منی پور: لگے گی آ گ تو آ ئیں گے گھر سبھی زد میں

ریاست منی پور میں پچھلے کئی مہینوں سے جاری شورش زدہ صورتحال ابھی بھی قابو سے باہر ہے

ڈاکٹر سلیم خان

حکومت کی پشت پناہی حاصل کرنے کے بعد خود میتی بھیڑ نے بی جے پی دفتر اور سرکاری عمارتوں پر ہلہ بول دیا
منی پور کا معاملہ راحت اندوری کے تصورِ خیال سے آگے نکل گیا اس لیے قصداً ان کے مصرع میں ’کئی‘ کو ’سبھی‘ سے تبدیل کیا۔ بات یہاں سے نکلی کہ بی جے پی کے وزیر اعلیٰ بیرین سنگھ نے اپنے سیاسی مفاد کی خاطر میتی قبیلے کو کوکی قبیلے کے خلاف اکسایا۔ انہیں تشدد کی کھلی چھوٹ دی اور تحفظ سے بھی نوازا، یہاں تک کہ خواتین کو برہنہ کرکے عصمت دری کرنے کا بھی جواز پیش کر دیا۔ پہلے تو اس درندگی کو چھپایا گیا اور پھر مجرموں کو سزا دینے کے بجائے  ویڈیو بنا کر اس خبر کوعام کرنے والے صحافیوں پر کارروائی کی گئی۔ اس کے بعد جس طرح مودی نے گجرات فساد کے بعد استعفیٰ دیا تھا وہی کام بیرین سنگھ نے بھونڈے طریقہ سے کیا۔ پہلے تو اپنا استعفیٰ  پیش کیا اور اس کے بعد اپنی حمایت میں مظاہرہ کروا کر اسے واپس لے لیا۔ اس دوران سرکاری سرپرستی کے سبب میتی درندوں کی منہ کو خون لگ گیا۔ عالمی دباؤ کے تحت ان کو قابو میں کرنے کے لیے آسام رائفلز کو میدان میں لایا گیا تو وہ اس سے لڑنے بھڑنے لگے۔ ان کے اپنے دو نوجوانوں کی لاشیں ملیں تو ان لوگوں نے بی جے پی کے دفتر پر چڑھائی کر دی۔ اس پر بھی اطمینان نہیں ہوا تو وزیر اعلیٰ کے آبائی مکان کو جلا کر راکھ کر دیا اور اب بی جے پی کو  اپنے ہی حامیوں کی نکیل کسنے  کے لیے کشمیر میں استعمال ہونے والی پیلٹ گن استعمال کرنی پڑی۔ شیر کی سواری  میں یہی خطرہ رہتا ہے کہ وہ کبھی بھی اپنے ہی سوار پر حملہ آور ہو سکتا ہے۔ وزیر اعلیٰ   بیرین سنگھ کی حالت اس شعر کی مصداق ہے ؎
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر سبھی زد میں     وہاں پہ صرف  ’کوکی‘ مکان تھوڑی ہے
منی پور میں تقریباً ڈیڑھ ماہ بعد جب پہلی بار انٹرنیٹ کی سہولت بحال کی گئی تو  کوکی قبیلے کی برہنہ لڑکیوں کا ویڈیو منظر عام پر آیا۔ اس وقت منی پور پولیس نے کسی کو گرفتار کرنا تو دور ایف آئی آر تک لکھنے کی زحمت گوارا نہیں کی تھی۔ عدالتِ عظمیٰ کے ہنٹر نے ریاستی حکومت کو دکھاوے کی کارروائی کرنے پر مجبور کیا۔ دوسری بار تقریباً تین ماہ بعد جب انٹرنیٹ پر سے پابندی اٹھائی گئی تو امپھال کی وادی میں دو طالب علموں کے قتل کی واردات سامنے آگئی اور اس کے بعد حالات دوبارہ کشیدہ ہو گئے۔ خود سر میتی سماج اس خبر کے لیے بالکل تیار نہیں تھا۔ وہ لوگ بڑے پیمانے پر  اپنے طلبا کی ہلاکت کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے سڑکوں پر آگئے۔ پولیس کو لا محالہ ان مظاہرین کے خلاف لاٹھی چارج کرنا پڑا۔ امپھال کی وادی میں نوجوانوں کی ہلاکت کے خلاف احتجاج کرنے والے ہجوم پر آنسو گیس کے گولے بھی داغے گئے۔اس سے جملہ 45 سے زائد طلبا زخمی ہوگئے۔ اس کے بعد حالات مزید خراب ہوگئے۔ اس سے گھبرا کر ریاستی حکومت نے اگلے پانچ دنوں کے لیے ایک بار پھر انٹرنیٹ خدمات پر پابندی لگا دی۔ 
یہ عجیب بات ہے کہ میتی قبیلے کے لوگ  پرتشدد احتجاج کررہے تھے مگر سرکار ان کی منہ بھرائی کے لیے کوکیوں کے پہاڑی علاقوں میں افسپا (AFSPA) کو 6 ماہ کے لیے بڑھا  رہی تھی۔ میتی سماج کا غم و غصہ کم کرنے میں یہ حربہ کامیاب نہیں ہوا۔ اس لیپا پوتی  کے باوجود حکومت کے منظورِ نظر میتیوں کی جارحانہ بھیڑ نے وہ کردیا جو بی جے پی کے حاشیہ خیال میں بھی نہیں تھا۔ مشتعل ہجوم نے رات کا انتظار کیا اور ضلع تھوبل میں بی جے پی کے ڈویژنل دفتر کو آگ لگا دی۔ اس اطلاع کے ملتے ہی سیکیورٹی فورسز نے فوراً موقع واردات پر پہنچ کر آگ پر قابو پالیا، لیکن اس وقت تک دفتر میں رکھے ہوئے سامان کے ساتھ بی جے پی کے ارمان بھی جل کر راکھ ہوگئے۔ اس واقعے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا پھر بھی چونکہ معاملہ سرکار دربار کا تھا اس لیے بے حس ریاستی پولیس نے معاملے کی تفتیش شروع کی۔ کمبھ کرن کی نیند سونے والی مرکزی حکومت اچانک بیدار ہوگئی اور اس نے اس کیس کی تحقیقات سی بی آئی کو سونپ دی۔ اس پر امیت شاہ کی سنجیدگی کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے سی بی آئی کے ڈائریکٹر اجے بھٹناگر کو اپنی ٹیم کے سمیت امپھال روانہ کردیا اور  فوراً وزیر اعلیٰ بیرن سنگھ سے رابطہ کرکے   سیکیورٹی اہلکاروں کو الرٹ کر دیا گیا۔ بے قصور عوام کو فساد کے ذریعہ سبق سکھانے والے امیت شاہ اگر شروع سے اس طرح کی مستعدی دکھاتے تو دنیا بھر میں بدنامی کے بعد دفتر کے جلنے کی نوبت نہیں آتی۔
بی جے پی نے سوچا ہوگا کہ دفتر کے شعلوں میں  میتی سماج کی ناراضگی بجھا دیں گے یا پھر سی بی آئی چیف سب کا دماغ درست کردیں گے اور صوبے میں امن قائم ہوجائے گا۔ اس کے بعد پہلے چھپن انچ کا پیٹ لے کر امیت شاہ ریاست کا دورہ کریں گے۔ وہ دورہ جو وہ ہر پندرہ دن میں کرنے کا وعدہ کرکے آئے تھے جو ایک جملہ ثابت ہوا تھا۔ اس کے بعد جب وزیر اعظم کو اطمینان ہوجائے گا تو وہ بھی اپنے چہرے پر جعلی مسکراہٹ سجا کر منی پور کا دورہ کریں گے اور یہ پیغام دیں گے کہ سارے عالم میں امن و امان انہیں کے دم سے ہے۔ پہلے اس دنیا میں منی پور موجود نہیں تھا مگر وقت آنے پر شامل ہوگیا ہے۔ بی جے پی کے یہ خواب بھی اچانک ٹوٹ کر ایسے بکھرے کہ اب مودی-شاہ منی پور کا سپنا بھی نہیں دیکھ سکتے۔ ہوا یہ کہ امپھال کے ہنگانگ علاقے میں وزیر اعلیٰ کے آبائی مکان پر میتی مظاہرین  نے حملے کی کوشش کی۔ یہ چونکہ سرکار دربار کا معاملہ تھا اس لیے سیکیورٹی فورسز بہت چوکس ہوئیں۔ انہوں نے ہجوم کو گھر سے تقریباً 100-150 میٹر دور روک دیا۔ یہ حملہ آور دو گروپوں کی شکل میں مختلف سمتوں سے آئے تھے۔ اس بھیڑ کو منتشر کرنے کے لیے اگر ریپڈ ایکشن فورس (آر اے ایف) اور ریاستی پولیس فورسز نے آنسو گیس کے کئی راؤنڈ فائر نہیں کیے ہوتے، حکام روشنی کو کم کرکے مظاہرین کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے پورے علاقے کی بجلی نہیں  کاٹی ہوتی اور گھر کے قریب اضافی رکاوٹیں نہیں کھڑی کی گئی ہوتیں تو وزیر اعلیٰ کا آبائی مکان جل کر خاکستر ہوگیا ہوتا۔
یہ شرمناک بات ہے کہ گزشتہ چار ماہ میں   ریاست کے ساٹھ ہزار سے زیادہ لوگ راحتی کیمپوں کے اندر بے سرو سامانی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان کی حفاظت کا معقول انتظام کرنے میں ناکام ہونے والے وزیر اعلیٰ کی خالی پڑی ہوئی رہائش گاہ کو بچانے کے لیے اتنے سارے جتن کیے گئے اور اسے بچایا گیا۔ موجودہ کیمپوں سے زیادہ سخت حفاظتی انتظامات ایک خالی مکان کے لیے کئے گئے ہیں۔ وزیر اعلیٰ این بیرین سنگھ تو   چونکہ امپھال کے وسط میں ایک ایسی  محفوظ سرکاری رہائش گاہ کے اندر رہتے ہیں جہاں پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا۔ اس لیے مظاہرین نے ان کے آبائی مکان کا رخ کیا۔ اپنے مقصد میں ناکامی کے بعد مظاہرین نے قریبی سڑک پر ٹائروں کو نذر آتش کرکے اپنا غصہ اتارا بعد میں وہ لوگ ریڈ زون ایریا میں واقع ارکان اسمبلی کے گھروں کی جانب بڑھنے لگے۔ وہاں سے بھی بڑی مشکل سے پولیس نے ان حملہ آوروں کو واپس بھیجا۔ مظاہرین نے پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا میں علاقائی نمائندے کے گھر کو بھی نشانہ بنایا۔
منی پور میں یہ صورتحال دوسری مرتبہ رونما ہوئی ہے۔ امسال 16؍جون کی رات میں بھی  تھونگجو میں بی جے پی کے دفتر پر حملہ کیا گیا تھا۔ اس حملے کے دوران دفتر پر پتھراؤ  کے بعد توڑ پھوڑ کی گئی تھی اور پنکھے توڑ دیے گئے تھے۔ حملہ آوروں نے بی جے پی کے جھنڈوں کو اکھاڑ کر پھینک دیا تھا۔ اس سے قبل 15؍جون کو ایک ہجوم نے امپھال میں مرکزی وزیر مملکت برائے امور خارجہ آر کے رنجن سنگھ کی رہائش گاہ پر توڑ پھوڑ کی تھی۔ شرپسندوں نے اسی رات نیو چیکون میں دو گھروں کو بھی نذر آتش کر دیا جس کے بعد سیکیورٹی فورسز کو آنسو گیس کے گولے چھوڑنے پڑے۔ اس کے علاوہ ہجوم نے 14؍ جون کو امپھال کے لامفیل علاقے میں خاتون وزیر نیمچا کپجن کی سرکاری رہائش گاہ کو بھی آگ لگا دی تھی۔ ڈبل انجن سرکار میں یہ خانہ جنگی کی حالت نہیں تو کیا ہے؟ اس وقت کشیدہ صورتحال کے پیش نظر سابق آرمی چیف نے وزیر اعظم مودی، مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ اور وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ سے فوری توجہ دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ منی پور کے ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل کے ٹویٹ کو ری ٹویٹ کرتے ہوئے سابق آرمی چیف وید پرکاش ملک نے کہا تھا کہ منی پور میں امن و امان کی صورتحال پر اعلیٰ سطح پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے لیکن سرکار کی کان پر جوں تک نہیں رینگی اور حالات بگڑتے چلے گئے۔
بی جے پی کی صوبائی رہنما کو ان لوگوں پر طاقت کے بے دریغ استعمال سے اس لیے گریز کیا جارہا کیونکہ کوکی تو پہلے ہی ناراض ہو چکے ہیں۔ نسلی تشدد کی ابتدا میں کوکی طبقہ کے سبھی 10 اراکین اسمبلی (جن میں برسر اقتدار بی جے پی کے سات رکن شامل تھے) نے این بیرین سنگھ حکومت پر طبقہ کی حفاظت کرنے میں ’بری طرح سے ناکام‘ ہونے کا الزام لگاتے ہوئے اپنے لیے الگ ریاست کے ایڈمنسٹریشن کا مطالبہ کردیا تھا۔ جموں وکشمیر کو تین حصوں میں تقسیم کرنے والی مرکزی حکومت کے وزیر داخلہ اور صوبے کے وزیر اعلیٰ بیرین سنگھ نے قبائلیوں کے لیے الگ ریاست کے مطالبہ کو واضح طور سے خارج کر دیا ہے مگر اس سے بات نہیں بنی۔ یہ سارا کھیل میتیوں کو راضی کرنے کے لیے کیا گیا جن پر کوکیوں کی سرکردہ تنظیم ’کوکی امپی منی پور‘ (کے آئی ایم) نے منصوبہ بند سازش کے تحت قتل و غارتگری کرنے کا الزام لگایا تھا۔ اپنے دعویٰ کے ثبوت میں وزیر داخلہ کو کے آئی ایم جنرل سکریٹری کھیکھورادھ گنگٹے نے خط میں لکھا تھا کہ ایک انٹرویو کے دوران میتی لیپون چیف پرموت سنگھ نے انکشاف کیا کہ انہیں اور ان کی تنظیم کو کوکیوں کے قتل عام کے منصوبہ کے بارے میں جانکاری تھی۔ پرموت سنگھ نے واضح طور سے کوکی قبیلے کو دھمکی دی تھی کہ میتی اب بھی آپس میں مل کر کوکیوں کا صفایا کر سکتے ہیں۔ اس پر بات کر رہے ہیں۔ ایسے میں  اگر میتی بھی ناراض ہو گئے تو بی جے پی کی لٹیا چلو بھر پانی میں  ڈوب جائے گی۔
سرکار کی اس مجبوری کا مشتعل میتی   ہجوم نے خوب فائدہ اٹھایا اور وزیر اعلیٰ کے مکان کے بعد امپھال کے مغربی ضلع میں ڈپٹی کمشنر کے دفتر کے اندر گھس کر خوب توڑ پھوڑ کی۔ ان لوگوں نے وہاں موجود دو گاڑیوں کو بھی آگ لگا دی۔ سیکیورٹی فورسز کی مظاہرین کے ساتھ جھڑپ کے بعد حکام کو امپھال ایسٹ اور ویسٹ کے دو اضلاع میں دوبارہ کرفیو نافذ کر نا پڑا۔ بیرین سنگھ اور بی جے پی کی اس حالتِ غیر کے ویسے تو کئی اسباب ہیں لیکن ان میں سے ایک اصلاح کے دروازوں کو از خود اپنے اوپر بند کرلینا بھی ہے۔ اس کی مثال پریس گلڈ آف انڈیا کی رپورٹ کے ساتھ اس کا سلوک تھا۔ گلڈ کی صدر سیما مصطفی کے ساتھ اس کے   عہدیداروں میں سے سیما گوہا، سنجے کپور اور بھارت بھوشن نے اگست کے پہلے ہفتے میں اپنی جان جوکھم میں ڈال کر تشدد زدہ منی پور کا دورہ کیا تھا۔ وہاں پر متعدد صحافیوں، سول سوسائٹی کے اراکین، تشدد سے متاثرہ خواتین، قبائلی رہنماوں اور سیکورٹی فورسز کے نمائندوں سے ملاقاتیں کرکے رپورٹ تیار کی تھی۔ 24 صفحات پر مشتمل یہ تفتیشی رپورٹ 2؍ ستمبر کو جاری کی گئی۔
پریس گلڈ آف انڈیا کی رپورٹ میں یہ چونکا دینے والا انکشاف کیا گیا کہ منی پور میں تشدد کے دوران ریاست کے صحافیوں نے ایک طرفہ رپورٹیں لکھیں۔ اس کے معنیٰ یہی ہیں کہ حقائق کو بیان کرنے کے بجائے انہیں چھپایا گیا بلکہ سچائی کے نام پر جھوٹ پھیلایا گیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس سے حقیقت سامنے نہیں آئی؟ وہ تو آہی گئی لیکن اگر بروقت آتی تو اس کی روک تھام کی جاسکتی تھی۔ اس زمانے میں جب ظالموں کو لگا ہوگا کہ میڈیا ان کی زیادتی پر پردہ ڈال رہا ہے اور حکومت پشت پناہی کر رہی ہے تو وہ لوگ آپے سے باہر ہوگئے۔ اس طرح انسان کے اندر چھپے درندے کی پرورش کی گئی اور اب وہ اپنے سرپرستوں کو نگلنے پر تُل گیا ہے۔ اس صورت حال کے لیے میڈیا ہاوس کے وہ مدیر بھی ذمہ دار ہیں جنہوں نے مقامی انتظامیہ، پولیس اور دیگر سیکیورٹی فورسز کے ذریعہ ان افواہوں کی تصدیق کرکے انہیں روکنے کی ذمہ داری نہیں ادا کی۔رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ میڈیا ادارے میتی اکثریتی علاقے امپھال میں ہیں اور تشدد کے دوران یہ ’میتی میڈیا‘ میں تبدیل ہوگیا تھا۔ انٹرنیٹ بند ہونے کی وجہ سے پہاڑی علاقوں میں رہنے والے صحافیوں کے لیے اپنے دفتر سے رابطہ کرنا ممکن نہیں تھا لیکن اگر ان کی رپورٹ کسی طرح پہنچ بھی جاتی تھی تو اخبارات اس کے مخصوص حصوں کو ہی استعمال کرتے تھے۔
حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ اسے غور سے پڑھتی اور اس میں جو حقائق پیش کیے گئے تھے ان کی جانب توجہ دیتی۔ ایسا کرنا اس کے اپنے اور ریاست کی عوام کے حق میں بہتر ہوتا لیکن الٹا اس کے بعض نتائج پر منی پور حکومت نے سخت اعتراض کیا۔ اس میں  سہواً ایک جلتے ہوئے مکان کو کوکی قبیلے کے ایک شخص کا بتایا گیا تھا مگر وہ ریاستی حکومت کے ایک محکمے کا دفتر نکلا تو اس پر ہنگامہ کھڑا کردیا گیا۔ ایڈیٹرز گلڈ نے اپنی غلطی تسلیم کر کے رپورٹ میں ترمیم کردی لیکن بد دماغ وزیر اعلیٰ نے پریس کانفرنس طلب کرکے ان چاروں صحافیوں کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کا اعلان کردیا۔ منی پور کی بی جے پی حکومت نے ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا کے چار عہدیداروں کے خلاف ’دو فرقوں کے درمیان منافرت پیدا کرنے‘ سمیت کئی الزامات کے تحت دو کیس دائر کیے تھے ان میں سے ایک ہتک عزت کا معاملہ بھی تھا۔منی پور کی حکومت کی اس دھاندلی پر سپریم کورٹ کو مداخلت کرنی پڑی۔ اس نے صحافیوں کی تنظیم ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا کی عرضی پر ہنگامی سماعت کرتے ہوئے اس کے چار اراکین کے خلاف کسی بھی طرح کی پولیس کارروائی پر فوری روک لگانے کا حکم دے دیا۔اس طرح سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کی صدارت والی تین رکنی بنچ نے چاروں صحافیوں کو عارضی راحت دے کر کینہ پرور اور گھمنڈی وزیر اعلیٰ کو  رسوا کر دیا۔ منی پور کے معاملے میں بی جے پی کی ڈبل انجن سرکار بیک وقت کئی محاذوں پر لڑتے ہوئے پوری طرح سے پنکچر ہوگئی ہے۔ اس معاملے نے وزیر داخلہ امیت شاہ کی ساری ہیکڑی نکال دی ہے کیونکہ کہاں وہ کشمیر میں امن قائم کرنے کا کھوکھلا دعویٰ کر رہے تھے اور کہاں منی پور کے حالات قابو سے باہر ہوگئے!
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)

 

***

 پریس گلڈ آف انڈیا کی رپورٹ میں یہ چونکا دینے والا انکشاف کیا گیا کہ منی پور میں تشدد کے دوران ریاست کے صحافیوں نے ایک طرفہ رپورٹیں لکھیں۔ اس کے معنیٰ یہی ہیں کہ حقائق کو بیان کرنے کے بجائے انہیں چھپایا گیا بلکہ سچائی کے نام پر جھوٹ پھیلایا گیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس سے حقیقت سامنے نہیں آئی؟ وہ تو آہی گئی لیکن اگر بروقت آتی تو اس کی روک تھام کی جاسکتی تھی۔ اس زمانے میں جب ظالموں کو لگا ہوگا کہ میڈیا ان کی زیادتی پر پردہ ڈال رہا ہے اور حکومت پشت پناہی کر رہی ہے تو وہ لوگ آپے سے باہر ہوگئے۔ اس طرح انسان کے اندر چھپے درندے کی پرورش کی گئی اور اب وہ اپنے سرپرستوں کو نگلنے پر تُل گیا ہے۔ اس صورت حال کے لیے میڈیا ہاوس کے وہ مدیر بھی ذمہ دار ہیں جنہوں نے مقامی انتظامیہ، پولیس اور دیگر سیکیورٹی فورسز کے ذریعہ ان افواہوں کی تصدیق کرکے انہیں روکنے کی ذمہ داری نہیں ادا کی۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 08 اکتوبر تا 14 اکتوبر 2023