منی پور کی موجودہ صورتحال نہایت خستہ۔ مرکز جماعت اسلامی ہندکے وفد کا دورۂ منی پور
کوکیوں اور میتیوں کے درمیان دشمنی بڑھتی ہی جا رہی ہے
محمد نوشاد خان
شورش زدہ منی پور میں مسلمانوں کا غیر جانبدارانہ کردار حالات کا رخ موڑ سکتا ہے
حکومت کو مفاد کی سیاست سے اوپر اٹھ کر حالات کا سنجیدگی سے جائزہ لینا ہوگا
منی پور میں تشدد پچھلے کئی مہینوں سے جاری ہے اور عوام خوف و ہراس کے ماحول میں سانس لے رہے ہیں۔ چنانچہ حالات کا جائزہ لینے اور حقائق سے آگاہی کے لیے پچھلے دنوں جماعت اسلامی ہند کے ایک وفد نے منی پور کا دورہ کیا، خوف کے ماحول کو ختم کرنے میں کیا کردار ادا کیا جا سکتا ہے، ان امور پر غور و خوض کیا، وہاں کے ذمہ داروں سے ملاقات کی اور کیمپوں میں رہنے والوں سے ملاقات کرکے انہیں تسلی دی۔
نائب صدر جماعت اسلامی ہند جناب محمد سلیم انجنئیر کی قیادت میں وفد نے منی پور کا دورہ کیا تھا۔ قارئین ہفت روزہ دعوت کی خدمت میں پیش ہے وفد سے لیے گئے انٹرویو کے اقتباسات:
سوال: منی پور میں تشدد کے پس پردہ حقائق کا جائزہ لینے کے بعد آپ کے کیا تاثرات ہیں؟
جواب: ہم نے دونوں مقامی قبائل کے لوگوں سے ملاقات اور بات چیت کی۔ ہمارا سب سے پہلا تاثر یہی رہا ک منی پور کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ منی پور کا پہاڑی علاقہ مکمل طور پر کوکی قبیلے کے زیر اثر ہے جبکہ میدانی علاقہ میتی قبیلے کے قبضے میں ہے۔ یہ ایسی تقسیم ہے کہ کوئی بھی قبیلہ ایک دوسرے کے علاقوں میں آنے جانے کے لیے غیر سرکاری طور پر عائد کردہ پابندیوں سے تجاوز نہیں کرتا۔ اس میں پولیس، انتظامیہ اور ریاستی حکومت کا کوئی عمل دخل بظاہر نظر نہیں آتا۔ منی پور میں 3؍ مئی 2023 کے بعد رونما ہونے والے تشدد کی سب سے بڑی وجہ منی پور ہائی کورٹ کی ریاستی حکومت کو دی گئیں وہ ہدایات ہیں جن میں میتی قبائل کو درج فہرست قبیلے کا درجہ دینے اور انہیں آدی واسی سمجھے جانے کا حکم دیا گیا تھا۔ پہاڑی علاقوں کے آدی واسی کوکی اور ناگا قبائل اس فیصلے کے خلاف تھے۔ چنانچہ 3؍مئی 2023ء کو میتی قبائل کے لوگوں نے کوکی قبائل کے اکثریتی علاقوں کی طرف مارچ کرتے ہوئے وہاں تباہی مچانے کا منصوبہ بنایا۔ کوکی قبائل کو اس منصوبے کا پتہ چل گیا اور انہوں نے ان کے اس ناپاک منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے اپنے آپ کو ہر طرح سے تیار کرلیا۔ آخر کار میتیوں نے میدانی علاقوں میں کوکیوں کے خلاف تشدد کا آغاز کر دیا۔ اس دوران انہوں نے چن چن کر گھروں اور دکانوں کو نذر آتش کرنا شروع کیا۔ فرقہ پرستی، نفرت اور افراتفری کے ماحول میں میدانی علاقوں سے شروع کیا گیا یہ تشدد، آناً فاناً پہاڑی علاقوں میں بھی تیزی سے پھیل گیا۔ میدانی علاقوں کے میتیوں کی جانب سے شروع کیے جانے والے اس تشدد کے جواب میں ان پر جوابی حملہ کیا گیا۔ اس تشدد کو شروع ہوئے چار ماہ گزر جانے کے باوجود مختلف علاقوں میں ایک دوسرے کے خلاف حملوں اور جوابی حملوں میں ہلاکتوں اور آتش زنی کا سلسلہ جاری ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اب تک 198 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ ایک بہت بڑی تعداد زخمیوں کی بھی ہے۔ کوکیوں کے 249 گرجا گھروں کو مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا ہے اور 221 گرجا گھروں پر حملہ کر کے انہیں بھی تباہ کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ تشدد کے دوران 17 مندروں کو بھی تباہ کر دیا گیا۔ مذہبی نفرت کی بنیاد پر برپا کیے گئے تشدد سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں قبائل کے درمیان نفرت اور عداوت کی بنیادیں کتنی گہری ہیں۔ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اس علاقے کے 274 دیہاتوں میں میتی قبائل کے 158 دیہات کوکی قبائل کے 83 اور مخلوط آبادی والے علاقوں کے 33 دیہات مکمل طور پر تباہ ہوچکے ہیں۔ عوام کی طرف سے کل 6523 ایف آئی آر پولیس میں درج کروائی گئیں۔ مہلوک افراد کی کل تعداد 198 ہے جن میں 120 افراد کوکی ہیں اور 78 افراد میتی ہیں۔ منی پور کا ایک مقام کوکتا ہے جہاں زیادہ تر مسلمان آباد ہیں۔ چنانچہ تشدد کے دوران فائرنگ کے نتیجے میں یہاں بسنے والے مسلمان بھی متاثر ہوئے اور آج یہی علاقہ کوکیوں اور میتیوں کے درمیان بفر زون کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔
سوال: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ فساد اچانک رونما ہوا یا منصوبہ بند طریقے پر برپا کیا گیا؟
جواب: ہمارا خیال ہے کہ میتی قبائل نے پہاڑی علاقوں میں دراندازی کرنے کے لیے باضابطہ اور منظم منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔ میتی قبائل کے ذمہ دار اس بات سے پریشان ہیں کہ اکثریت میں ہونے کے باوجود نہایت چھوٹے علاقے میں رہنے پر مجبور ہیں۔ منی پور کا 10 تا 15 فیصد علاقہ میدانی ہے جہاں 55 تا 60 فیصد میتی قبائل آباد ہیں، ان کے علاوہ ان قبائل کے ساتھ مسلمان آبادی بھی میدانی علاقوں ہی میں رہتی ہے۔ ریاست کا 90% حصہ پہاڑی ہے جہاں کوکی اور ناگا قبائل آباد ہیں۔ زیادہ تر کاشت کاری انہیں میدانی علاقوں میں ہوتی ہے جس کی وجہ سے یہاں خوش حالی نمایاں نظر آتی ہے۔ اس کے برخلاف پہاڑی علاقوں میں معاش کا کوئی قابل ذکر ذریعہ نہیں ہے، چنانچہ وہاں کے قبائل آج بھی سطح غربت سے نچلی سطح پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ عدالت کے حکم کے مطابق اگر میتی قبائل کو قانونی طور پر قبائلی درجہ دے دیا جاتا ہے تو وہ پہاڑی علاقوں میں زمینیں خرید سکتے ہیں۔ پہاڑی علاقوں میں رہنے والے آدی واسیوں کو تحفظات بھی حاصل ہیں جس کے تحت پہاڑی علاقوں میں صرف کوکی قبائل ہی رہ سکتے ہیں۔ ایک قابل غور نکتہ یہ ہے کہ میتی قبائل عرصہ دراز سے پہاڑی علاقوں میں غیر قانونی طور پر دراندازی کرکے وہاں آباد ہونے کی مسلسل کوشش کر رہے ہیں۔ چنانچہ 3؍ مئی کو منظم کیے گئے احتجاج کے در پردہ پہاڑی علاقوں کے کچھ حصوں پر کنٹرول حاصل کرنا بھی منصوبے میں شامل تھا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ ریاستی حکومت بھی در پردہ میتی قبائل کی تائید کرتی آرہی ہے۔ اس کے علاوہ عام تاثر بھی یہی پایا جاتا ہے کہ حال ہی میں جاری کردہ عدالت کے حکم کے پیچھے خود حکومت کا ہاتھ ہے۔ یعنی اگر میتیوں کو آدی واسی کا درجہ دے دیا جاتا ہے تو آدیواسیوں کو یہ اندیشہ ہے کہ ایک طرف میتی پہاڑی علاقوں میں زمینیں خرید کر وہاں آباد ہوتے چلے جائیں گے اور درج فہرست قبائل کا درجہ بھی حاصل کرلیں گے، جو آج صرف وہاں کے آدی واسیوں ہی کو حاصل ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ آدی واسی ہرگز یہ نہیں چاہتے کہ میتیوں کو درج فہرست قبائل کا درجہ ملے اور نہ کسی میتی کو پہاڑی علاقوں میں زمین خریدنے کا حق دیا جائے۔ہائی کورٹ کے احکامات کی اجرائی سے پہلے ہی فاریسٹ ایکٹ کے حوالے سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ ان پہاڑی علاقوں کے جنگلات پر کوکیوں نے غیر قانونی قبضہ کر رکھا ہے۔ چنانچہ اسی بنیاد پر انہیں ان پہاڑی جنگلاتی علاقوں سے بے دخل کر کے انہیں یہاں سے نکال باہر کیا جانا چاہیے تاکہ اس طرح میتیوں کو پہاڑی علاقوں میں بھی آباد کیا جاسکے۔ اس کے علاوہ ایک خیال یہ بھی ہے کہ اس کا مقصد محض پہاڑی علاقوں کو ریاست کے اصلی نقشے سے جوڑنے کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا۔ اس سے ہٹ کر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس ساری منصوبہ بندی کا مقصد، کارپوریٹ گھرانوں کو ان علاقوں کا استحصال کرنے اور اس سے مالی فوائد حاصل کرنے کے لیے در پردہ مدعو کرنا تھا۔
سوال: کیا میتیوں کی قبائلی حیثیت دیگر شمال مشرقی ریاستوں کے قبائلی علاقوں کی، جغرافیائی اور آبادیاتی شکل کو متاثر کرے گی، کیوں کہ اندیشہ ہے کہ اس کے نتیجے میں میدانی علاقوں میں رہنے والے دیگر لوگ بھی اپنے لیے قبائلی درجہ اور قبائلی حیثیت دینے کا مطالبہ کریں گے؟
جواب: یقینا! منی پور میں تحفظات کی وجہ سے آدی واسیوں کے لیے ریاست کی ڈیموگرافی اور جغرافیائی بشمول ملازمت کے مواقع پر اثر پڑے گا۔ اگر میتی بھی آدی واسی کا درجہ حاصل کرلیتے ہیں تو تحفظات خود بخود طے ہوجاتے ہیں جس سے آدی واسی علاقوں میں رہنے والے عوام کے روزگار کے مواقع بھی قانونی طور پر مساوی ہوجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ میتیوں کو قبائلی حیثیت دینے سے دیگر شمال مشرقی ریاستوں پر بھی اثر پڑے گا کیوں کہ میدانی علاقوں میں بسنے والے دیگر قبائل، اپنے لیے آدی واسی کی حیثیت اور اسی مناسبت سے تحفظات کا مطالبہ کرسکتے ہیں۔
سوال: آپ اس تشدد کے پس منظر میں مقامی پولیس انتظامیہ اور ریاست حکومت کے رول کو کس حیثیت سے دیکھتے ہیں؟ پھر ایسا کیوں ہے کہ چار مہینے گزر جانے کے باوجود اس نسلی تشدد پر قابونہیں پایا جا سکا؟
جواب: ریاست منی پور کے قبائل میں سماجی تقسیم کی بنیادیں اس قدر گہری اور شدید ہیں کہ خود پولیس، انتظامیہ اور ریاستی حکومت کی رائے بھی کوکی اور میتی قبائل کے معاملے میں منقسم ہے۔ مقامی صورت حال اس قدر کشیدہ ہے کہ کوئی بھی میتی یا کوکی علاقوں میں جا نہیں سکتا۔ یہی صورت حال میتی علاقوں کی ہے جہاں پر کوئی بھی کوکی داخل نہیں ہوسکتا۔ ایسی صورت حال میں پولیس اور انتظامیہ کے وہ عہدہ دار جو کوکی ہیں وہ نفسیاتی طور پر کوکیوں کے ساتھ ہیں اور جو پولیس عہدہ دار میتی ہیں وہ میتیوں کے ساتھ ہیں۔ بالفاظ دیگر خود محکمہ پولیس اور انتظامیہ کے ذمہ داران، عملی طور پر اپنے اپنے قبیلوں کے مفادات کے ساتھ ہیں۔ ہمارے لیے یہ سمجھنا بہت آسان ہوگیا ہے کہ آج منی پور نفرت کی آخری حد تک پہنچ چکا ہے۔ حالیہ تشدد کے بعد کوکی اور میتی قبائل سے تعلق رکھنے والے ہر سطح کے سرکاری افسران اور بیوروکریٹس اپنی حفاظت کی خاطر محفوظ علاقوں میں نقل مکانی کر چکے ہیں۔ تشدد کے دوران پولیس اور انتظامیہ کے افسران کو، جن کا تعلق اس علاقے سے نہیں تھا، انہیں بھی نہیں بخشا گیا ہے بلکہ ان کے گھروں کو بھی نذر آتش کیا گیا۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ منی پور کے ڈائرکٹر جنرل آف پولیس جو کوکی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے، میتی اکثریتی علاقے میں تشدد بھڑکتے ہی حکومت نے فوراً ان کا تبادلہ کردیا۔ آج میتی اکثریتی علاقوں میں ایک بھی کوکی قبیلے کا پولیس افسر نہیں ہے، سب کا تبادلہ کر دیا گیا ہے۔ یہی صورت حال کوکی اکثریتی علاقوں کے پولیس افسروں کی ہے۔ حتی کہ ساری ریاست منی پور میں آج پولیس اور انتظامیہ کے اعلی افسران کو قبیلہ، ذات اور برادری کے نام پر تقسیم کر دیا گیا ہے۔
سوال: آپ نے یقینا اپنے اس دورے کے دوران مقامی لوگوں سے بات چیت کی ہوگی۔ وہ کس طرح کے مطالبات کر رہے ہیں اور کیا ان کے یہ مطالبات قابل عمل اور قابل قبول ہیں؟
جواب: مقامی لوگوں کے ساتھ بات چیت کے دوران ہم نے محسوس کیا کہ دونوں برادریاں ہر قسم کے مسائل کے لیے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا رہی ہیں۔ یہاں تک کہ ان پر دہشت گردی‘ عسکریت پسندی اور منشیات کے کاروبار میں ملوث ہونے کا الزام بھی عائد کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ منشیات کا کاروبار کرنے والوں کے تعلقات برما کے ساتھ استوار ہیں اور وہ برما کے ساتھ مستقل رابطے میں رہتے ہیں۔ جب کسی کوکی سے بات کی جاتی ہے تو وہ میتی کو سارے مسائل کے لیے ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ وہ میتیوں کو کوکیوں کے خلاف ظلم کرنے والے وحشی انسان قراد دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میتی ہمیشہ ہماری زمینوں پر، ہماری دولت پر اور ہمارے سامان پر قبضہ کرنے کی منصوبہ بندی میں لگے رہتے ہیں۔ اس سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ وہ ہماری درج فہرست اقوام کی قانونی حیثیت کو ختم کرنے کے درپے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ منی پور ان کی خانگی آبائی جائیداد ہے جس کی ملکیت پر تصرف کا صرف انہیں کو پورا حق حاصل ہے اور اپنے علاوہ وہ سب کو دوسرے درجے کے شہری اور غیر ملکی سمجھتے ہیں۔ کوکی اور ناگا قبائل صد فی صد عیسائی ہیں، جن میں کہیں بھی کسی قسم کا کوئی بھی فرقہ وارانہ اختلاف نہیں پایا جاتا، جس کی وجہ سے کوکیوں اور میتیوں کے درمیان نفرت کی خلیج دن بہ دن وسیع ہوتی جارہی ہے جس کے نتیجے میں ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ حالیہ تشدد کے دوران، میتی کے غلبے والے امپھال کے علاقوں میں بڑی تعداد میں گرجا گھروں کو تباہ کیا گیا۔ منی پور کے مسلمانوں کو ’’میتی پنگل‘‘ کہا جاتا ہے جن کی آبادی تقریباً 8.5 فیصد ہے، جو ‘میتی قبائل کے ساتھ میدانی علاقوں میں رہتی ہے۔ مسلم آبادی والے اس علاقے کو ’’کوکٹا‘‘ کہا جاتا ہے۔ الحمدللہ ماضی میں بھی اور گزشتہ تشدد کے دوران، مسلمانوں کا کردار بہت عمدہ اور قابل ذکر رہا ہے۔ مسلمانوں نے فوجی سپاہیوں کی مدد سے ان کوکی قبائلی خاندانوں کی بروقت مدد کی جو تشدد کے دوران میتی اکثریتی علاقوں میں پریشانی کے عالم میں زندگی گزار رہے تھے اور خود مسلمانوں نے اپنی جان کا خطرہ مول لیتے ہوئے نہ صرف کوکی خاندانوں کو محفوظ مقامات پر پہنچایا بلکہ انہیں میتی قبائل کے ظلم و ستم سے محفوظ رکھنے کی پوری کوشش بھی کی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ مسلمانوں نے دونوں برادریوں کی یعنی کوکیوں کے علاقوں میں میتیوں کی مدد کی اور میتیوں کے علاقوں میں کوکیوں کی مدد کی، ان کی حفاظت کی اور انہیں محفوظ مقامات تک پہنچایا۔ آج ریاست منی پور میں تقریباً 65 ہزار افراد بے گھر ہوچکے ہیں جو کیمپوں میں اور دیگر محفوظ مقامات پر رہ رہے ہیں۔ مقامی مسلمانوں نے محفوظ مقامات پر رہنے والے دونوں قبائل کے پناہ گزینوں کی مدد کی ہے۔ چونکہ وہ خود میتیوں کے ساتھ رہتے تھے لہذا وہ آسانی سے ان کے پاس جاکر ان کی مدد کیا کرتے تھے۔ ایک خطرناک بات یہ ہے کہ کوکی اور میتی قبائل کے درمیان نفرت اور تقسیم اس قدر شدید ہے کہ اگر میتیوں کو معلوم ہو جائے کہ مسلمانوں نے کوکیوں کی مدد کی ہے تو مسلمانوں پر ہلاکت خیز حملہ ہو سکتا تھا۔ وہ نہیں چاہتے کہ کسی بھی صورت میں کوکیوں تک کوئی مدد پہنچے۔ آج مین لینڈ اور پہاڑی علاقے اتنے منقسم اور الگ تھلگ ہوچکے ہیں کہ پانی، ادویات، غذائی اشیاء یا کوئی بھی ضروری اشیاء آسانی کے ساتھ نہیں پہنچائی جاسکتیں حالاں کہ ریاستی حکومت کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے تھا کہ امدادی سامان، آسانی کے ساتھ ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچایا جاسکے۔ یہ اس لیے کہا جا رہا ہے کہ میتیوں کو ہر طرح کی سہولتیں اور ضروری امدادی سامان پہنچ رہا ہے لیکن کوکیوں کو پہاڑی علاقوں تک کچھ بھی نہیں پہنچ پارہا ہے کیوں کہ میتیوں نے کوکیوں کے تمام راستوں کو بند کر رکھا ہے۔ البتہ کوکیوں کو چار تا پانچ سو کیلومیٹر طویل فاصلہ طے کرنے کے بعد ریاست میزورم اور آسام کی طرف سے کچھ راحت کا سامان پہنچ جاتا ہے۔ منی پور اسمبلی میں جملہ 60 ایم ایل ایز ہیں جن میں کوکیوں کے 10 ایم ایل اے بھی شامل ہیں۔ حال ہی میں اسمبلی کا ایک اجلاس طلب کیا گیا تھا جو صرف 9 منٹ جاری رہا۔ خود کوکیوں کے ایم ایل ایز، جن کی تعداد 10 ہے، بعض وجوہات کی بنا پر آج بھی اسمبلی کے کسی اجلاس میں شرکت کرنے کے موقف میں نہیں ہیں۔ اس کی سب بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ امپھال نہیں جاسکتے۔ اگر وہ وہاں چلے بھی جاتے ہیں تو انہیں ہر وقت اپنی جان کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔ نہ وہ خود اپنا محافظ رکھ سکتے ہیں نہ پولیس انہیں سرکاری تحفظ فراہم کرتی ہے نہ ان کے تحفظ کی کوئی گارنٹی دیتی ہے۔ دوسری طرف حکومت نے فوج کی ہنگامی خدمات کو بھی محدود کر دیا ہے۔ ریاستی حکومت کا کردار بھی امتیازی سلوک پر مبنی ہے کیوں کہ حکومت اور انتظامیہ میں میتیوں کی نمایاں اکثریت ہے اور وہ فطری طور پر یکطرفہ طور پر میتیوں کی حمایت کررہے ہیں اور کوکیوں کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ ویسے بھی ریاست منی پور کے کوکی قبائل عام بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہیں۔ 60 رکنی اسمبلی میں 40 ایم ایل ایز، میتی ہیں جو 4 قبائل سے ہیں۔ 20 ایم ایللوں کا تعلق آدی واسیوں سے ہے اور 10 ایم ایل ایز کوکی قبائل سے تعلق رکھتے ہیں ان میں سے 3 ایم ایل ایز مسلم برادری کے بھی ہیں۔ غیر مصدقہ اطلاعات کے بموجب کچھ عسکریت پسند عناصر اور تشدد پسند گروہ، فرقہ واریت اور نفرت پھیلانے کے لیے پس پردہ کام کر رہے ہیں۔ یہ وہ عناصر ہیں، جنہوں نے برما میں پناہ لے رکھی تھی لیکن اب وہ منی پور پہنچ چکے ہیں اور میتیوں کے غلبے والے علاقوں میں روپوش ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس عسکریت پسند گروہ کا مطالبہ ہے کہ ریاست منی پور کو ایک آزاد ریاست قرار دیا جائے۔ کوکیوں کا ماننا ہے کہ اگر اس علاقے میں فوج متعین کی جاتی ہے تو صورت حال پر قابو پایا جا سکتا ہے لیکن فوج کی نقل و حرکت اور خدمات کو بھی کوکی قبائلی علاقوں تک محدود کر دیا گیا ہے جبکہ میتی قبائل کے علاقوں میں بہت کم تعداد میں فوج متعین کی گئی ہے لیکن متعینہ فوج کوئی بھی کارروائی کرنے کی مجاز نہیں ہے۔ میتی قبائل اپنے علاقوں میں فوج کی موجودگی نہیں چاہتے۔ اس سے قبل تشدد سے پہلے کوکی اور میتی قبائل سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسند گروہ برما میں ایک ساتھ رہتے تھے اور وہاں سے کام کرتے تھے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ میتی قبائل کا عسکریت پسند گروہ برما کی پہاڑیوں میں بھی نہیں جا سکتا چنانچہ اب وہ مین لینڈ میں روپوش ہو چکا ہے۔ اگر یہاں فوج متعین کی جاتی ہے تو فوج ان کا سراغ لگا کر انہیں ہلاک کردے گی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ میتی قبائل اپنے علاقوں میں فوج کی موجودگی ہرگز نہیں چاہتے یہاں تک کہ خود ریاستی حکومت بھی ان علاقوں میں فوج کی خدمات نہیں چاہتی۔ یہ حیران کن بات ہے کہ حالات غیر مستحکم ہونے اور ریاستی حکومت کے ایسی صورت حال پر قابو پانے میں مکمل طور پر ناکام رہنے کے باوجود مرکزی حکومت نے ریاستی حکومت کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی، حتیٰ کہ وزیر اعلی کو بھی تبدیل نہیں کیا گیا۔ دوسری جگہوں پر بھی اسی طرح کی صورت حال کے پیش نظر حکومت نہایت تیزی کے ساتھ کچھ نہ کچھ کارروائی ضرور کرتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ منی پور میں پچھلے انتخابات میں حکومت نے برما سے آنے والے کوکی قبائل کے افراد کو شناختی اور انتخابی کارڈس فراہم کیے تھے جس کی وجہ سے انہوں نے بی جے پی کو ووٹ دیا تھا۔ منی پور کی وزارت میں آج کوکی قبائل کے وزیر شامل ہیں۔
سوال: آپ نے کہا ہے کہ منی پور میں تشدد کے دوران مسلمانوں کا کردار مثبت رہا لیکن یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مسلمان آج بھی کنارے پر ہیں اور خوفزدہ بھی اس کی وضاحت فرمائیں۔
جواب: 1993ء میں مین لینڈ میں میتیوں نے مسلمانوں کے خلاف بہت بڑے پیمانے پر ظلم ڈھایا تھا اور بڑی تعداد میں مسلمان قتل کیے گئے تھے۔ یہ بات مسلمانوں کے ذہنوں میں آج بھی تازہ ہے اور شاید اسی وجہ سے مقامی مسلمان ہمیشہ خوف زدہ اور محتاط زندگی گزار رہے ہیں حالاں کہ مسلمانوں نے میتیوں کی ہر برے وقت میں ہمیشہ مدد کی ہے۔ اگرچہ کہ آج مسلمان میتی قبائل کے ساتھ رہتے بستے ہیں، ان کے ساتھ ان کے سماجی تعلقات بھی خوشگوار ہیں لیکن 1993 کے ہولناک فسادات کی یادیں آج بھی ان کے ذہنوں سے مٹ نہیں سکیں، وہ انہیں مسلسل پریشان کرتی رہتی ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ آج مسلمان جنہیں ’میتی پنگل‘ کہا جاتا ہے، میتیوں کے ساتھ معمول کی زندگی گزار رہے ہیں، نسلی طور پر بھی وہ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ چند شر پسند گروہوں نے مسلمانوں کے خلاف افواہوں کا بازار گرم کرکے صورت حال کا رخ مسلم مخالف تحریک کے طور پر موڑنے کی کوشش کی تھی تاکہ اس قبائلی تشدد کو مسلم بمقابلہ میتی بنایا جاسکے لیکن وہ اپنی اس ناپاک سازش میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ بعض فاشست قوتوں نے منی پور میں اپنی چھوٹی چھوٹی تنظیمیں بنالی ہیں اور اپنے ہندوتوا ایجنڈے پر کام کرنا شروع کر دیا ہے۔ میتی قبائل، بنیادی طور پر ہندو نہیں ہیں۔ دراصل میتی قبیلے کے کسی راجہ نے ہندو مذہب قبول کیا تھا، شاید اسی وجہ سے کچھ عرصے تک میتیوں نے ہندو مذہب کی پیروی کی تھی۔ میتیوں کے مذہب کو ’’سناماہی‘‘ کہا جاتا ہے۔ میتیوں کے اندر بھی ایک تحریک چل رہی ہے جو خود کو کسی صورت میں ہندو نہیں کہلوانا نہیں چاہتے اور وہ اپنے اصلی عقیدے پر عمل کرنا چاہتے ہیں۔ آج مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے پاس وہ قوت ارادی نہیں ہے جو موجودہ دھماکو صورت حال کو قابو میں کرنے یا اس بحران سے باہر نکلنے اور اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ضروری ہے۔ کسی بھی قسم کے سیاسی نقصان سے بچنے کے لیے وہ فوری یا دیر پا حل تلاش کرنے کی عمداً کوئی کوشش نہیں کر رہی ہیں۔ اس سے بھی زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ دونوں برادریوں کا ریاستی اور مرکزی حکومت سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔ تازہ ترین رپورٹ کے مطابق، کچھ میتی قبائل کے افراد نے بھی حکم راں جماعت کے خلاف اپنے غصے کا اظہار کیا ہے افسوس! ریاست منی پور کی صورت حال آج بے حد پیچیدہ ہے۔
سوال: آپ نے کہا کہ ریاست منی پور کے عوام کے لیے ایک دیرپا حل تلاش کیا جانا چاہیے حالاں کہ ہم سب دیکھ رہے ہیں کہ ریاست کے حقیقی باشندے، کسی بھی قسم کی مفاہمت کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس کا کیا مطلب ہے؟
جواب: کسی بھی مسئلے کو ابتدا میں صرف بات چیت کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے۔ مرکزی حکومت کو چاہیے کہ وہ دونوں برادریوں کو اعتماد میں لینے کی کوشش کرے، ان کے مسائل اور مطالبات کو سنجیدگی سے سنے اور پھر کسی بھی قسم کے سیاسی فائدے یا نقصان کے بارے میں سوچے بغیر ان کے جائز مطالبات پر غور کرے۔ قبائل میں آپسی منافرت اتنی گہری ہوچکی ہے کہ کوکی اب مطالبہ کر رہے ہیں کہ ان کے لیے ایک علیحدہ انتظامیہ ہونا چاہیے۔ اب دیکھنا ہوگا کہ کیا یہ کسی ریاست میں قانونی طور پر ایسا کرنا ممکن ہے اور اس کے کیا مضمرات ہوسکتے ہیں؟ کوکیوں کے جو بی جے پی ایم ایل ایز ہیں وہ بھی یہی مطالبہ کر رہے ہیں۔ جب ہم نے دونوں برادریوں کے لوگوں سے پوچھا کہ ان کے خیال میں اس مسئلے کا کیا حل ہونا چاہیے تو انہوں نے خاموشی اختیار کرلی گویا کہ ان کے لیے اس مسئلے کا کسی بھی قسم کا حل ایک سہانا خواب ہے۔ اب حکومت کو خود آگے بڑھ کر قوت ارادی کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور سیاست سے اوپر اٹھ کر کوئی دیر پا حل تلاش کرنا ہوگا تب ہی وہاں امن قائم ہوسکتا ہے اس کے لیے بات چیت ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔ آج بھی منی پور میں امن وامان کے قیام کا کوئی معقول انتظام نہیں ہے، زیادہ تر علاقوں کو جنگی چھاؤنیوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ جگہ جگہ خواتین چیک پوسٹس کی حفاظت کر رہی ہیں اور داخل ہونے کی کوشش کرنے والے ہر فرد کی اچھی طرح سے تفتیش کر رہی ہیں۔ ان کے علاقوں اور گھروں کی حفاظت کے لیے بنکرس بنائے گئے ہیں۔ ان چیک پوسٹس سے وہی لوگ داخل ہو سکتے ہیں جو خواتین کو قائل کرسکیں کہ وہ دوسری برادری کے ایجنٹ نہیں ہیں، یہاں تک کہ خواتین ہی کے ذریعے، گاڑیوں کی نہایت باریک بینی سے جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔ آپ نے اخباروں میں پڑھا ہوگا کہ فسادیوں نے پولیس تھانوں سے اسلحہ اور گولہ بارود لوٹ لیا تھا۔ کچھ تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ انہیں یہ ہتھیار لوٹنے کی اجازت خود پولیس کی طرف سے دی گئی تھی۔
سوال: عموماً ہم دیکھتے ہیں کہ کسی بھی مقام پر تشدد کے بعد مقامی ریاستی حکومت کی طرف سے وہاں بازآبادکاری کا عمل ایک مہینے کے اندر اندر شروع ہو جاتا ہے لیکن منی پور میں چار مہینے گزر جانے کے باوجود سرکاری انتظامیہ بازآبادکاری کی بات تک نہیں کرتا۔ کیا آپ نے کسی قومی یا بین الاقوامی این جی او کو وہاں پر حالات کی بحالی کے لیے کام کرتے ہوئے دیکھا ہے؟
جواب: ہمیں یہ کہتے ہوئے افسوس ہوتا ہے کہ منی پور میں کوکیوں کے 35000 ہزار اور میتیوں کے 30000 ہزار بے گھر افراد کیمپوں میں رہ رہے ہیں، جن میں 14,000 بچے بھی شامل ہیں۔ ان پناہ گزینوں کو نہیں معلوم کہ انہیں کب تک ان کیمپوں میں رہنا پڑے گا۔ ان کیمپوں کی مناسب نگہداشت، غذا پانی کی فراہمی اور صفائی کے انتظامات کے لیے کوئی قومی یا بین الاقوامی ایجنسی وہاں موجود نہیں تھی۔ ہم نے تشدد سے تباہ شدہ گھروں، بازاروں اور دیگر مقامات کو دیکھنے کی کوشش کی لیکن انتظامیہ اور پولیس نے ہمیں اس کی اجازت نہیں دی۔ ان تمام تباہ شدہ مقامات، گلیوں، محلوں اور بازاروں کو حکومت نے سیل کر دیا ہے اور کسی کو بھی حالات کا جائزہ لینے یا نقصان کا اندازہ لگانے کے لیے اندر جانے کے لیے پولیس اجازت دینے سے انکار کر رہی ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ان تباہ شدہ علاقوں کی بازآباد کاری اور امن کی بحالی کا کوئی منصوبہ نہ تو ریاستی حکومت نے پیش کیا ہے نہ کسی بازآبادکار ایجنسی کے پاس کوئی تجویز ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ تشدد پر آج تک مکمل طور پر قابو نہیں پایا جاسکا ہے۔ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی جانب سے بھی اس ضمن میں کسی مخلصانہ کوشش کی کوئی جھلک بھی نظر نہیں آتی۔
سوال: کیا آپ کو لگتا ہے کہ منی پور اور دیگر مقامات پر دونوں برادریوں کی سماجی خدمات والی تنظیموں اور سول سوسائٹیوں کے ذمہ داروں کو منی پور کے عوام تک پہنچنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ وہاں کے بگڑے ہوئے حالات کو معمول پر لانے کی کوشش کی جاسکے؟
جواب: اس بارے میں، میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ قومی یا بین الاقوامی کوئی بھی سماجی تنظیم یا سول سروس سوسائٹی کے ارکان کو منی پور کے تشدد زدہ علاقوں میں جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔ چنانچہ آج بھی منی پور میں کسی ایک مقام سے دوسرے مقام کو جانا نہ صرف مشکل ہے بلکہ خطرے سے خالی نہیں ہے۔ اس بدترین ماحول میں دونوں برادریوں کے درمیان رابطے کی واحد کڑی صرف مسلمان ہیں اور امن کے قیام کے لیے یہی واحد ذریعہ اور امید کی کرن بھی ہیں۔ ایک دلچسپ لیکن عملی تاثر یہ بھی پایا جاتا ہے (جس کے متعلق تفصیلی رپورٹ ہفت روزہ دعوت کے گزشتہ شمارے میں شائع ہوچکی ہے) کہ جو صحافی بھی منی پور جانا چاہتے ہیں انہیں کسی مسلمان ڈرائیور کی خدمات حاصل کرنی پڑتی ہے، تب ہی وہ کوکی یا میتی اکثریتی، دونوں مقامات کا دورہ کرسکتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ حالات کو معمول پر لانے کے لیے ان قبائل کے نمائندوں کی ایک دوسرے سے بات چیت ضروری ہے۔ منی پور بحران کا قابل عمل حل تلاش کرنے کے لیے مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو خلوص کے ساتھ آگے آنا چاہیے جو کہ ناممکن نہیں ہے۔ ریاست منی پور میں قیام امن کی خاطر بات چیت کو کامیاب بنانے کے لیے سماجی تنظیمیں اور سول سوسائٹیاں مستعد ہیں۔
ترجمہ: سلیم الہندی، حیدرآباد۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 17 ستمبر تا 23 ستمبر 2023