منی پور سانحے پر وزیر اعظم کا بیان خاموشی سے زیادہ اذیت ناک
کیا ملک میں مخالفین سے انتقام لینے کے لیے عصمت دری ہتھیار بنتا جا رہا ہے؟
(دعوت بیورو ،کولکتہ)
کوکی خواتین کی ہجوم میں برہنہ پریڈ اور جنسی زیادتی۔ پولیس حکومت اور خواتین کمیشن کا کردار سوالوں کی زد میں
منی پور گزشتہ اسی دنوں سے جل رہا ہے۔ ریاست کی دو سب سے بڑے طبقے کوکی اور میتی ایک دوسرے کے جان و مال اوعزت و آبرو کے دشمن بن گئے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ تقسیم نہ صرف گہری ہوتی جا رہی ہے بلکہ ریاست کے دیگر طبقات بھی اس آگ کی زد میں آرہے ہیں۔ شمال مشرقی ریاستوں کی ترقی اور فلاح بہبود کو اپنی ترجیحی پالیسی کے طور پر پیش کرنے والی مرکزی حکومت کے کردار سے واضح ہو گیا ہے کہ شمال مشرقی ریاست کی آگ کو ٹھنڈا کرنے میں اس کی کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے۔ مرکزی وزیر داخلہ کی حیثیت سے امیت شاہ کی ذمہ داری سب سے بڑی تھی مگر وہ ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ انہوں نے ثابت کر دیا کہ سیاسی جلسوں میں مخالفین پر طنز اور سخت جملے کسنا اور اقلیتوں کو خوف زدہ کرنا الگ بات ہے اور امن و امان قائم کرنا اور دو کمیونٹیوں کے درمیان تقسیم کو ختم کرتے ہوئے محبت کی فضا قائم کرنا دوسری بات ہے۔ ظاہر ہے کہ جن کی پوری سیاست ہی نفرت انگیزی پر مشتمل ہو ان سے اس کار خیر کی امید نہیں کی جاسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ اس طرح کے مواقع پر خود کو دنیا کے عظیم لیڈروں میں شمار کرانے کے خواہش مند وزیر اعظم مودی بھی چوک جاتے ہیں۔ گزشتہ نو سالوں میں ایسے کئی مواقع آئے ہیں جہاں عوام نے ان کے رد عمل اور ایک بیان کی توقع کی کہ وہ آگے بڑھ کر اس پر بات کریں گے اور شہریوں کی رہنمائی کریں گے مگر انہوں نے خاموشی کو ہی ترجیح دی۔ ممکن ہے کہ یہ ان کی سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہو۔
پارلیمنٹ کے مانسون سیشن سے عین قبل منی پور میں خواتین کے ساتھ بہیمانہ اور سفاکانہ سلوک کی ویڈیو منظر عام پر آئی جس نے انسانیت کو شرم سار کر دیا اور پوری دنیا میں اس پر تبصرے ہونے لگے۔ ظاہر ہے کہ ان حالات میں وزیر اعظم مودی کی خاموشی ان کی شبیہ کو مزید نقصان پہنچا سکتی تھی۔ چناں چہ اپنی خاموشی توڑنے کے لیے انہوں نے پارلیمنٹ کے سیشن کے پہلے دن ہونے والی روایتی پریس کانفرنس کا انتخاب کیا۔ یہ ایک ایسی پریس کانفرنس ہوتی ہے جہاں نامہ نگاروں کو سوال و جواب کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ وزیر اعظم نے اس موقع پر منی پور کے واقعہ پر اپنے درد و کرب کا اظہار کیا۔ اصطلاحات اور اشارہ و کنایہ کے استعمال میں مہارت رکھنے کے باوجود وزیر اعظم مودی کا یہ بیان منی پور کے عوام کے درد کا مدوا نہ کرسکا اور نہ ہی ملک کے عوام کو مطمئن کرسکا۔ ان کے بیان سے ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ ان کےالفاظ میں حساسیت کا فقدان ہے۔ وہ جو کچھ بول رہے ہیں مجبوری میں بول رہے ہیں۔ دوسروں کو سیاست نہ کرنے کا مشورہ دینے والے خود عصمت دری کے اس دردناک واقعے پر سیاست کرتے ہوئے نظر آئے۔ ان کے بیان کے بعد سبھی نے محسوس کیا کہ ان کا یہ بیان خاموشی سے زیادہ اذیت ناک ہے۔ کیوں کہ منی پور میں ہونے والے واقعے کا دوسری ریاست کے واقعات سے موازنہ شروع ہوگیا۔عصمت دری کا ایک بھی واقعہ پورے ملک کے لیے شرم ناک ہے۔ سوال یہ ہے کہ منی پور میں جس طریقے سے خواتین تذلیل کی گئی کیا ایسی تذلیل کسی بھی مہذب سماج میں ہوتی ہے؟ کیا پولیس میں شکایت درج ہونے کے باوجود دو مہینے تک کارروائی نہیں ہوتی؟
وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز کوئی شخص جب اس طرح کے واقعات پر سیاسی بیانات جاری کرے تو اس کی پارٹی کے دیگر لیڈروں سے کیا امید کی جاسکتی ہے؟ گزشتہ چار دنوں میں بی جے پی لیڈران اور ’لیپ ڈاگ میڈیا‘ نے اس ناقابل معافی جرم کا رخ موڑنے کی ناکام کوشش کی ہے۔اس کا ملک کے دوسری ریاستوں میں ہونے والے واقعات سے موازنہ کیا جا رہا ہے۔ کل بی جے پی کے صدر دفتر میں بنگال سے بی جے پی کی ممبر پارلیمنٹ اور سابق اداکارہ لاکیٹ چٹرجی نے بنگال میں سیاسی حالات پر جس ڈرامائی انداز میں پریس کانفرنس کی، کیا اس سے منی پور میں جاری شورش اور خواتین کے ساتھ عصمت دری کے واقعات کو جواز بخشا جاسکتا ہے؟ ملک کی ایک معروف نیوز ایجنسی جو وزیرا عظم مودی کی مداح سرائی کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتی، اس نے پورے واقعے کو فرقہ واریت کا رنگ دینے کی کوشش کی اور اس کو مسلمان سے جوڑنے کے لیے غلط معلومات پیش کیں۔ اگرچہ چند منٹوں میں ہی خبر ڈیلیٹ کر دی گئی مگر دائیں بازو کے ٹوئیٹر ہینڈل پر یہ خبر ٹرینڈ کرنے لگی اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی جانے لگی کہ اس گھناونے کے جرم کے پیچھے کوئی مسلمان ہے جبکہ سیاسی ورکر حلیم خان کی گرفتاری کسی اور واقعے میں ہوئی تھی۔
منی پور میں تشدد کے واقعات، ہجوم میں برہنہ خواتین کی پریڈ اور ان کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کا یہ واقعہ جہاں منی پور کی پولیس اور وہاں کی حکومت کو کٹہرے میں کھڑا کرتا ہے وہیں مرکزی حکومت کے سامنے بھی کئی سوالات کھڑے کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آج جبکہ ملک میں جواب دہی کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے، اکثریت کے احساسات اور جذبات کی بنیاد پر فیصلے ہوتے ہیں، پولرائزیشن آج کی سب سے بڑی طاقت بن گئی ہے۔ منی پور میں اسی دنوں سے خانہ جنگی جاری ہے، ڈیڑھ سو سے زائد لوگ موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں، ہزاروں لوگ نقل مکانی پر مجبور ہو چکے ہیں، کس کو اس سے کیا فرق پڑا؟ چوں کہ مرنے والوں کا تعلق اقلیتی اور قبائلی طبقے سے ہے، بات ضمیر کی جا رہی ہے؟ اگر ضمیر زندہ ہوتا تو پولیس اٹھارہ مئی کو ہی حرکت میں آجاتی کیوں کہ اس واقعے کی شکایت اسی تاریخ کو پولیس میں درج کرادی گئی تھی۔ پولیس اس وقت حرکت میں کیا آئی الٹا اسی نے ان خواتین کو ہجوم کے حوالے کر دیا تھا، کیوں کہ وہ بھی میتی اور کوکی کے درمیان جنگ کا حصہ بن چکی ہے۔ ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے مگر جس ریاست کا وزیرا علیٰ خود میتی کے مفادات کی بات کرتا ہو، کوکی اور ناگا کمیونٹی کو مجرم ثابت کرنے میں لگا ہوا ہو تو ایسے میں انصاف کی امید کس سے کی جائے؟
کولکاتا کے ایک مشہور انگریزی اخبار "دا ٹیلی گراف” نے اپنے پہلے صفحے پر مگر مچھ کی بڑی تصویر شائع کی ہے۔ اس اخبار نے تصویروں کی زبانی منی پور کے پورے المیے کو بیان کر دیا ہے۔ آج کی صحافت جرأت و بے باکی سے محروم ہے اس لیے یہ عجب سا لگ رہا ہے۔ اگر وزیر اعظم اپنی پارٹی کے لیڈر اور منی پور کے وزیر اعلیٰ این بیرن سنگھ کو راج دھرم نبھانے کی نصیحت کرتے اور ان پر لگے ہوئے الزامات کی جانچ کرانے کی زحمت گوارا کرتے، جو آئینی عہدہ پر فائز ہونے کے باوجود ذمہ داری کو صحیح طریقے سے ادا کرنے کے بجائے میتی قبائل کے سرپرست کا کردار ادا کر رہے تھے، تو انہیں ریاست میں پرتشدد واقعات کی شدت کا اندازہ ہو جاتا، لیکن انہوں نے اس معاملے پر پہلی بار اس وقت لب کشائی کی جب ویڈیو پوری دنیا میں وائرل ہو گئی۔ اس ویڈیو نے دنیا کے سامنے ہمارے ملک کی انتہائی انتہائی کریہہ شبیہ پیش کی۔ اس تمام صورتحال کے باوجود وزیر اعلی منی پور بیرن سنگھ سفید جھوٹ بول رہے ہیں، وہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ منی پور پولیس نے واقعے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے فوری کارروائی کی ہے۔سوال یہ ہے کہ جب کارروائی کرلی گئی تو اس اس واقعے کے اصل ملزمین اب گرفتار کیوں ہو رہے ہیں اور ویڈیو کے نشر ہونے کے بعد قوم اور ملک سے معافی مانگنے کے بجائے اس ویڈیو کو سازش قرار دے رہے ہیں؟ المیہ یہ ہے کہ میتی کی سول سوسائٹی بھی اسے سازش قرار دے رہی ہے۔ اس موقع پر وزیر اعلیٰ سے باز پرس کرنے کے بجائے مودی ان کے دفاع میں آگئے اور کہا کہ "میں تمام ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ امن و امان کا قیام یقینی بنائیں، بالخصوص ہماری ماؤں اور بہنوں کے تحفظ کے لیے سخت ترین اقدامات کریں، اس بات سے قطع نظر کہ وہ واقعہ کہاں رونما ہوا ہے، پھر چاہے وہ راجستھان ہو، چھتیس گڑھ ہو یا منی پور میں ہوا ہو” وزیر اعظم مودی منی پور کا ذکر سب سے آخر میں کرتے ہیں۔ دراصل وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ منی پور میں جو واقعہ پیش آیا وہ اسی طرح کا ہے جس طرح راجستھان اور چھتیس گڑھ میں ہوا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان دونوں ریاستوں میں بھی ہجوم نے خواتین کو برہنہ پریڈ کرایا تھا یا پولیس نے خواتین کو بھیڑ کے حوالے کیا تھا؟ ظاہر ہے کہ نوعیت کے اعتبار سے ان واقعات میں بہت فرق ہے۔
منی پور کے اس واقعے کو دراصل بھارت میں خواتین کی عزت و ناموس کے حوالے سے بھیڑ کی ذہنیت اور ماضی میں رونما ہونے والے فرقہ وارانہ، نسلی اور علاقائی تصادم کے دوران خواتین پر ہونے والے ظلم و تشدد کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ بھاگلپور سے لے کر گجرات تک اور شمال مشرقی ریاستوں سے لے کر کشمیر تک ہر جگہ فسادیوں کے نشانے پر خواتین ہی رہی ہیں۔منی پور کے سماج میں خواتین کا مقام بہت بلند ہے۔ یہاں خواتین کی علیحدہ مارکیٹیں ہیں، منی پور کے علیحدہ ریاست کے قیام میں بھی خواتین نے اہم کردار ادا کیا ہے لیکن اس کے باوجود یہاں مردوں کے ہاتھوں خواتین کے استحصال کی طویل تاریخ ہے۔
منی پور کے حالات کو سمجھنے کے لیے دو اہم نکات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک، منی پور اور نسلی اختلافات کی بنیاد پر تشدد کی تاریخ۔ دوسرے، منی پور کے حالات اور واقعات پر خاموشی کی تاریخ۔تین مئی کو میتیوں کے ہاتھوں کوکیوں کے تاریخی دروازے کے انہدام کے بعد ریاست میں خانہ جنگی کی شروعات ہوئی۔ میتیوں اور کوکیوں کے درمیان سماجی دراڑیں ایک حقیقی تقسیم میں تبدیل ہو گئی ہیں۔ آج صورت حال یہ ہے کہ پہاڑ اور وادی میں کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو خود کو محفوظ تصور کرے۔ یہاں تک کہ افواج کے تعیناتی کے باوجود عدم تحفظ کے احساسات گہرے ہیں۔ ریاستی انتظامیہ بھی منقسم ہوگئی ہے۔ میتی پولیس افسران پہاڑیوں میں کام نہیں کرتے اور کوکی اور ناگا افسران وادی میں کام نہیں کرتے۔
امپھال میں منی پور پولیس ٹریننگ سنٹر، ساتویں انڈیا ریزرو بٹالین اور آٹھویں منی پور رائفلز کے پاس مبینہ طور پر 32.6 لاکھ گولیاں اور تقریباً 4,537 ہتھیار ہیں جن میں ہلکی اور درمیانی مشین گنیں بھی شامل ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان ہتھیاروں میں سے تقریباً 31.5 فیصد کوکی اکثریتی پہاڑیوں میں اور باقی میتی کے زیرِ تسلط امپھال وادی میں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ میتی خواتین کے گروپوں نے ایک فوجی آپریشن کو ناکام بنا دیا اور عسکریت پسندوں کو رہا کرنے پر مجبور کر دیا۔ اتنے بڑے واقعے کے بعد بھی میتیوں کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صنفی سیاست اور بین کمیونٹی میں توازن نہیں ہے۔ تقسیم اتنی گہری ہے کہ کوکیوں کا اعتماد وزیر اعلیٰ بیرن سنگھ پر سے ختم ہو گیا ہے اسی وجہ سے جنوبی منی پور کے انتظامات نئی دلی سے چلائے جا رہے ہیں اور این بیرن سنگھ کے اختیارات امپھال تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔ امپھال وادی میں ناگا خاتون کے قتل کے بعد میتی بنام ناگا کے درمیان بھی تناو بڑھ گیا ہے اور اگر اس پر فوری کارروائی نہیں کی گئی تو یہ خانہ جنگی ناگالینڈ اور میزورم تک پھیل سکتی ہے۔ میزو نسلی طبقہ اپنے نسلی رشتہ داروں کو میتیوں سے بچانے کے لیے بہت زیادہ سنجیدہ ہے۔ ستر اور اسی کی دہائی میں میزورم، آسام اور منی پور میں میزووں اور میتیوں کے درمیان نسلی تصادم کے واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ منی پور کی خانہ جنگی کا سب سے بڑا سبق بھی یہی ہے کہ اگر اکثریت پرستی اور بالادستی کی خواہشات پر قابو نہیں پایا گیا تو ملک کے دیگر حصے بھی اس طرح کے نسلی و گروہی تصادم کی آگ میں جل سکتے ہیں۔
منی پور میں افسپا کو ہٹانے کے لیے طویل مدت تک جد و جہد کرنے والی ارم شرمیلا کہتی ہیں کہ منی پور کی اس خانہ جنگی پر میتی اور کوکی دونوں قطبی مخالف نظریات رکھتے تھے۔ یہ صورت حال پیدا کرنے میں مرکزی حکومت کا بڑا کردار رہا ہے۔ مرکزی حکومت نے بالعموم شمال مشرق کو اور بالخصوص منی پور کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا ہے۔ یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں نے ریاست میں امن و امان کے قیام کو نظر انداز کیا ہے اور منی پور میں یا برادریوں کے درمیان تنازعات کو حل کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی گئی۔ کوکیوں کے زمینوں پر قبضہ کرنے اور میانمار سے بڑی تعداد میں غیر قانونی تارکین وطن ہونے کا الزام ایک مسئلہ ہے۔ تارکین وطن پناہ گزین ہیں اور وہ منی پور آئے کیونکہ وہ اپنے ہی ملک میں ظلم اور تشدد سے بھاگ رہے تھے۔ ہمیں اس معاملے کو بہت زیادہ حساسیت سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ تارکین وطن کے ساتھ انسانی سلوک کرنے کی ضرورت ہے۔ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو تارکین وطن کے مسئلے سے بہت بہتر طریقے سے نمٹنا چاہیے تھا۔ پورا معاملہ دراصل زمین کے گرد گھومتا ہے۔ لیکن لوگوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جب وہ مرتے ہیں تو وہ اپنے ساتھ زمین کا ایک ٹکڑا بھی نہیں لے جاتے۔ مرکزی حکومت کو بھی منی پور کے عوام کے مسائل کو ماں کی طرح حل کرنے ہوں گے۔
کوئی بھی فیصلہ کرتے وقت ہر کمیونٹی سے مشورہ کرنے کی ضرورت ہے۔اس معاملے میں ریاستی حکومت اور مرکزی حکومت دونوں بری طرح ناکام ہو چکی ہیں۔ یہ قیادت کے فقدان کو ظاہر کرتا ہے۔ ریاستی حکومت کو اپنے فیصلے ان پر تھوپنے کے بجائے کوکی برادری کے رہنماؤں سے مشورہ کرنا چاہیے تھا۔
جہاں تک سوال انتقام کے لیے خواتین کا جنسی استحصال کا ہے تو یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہوا ہے، ملک اس کی گھناونی تاریخ رکھتا ہے۔ ساورکر جنہیں آج گاندھی سے بڑا لیڈر ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے انہوں نے اپنی موت 1966 سے چند سال قبل مراٹھی میں لکھی گئی کتاب’’ Six Glorious Epochs of Indian History‘‘میں عصمت دری کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی وکالت کی ہے۔ مشہور صحافی آشوتوش نے اپنے مضمون India is Paying the Price For VD Savarkar’s Advocacy of Rape میں ساورکر کے نظریات پر روشنی ڈالی ہے۔چناں چہ آزادی کے بعد ملک میں جتنے فرقہ وارانہ فسادات اور نسلی تصادم کے واقعات ہوئے، ہر موقع پر خواتین کی عصمت دری کی گئی۔ بھاگلپور، گجرات اور مظفر نگر فرقہ وارانہ فسادات کی تفصیل موجود ہے۔ وزیر اعظم مودی جب گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے اس وقت کیا یہ واقعات رونما نہیں ہوئے تھے؟ کتنی خواتین کی عصمت دری کی گئی؟ انصاف کے لیے جد و جہد کرنے والی بلقیس بانو کی عصمت دری کے مجرموں کو انہی ہندوتوادیوں نے رہا کر دیا ہے۔ 1989 میں ہونے والے بھاگلپور فرقہ وارانہ فسادات پر ریسرچ کرنے والی ایڈووکیٹ وریشہ فراست لکھتی ہیں کہ بھاگلپور فسادات میں جہاں ایک ہزار افراد کی موت ہوئی تھی وہیں بڑے پیمانے پر خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات بھی رونما ہوئے تھے۔ اس فساد کی جانچ کے لیے دو کمیشن قائم کیے گئے تھے لیکن کسی بھی کمیشن نے جنسی زیادتی کے معاملات کی جانچ نہیں کی۔ آج اگردائیں بازو کے لیڈر منی پور کے اس واقعے کے مقابلے میں دوسری ریاستوں کے واقعات کو پیش کرکے پورے معاملے کو ٹھنڈے بستے میں ڈال رہے ہیں تو ان کی یہ کوشش تعجب خیز نہیں ہے۔ خاتون پہلوانوں کے احتجاج کے باوجود برج بھوشن آزاد ہے اور اسے سنگین الزامات کے باوجود عدالتوں سے راحت مل رہی ہے، بی جے پی بھی اسے تحفظ فراہم کر رہی ہے۔ ایسے میں یہ کیسے امید کی جاسکتی ہے منی پور کی ان مظلوم خواتین کے ساتھ انصاف ہو سکے گا؟
***
***
آج اگردائیں بازو کے لیڈر منی پور کے اس واقعے کے مقابلے میں دوسری ریاستوں کے واقعات کو پیش کرکے پورے معاملے کو ٹھنڈے بستے میں ڈال رہے ہیں تو ان کی یہ کوشش تعجب خیز نہیں ہے۔ خاتون پہلوانوں کے احتجاج کے باوجود برج بھوشن آزاد ہے اور اسے سنگین الزامات کے باوجود عدالتوں سے راحت مل رہی ہے، بی جے پی بھی اسے تحفظ فراہم کر رہی ہے۔ ایسے میں یہ کیسے امید کی جاسکتی ہے منی پور کی ان مظلوم خواتین کے ساتھ انصاف ہو سکے گا؟
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 30 جولائی تا 05 اگست 2023