
منی پور کے سلگتے ہوئے زخم اور حکومت کی بے حسی
دو برس بعد وزیر اعظم کا دورہ؛ عوام کے زخموں پر نمک پاشی!
ابو عائشہ، حیدرآباد
ساٹھ ہزار بے گھر متاثرین آج بھی ری ہیبلیٹیشن کیمپوں میں مقید کیوں؟ فوری مستقل انتظام لازمی
وزیر اعظم نریندر مودی نے بالآخر دو برس سے زائد عرصہ بعد منی پور کا دورہ کیا۔ لیکن یہ دورہ عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے محض ایک نمائشی قدم ثابت ہوا۔ انہوں نے بڑے دعوے کے ساتھ کہا کہ ’’جو لوگ ریاست میں امن قائم نہیں کر سکتے انہیں حکومت کرنے کا کوئی حق نہیں‘‘۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ اٹھائیس ماہ سے جاری بحران میں انہی کی حکومت کی مجرمانہ خاموشی اور جانب دارانہ رویے نے حالات کو خانہ جنگی کی شکل دے رکھی ہے۔
جب ریاست جل رہی تھی تو وزیر اعظم دہلی کی خاموش فضاؤں میں چھپے بیٹھے رہے یا پھر کسی بیرون ملک دورے پر چلے گئے۔ جب منی پور جل رہا تھا وہ کمبھ کرن کی نیند سو رہے تھے۔ تعجب خیز بات یہ ہے کہ اس مسئلہ پر ایک بیان تک جاری نہیں کیا۔ اس کے برعکس اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی فوری طور پر منی پور پہنچے، متاثرین سے ملاقات کی اور راحتی کیمپوں کا جائزہ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کو زبردست شکست ہوئی اور دونوں سیٹیں کانگریس نے جیت لیں۔ عوام نے صاف پیغام دیا کہ جو ان کے دکھ درد میں شریک نہ ہو، اسے اقتدار پر قابض رہنے کا کوئی حق نہیں۔
مودی کا تاخیر سے کیا جانے والا دورہ نہ صرف بے معنی ہے بلکہ مضحکہ خیز بھی دکھائی دیتا ہے، کیونکہ منی پور کے اصل مسائل تو اپنی جگہ جوں کے توں برقرار ہیں۔ گزشتہ دو سالوں میں مرکزی حکومت نے ان مسائل کو حل کرنے کے لیے کسی بھی قسم کی سنجیدہ کوششیں نہیں کیں، یہی وجہ ہے کہ وہ مسائل اپنی جگہ برقرار ہیں، ان میں سے چند بڑے مسائل کا یہاں تذکرہ کرنا ضروری ہے:
1۔ اسلحے کی لوٹ مار اور ریاستی رٹ کی شکست
مئی 2023 میں یہ بات سب نے اخبارات اور ٹی وی چینلوں کے ذریعے سنی تھی کہ سرکاری اسلحہ خانوں سے چھ ہزار سے زائد جدید ہتھیاروں پر عسکریت پسندوں نے قبضہ کر لیا ہے۔ جن میں اے کے 47 سے لے کر مارٹر گن تک عوام کے ہاتھوں میں پہنچ گئے ہیں۔ پھر اس اسلحے کا کیا ہوا؟ کیا وہ اسلحہ واپس لیا گیا؟ اس کی کوئی خبر نہیں آئی۔ معلوم یہ ہوا ہے کہ آج تک وہ اسلحہ واپس نہیں لیا جا سکا۔ جب ریاستی رٹ ہی غائب ہو تو امن قائم ہونے کا کیا سوال؟
2۔ مظلومین کے لیے انصاف کا فقدان
خاص طور پر کوکی – زو برادری ظلم و زیادتی کا شکار رہی۔ ان کے گھروں کو جلایا گیا، ان کو اپنی زمینوں سے بھگایا گیا، ان کی خواتین کی بے حرمتی کی گئی، قتل کیا گیا، فصلوں کو تباہ و برباد کیا گیا، ان کے ساتھ ہونے والے ظلم کا کیا ہوا؟ حالت یہ ہے کہ مجرم آج بھی حکومت کی سرپرستی میں آزاد گھوم رہے ہیں۔ ثبوت موجود ہونے کے باوجود مرکزی تفتیشی ایجنسیاں ٹال مٹول سے کام لے رہی رہیں۔ بھلا بتائیے کہ انصاف کے بغیر امن کیسے قائم ہو سکتا ہے؟
3۔ ذات پات اور نسلی تقسیم کی سیاست
آج منی پور عملاً دو حصوں میں تقسیم ہوچکا ہے، امپھال وادی میں میئتی قبیلے کی اکثریت پائی جاتی ہے، جبکہ پہاڑی علاقوں میں کوکی قبائل آباد ہیں۔ فوج اور نیم فوجی دستے دونوں علاقوں کے درمیان سرحد کھینچنے میں مصروف ہیں۔ یعنی ایک ہی ریاست میں دو انتظامیہ وجود میں آچکے ہیں، وہ بھی نسلی بنیادوں پر، جب کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دونوں قبائل کے سربراہوں کو ایک جگہ بٹھاتے ان کے اندر صلاح کرواتے، حکومت کی نگرانی میں کوئی معاہدہ طے پاتا، لیکن حکومت نے دو الگ انتظامیہ کو تسلیم کرلیا ہے۔
4۔ این بیرین سنگھ کا آڈیو اسکینڈل
سابق وزیر اعلیٰ کے خلاف آڈیو ریکارڈنگ منظر عام پر آئی جس میں انہیں ہتھیاروں کی لوٹ مار اور تشدد کی پشت پناہی کرتے ہوئے سنا جا سکتا ہے۔ مگر مرکزی حکومت ان کی پردہ پوشی میں لگی ہوئی تھی جس پر عدالت عظمیٰ نے اپنی سخت ناراضگی کا اظہار کیا تھا، لیکن انصاف کا عمل اب بھی تعطل کا شکار ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مرکزی حکومت اپنے مجرم وزیر اعلیٰ کو بچانے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے، اسی لیے سماعت مسلسل التواء میں ہے۔
5۔ سرحدی باڑ اور فری مومنٹ رجیم کا خاتمہ
میانمار سے متصل سرحد پر برسوں سے فری مومنٹ رجیم کے تحت مقامی باشندوں کو آمد و رفت اور معمولی تجارت کی اجازت حاصل تھی۔ مگر مودی حکومت نے مقامی باشندوں کو اعتماد میں لیے بغیر "قومی سلامتی” کے نام پر اس سہولت کو ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے جس سے ناگا اور کوکی قبائل میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔
6۔ ناگا معاہدے کی ناکامی
مودی نے 2015 میں ناگا گروپوں سے فریم ورک ایگریمنٹ پر دستخط کیے تھے، لیکن نو برس گزرنے کے باوجود اس میں کسی قسم کی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ آج ناگا برادری میں شدید مایوسی پھیلی ہوئی ہے اور وہ حکومت اور بالخصوص وزیر اعظم مودی کے وعدوں پر اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
7۔ پوست کی غیر قانونی کاشت اور منشیات کا کاروبار
منی پور منشیات کے عالمی نیٹ ورک کا حصہ بن چکا ہے۔ ہزاروں غریب کسان اپنی روزی روٹی کے لیے پوست یعنی (پپی سیڈس) کی کاشت پر مجبور ہیں۔ بجائے اس کے کہ حکومت متبادل معاشی مواقع فراہم کرتی، وہ انہیں "غیر قانونی” اور "غیر ملکی” قرار دے کر پورے طبقات کو نشانہ بنا رہی ہے۔
8۔ انٹرنیٹ بلیک آؤٹ
منی پور دنیا کا سب سے طویل انٹرنیٹ بلیک آؤٹ کا علاقہ بنا ہوا ہے۔ اس انٹرنیٹ بلیک آؤٹ کی وجہ سے تعلیم، کاروبار، صحافت، سب پر اس کا منفی اثر پڑا ہے۔ انٹرنیٹ بلیک آؤٹ کی اصل وجہ منی پور میں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالیوں کو چھپانا ہے، اکیسویں صدی میں انٹرنیٹ بند رکھنا نو آبادیاتی ہتھکنڈے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔
9۔ بے گھر عوام کی باز آبادکاری
ساٹھ ہزار سے زائد لوگ آج بھی راحت گھروں یعنی ری ہیبلیٹیشن کیمپوں میں پڑے ہوئے ہیں، ان کیمپوں میں سہولتوں کا فقدان پایا جاتا ہے۔ یہ لوگ کیمپوں میں رہنے کے لیے اس لیے مجبور ہیں کیوں کہ ان کے گاؤں جل چکے ہیں، ان کی عبادت گاہوں کو اور چرچوں کو تباہ کردیا گیا ہے۔ حکومت کے پاس کوئی واضح پالیسی نہیں کہ انہیں کب اور کیسے ان کے اپنے گھروں میں واپس بسایا جائے گا۔ اس طرح کیمپوں میں رہنے والے لوگ دوسری بار ظلم کا شکار ہوئے ہیں، پہلی بار فسادات میں اور دوسری بار اب حکومتی بے حسی کی وجہ سے۔
یہی وہ مسائل ہیں جس میں منی پور آج بھی جل رہا ہے، ان مسائل کو حل کیے بغیر منی پور میں امن قائم ہونا ممکن نہیں۔
منی پور کا بحران صرف ایک ریاستی مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ پورے ہندوستان کے جمہوری ڈھانچے پر سوالیہ نشان بنا ہوا ہے۔ یہ بحران ذات پات کی سیاست، اکثریتی بالادستی، اقلیتوں کے حقوق کی پامالی اور وفاقی ڈھانچے کی کمزوری کو واضح طور پر عیاں کرتا ہے۔ مودی حکومت کا اصل چہرہ یہی ہے، بحران کو طول دینا، متاثرین کو نظر انداز کرنا اور میڈیا کے ذریعے ایک جھوٹی تصویر عوام کے سامنے پیش کرنا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ منی پور کی سرزمین پر آج بھی نسلی تقسیم، ذات پات کی تفریق، خون ریزی اور بے اعتمادی کا راج ہے۔
ایسے میں وزیر اعظم مودی کا دورہ ایک نمائشی اقدام سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ منی پور کو محض انتخابی جمع خرچ یا قومی سلامتی کے بیانیے میں قید کرنا ہندوستان کی سالمیت کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ منی پور کو انصاف فراہم کیا جائے، لوٹے گئے اسلحے کو واپس لیا جائے، انٹرنیٹ بحال کیا جائے اور سب سے بڑھ کر اقوام اور برادریوں کے درمیان اعتماد قائم کیا جائے۔ اگر مودی حکومت واقعی "سب کا ساتھ سب کا وکاس” کے نعرے پر یقین رکھتی ہے تو اسے منی پور کے مظلومین کو بھی ہندوستانی شہری مان کر ان کے ساتھ انصاف کرنا ہوگا ورنہ تاریخ کے صفحات میں مودی حکومت کو بھی ان حکم رانوں کی صفوں میں لکھا جائے گا جو اپنی رعایا کے آنسوؤں سے بے نیاز رہتے ہیں۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 21 اگست تا 27 اگست 2025