مولا فاروق خاں نابغہ روزگار شخصیت تھے

قرآن و حدیث، مطالعہ ادیان اور تربیت وفکر سازی کے میدان میں غیر معمولی خدمات

ڈاکٹر مجتبیٰ فاروق، حیدر آباد

نہایت اہم موضوعات پر سو سے زائد تصانیف مولانا کے باقیات الصالحات میں شامل
بعض لوگوں کی زندگی ایسی ہوتی ہے جن پر دنیا رشک کرتی ہے اور ان کے چلے جانے سے افسردگی چھا جاتی ہے۔ ایسے ہی فرد فرید تھے مولانا محمد فاروق خان صاحب۔ مولانا مرحوم علم معرفت اور تزکیہ و سلوک کا ایک نمایاں نام تھےاور صحیح معنی میں درویش صفت عالم دین تھے۔ دعوت و تربیت اور تصنیف تالیف ان کی زندگی کا مشغلہ تھا ۔ مولانا نے علم و تحقیق میں ایسا قابل ذکر اضافہ کیا کہ رہتی دنیا تک اس سے استفادہ کیا جائے گا ۔ مولانا مسلمانوں میں دینی بیداری اور برادران وطن میں اسلام کا تعارف کروانا چاہتے تھے ۔ قرآن اور حدیث کا پیغام عام فہم زبان میں پیش کرنے کے لیے انہوں نے انتھک جدوجہد کی ۔مولانا عمر عزیز کی نوّے بہاریں مکمل کرنے کے بعد بالآخر 28 جون ، 2023کو خالق حقیقی سے جاملے ۔انَا لِلہ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔
مولانا محمد فاروق خان جولائی ء1933کو ضلع سلطان پور میں پیدا ہوئے۔آپ نے ابتدائی تعلیم کے بعد کئی اہم اساتذہ سے علم کی پیاس بجھائی ۔اس کے بعد انفرادی طور پر کئی اساتذہ سے وعربی زبان اور شرعی علوم کی تحصیل کی ۔آپ نے ہندی زبان و ادب میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور اس کے بعد کچھ عرصے تک تدریسی کام کیا لیکن اس کو خیر باد کہہ کر دعوت دین کے میدان کو اپنا محور بنالیا اور زندگی کے آخری لمحات تک اسی کارِ خیر کو انجام دیتے رہے ۔
مولانا فاروق خان کو عربی ، ہندی ، اردو ، فارسی اور انگریزی پر عبورحاصل تھا ۔ان زبانوں کی مدد سے انہوں نے اپنا مطالعہ وسیع کیا اور تصانیف کا براہِ راست مطالعہ کر کے علمی دنیا کو فیض پہنچایا ۔ انہوں نے عربی اور اردو کی بعض اہم تصانیف کو ہندی زبان میں منتقل بھی کیا ہے ۔
مولانا محمد فاروق خان کا تحریکی سفر
مولانا فاروق خان کا تحریک اسلامی کے ساتھ اٹوٹ تعلق تھا۔آپ فکر سازی و تربیت میں بے حد دلچسپی لیتے تھے اور اپنی پوری زندگی تحریک اسلامی کے لیے وقف کر رکھی تھی ۔ مولانا کی داعیانہ زندگی میں ٹھیراؤ تھا،جلد بازی نہیں تھی ۔ان کے تشخص میں وزن تھا ،جھکاؤ نہیں تھا ۔ذکر و فکر میں بلندی تھی ،سطحیت چھو کربھی نہیں گزری تھی ۔آپ دنیا سے بے نیاز تھے ۔آپ بہت سادہ مزاج طبیعت کے مالک تھے ۔
مولانا نے ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی علی گڑھ کے صدر کی حیثیت سے ایک طویل عرصے تک کام کیا لیکن بیس سال پہلے اس ذمہ داری سے کنارہ کشی اختیار کر لی البتہ اس کی مجلس منتظمہ و عاملہ کے تاحیات رکن رہے ۔
مولانا فاروق خان کا علمی سرمایہ
مولانا فاروق خان کے لٹریچر کو چھ حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں ۔
تراجم قرآن و تفسیر
مطالعہ حدیث اور تشریحات
مطالعہ ہندوستانی مذاہب
دعوت دین اور اس کا طریق کار
تربیت و تزکیہ
بحثیت شاعر
تراجم قرآن و تفسیر
مولانا محمد فاروق خان کی فکر کا منبع قرآن تھا۔ مولانا نے قرآن مجید کو تذکیر و موعظت کے طور پر پیش کیا ہے ۔ مولانا فاروق خان نے قرآن مجید کا ہندی زبان میں ترجمہ کیا اور مختصر حواشی بھی تحریر کی ۔اس ترجمے کے ہند و پاک میں اب تک کئی ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کے ترجمہ قرآن کو بھی انہوں نے آسان ہندی زبان میں منتقل کیا ہے۔ ترجمہ و تفسیر کے علاوہ قرآن فہمی پر ان کی کئی قابل ذکر کتابیں شائع ہوچکی ہیں ۔ان میں انتخاب قرآن ، قرآن کے تدریسی مسائل ،قرآنی مباحث، قرآن کا صوتی اعجاز ، قرآن مجید کی حیرت انگیز جامعیت ، قرآن مجید کے ادبی محاسن ، ایمائے قرآن ، اسلام کے معتقدات اور قرآن کا طرز استدلال ، اسمائے حسنیٰ قابل ذکر ہیں ۔
مطالعہ حدیث اور تشریحات
ان کا دوسرا بڑا کارنامہ احادیث مبارک کی تشریح و توضح، ہے جو کلام نبوت کی صورت میں سات جلدوں میں مرکزی مکتبہ دہلی سے شائع ہوئی ہے۔ ’کلامِ نبوت‘ بے حد قیمتی علمی سرمایہ ہے ۔ حدیث کی تشریح و توضیح پر تحریک اسلامی میں بہت کم لٹریچر پایا جاتا تھا اس ضمن میں مولانا مودودی اورمولانا جلیل احسن ندوی نے قابل ذکر کام کیا ہے ،ان کے علاوہ مولانا عبد الغفار اور امیر الدین مہر نے بھی کچھ کتابیں لکھی ہیں ۔ان کے بعد اس موضوع میں کافی خلا پایا جاتا تھا ۔لیکن مولانا کی’’ کلام نبوت‘‘اور ان کی دوسری تصنیفات نے اس خلا کو پر کرنے کا کام کیا ۔یہ مولانا کی سب سے اہم تصنیف تسلیم کی جاتی ہے ۔اسے تحریکی و غیر تحریکی حلقوں میں غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔اس میں انہوں نے احادیث کی روشنی میں اسلامی نظام زندگی کو تفصیل کے ساتھ بیان کیاہے ۔دراصل اس میں موضوعاتی اور واقعاتی طور پر ارشادات نبوی کو پیش کیا گیا ہے جس سے لوگوں میں احادیث مطالعہ کرنے کا شوق بڑھ گیا ہے۔ کلام نبوت میں ان منتخب احادیث کی تشریح و توضیح کی گئی ہے جن کاتعلق عقائد ، نظریات اور عبادات ، ذکر و دعا ،توحید ، رسالت ، آخرت ، تزکیہ و اصلاح، تعلیم و تربیت ، دعوت دین ،داعیانہ اوصاف، سماجی فہم و ادارک، سماجی زنادگی کے آداب ،اقتصادیات ، سیاسی امور ، اجتماعیت ، قیادت،سزا و جزا ، ظلم ، جھوٹ ، خیانت ،غیبت ،تکبر، حسد ، غصہ، خوش اخلاق اطوار، ، خاندان ، حقوق الزوج ،صبر وستقامت، انفاق ، تصاویر، موسیقی ، علم نجوم اور علاج و معالجہ سے ہے۔
احادیث اور تشریحاتِ حدیث پر ان کی دوسری اہم تصنیفات کے نام یہ ہیں :علم حدیث – ایک تعارف، مجموعے احادیث ، مطالعہ حدیث ، انتخاب احادیث قدسیہ ، حکمت نبوی احادیث کی روشنی میں ۔
مطالعہ ہندوستانی مذاہب
ہندوستان میں تقابل ادیان اور ہندوستانی مذاہب کے ماہرین بہت ہی قلیل تعداد میں پیدا ہوئے جنہوں ہندوستانی مذاہب کو تحقیق کا تصنیف کا میدان بنایا ان میں مولانا رحمت اللہ کیروانوی کا نمبر سب سے پہلا آسکتا ہے ۔مولانا کرلاوانی اپنے زمانے کے ایک ممتاز عالم دین اور تقابل ادیان کے ماہر تھے ۔انہوں نے پادری فنڈر کی کتاب میزان الحق کا جواب ” اظہار الحق“ کے نام سے لکھا ۔ ’’ اظہار الحق‘‘ عیسائیت کے باطل افکار کے رد میں لکھی گئی کتاب ہے ۔یہ اپنے موضوع پر لاجواب تصنیف ہے ۔ثناء اللہ امرتسری بھی تقابل ادیان کے ماہر تھے انہوں نے عیسائی اور مذاہب پر وسیع پیمانے پر کام کیا اور کئی اہم کتابیں ان کی قلم سے منظر عام پر آئیں ۔ ان کے بعد مولانا عبد الحق حقانی دہلوی نے اس میدان میں اپنی چھاپ چھوڑی ۔مولانا محمد قاسم ناناتوی کو بھی اس فہرست میں شامل کیا جاسکتا ہے جنہوں نے اسلام کے دفاع می عیسائی پادریوں اور پنڈتوں کے خلاف علمی انداز میں بحث و مناظرے کیے۔علامہ انور شاہ کاشمیری کو بھی اس فہرست میں شامل کرسکتے ہیں ۔انہوں نے قرآنیات ،علوم الحدیث ،فقہ ،منطق کے علاوہ ادیان پر بھی علمی کام کیا ہے۔
اس میدان میں ڈاکٹر ذاکر نائک نے بھی اچھا کام کیا ہے۔ اس صف میں مولانا فاروق خان صاحب بھی کھڑے رہے ۔ انہوں نے ہندوستانی مذاہب کی کتابوں کا نہایت وسیع اور گہرا مطالعہ کیا ہے ۔اس تعلق سے انہوں نے ہندوستانی ادیان پر تحقیق کرنے اور لکھنے میں محنت شاقہ کی ہے ۔ ہندوستانی مذاہب کو سمجھنے اور تحقیق کرنے کے لے ان کی تصانیف کا مطالعہ ضروری ہے ۔ جو لوگ غیرمسلموں میں دعوتی کام کرنا چا ہتے ہیں ان کے لیے بھی ان کتب کا مطالعہ افادیت سے خالی نہیں ہے ۔ مطالعہ ہندوستانی مذاہب مولانا فاروق خان کی تحقیق و تصنیف کا تیسرا اہم میدان رہاہے اور انہوں نے ہندو مذاہب کے متون کا براہ راست مطالعہ کر کے علم و تحقیق کے دائرہ کو مزید وسیع کردیا ہے ۔
مولانا کو عربی فارسی ہندی اردو اور سنسکرت پر عبور حاصل تھا ۔مولانا نے ہندوستانی مذاہب پر متعدد کتابیں لکھیں جن میں خدا کا تصور ہندو دھرم کی کتابوں میں ، ہندو دھرم کی کچھ قدیم شخصیتیں ، چند ہندوستانی مذاہب ، رگ وید ایک تجزیاتی مطالعہ ، اسلام کی اہمیت ہندو دھرم کے پس منظر میں، وید کا تعارف، ہندو دھرم ایک مطالعہ ،پرلوک کی چھایا میں ،بھارت کی مذہبی کتب اور غیر مسلموں کی تحریروں میں ذکر رسول وقرآن،وید اور قرآن قابل ذکر ہیں ۔
دعوت دین اور اس کا طریق کار
مولانا فاروق خان کا کہنا تھا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کو آئے ہوئے تقریبا آٹھ سو سال ہوئے اور ان آٹھ سو سالوں میں انہوں نے ہندوستان میں حکومت بھی کی لیکن اتنی طویل مدت تک حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے کے باوجود اسلام کو اہل وطن تک پہنچانے میں کوتاہیاں برتیں ۔مولانا کا ماننا تھا کہ دعوت استحکام شریعت کا سب سے اہم اور مؤثر ذریعہ ہے اور اس تعلق سے مسلمانوں کو اللہ کے رسول (ﷺ) اور صحابہ کرام کے دعوتی منہج اور اصولوں کو پیش نظر رکھنا ہوگا ۔ مولانا فاروق خان جدید سلوب میں دعوتی لٹریچر تیار کرنے کی بے حد تلقین کرتے تھے اور اس ضمن میں انہوں نے ہندوستانی مذاہب کو تحقیق و تالیف اور مطالعہ کا میدان بنایا ہے اور اس موضوع پر ان کی کئی کتابیں شائع ہوچکی ہیں جن کےنام یہ ہیں:
ہندوستان میں اسلام کی اشاعت، حقیقت نبوت، دعوت اسلام اور اس کے اصول و آداب، دعوت دین اور اس کے کارکن، دعوت دین کے مضمرات، خواتین اسلام کی علمی خدمات، امت مسلمہ کا منصب و مقام، آئینہ اسلام، آئینہ حقیقت، کائنات میں اللہ کی نشانیاں، خدا کیا اور کہاں؟ خدا کی پر اسرار ہستی کا تصور، انسان اور کائنات،
تربیت و تزکیہ
تربیت و تزکیہ بھی مولانا فاروق خان کی دلچسپی کا موضوع رہا ہے ۔چنانچہ انہوں نے تربیتی نقطہ نظر سے کئی تحریریں رقم کیں جو دعوت و تبلیغ کا کام کرنے والوں کے لیے زادِ راہ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ تزکیہ و تربیت کو سمجھنے کے لے ان کی تصانیف کا مطالعہ ضروری ہے ۔ اس موضوع پر ان کی تصنیفات اس طرح ہیں :
تزکیہ نفس اور اخلاق، حکمت نبوی اور حسن اخلاق، تزکیہ نفس اور ہم، تکریم نفس اور اسلام، تربیت کے فکری و عملی پہلو، عرفانِ حقیقت، توحید اور مسائل حیات، انسانی جبلتوں کا مطالعہ، کامیابی کے تین بنیادی نکات، آخرت کے سایے میں، اسلام کا نظام روحانی اور علامہ فراہی، حاجی کے شب و روز، حقیقت کی تصویر،
شعر وادب سے تعلق
شعر وادب کے ساتھ بھی مولانا کو خصوصی دلچسپی تھی۔ آپ برجستہ اردو اور ہندی میں کلام پیش کرتے تھے ۔ ہندی اور اردو دونوں ہی زبانوں میں آپ کا مجموعہ کلام شائع ہوچکا ہے ۔ اردو میں میں آپ کے ضخیم مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں اور اردو زبان وادب کے ماہرین سے خراج حاصل کرچکے ہیں ۔ ان کا پہلا مجموعہ کلام ’’حرف و صدا ‘‘ کے نام سے اور چند سال قبل دوسرا مجموعہ ’’لمحات‘‘ کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔ شعر و ادب میں مولانا فاروق خان کو ’’ فراز سلطان پوری‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ مولانا کا تخلص فراز تھا ۔مولانا فاروق خان کی شاعری روایتی شاعری سے ہٹ کر ہے ۔ان کے کلام اور تحریروں میں جمالیاتی (Aesthetics) پہلو بھی اجاگر ہوتا ہے ۔آپ نے قرآن مجید کے جمالیات کو بھی اجاگر کیا ہے اور اللہ کی کائنات کے حسن و جمال کو بھی بیان کیا ہے اور انسانی فن کاری جیسے تاج محل وغیرہ کی خوبصورتی کا بھی ذکر کیا ہے ۔ علم و ادب کی کئی شخصیتوں نے مولانا فاروق خان کے شاعرانہ ذوق کی داد دی ہے ۔پروفیسر ملک زادہ منظور احمد کا کہنا ہے ’’یہ بات بڑے اطمینان کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ فاروق خان قصہ قدیم و جدید سے بالا تر ہوکر ہمارے عہد کے ایک خوش فکر شاعر ہیں جو فن کے تمام لوازمات اور التزامات سے نہ صرف با خبر ہیں بلکہ انہیں سلیقے کے ساتھ برتنے کا ہنر بھی جانتے ہیں‘‘۔ڈاکٹر احمد جاوید سجاد ’’حرف وصدا‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ حرف و صداکے اس مجموعہ کلام مں جو حرف ہے وہ خون دل سے لکھا گیا ہے اور جو صدا بلند ہو رہی ہے وہ ساز دل کے ٹوٹنے سے پیدا ہوئی ہے۔ اسی لیے ایسی فطری شاعری وقت کے ساتھ بوسیدگی کا شکار ہونے کے بجائے اپنی تاثیر، تازگی اور حلاوت مں دو آتشہ ہوتی چلی جاتی ہے۔‘‘

 

یہ بھی پڑھیں

***

 مولانا کا ماننا تھا کہ دعوت استحکام شریعت کا سب سے اہم اور مؤثر ذریعہ ہے اور اس تعلق سے مسلمانوں کو اللہ کے رسول ﷺاور صحابہ کرام کے دعوتی منہج اور اصولوں کو پیش نظر رکھنا ہوگا ۔ مولانا خان جدید سلوب میں دعوتی لٹریچر تیار کرنے کی بے حد تلقین کرتے تھے اور اس ضمن میں انھوں نے ہندوستانی مذاہب کو تحقیق و تالیف اور مطالعہ کا میدان بنایا تھا ۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 جولائی تا 22 جولائی 2023