![](https://dawatnews.net/wp-content/uploads/2025/02/20250209-4.jpg)
مرکزی بجٹ اقلیتوں اور سماجی شعبہ کے لیے مایوس کن
اقلیتی وزارت نے پچھلے سال 5فیصد بجٹ بھی خرچ نہیں کیا۔ دلتوں کے لیے مختص بجٹ: حکومت کے وعدوں میں تسلسل کی کمی
ڈاکٹر جاوید عالم خان
بچوں کے لیے مختص بجٹ میں کٹوتی، غذائیت اور صحت کے لیے مزید فنڈز کی ضرورت
مرکزی حکومت کے ذریعے مالی سال 26-2025 کے لیے یکم فروری کو سالانہ بجٹ پیش کیا گیا ہے۔ وزیر خزانہ نے اپنی بجٹ تقریر میں اپنے پرانے وعدوں کو دہراتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت بجٹ کے ذریعے اقتصادی نمو میں اضافہ، ترقی کے میدان میں تمام لوگوں کے لیے شمولیت، پرائیویٹ سیکٹر کی سرمایہ کاری میں اضافہ، گھریلو جذبات کو بڑھانا اور ملک کے متوسط طبقے کی قوت خرید میں اضافہ کرے گی۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ پچھلے دس سالوں میں ہندوستان کی معیشت عالمی سطح پر بہت تیزی سے بڑھی ہے اور آنے والے پانچ سالوں میں ہندوستان کو ترقی یافتہ ملک بنانے کے لیے تمام طرح کے اقتصادی مواقع تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے ترقی یافتہ بھارت بنانے کے لیے چھ اہم ترقیاتی مواقع کا ذکر کیا ہے جن میں غریبی کا مکمل طور پر خاتمہ، سو فیصد اچھے معیار کی تعلیم کی فراہمی، مکمل طور پر اعلیٰ صحت کی خدمات کی دستیابی، تمام لوگوں کی صلاحیت سازی اور روزگار کے مواقع کی فراہمی، ستر فیصد عورتوں کو معاشی کام سے جوڑنا اور کسانوں کو عالمی سطح پر خوراک کی فراہمی کے لیے تیار کرنا شامل ہے۔ انہوں نے مزید یہ بھی کہا کہ اس کے ذریعے غریبوں، نوجوانوں، کسانوں اور عورتوں کی زندگی کو خوشحال بنایا جائے گا۔ مرکزی وزیر خزانہ نے اپنی تقریر میں زرعی شعبے کی پیداواریت میں اضافہ، دیہی علاقوں میں خوشحالی، اقتصادی نمو میں سب کی شمولیت، چھوٹی اور بڑی صنعتوں کو مضبوط کرنا، روزگار کے ساتھ ترقی، عوام کے لیے سرمایہ کاری، توانائی کا تحفظ، برآمدات کو بڑھانا اور تمام شعبوں میں جدت کو فروغ دینا شامل ہے۔ اگلے مالی سال کے لیے بجٹ تخمینہ 5065343کروڑ روپے رکھے گئے ہیں جبکہ پچھلے مالی سال کے لیے بجٹ تخمینہ 4820512کروڑ روپے رکھا گیا تھا۔ اس سال مرکزی حکومت نے مالیاتی گھاٹے کو جی ڈی پی کی شرح میں پچھلے سال کے 4.8سے گھٹا کر 4.4کر دیا ہے۔ جی ڈی پی کی شرح میں کل بجٹ اخراجات 2025-26کے بجٹ میں 14.2فیصد ہیں جبکہ 2024-25ککے بجٹ میں یہ 14.6فیصد تھا۔ اسی طرح مجموعی بجٹ میں سرمایہ جاتی اخراجات 28فیصد سے بڑھ کر اس سال کے بجٹ میں 30فیصد سے زیادہ ہو گئے ہیں۔
پچھلے کئی سالوں سے ملک میں بے روزگاری، مہنگائی اور معاشی غیر برابری میں اضافہ ہو رہا ہے اور حکومت کے سامنے یہ چیلنج تھا کہ عوام کے ذریعے خدمات اور اشیاء کی طلب میں کمی کو کیسے روکا جائے کیونکہ اس کی وجہ سے اس سال پچھلے چار سالوں میں سب سے زیادہ معاشی نمو میں گراوٹ دیکھنے کو ملی ہے۔ 2025-26کے لیے معاشی نمو کی شرح 6.4فیصد ہو سکتی ہے۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے حکومت کے سامنے دو راستے تھے۔ پہلا راستہ یہ تھا کہ سرکاری اخراجات میں اضافہ کیا جائے جس کے ذریعے عوام کے ہاتھ میں خرچ کرنے کے لیے رقم ہو تاکہ وہ خدمات اور اشیاء پر یہ پیسے صرف کریں، دوسرا راستہ یہ تھا کہ ٹیکس پالیسی میں اصلاح کی جائے۔ حالیہ بجٹ میں مرکزی حکومت نے بارہ لاکھ تک کمانے والوں کے انکم ٹیکس کو صفر کر دیا ہے، لیکن یہ بہت ہی چھوٹا طبقہ ہے جو حکومت کے اس اقدام سے فائدہ اٹھائے گا اور اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ یہ طبقہ ٹیکس میں چھوٹ کی وجہ سے جو بچت ہوگی اسے اشیاء اور خدمات کی طلب پر خرچ کرے گا۔ ٹیکس پالیسی میں اگر اصلاح کی بات کی جائے تو حکومت کو جی ایس ٹی کے ریٹ میں تخفیف کرنی چاہیے تھی جس سے خدمات اور اشیاء کی قیمتوں میں کمی آتی اور صارفین کی قوت خرید میں اضافہ ہوتا جس سے معاشی نمو میں بھی اضافے کا امکان تھا۔ ماہرین کی رائے ہے کہ انکم ٹیکس کی شرح میں چھوٹ کی وجہ سے معاشی نمو کو بحال کرنے میں زیادہ مدد کا امکان نہیں ہے۔
تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت کے مجموعی اخراجات میں اس سال کمی آئی ہے جس کی وجہ سے بجٹ میں سماجی شعبے کے اخراجات میں بھی تخفیف دیکھنے کو ملی ہے۔ حکومت نے زرعی شعبے کو معاشی نمو کے انجن کے طور پر شناخت کیا ہے، لیکن زراعت اور کسانوں کے معاملات کے شعبے کا بجٹ 2024-25کمیں 1.22لاکھ کروڑ روپے تھا، جو کہ اس بجٹ میں ۱.۲۷ لاکھ کروڑ روپئے رکھا گیا ہے۔ موجودہ مالی سال کے نظرثانی شدہ بجٹ میں مزید کٹوتی کر دی گئی ہے۔ خوراک کے سبسڈی سے متعلق مختص بجٹ دو لاکھ کروڑ روپے رکھے گئے ہیں جو کہ پچھلے سال کے مقابلے میں بڑھایا نہیں گیا ہے۔ وہیں تیل اور دالوں کو خوراک کی سبسیڈی میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے عام آدمی کے لیے دال اور تیل کا استعمال نہایت ہی مشکل ہے۔ منریگا کے بجٹ میں بھی پچھلے سال کے مقابلے میں اس سال کوئی اضافہ نہیں کیا گیا ہے۔ وزیراعظم کے روزگار پیکیج کا اعلان پچھلے بجٹ میں کیا گیا تھا لیکن اس کا نفاذ ابھی تک پوری طرح سے شروع نہیں ہوا ہے۔ اسی طرح وزیراعظم انٹرنشپ اسکیم کے تحت 2024-25کمیں 2ہزار کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے، لیکن نظرثانی شدہ بجٹ میں اسے گھٹا کر 380کروڑ روپے کر دیا گیا ہے۔ حالانکہ اس بجٹ میں اس اسکیم کے تحت 10780کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں جس کا استعمال اٹھارہ لاکھ لوگوں کے لیے کیا جائے گا۔ اس اسکیم کے تحت موجودہ وقت میں صرف 125000لاکھ لوگوں نے اپنا رجسٹریشن کیا ہے۔ اگر حکومت ہدف کو حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہو جاتی ہے تب بھی انٹرنشپ کرنے والوں کو ماہانہ 5000روپے ہی دیے جائیں گے، جو کہ مستقل روزگار کا متبادل نہیں بن سکتا۔ مرکزی وزیر برائے خزانہ نے بجٹ تقریر میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ عوام میں بجٹ سرمایہ کاری کرے گی، لیکن سکشم آنگن واڑی اور پوشن اسکیم کے لیے 21960کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ پچھلے کئی سالوں میں اس اسکیم کے تحت بجٹ میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا ہے، جبکہ بڑھتی مہنگائی کو دیکھتے ہوئے اس اسکیم میں بجٹ اضافے کی سخت ضرورت تھی۔
صحت کے شعبے کے بجٹ تجزیے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ مرکزی حکومت اس شعبے کو پوری طرح سے نظر انداز کر رہی ہے۔ صحت اور آیوش سے متعلق وزارت کو ملا کر مجموعی بجٹ میں معمولی اضافہ کیا گیا ہے۔ 2024-25کے تخمینہ بجٹ میں 94671کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے، جبکہ اس سال 103851کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ پچھلے سال کے مقابلے میں اس سال 9180کروڑ روپئے کا اضافہ کیا گیا ہے لیکن اگر افراط زر کو شامل کیا جائے تو حقیقی اضافہ تین فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔ مجموعی صحت کا بجٹ جی ڈی پی کی شرح میں ۰.۳۷ فیصد سے گھٹ کر 0.29فیصد ہو گیا ہے۔ اسی طرح مجموعی بجٹ میں بھی صحت کے شعبے کا بجٹ 2.206فیصد سے گھٹ کر 2.05فیصد ہو گیا ہے۔ مرکزی حکومت نے ہیلتھ سسٹم کو بہتر کرنے کے لیے جو ہیلتھ اسکیمیں چلا رہی ہیں ان میں نیشنل ہیلتھ مشن غذائیت کے لیے پردھان منتری سواستھ سرکشا یوجنا اور صحت سے متعلق اسکیمیں شامل ہیں، لیکن ان اسکیموں کے بجٹ میں کٹوتی کی گئی ہے۔ وہیں پردھان منتری جن آروگیہ یوجنا اور ڈیجیٹل ہیلتھ مشن کے بجٹ میں اضافہ کیا گیا ہے۔ ماہرین کی رائے یہ ہے کہ اگر حکومت نیشنل ہیلتھ مشن کے ذریعے بنیادی صحت کے خدمات کو بہتر نہیں کرے گی تو انشورنس اسکیموں کے ذریعے صحت سے متعلق عوامی خدمات کو بہتر نہیں کیا جا سکتا۔ صحت سے متعلق بنیادی ضروریات، جیسے بچوں کی ٹیکہ کاری اور محفوظ طریقے سے بچوں کی پیدائش کے سہولتوں کو بہتر کرنا نہایت ضروری ہے۔ مزید گاؤں کے سطح پر کام کرنے والی آشا ورکر کے معاوضے میں بھی اضافے کی سخت ضرورت ہے۔ جہاں تک تعلیم کے بجٹ کا معاملہ ہے، تو مجموعی طور پر تعلیم کی وزارت کے بجٹ میں 8000کروڑ روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ 25-2024 میں تعلیم کی وزارت کا بجٹ 120628کروڑ روپے تھا جو کہ 26-2025میں بڑھ کر 128650کروڑ روپے ہو گیا ہے۔ اسکولی تعلیم اور اعلیٰ تعلیم کے لیے بالترتیب 78572کروڑ روپے اور 49978کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ اس سے طلبہ کو اچھے معیار کی تعلیم ملے گی، لیکن یہ اسکیمیں نہ صرف حکومت کے خرچ پر منحصر ہیں بلکہ تعلیمی معیار میں بہتری کے لیے مضبوط معیار کی تعلیم کی بھی ضرورت ہے جس کا کوئی بھی ٹھوس منصوبہ حکومت کے بجٹ میں دکھائی نہیں دیتا۔
مرکزی بجٹ ہمیشہ کی طرح اس سال بھی اقلیتوں کے لیے مایوس کن رہا ہے۔ 25-2024 کے کل مختص بجٹ کا صرف 5 فیصد استعمال ہوا ہے۔
انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اینڈ ایڈووکیسی کے ذریعے کیے گئے تجزیے سے پتا چلتا ہے کہ اس سال کا بجٹ عوام اور خاص طور سے اقلیتوں کے لیے نہایت مایوس کن رہا ہے۔ مرکزی وزیر برائے خزانہ نرملا سیتا رمن نے ملک کے سامنے درپیش اہم مسائل جیسے روزگار، مہنگائی اور معاشی غیر برابری کو دور کرنے کے لیے زیادہ توجہ نہیں دی۔ اسی طرح سوشل سیکٹر کے اخراجات میں بھی کوئی خاص اضافہ نہیں کیا گیا۔ نچلی سطح پر انکم ٹیکس ادا کرنے والوں کو ضرور تھوڑی سی راحت دی گئی ہے۔ جہاں تک مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور کے بجٹ کا سوال ہے تو اس میں معمولی اضافہ ضرور ہوا ہے۔ 25-2024 میں وزارت کے لیے 3183 کروڑ روپے کا بجٹ مختص کیا گیا تھا، جبکہ موجودہ بجٹ میں یہ رقم بڑھا کر 3350 کروڑ روپے کر دی گئی ہے۔ یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ اقلیتوں کے لیے مختص بجٹ پچھلے تین مالی سالوں میں نہیں بڑھایا گیا ہے لیکن جو بجٹ مختص کیا گیا اسے مرکزی حکومت خرچ نہیں کر رہی ہے۔ مالی سال 2023-24میں وزارت برائے اقلیتی امور نے 3098 کروڑ روپے مختص کیے تھے مگر حکومت صرف 154 کروڑ روپے ہی خرچ کر پائی ہے۔ اسی طرح مالی سال 2024-25کمیں 3183 کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے لیکن اس کو حکومت نے تخمینہ شدہ بجٹ میں گھٹا کر 1868 کروڑ روپے کر دیا ہے۔ بجٹ اخراجات میں کمی کی سب سے اہم وجہ کئی بڑی اسکیموں میں بجٹ کا خرچ نہ ہونا ہے۔ ان اسکیموں میں پری میٹرک اسکالرشپ، پوسٹ میٹرک اسکالرشپ، پردھان منتری جن وکاس کاریہ کرم اور پردھان منتری وکاس جیسی اسکیمیں شامل ہیں۔ پچھلے تین سالوں میں اسکالرشپ کا پیسہ نہیں خرچ کیا جا رہا، جو کہ وزارت کے کل بجٹ کا لگ بھگ 60 فیصد ہے۔ ان اسکیموں میں پیسہ نہ خرچ کرنے کی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ حکومت نے 22-2021 کے بعد کیبنٹ کے ذریعے منظوری نہیں دی، جبکہ وزارت برائے اقلیتی امور پچھلے تین سالوں میں پری میٹرک اسکالرشپ، پوسٹ میٹرک اسکالرشپ، میرٹ کم مینس اسکیموں کے تحت بجٹ مختص کرتی رہی ہے۔2023-24 میں پردھان منتری جن وکاس کاریہ کرم میں 600 کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے لیکن حقیقی خرچ 189کروڑ روپے ہی ہوا تھا۔ وہیں پردھان منتری وکاس سموردھن اسکیم کے تحت 540 کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے، لیکن حقیقی خرچ 209 کروڑ روپے ہی ہو پایا تھا۔ اس سال کے بجٹ میں چونکہ اسکالرشپ اسکیموں کی منظوری نہ ہونے کی وجہ سے ان کے مختص بجٹ میں کمی کر دی گئی ہے اور پردھان منتری جن وکاس کاریہ کرم، پی ایم وکاس سموردھن اور نیشنل مائنارٹیز ڈیولپمنٹ فائنانس کارپوریشن کے بجٹ میں کچھ اضافہ کیا گیا ہے۔ ان اسکیموں میں بالترتیب 1913 کروڑ روپے، 517 کروڑ روپے اور 780 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔
اس سال کے مرکزی بجٹ میں آدی واسیوں اور دلتوں کے لیے ترقیاتی ترجیحات پچھلے سالوں کی طرح زیادہ تبدیلی نہیں دیکھنے کو ملی ہے۔ ملک میں اس وقت آدی واسیوں اور دلتوں کی آبادی بالترتیب کل آبادی میں 8 فیصد اور 16 فیصد سے زیادہ ہے، لیکن آدی واسیوں اور دلتوں کا ایک بڑا طبقہ ملک میں نافذ کی جانے والی ترقیاتی پروگراموں کا فائدہ پوری طرح سے نہیں اٹھا پا رہا ہے۔ ترقی کے مختلف میدانوں میں جیسے تعلیم، صحت، غذائیت اور روزگار کے معاملے میں دلت اور آدی واسی صدیوں سے پچھڑے پن کا شکار ہیں۔ اس کے پیچھے کئی وجوہات ہیں جیسے جغرافیائی سطح پر ان کی علیحدگی، تعصب اور حکومتی سطح پر بھید بھاؤ ہے، لیکن ان وجوہات کے علاوہ کچھ اہم وجوہات جیسے حکومت کے سطح پر بنائی گئی ترقیاتی پالیسی ان کی ضروریات کے مطابق غیر مناسب ہیں۔ مختص کیا جانے والا بجٹ ناکافی ہے، پروگرام اور اسکیم کا نفاذ کافی کمزور ہے، اس کے علاوہ ترقیاتی پروگراموں کے نفاذ کی نگرانی کی صورتحال کافی خستہ ہے۔ لہٰذا آئندہ مرکزی بجٹ سے یہ امید کی جاتی ہے کہ اوپر ذکر کیے گئے مسائل کو حل کرنے پر توجہ دی جائے۔
مالی سال 26-2025 میں 1292 کروڑ روپے آدی واسیوں کے سب پلان کے لیے مختص کیے گئے ہیں جو کہ کل اسکیم بجٹ کا 8 فیصد ہے۔ ٹرائبل سب پلان/ڈیولپمنٹ ایکشن پلان کے تحت جو وزارتیں اور شعبے آدی واسیوں کے لیے سب سے زیادہ بجٹ مختص کر رہے ہیں ان میں کوئلہ (42 فیصد) اعلیٰ تعلیم (32 فیصد) شمال مشرقی علاقہ (29 فیصد) دیہی ترقی (13 فیصد) اور اسکولی تعلیم (12 فیصد) ہیں۔ جبکہ وزارت معدنیات، پیٹرولیم، کوآپریشن، کامرس اور کنزیومر افیئرز کا بجٹ ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ مرکزی وزارت برائے قبائلی امور کا بجٹ مجموعی ڈیولپمنٹ ایکشن پلان بجٹ کا 10 فیصد ہے۔ یہاں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ وزارت کا بجٹ آدی واسیوں کے لیے مکمل طور پر خرچ کیا جا رہا ہوگا۔ پردھان منتری آدی گرام آدرش یوجنا کے تحت 26-2025 میں 2000 کروڑ کا بجٹ مختص کیا گیا، اس اسکیم کا مقصد قبائلی اکثریتی گاؤں کو ماڈل ولیج بنانا ہے، جس میں صحت، تعلیم، روزگار اور سڑک کی سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔ اس اسکیم کے تحت 36428 گاوؤں کو شامل کیا گیا ہے۔ اکلویہ ماڈل رہائشی اسکول کے لیے 7088 کروڑ مختص کیے گئے ہیں اور 740 اسکول کو مکمل طور سے قبائلی علاقوں میں شروع کرنے کا ارادہ ہے۔ ان سارے پروگرام کا نفاذ اگر بہتر طریقے سے کیا جائے تو قبائلی علاقوں میں ترقی کی صورتحال کو مضبوط کیا جا سکتا ہے، لیکن اسکیموں کا کمزور نفاذ اور غیر مؤثر منصوبہ بندی کی وجہ سے آدی واسی اس کا فائدہ نہیں اٹھا پا رہے ہیں۔
دلتوں کے ترقیاتی پچھڑے پن کو دیکھتے ہوئے مرکزی حکومت نے 1979 میں دلتوں کی ہمہ جہتی ترقی کے لیے خصوصی بجٹ مختص کرنے کا فیصلہ لیا تھا اور اس حکمت عملی کو اسپیشل کمپوننٹ فار شیڈول کاسٹ (ایس سی پی) کے نام سے جانا جاتا تھا۔ موجودہ بجٹ میں اس پلان کے تحت 168478 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں جبکہ پچھلے بجٹ میں یہ رقم 165598 کروڑ روپے تھی۔ ایس سی پی کے تحت پلان بجٹ میں دلتوں کے لیے ان کی آبادی کے تناسب کے حساب سے مختلف اسکیموں میں بجٹ مختص کرنے کا فیصلہ لیا گیا۔ مطلب یہ کہ اگر قومی سطح پر دلتوں کی آبادی کل آبادی میں 16 فیصد ہے تو وزارتوں اور شعبوں کو اپنے اسکیموں اور پروگراموں میں ان کے لیے 16 فیصد بجٹ اور اس سے متعلق فوائد مختص کیے جائیں گے۔ ایس سی پی کی حکمت عملی کے تحت مرکزی حکومت نے مختلف وزارتوں اور شعبوں سے درخواست کی تھی کہ وہ دلتوں کی ضروریات کے حساب سے اسکیم اور پروگرام بنائیں۔ اس کے علاوہ جن وزارتوں میں آبادی کے تناسب کے حساب سے بجٹ مختص کیے جا رہے ہیں، ان میں دلتوں کے لیے مخصوص پروجیکٹ بنائے جائیں جو ان کی ضروریات کو پورا کر سکیں۔ ایس سی پی کے تحت دلتوں کے لیے مختص ترقیاتی فنڈ کو ایک مخصوص بجٹ کوڈ کے تحت رکھا جائے گا، جو کہ تفصیلی بجٹ دستاویز میں مائنر ہیڈ (Minor Head 789) کے تحت درج ہوگا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ دلتوں کے لیے مختص بجٹ کو کسی اور مقصد اور طبقے کے ضروریات کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا۔ اسکیموں کے تحت مختص بجٹ میں عدم یکسانیت، فائدہ اٹھانے والوں کے اعداد و شمار کا فقدان، فنڈز کا کم استعمال اور فنڈ کو دوسرے مقاصد کی طرف موڑنا اس کے نفاذ میں موجودہ بڑے مسائل ہیں۔ ڈیولپمنٹ ایکشن پلان کی حکمت عملی کو قومی سطح پر اور باقی ریاستوں میں آندھرا پردیش، تلنگانہ اور کرناٹک کی حکومتوں کے ماڈل پر نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔
مالی سال 26-2025 میں مرکزی حکومت کے چائلڈ بجٹ اسٹیٹمنٹ کے تجزیے سے پتا چلتا ہے کہ بچوں کی اسکیموں کے تحت 116132 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ 25-2024 کے مقابلے میں موجودہ سال کے مختص بجٹ میں ایک معمولی اضافہ ہے۔ 26-2025 میں مرکزی حکومت کے کل بجٹ میں بچوں کے لیے مختص بجٹ 2.3 فیصد ہے، جبکہ پچھلے بجٹ میں بھی یہ 2.3 فیصد ہی تھا، یہ بچوں کے بجٹ میں کمی کو ظاہر کرتا ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ 2016 میں بنائے گئے نیشنل ایکشن فار چلڈرن نے اس بات کی سفارش کی تھی کہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے مجموعی بجٹ میں بچوں کے لیے بجٹ کا حصہ 5 فیصد سے کم نہیں ہونا چاہیے۔
بچوں کے لیے تعلیم پر مختص بجٹ کے تجزیے سے یہ پتا چلتا ہے کہ حکومت کی زیادہ بجٹ ترجیحات تعلیم کے شعبے پر ہیں۔ بچوں کے لیے کل مختص بجٹ میں تعلیمی بجٹ کا حصہ لگ بھگ 77.5 فیصد ہے، جبکہ بچوں کی صحت پر 3.4 فیصد خرچ کیا جاتا ہے۔ وہیں بچوں کی غذائیت سے متعلق بجٹ 17.4 فیصد ہے۔ سب سے کم بجٹ بچوں کے تحفظ پر خرچ کیا جاتا ہے جو کہ چائلڈ بجٹ کا 1.7 فیصد ہے۔ حکومت نے غذائیت کو بڑھانے کے لیے سکشم آنگن واڑی اور پوشن اسکیمیں چلا رہی ہیں، حالانکہ ان دونوں اسکیموں کے مختص بجٹ میں کوئی خاص اضافہ نہیں کیا گیا ہے۔ موجودہ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور غذائی اجناس کے بحران کے باوجود بچوں کی غذائیت اور صحت کے لیے حکومت کا بجٹ نا کافی ہے۔
(مضمون نگار انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اینڈ ایڈووکیسی سے وابستہ ہیں۔)
[email protected]
***
اقلیتوں کے لیے مختص بجٹ پچھلے تین مالی سالوں میں نہیں بڑھایا گیا ہے لیکن جو بجٹ مختص کیا گیا اسے مرکزی حکومت خرچ نہیں کر رہی ہے۔ مالی سال 2023-24میں وزارت برائے اقلیتی امور نے 3098 کروڑ روپے مختص کیے تھے مگر حکومت صرف 154 کروڑ روپے ہی خرچ کر پائی ہے۔ اسی طرح مالی سال 2024-25کمیں 3183 کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے لیکن اس کو حکومت نے تخمینہ شدہ بجٹ میں گھٹا کر 1868 کروڑ روپے کر دیا ہے۔ بجٹ اخراجات میں کمی کی سب سے اہم وجہ کئی بڑی اسکیموں میں بجٹ کا خرچ نہ ہونا ہے
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 09 فروری تا 15 فروری 2025