مرکزی بجٹ میں اقلیتیں بری طرح نظر انداز
مسلمانوں کی خراب تعلیمی و معاشی صورتحال کے باوجود اقلیتی امور کے بجٹ میں 38فیصد کی کمی
ڈاکٹر جاوید عالم خان
اضافی مالی وسائل کے ساتھ اسکالرشپ اسکیموں کو طلب پر مبنی بنایا جائے
MANF، پری میٹرک (اوّل تا ششم جماعت ) اور نئی پرواز اسکیموں کو بحال کرنے کی ضرورت
15 نکاتی پروگرام کے تحت، مختلف شعبوں میں اقلیتی برادریوں کی متنوع ضروریات کے مطابق وسائل کی تقسیم کی جائے
پارلیمنٹ کا موجودہ بجٹ سیشن 31 جنوری سے شروع ہو ا ہے جو کچھ وقفہ کے ساتھ 4اپریل تک چلے گا۔ بجٹ اجلاس کے پہلے دن سروے 2022کو پیش کیا گیا ہے اور یکم فروری کو وزیر خزانہ نے سالانہ مرکزی بجٹ کو پیش کیا ہے ۔ موجودہ حکومت کا یہ آخری مکمل بجٹ ہے کیونکہ اگلے سال قومی سطح پر عام انتخابات ہونے والے ہیں اس لیے 2024کا بجٹ ایک عارضی بجٹ ہوگا۔ موجودہ بجٹ سست معاشی نمو، بڑھتی ہوئی بے روزگاری، مہنگائی میں اضافے، تجارتی خسارے میں اضافہ، آمدنی میں عدم مساوات اور بڑھتے ہوئے مالیاتی خسارے کے تناظر میں پیش کیا گیا ہے۔ وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے 31 جنوری کو اکنامک سروے پارلیمنٹ میں پیش کیا اس کے مطابق مالی سال 2023-24میں حقیقی جی ڈی پی کی شرح نمو 6تا6.8 فیصد رہنے کا تخمینہ لگایا ہے۔ تاہم حقیقی جی ڈی پی کی نمو کے لیے اس کی بنیادی پیشن گوئی 6.5 فیصد ہے جو عالمی سطح پر اقتصادی اور سیاسی پیش رفت کی رفتار پر انحصار کرتا ہے۔ سروے میں جنوری 2023 میں قومی شماریاتی دفتر (این ایس او) کے پہلے پیشگی تخمینوں کے ساتھ اتفاق رائے سے 2022-23میں ہندوستان کی جی ڈی پی میں سات فیصد اضافے کا تخمینہ لگایا گیا ہے ۔ لیکن روپے کی قدر میں کمی کا چیلنج برقرار رہے گا ۔
اس بجٹ میں کل 4503097 لاکھ کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اس سال پچھلے بجٹ سے صرف 7 فیصدکا اضافہ ہوا ہے۔ تاہم بجٹ میں سماجی شعبے کی ترقی پر زیادہ بجٹ میں اضافہ نہیں کیا گیا۔ اس بجٹ میں معمر افراد، بچوں، خواتین، دلت، آدیواسی، معذوری اور اقلیتوں سے متعلق اسکیموں پر کم توجہ دی گئی۔ فزیکل انفراسٹرکچر اور سرمائے کے اخراجات(Capital Expenditure) پر زیادہ توجہ دی گئی۔ موجودہ بجٹ بڑھتی ہوئی بے روزگاری، مہنگائی ، آمدنی میں عدم مساوات اور سماجی شعبے کی ترقی کے مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہا ہے۔
دراصل بجٹ صرف آمدنی اور اخراجات کے ایک اعدادوشمار کی تفصیل نہیں ہے بلکہ ایک طرح سے ملک کا اقتصادی فریم ورک ہے اور تمام شعبوں کے اگلے سال کے لیے ترقیاتی پالیسی کی سمت کو طے کرتا ہے ۔ اس نقطہ نظر سے بجٹ ملک کے مجموعی ترقی، پسماندہ کمیونٹیز اور سماجی شعبے کی ترقی کے لیے کافی اہم ہے ۔ فی الحال دنیا کے سب سے زیادہ غریب ہندوستان میں رہتے ہیں۔ اس لیے بجٹ میں حکومت کو تعلیم، صحت اور روزگار کے سیکٹرس اور اسکیموں کو زیادہ دھیان دینا چاہیے تھا سوشل سیکیورٹی صحت اور تعلیم پر سرکاری خرچ دوسرے غریب ملکوں کے مقابلے میں ہندوستان میں جی ڈی پی کی شرح بہت کم ہے۔ دراصل تعلیم میں جی ڈی پی کا 6 فیصد اور صحت پر 3 فیصد خرچ ہونا چاہیے تھا جبکہ موجودہ خرچ تعلیم 4 فیصد اور صحت فیصد 1.5 کے آس پاس ہی ہے۔ روزگار کی اسکیم منریگا) اس بجٹ میں صرف ساٹھ ہزار کروڑ( پر ضرورت کے حساب سے بجٹ مختص نہیں ہوا ہے اور شہری علاقوں میں منریگا کے طرز پراس بجٹ میں ایک نئ اسکیم چلانے کی ضرورت تھی تاکہ شہری علاقوں کی ےروزگاری کا خاتمہ کیا جائے ۔عام طور پر یہ دیکھا جاتا ہے کہ بجٹ مختص ہونے کے باوجود بھی کمزور نفاذ کی وجہ سے لوگ اسکیموں کا فائدہ نہیں اٹھا پاتے۔
موجودہ بجٹ کے تجزیہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ حکومت نے اقلیتوں کے ساتھ بجٹ کو مختص کرنے میں بالکل ہی سوتیلا برتاؤ کیا ہے، اور جس طرح انہیں خاطر خواہ اہمیت دینے کی ضرورت تھی حکومت نے نہیں دی۔ بجٹ سے یہ توقع تھی کہ حکومت وزارت برائے اقلیتی امور کے بجٹ میں اضافہ کرکے کم سے کم 10 ہزار کروڑ مختص کرے گی نیز 15نکاتی پروگرام کی عمل درآمدگی کو مزید چست اور درست کرے گی۔ ساتھ ہی 15نکاتی پروگرام کے تحت ہونے والے بجٹ اور مستفیدین کے اعداد و شمار کو محکمہ برائے اقلیتی بہبود کی ویب سائٹ پر مہیا کرائے گی ، اور 15نکاتی پروگرام کے فنڈ کو بجٹ ہیڈ کے ذریعے صوبائی اورضلعی حکومتوں تک بھیجا جائے گا جیسا کہ دلت اور آدیسیواسی بجٹ میں کیا جا رہا ہے۔
وزیراعظم 15نکاتی پروگرام کا آغاز سال 2008میں کیا گیا تھا جس کا مقصد یہ تھا کہ جہاں بھی ممکن ہو سرکاری محکموں اور وزارتوں میں اقلیتوں کی ترقی کیلیے 15فیصد فنڈ کو مختص کیا جائے گا۔ اس پروگرام کا ہدف اقلیتوں کی تعلیمی فروغ، معاشی سرگرمیوں اور روزگار کے مواقع میں مساوی حصہ داری اور ان کی زندگی بہتر بنانے کے لیے کام کرنا تھا۔ مزید اس کے ذریعے مسلم اکثریتی علاقوں میں اردو میڈیم اسکول کھولنے ،تعلیم، روزگار اور کریڈٹ کی سہولتوں کا 15فیصد حصہ مختص کرنا تھا۔ اسی کے ساتھ انٹیگریٹڈ چائلڈ ڈیولپمنٹ سروسز، سروشکشا ابھیان ، صنعتی تربیتی ادارے، کستوربا گاندھی بالکا ودیالیہ اور مدرسہ ماڈرنائزیشن پروگرام میں شمولیت پر زور دیا گیا ہے۔15نکاتی پروگرام کے تجریہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس کے تحت چلائی جانے والی زیادہ تر اسکیموں کا نفاذ نہایت ہی خستہ حالی کا شکار ہے۔ اس لیے اقلیتیں، وزارت اقلیتی امورکے ذریعے مختص کیے گئے فنڈ کے ذریعے ہی استفادہ کر سکتی ہیں۔
مسلمانوں کی خراب تعلیمی اور اقتصادی ترقی کے باوجود مرکزی بجٹ میں اقلیتی امور کی وزارت میں گزشتہ سال کے بجٹ (1913 کروڑ روپے) کے مقابلہ میں 38/فیصد تخفیف کر دی ہے۔ اقلیتوں کے لیے بہت سی اسکیموں جیسے میرٹ کم مینس ، پری میٹرک اسکیم اور پردھان منتری جن وکاس کاریہ کرم کے بجٹ میں کمی کی گئی ہے۔ تاہم مجموعی مرکزی بجٹ کے تناسب میں اقلیتی امور کی وزارت کا مجموعی بجٹ 2022-23 میں صفر اعشاریہ ١٢ فیصد سے گھٹ کر 2023-24میں 0.8 فیصد ہو گیا ہے۔ اس سال وزارت کے لیے کل مختص رقم 2012-13 میں مختص کی گئی رقم کے برابر ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مرکزی بجٹ کا تخمینہ وزارت کے ذریعہ کیے گئے فنڈز کے مطالبات کے مطابق فراہم نہیں کیا ہے۔ 2022-23کے لیے 8152کروڑ روپے کے مقابلہ وزارت نے 2050.5کروڑ روپیہ الاٹ کیے تھے ۔
سال 2022-23 میں موما کو 5011کروڑ روپے مختص کیے وہیں پر سال 2021-22 میں 4810کروڑ روپے الاٹ کیے گئے۔ جبکہ سال 2020-21 میں یہ بجٹ 5029کروڑ روپے تھا۔ جب ہم سال 2020-21 اور 2021-22 کے نظر ثانی شدہ بجٹ کو دیکھتے ہیں تو اس میں کافی کٹوتی پاتے ہیں۔ یہ رقم بالترتیب 4800,4346کروڑ رہی۔ سال 2019-20 میں موما نے 5795.26کروڑ روپئے کا مطالبہ کیا تھا لیکن اسکو محض 4700کروڑ ہی الاٹ کیا گیا۔ مختص کیے گیے فنڈز میں سے بھی موما سال 2018-19 اور 2019-20 میں مکمل فنڈ کو خرچ نہیں کر سکی۔ پردھان منتری جن وکاس کاریہ کرم(PMJVK) کے بڑے جغرافیائی کوریج کو دیکھتے ہوئے اس سال کے بجٹ میں گزشتہ سال کے بجٹ سے الاٹمنٹ میں کمی اس کے نفاذ پر اثر انداز ہونے والی ہے اور اسکیم کے مطلوبہ مقصد کو حاصل نہیں کیا جا سکتا ۔
اسی طرح سے مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے حوالے سے بھی مسلمانوں کی تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مختص شدہ رقم موجودہ مالی سال کچھ بھی نہیں ہے بجٹ میں مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے لیے مختص بجٹ کو کم کر کے صفرء10کروڑ روپے کر دیا گیا ہے ۔ اس سے اقلیتی اداروں کو تعمیراتی گرانٹ اور اقلیتی طبقہ کی ہونہار لڑکیوں کے لیے بیگم حضرت محل اسکالرشپ اسکیم جیسے منصوبوں کے نفاذ پر اثر پڑے گا ۔ باوجود اس کے کہ اقلیتی طبقہ تعلیمی اور معاشی محرومیوں کا شکار رہا ہے۔ تعلیم اور ہنر مندی کی ترقی سے متعلق اہم اسکیموں میں فنڈز کا کم استعمال ہو رہا ہے حالانکہ یہ اسکیمیں اقلیتوں کی ترقی کے لیے بہت ضروری ہیں ۔ موما نےبجٹ کے لحاظ سے زیادہ جس چیز کو ترجیح نہیں دی ہے وہ ہے تعلیم کا فروغ جسمیں اسکالرشپ اسکیمیں شامل ہیں۔ اور پردھان منتری جن وکاس کاریہ کرم جیسے ترقیاتی پروگراموں بالکل کوترجیح نہیں دی ہے اسی طرح دیگر ترجیحات کے کام ہیں ہنرمندی اور دیگر ترقیاتی اداروں کے لیے خصوصی ضروریات جس پر توجہ دی جانی چاہیے ۔
اس سال سے اقلیتی طلباء وطالبات درجہ 8-1کے لیے پری میٹرک اسکالرشپ کے اہل نہیں ہیں ۔ حکومت نےاس اسکیم کو درجہ 9اور 10تک محدود کر دیا گیا ہے، جو فوری طور پر لاگو ہو گی۔ ماہرین تعلیم، پارلیمنٹ کے ارکان ،سماجی تنظیموں، طلباء اور والدین نے یکساں طور پر حکومت کے اس فیصلے کی تنقید کی ہے ۔ کیونکہ اس فیصلے نے لاکھوں طلباء وطالبات کو ناقابل یقین صورتحال سے دوچار کردیا ہے، جن میں بہت سے اپنے تعلیمی مستقبل کے بارے میں فکرمند ہیں۔ مزید یہ کہ مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ اور نئی اڑان جیسی اسکیموں کو بھی حال ہی میں وزارت برائے اقلیتی امور نے روک دیا ہے۔ 2007-8 سے چلائے جارہے اقلیتوں کی اسکالرشپ اسکیموں میں پری میٹرک، پوسٹ میٹرک، انڈر گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ میں تکنیکی اور پیشہ وارانہ کورسز کے طلباء وطالبات کے لیے میرٹ کم مینس اسکالرشپ، مسابقاتی امتحانات کے لیے مفت کوچنگ اور اس سے منسلک اسکیم مولانا آزاد نیشنل فلوشیپ ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنے والے اقلیتی طلباء کے لیے وغیرہ شامل ہیں۔ لیکن حکومت نے پوسٹ میٹرک، میرٹ کم مینس اور فری کوچنگ جیسے اسکیموں کو ابھی بھی جاری رکھا ہے۔ پوسٹ میٹرک کے لیے بجٹ میں اضافہ کیا گیا ہے۔ لیکن پری میٹرک اسکالرشپ کے لیے مختص بجٹ کو کم کر کے گزشتہ مالی سال 2022-23کے 1425کروڑ کے مقابلہ اس سال 2022-24میں 433کروڑ کیا گیا ہے مدارس اور اقلیتوں کے لیے اسکیم نے گزشتہ سال کے 160کروڑ روپے سے 10کروڑ روپے کم کر دیا ہے اس سے اساتذہ کو اعزازیہ کی عدم ادائیگی اور مدارس میں بچوں کی تعلیم متاثر ہو سکتی ہے ۔ خیال رہے یہ اسکیم مدارس میں جدید مظامین متعارف کرانے ،اساتذہ کی تربیت اور اقلیتی اداروں میں اسکول کے بنیادی ڈھانچے کو بڑھانے کے لیے مالی امداد فراہم کرتی ہے۔
نیچے دیے گئے گراف ۔2سے پتہ چلتا ہے کہ مالی سال کی آخری سہ ماہی میں بہت زیادہ غیر خرچ شدہ بیلنس رہا ہے۔ استعمال کا فیصد بالترتیب پری میٹرک، پوسٹ میٹرک اور میرٹ کم مینس میں 38، 19 اور 44 ہے۔
MoMA کی تین اسکالرشپ اسکیمیں نیشنل اسکالرشپ پورٹل (NSP) ہیں لیکن ان اسکیموں کے نفاذ کا ڈھانچہ ایسا ہے کہ وظائف کی تقسیم صرف مالی سال کی آخری سہ ماہی میں شروع ہوتی ہے اور اگلے مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے اختتام تک جاری رہتی ہے۔
نیچے دیے گئے گراف سے پتا چلتا ہے کہ اقلیتی امور کی وزارت نے اسکالرشپ میں مختص بجٹ کو سال کے آخر میں استعمال کیا ہے بلکہ زیادہ تر اسکالرشپ اگلے مالی سال میں دیے گئے ہیں ۔پری میٹرک پوسٹ میٹرک اور میرٹ کم مینس میں صرف 38,19اور 44فیصد بجٹ مالی سال 2021-22میں خرچ ہو پایا تھا ۔پیسوں کے خرچ نہ ہونے کی اہم وجہ این ایس پی کے ذریعہ درخواستوں کے رجسٹریشن کو تاخیر سے کھولنے اور درخواستوں کی تصدیق میں تاخیر بھی شامل ہے ۔کئ سارے صوبوں میں اقلیتی بہبود کا شعبہ نہیں ہے اور اگر ہے بھی تو اسٹاف کی کافی کمی ہے ۔
سال 2021-22 کے لیے اسکالرشپ کے لیے کل 1.08 کروڑ درخواستیں موصول ہوئیں اور 65.6 لاکھ اسکالرشپس دی گئیں۔ پوسٹ میٹرک اسکیم کے تحت صرف 37 فیصد درخواست دہندگان نے اسکالرشپ حاصل کی ہے۔ ایک تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ درخواستوں کی تعداد اور اسکالرشپ کے ایوارڈ کے درمیان بہت بڑا فرق ہے، اس طرح 40 لاکھ سے زائد طلباء محروم ہیں۔
یہ سفارش کی جاتی ہے کہ طلباء کو ادائیگی کی رقم کو بڑھانے کے لیے اضافی مالی وسائل کے ساتھ اسکالرشپ اسکیموں کو طلب پر مبنی بنایا جانا چاہیے۔ MANF، پری میٹرک (کلاسز 1-8) اور نئی پرواز اسکیموں کو بحال کیا جانا چاہیے۔ 15 نکاتی پروگرام کے تحت، وسائل کی تقسیم مختلف شعبوں میں اقلیتی برادریوں کی متنوع ضروریات کے مطابق کی جانی چاہیے۔ اقلیتوں کے تعلیمی حصول میں محرومی کی سطح کو دیکھتے ہوئے MoMA کے لیے کل مختص بجٹ میں نمایاں اضافہ کیا جانا چاہیے۔
(مضمون نگار اقتصادی امور کے تجزیہ نگار ہیں)
[email protected]
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 12 فروری تا 18 فروری 2023