائزہ لیا تو میں پندرہ سال کا ہوچکا تھا ۔آپ نے مجھے اجازت دے دی۔
جب 14 سال کے لڑکے کو اجازت نہیں ملی کہ وہ جنگ میں شریک ہو توکیسے ایک کم عمر دس سال کی لڑکی کواجازت مل سکتی ہےکہ جنگ کے گھمسان میں زخمیوں کو پانی پلائے ۔غزوہ احد میں مندرجہ بالا احادیث کی روشنی میں حضرت عائشہ کی عمر19 سال تھی۔
ایک اور اہم بات یہ ہےکہ جب خولہ بنت حکیم رسول اللہ (ﷺ)کی طرف سے حضرت عائشہؓ کے گھررشتہ لےکر گئیں تو حضرت عائشہ کی والدہ امّ رومان نے کہا کہ مطعم بن عدی کے بیٹے سے عائشہؓ کے رشتے کی بات طے ہوچکی ہے۔اس پر ابوبکر ؓنے مطعم بن عدی کے گھر گئےاور اس رشتہ کی بابت دریافت کیا۔مطعم کی بیوی ام الفتی نے کہا اے ا بن ابی قحافہ اگر ہمارے بیٹے سےتمہاری بیٹی کا نکاح ہوجائے تو ہمیں ڈر ہے کہ میرا بیٹا بے دین ہوجائےگا یعنی مسلمان ہوجائےگا۔ابوبکرؓ اس پر وہاں سےاٹھ کر چلے گئے اور اس طرح حضرت عائشہؓ سے نبی کریمﷺ کے نکاح کی راہ ہموار ہوئی۔ جب مطعم بن عدی کے بیٹے سے حضرت عائشہؓ سے رشتہ کی بات پہلے سے چل رہی تھی توکیا وہ اس وقت پانچ سال کی تھیں۔اور مطعم بن عدی کی بیوی کو یہ کیسے خوف ہوسکتا تھا کہ پانچ یا چھ سال کی بچی ان کے بیٹے کو اس کے آبائی دین سے اسلام کی طرف لائے گی۔
جب وقت نکاح حضرت عائشہؓ کی عمر کے بارے میں احادیث میں اختلاف ہوتو ہمیں چاہیے کہ ہم صحیح بخاری کی ان احادیث کو بیان کریں جن سےیہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ کی عمرنکاح کے وقت 15 یا 16 سال تھی ۔بعض لوگ کہتے ہیں کہ 16 کی عمر بھی تو کم عمر ہے جس پر بھی اعتراض ہوسکتا ہے۔اس کا جواب یہ ہے کہ 16 سال کی عمر سنِ نکاح کے ساتھ سنِ رشد بھی ہےجو سورۃ النساء کی آیت 6 کے عین مطابق ہے۔جب اللہ تعالی ٰ نے اپنے حبیب کے ذکر کا آوازہ بلند کیا ہے وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ اور تمام انبیاء ورسل میں امتیازی شان عطا فرمائی ہے تو یہ بعید از امکان ہے کہ آپ کی سیرت میں ایسا پہلو رکھ دیا جائے جو قرآن کی آیت کے خلاف بھی ہواور جس کی وجہ سے لوگ اسلام سے دوری اختیار کریں اور رسول کی شان میں دن رات گستاخی ہوتی رہے۔
2- دوسرا اعتراض یہ ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے گیارہ شادیاں کیں جبکہ عام مسلمانوں کے لیے چارشادیوں کی حد رکھی گئی ہے۔
اس کا جواب یہ ہےکہ رسول اللہ (ﷺ) کی متعدد شادیوں کا مقصد خواہشِ نفس کی بناپر نہیں تھا۔اس کا ثبوت یہ ہے آپ نےپہلا نکاح حضرت خدیجہؓ سے کیا جو باکرہ نہیں بلکہ ایک بیوہ خاتون تھیں جو آپ سے عمر میں 15سال بڑی تھیں اور 25سال تک آپ نے بغیر دوسرا نکاح کیے ان کے ساتھ ازدواجی زندگی گزاری یہاں تک کہ حضرت خدیجہؓ کا انتقال 65 سال کی عمر میں ہوا۔حضرت خدیجہؓ کے انتقال کے بعد جتنے بھی نکاح آپ نے کیےوہ سماجی اورسیاسی نوعیت کے تھے۔آپ نے جتنے بھی نکاح کیے ان میں صرف حضرت عائشہ کنواری اور کم عمرتھیں ۔چونکہ اسلام میں اختلاطِ مردو زن کی گنجائش نہیں ہے اس لیے خواتین کی تربیت کے لیے آپ کےلیے اللہ تعالیٰ نے یہ رعایت رکھی تاکہ آپ متعددنکاح کرکے خواتین کی تربیت کریں ۔حضرت عائشہؓ سے نکاح کا اہم ترین مقصدیہ تھا کہ وہ لمبی مدت تک مرد و خواتین کی تعلیم و تربیت کریں اس لیے کہ ان کا حافظہ بہت تیز تھا اوروہ بہت ذہین بھی تھیں۔ حضرت زینبؓ سے نکاح اللہ کی طرف سے اس لیے کروایا گیا کہ منہ بولے بیٹے کی حیثیت کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا جائے ۔زمانہ جاہلیت میں منہ بولا بیٹا صلبی بیٹے کی طرح وارث ہوتا تھا۔زید بن حارثہؓ آپ کے منہ بولے بیٹے تھے ۔ جب حضرت زید سے حضرت زینب کا رشتہ زوجیت ختم ہوا تواللہ تعالیٰ کے حکم سے آپؐ کا نکاح حضرت زینبؓ سے ہوا جبکہ آپؐ خود بدنامی کا خوف محسوس کررہے تھے۔ چنانچہ اس نکاح کے بعد مخالفین نے اس طرح سے آپ کو بدنام کیا کہ آپ نے اپنے بیٹے سے اپنی بہوکو طلاق دلواکر اس سے شادی کی ۔یہ اعتراض آج بھی کیا جاتا ہے۔جبکہ اس شادی کی حکمت ہی یہ تھی کہ منہ بولے بیٹے کی رسم کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا جائے۔اسی واقعہ کے ضمن میں آیتِ ختم نبوّت آتی ہے ۔چونکہ آپ خاتم النبیین ہیں اس لیے آپؐ ہی کی نبوت میں یہ رسم ختم ہو سکتی تھی۔
نبی کریم (ﷺ) نے حضرت ابوبکر ؓاور حضرت عمرؓ کی بیٹیوں سے اس لیے نکاح کیا کہ ان دونوں حضرات سے اخوت ووابستگی میں مزید پختگی پیدا ہو۔حضرت عثمانؓ و علیؓ کو اپناداماد بنانے میں بھی یہی حکمت و مصلحت پیشِ نظر تھی ۔
آپؐ نے حضرت جویریہؓ سے نکاح اس لیے کیا کہ اس سے بنی مصطلق سے روابط مضبوط ہوں ۔چنانچہ اس نکاح کے نتیجہ میں سارے قبیلے والوں نے اسلام قبول کیا ۔حضرت جویریہؓ بنی مصطلق کے رئیس حارث بن ابی ضرارکی بیٹی تھیں ۔رسول اللہ (ﷺ) کا ابوسفیان کی بیٹی ام حبیبہؓ سے اس وقت نکاح ہوا جب ابوسفیان ایمان نہیں لائے تھے اور کفرکے علمبردار تھے ۔جب ام حبیبہؓ اسلام قبول کرکے حبشہ کی طرف ہجرت کی تھیں تو وہاں ان کے شوہر فوت ہوگئے اور وہ بے سہارا ہوگئیں تھیں ۔ اس نکاح کے بعد ابوسفیان کے اندر آپ سے دشمنی میں کمی ہوتی چلی گئی یہاں تک کہ فتح مکہ کے موقعہ پر ابوسفیانؓ مشرف بہ اسلام ہوئے۔نبی کریم (ﷺ) نے ام سلمہؓ سے اس وقت نکاح کیا جب ان کے شوہر ابوسلمہؓ غزوۂ احد میں شہید ہوگئے تھے جس سے ام سلمہؓ بہت غمزدہ اور بے سہارا ہوچکی تھیں ۔
رسول اللہ (ﷺ)نے بنوقریظہ کے سردار حیی بن اخطب کی بیٹی حضرت صفیہؓ سے اس وقت نکاح فرمایا جب بنی قریظہ کے مردوں کو بدعہدی کے جرم میں قتل کردیا گیا تھا۔یہ بدعہدی اتنی سنگین تھی کہ جس کے نتیجہ میں غزوہ احزاب کے موقعہ پر تمام اہل مدینہ کا قتل عام ہوتا جب اسلام دشمنوں کا دس ہزار کا لشکر جرار مدینے پر چڑھائی کرچکا تھا۔جب حضرت صفیہؓ کو رسول اللہ (ﷺ) کے پاس لایا گیا تو ان کو یہ اختیار دیا گیا کہ:’’اگر تم اسلام قبول کرلو گی تو میں تمہیں اپنی زوجیت میں رکھ لوں گا اور اگر یہودیت پر قائم رہنا چاہتی ہوتو میں تمہیں آزاد کردوں گاتاکہ تم اپنی قوم کے پاس چلی جاؤ ‘‘۔اس پر حضرت صفیہؓ نے کہا کہ’’ اسلام تو میرے دل میں پہلے ہی جاگزیں ہوچکا تھا میں اپنی قوم پر آپ کو ترجیح دیتی ہوں‘‘ ۔
یہ ہے ان اعتراضات کے جوابات جس سے ہماری نوجوان نسل واقف ہو تاکہ رسول اللہ (ﷺ) سے امت مسلمہ کی محبت ان اعتراضات کی وجہ سے مجروح نہ ہوپائےجو ایمان کے خطرہ کا باعث بن سکتی ہے۔
رسول اللہ (ﷺ)پر ہونے والے اعتراضات پرصفائی پیش کرنا اور آپؐ کے بارے میں پیداکی جانے والی غلط فہمیوں کو دورکرنا آپ سے محبت کا عین تقاضا ہے۔ عشق رسول کا دم بھرنا اورجوش وخروش سے میلاد کے جلسے منانا اور پھر ان اعتراضات پر خاموشی اختیارکرنا بہت بڑا تناقض ہے ۔اسلام پر اٹھنے والے تمام تنقیدوں کا مدلل جواب دینا دعوت ِالی اللہ اور دعوت الی الدین کا حصہ ہے ۔ آج دینِ اسلام کی اشاعت اس لیے آسان ہوگئی ہے کہ اسلاموفوبیا کی وجہ سے اسلام غیر مسلموں میں بحث کا ایک موضوع بن چکا ہے اور لوگ چاہتے ہیں کہ اسلام پر بات ہو۔اسلام کے بارے میں جو جستجوآج پائی جاتی ہے وہ کبھی بھی نہیں پائی گئی ۔اس لیے مدعو سے یہ کہنا کہ اسلام کے بارے میں کچھ اشکالات ہوں تو پوچھ لیں اور ہم کوشش کریں گے کہ ان کے جوابات دے پائیں یہ بھی دعوت کا ایک کامیاب طریقہ ہے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 24 دسمبر تا 30 دسمبر 2023