مندر ۔مسجد تنازع پر سپریم کورٹ کا عبوری فیصلہ،امید افزاء
ورشپ ایکٹ کا ساتھ اگر ختم کیا گیا تو ملک میں انارکی پھیلنے کا خطرہ
نوراللہ جاوید
سیاست دانوں کے دوہرے معیارات ۔ آئین کا حوالہ، مگر اقلیتوں کے آئینی حقوق کی پامالی!
800مساجد کی فہرست سازی، سنگھ پریوار تاریخ دوبارہ لکھنے کے لیے کوشاں
اس ہفتے کے اختتام پر آئین کی 75ویں سالگرہ کے موقع پر دو دنوں تک پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس کے دوران ممبرانِ پارلیمنٹ نے آئین کے مستقبل کے امکانات اور خدشات پر کھل کر گفتگو کی، لیکن وزیرِ اعظم مودی کی ایک گھنٹے سے زائد طویل تقریر میں وہی پرانی باتیں، دعوے، نہرو-گاندھی خاندان پر تنقیدیں اور ایمرجنسی کے طعنے کے علاوہ 11 نکاتی فارمولا شامل تھا، جس پر نہ خود انہوں نے، نہ ان کی پارٹی نے عمل کیا۔ اس لیے ان کی تقریر زیادہ قابلِ اعتنا نہیں رہی۔اس بحث کے آغاز میں ہی وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ نے آئین کے معماروں میں ساورکر کے نام کا شمار کرکے یہ ثابت کر دیا کہ ان کی پارٹی اور حکومت کی ترجیحات کیا ہیں۔ یہ کسی مضحکہ خیزی سے کم نہیں کہ ایک ایسے شخص کو آئین سازی کا کریڈٹ دیا جائے جو خود کبھی آئین کا احترام نہیں کرتا تھا اور جس کی مکمل سوچ اقلیت مخالف اور منوسمرتی پر مبنی تھی۔تاہم، راہل گاندھی، پرینکا گاندھی اور اکھلیش یادو کی تقاریر بہت ہی خاص اور اہم تھیں کیونکہ ان لوگوں نے آئین کے بنیادی اصولوں کو معاصر بھارت سے موازنہ کرتے ہوئے اپنی تشویش اور اندیشوں کو سامنے رکھا۔گزشتہ دس برسوں کے دوران شاید یہ پہلا موقع تھا کہ سیکولر جماعتوں نے اپنے مسلم ممبرانِ پارلیمنٹ کو کھل کر بولنے کا موقع دیا۔ سماج وادی پارٹی کی اقرا حسن، ضیاء الرحمن برق، کانگریس کے عمران مسعود اور محمد جاوید نے معاصر بھارت میں اقلیتوں، بالخصوص مسلمانوں کے حالات پر آئین کے بنیادی دفعات کے حوالے سے کھل کر اظہار خیال کا۔ اس سے قبل یہ سارا بوجھ اسدالدین اویسی کے کندھوں پر ہوتا تھا۔ مسلم ممبرانِ پارلیمنٹ کی تقاریر کا الگ سے تجزیہ کیا جانا ضروری ہے۔ تاہم ان تقاریر میں سنبھل سانحہ اور عبادت گاہوں کے مستقبل کو لے کر فکرمندی کا اظہار مشترک تھا۔ اسی ہفتے چیف جسٹس سنجیو کھنہ کی قیادت والی تین رکنی بینچ نے دی پلس آف ورشپ ایکٹ 1991 کے آئینی جواز پر فیصلہ آنے تک مذہبی مقامات سے متعلق مقدمات کی سماعت اور زیرِ التوا معاملات میں کوئی مؤثر احکامات جاری کرنے سے روک لگا دی ہے۔
یہ عبوری فیصلہ بہت بڑی راحت ہے۔ تاہم پنڈورا باکس مستقل طور پر بند نہیں کیا گیا۔ عدالتِ عظمیٰ نے ’’دی پلس آف ورشپ ایکٹ‘‘ (عبادت گاہ ایکٹ 1991) کے آئینی جواز کے خلاف دائر درخواستوں پر مرکزی حکومت سے چار ہفتوں میں حلف نامہ طلب کیا ہے۔ اس کے بعد دیگر فریق اپنے جوابات داخل کریں گے۔ مرکز کی خاموشی اس مسئلے پر سیاسی عزائم کی عکاسی کرتی ہے۔ اس معاملے کو طول دینے کی حکمت عملی کسی خاص ووٹ بینک کو خوش کرنے کے لیے اپنائی گئی لگتی ہے، جبکہ اقلیتوں کی تشویشات کو دانستہ طور پر نظر انداز کیا جا رہا ہے۔یہ امر واضح ہے کہ ایک طرف حکومت آئین کا حوالہ دیتی ہے، دوسری طرف آئینی اصولوں کی خلاف ورزی کرتی ہے۔ خاص طور پر اقلیتوں کی عبادت گاہوں اور ان کی تاریخی شناخت کو مٹانے کی کوششیں اس دہرے معیار کی عکاسی کرتی ہیں۔
اب جب کہ اس ایکٹ کے ہوتے ہوئے صورت حال یہ ہے تو تصور کیا جاسکتا ہے کہ اگر سپریم کورٹ اس ایکٹ کے آئینی جواز کو ختم کر دے تو پھر اس کے بعد کیا کچھ ہوگا۔ سنبھل میں شاہی مسجد کے سروے کے احکامات کن ماحول اور حالات میں دیے گئے، اس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ تاہم سوال یہ ہے کہ سنبھل کی عدالت کو اس طرح کی ہدایت دینے کی جرأت کہاں سے حاصل ہوئی؟ یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کہ ’’دی پلیس آف ورشپ ایکٹ 1991‘‘ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ 15 اگست 1947 سے قبل موجود عبادت گاہوں کی ملکیت اور حیثیت میں تبدیلی نہیں کی جائے گی۔اس کے باوجود آر ایس ایس اور سنگھ پریوار مسلمانوں کی 700 سالہ حکومت کو ظالم و جابر قرار دینے کے بیانیے کو صحیح قرار دینے کے لیے عدالتوں سے رجوع کر کے سروے کی اجازت لے رہے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ہندوؤں پر مظالم کیے گئے عبادت خانوں پر قبضہ کر لیا گیا، اور انہیں توڑ کر مساجد میں تبدیل کر دیا گیا۔ اس سے ان کے ارادے واضح ہیں اور عدالت بھی اس حقیقت سے واقف ہے کہ بات صرف سروے تک محدود نہیں رہے گی۔ سوال صرف ایک یا دو مساجد کا نہیں ہے بلکہ ان کے پاس ایک بڑی فہرست ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ 800 مساجد کی نشان دہی کی گئی ہے، مگر یہ کوئی حتمی تعداد نہیں ہے۔ ہر کسی کی اپنی اپنی فہرست ہے۔سوال یہ ہے کہ نچلی عدالتیں، سروے کی اجازت کو برقرار رکھنے والی ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ مسجد، مندر اور تاریخ کی پیچیدگیوں کے پنڈورا باکس کو کیوں کھولنا چاہتی ہیں؟ انہیں اس کا ادراک کیوں نہیں ہے کہ اگر یہ پنڈورا باکس کھل گیا تو پورا ملک کھود دیا جائے گا اور یہ سلسلہ لامتناہی ہو جائے گا۔ اس کے بعد اس کو روکنا مشکل ہو جائے گا۔جسٹس چندر چوڑ ان ججوں میں سے ایک تھے جنہوں نے بابری مسجد ملکیت کا فیصلہ لکھا اور عقیدے کی بنیاد پر رام مندر کے حق میں فیصلہ سنایا۔ تاہم اسی فیصلے میں پانچ ججوں کی بنچ نے ’’دی پلیس آف ورشپ ایکٹ‘‘ کی اہمیت اور ضرورت پر زور دیا۔ اس کے باوجود جسٹس چندر چوڑ کا یہ تبصرہ ملک کے عدالتی نظام پر ایک خاص ذہنیت کے افراد کے غلبے کی عکاسی کرتا ہے۔بابری مسجد کے معاملے سے قبل اسماعیل فاروقی کیس میں بھی سپریم کورٹ کے ججوں نے ’’دی پلیس آف ورشپ ایکٹ‘‘ کے حق میں مثبت تبصرے کیے تھے۔ اس پورے معاملے میں ’’دی پلیس آف ورشپ ایکٹ‘‘ پر مرکزی حکومت کی سوچ کیا ہے؟ اگرچہ تحریری طور پر واضح نہیں ہے لیکن اس پوری ہنگامہ آرائی کے دوران مرکزی حکومت کی خاموشی اور ان کے ہم نظریات و فکر کے افراد کے ذریعے عدالتوں سے سروے کی اجازت مانگنا اور یوگی آدتیہ ناتھ کی زہر افشانی یہ بتاتی ہے کہ مرکزی حکومت اپنے لوگوں کے ذریعے اس ایکٹ کی ضرورت اور اہمیت کو غیر مؤثر کرنا چاہتی ہے۔کیونکہ اس ایکٹ کو چیلنج کرنے والے اور مساجد کے سروے کے لیے ملک کی نچلی عدالتوں سے رجوع کرنے والے سب کے سب بھاجپائی ذہنیت کے پروردہ ہیں۔ جسٹس کھنہ کی قیادت والی بینچ میں عبوری ہدایت جاری کیے جانے کی مخالفت جہاں اس ایکٹ کو چیلنج کرنے والے وکلا نے کی، وہیں مرکزی حکومت کی طرف سے پیش ہونے والے سالیسٹر جنرل آف انڈیا تشار مہتا نے عبوری حکم نامہ کی مخالفت کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ کوئی بھی اجنبی جو اس معاملے میں مقدمے کا فریق نہیں ہے، عدالت کے سامنے پیش نہیں ہو سکتا اور اس پر روک لگانے کی درخواست نہیں کر سکتا۔اس مقدمے کی سماعت کے دوران ایک موقع ایسا بھی آیا جب چیف جسٹس سنجیو کھنہ کو خبردار کرنا پڑا کہ اگر انہیں عدالت میں آرڈر پاس کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تو وہ اس فیصلے کو اپنے چیمبر سے پاس کریں گے۔
اگرچہ جسٹس کھنہ کی قیادت والی بینچ کا یہ قدم عبوری ہے مگر نہایت ہی تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ سماعت کے دوران جسٹس وشواناتھ نے جن نکات کی طرف توجہ دلائی ان سے امید کی ایک شمع روشن ہوئی کہ اس ایکٹ کے آئینی جواز پر بحث کا آغاز ہوگا اور ججوں کے سامنے تمام ضروری حقائق موجود ہوں گے۔عبوری فیصلے میں دو اہم ہدایات جاری کی گئی ہیں:اگلے احکامات تک ملک میں کسی بھی عبادت گاہ کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں سنا جائے گا۔پہلے سے زیر التوا مقدمات میں بھی عبادت گاہوں کے سروے کے احکامات یا کوئی حتمی فیصلہ جاری نہیں کیا جائے گا۔ظاہر ہے کہ اس فیصلے کے نتیجے میں گیان واپی، متھرا، اجمیر اور دہلی کی جامع مسجد سے متعلق عرضیاں وقتی طور پر غیر مؤثر رہیں گی۔ اس عبوری حکم نامے سے کم از کم عارضی طور پر مسلمانوں کی عبادت گاہوں پر مسلسل حملے رکنے کا امکان ہے۔تاہم، کچھ خدشات اور اندیشے بدستور باقی ہیں۔ جب مرکزی حکومت کی یقین دہانی اور عدالت کی سخت ہدایات کے باوجود ایک مشتعل ہجوم نے بابری مسجد شہید کر دی تو کیا یہ یقین دہانی ممکن ہے کہ حکومتیں یا نچلی عدالتیں عدالت عظمیٰ کی ہدایات کو نظر انداز نہیں کریں گی؟ یہ خدشات اس لیے بھی مضبوط ہیں کہ پرانے کریمنل لا ’’انڈین پینل کوڈ‘‘ (IPC) میں مذہب سے متعلق جرائم سے نمٹنے کے لیے متعدد دفعات شامل ہیں، جیسے دفعہ 295۔ اس دفعہ کے مطابق کسی بھی عبادت گاہ یا مذہبی جذبات کو نقصان پہنچانا قابلِ سزا جرم ہے۔ مزید برآں، دفعہ 295A بدنیتی یا دانستہ طور پر کسی طبقے کے مذہبی جذبات کو مشتعل کرنے پر سزا کا تعین کرتا ہے۔سوال یہ ہے کہ ان دفعات کی موجودگی میں ان کی خلاف ورزی پر کتنے افراد کو سزا دی گئی؟ 1994 میں ایک مقدمے کی سماعت کے دوران، مرکزی حکومت نے عدالت عظمیٰ کو یقین دہانی کرائی تھی کہ ایودھیا جیسا واقعہ دوبارہ پیش نہیں آئے گا۔ اس پر عدالت نے ریمارکس دیے تھے کہ اگر IPC کی دفعات 295 اور 295A ایسے اقدامات کو روکنے میں ناکام رہیں تو ورشپ ایکٹ 1991 سے یہ توقع رکھنا کہ وہ شرپسندی کو مکمل طور پر روک دے گا، ایک مشکل تصور ہے۔
ورشپ ایکٹ 1991: معاصر بھارت میں اس کی ضرورت کیوں؟
ورشپ ایکٹ کی ضرورت کیوں ہے؟ اگر عدالت اس ایکٹ کے آئینی جواز کو تسلیم نہیں کرے گی تو اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ ہندتوا تنظیمیں اس ایکٹ کی مخالفت کیوں کر رہی ہیں؟
یہ سوالات 1991 کے اس پس منظر میں زیادہ اہم ہو جاتے ہیں جب رام جنم بھومی تحریک اپنے عروج پر تھی۔ اس وقت ملک بھر میں فرقہ وارانہ کشیدگی کا ماحول تھا اور ’پہلے رام مندر لیں گے، پھر متھرا اور کاشی کا نمبر آئے گا‘ جیسے نعروں سے فضا گونج رہی تھی۔ اڈوانی کی رتھ یاترا نے حالات مزید پراگندہ کر دیے تھے۔ ایسے وقت میں وزیر اعظم پی وی نرسمہا راؤ کی قیادت میں کانگریس حکومت نے اس ایکٹ کو متعارف کروایا۔
اس بل کو لوک سبھا میں پیش کرتے ہوئے اُس وقت کے وزیر داخلہ ایس بی چوان نے کہا تھا:
’’عبادت گاہوں کی تبدیلی پر پابندی لگانا اور ان کے مذہبی کردار کو برقرار رکھنا، جیسا کہ یہ 15 اگست 1947 کو موجود تھا، وقت کی ضرورت ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس بل کا نفاذ فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور خیر سگالی کو بحال کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔‘‘
سی پی آئی ایم کی سابق ایم پی مالنی بھٹاچاریہ نے اس موقع پر کہا:
’’15اگست 1947ایک اہم تاریخ ہے کیونکہ یہ وہ دن ہے جب ہم ایک جدید، جمہوری اور خودمختار ریاست کے طور پر ابھرے۔ اس تاریخ نے ہمیں ماضی کی استعماری قوتوں کی بربریت سے آزادی دلوائی اور تمام مذہبی فرقوں کو مساوی حقوق فراہم کیے۔ اس تاریخ سے پہلے جو کچھ بھی ہوا، وہ ماضی کا حصہ ہے اور ہمیں اس سے سبق لے کر مستقبل کی تعمیر پر توجہ دینی چاہیے۔‘‘
بھارت کی تاریخ پیچیدہ اور تنازعات سے بھری ہوئی ہے۔ استعماری دور کے مصنفین نے دانستہ طور پر ہندو مسلم تعلقات کو متاثر کرنے اور دونوں کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی کوشش کی۔ قوم کے معماروں نے ماضی کی تلخیوں کو پس پشت ڈال کر مستقبل کی تعمیر کا فیصلہ کیا، مگر کچھ قوتیں ایسی ہیں جو ماضی کی تلخیوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔
تین سال قبل جسٹس ارون مشرا کی قیادت والی بینچ نے دو مختلف این جی اوز کی طرف سے دائر کی گئی عرضیوں کو مسترد کر دیا تھا۔ ان عرضیوں میں ایودھیا کے مقام سے دریافت شدہ نوادرات کو محفوظ کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔ بنچ نے اس اقدام کو ایودھیا تنازعہ کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش قرار دیتے ہوئے درخواست گزاروں پر جرمانہ عائد کیا۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایودھیا کے معاملے میں ماضی کو زندہ کرنا غلط ہے تو دوسری مساجد اور تاریخی عمارتوں کے معاملے میں یہ اصول کیوں نافذ نہیں ہوگا؟
ورشپ ایکٹ کے اہم نکات
ورشپ ایکٹ کے سیکشن 3 میں کسی عبادت گاہ کو مکمل یا جزوی طور پر کسی دوسرے مذہبی فرقے میں تبدیل کرنے سے روکا گیا ہے۔ سیکشن 4 (1) اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ عبادت گاہ کی مذہبی شناخت 15 اگست 1947 کو جو تھی، وہ برقرار رہے گی۔ سیکشن 5 میں واضح کیا گیا ہے کہ یہ قانون رام جنم بھومی-بابری مسجد کیس پر لاگو نہیں ہوگا۔
ورشپ ایکٹ کا بنیادی مقصد عبادت گاہوں کے مذہبی کردار کو برقرار رکھنا اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینا ہے۔ اس ایکٹ کے تحت 15 اگست 1947 کو موجودہ صورت حال کو قانونی تحفظ دیا گیا ہے۔ اس قانون کے نفاذ کے ساتھ ہی دیگر عبادت گاہوں کے حوالے سے تمام قانونی تنازعات ختم ہو جاتے ہیں۔
ورشپ ایکٹ کی موجودگی اس لیے ضروری ہے کہ یہ ماضی کے تنازعات کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوششوں کو روکتا ہے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ تاہم، اس کی مخالفت اور عدالت میں چیلنجز اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ ملک میں کچھ قوتیں مذہبی معاملات کو اپنے سیاسی فائدے کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔
اس ایکٹ کے دفعہ 4 کے سیکشن 3 میں بابری مسجد کے علاوہ ان تاریخی عمارتوں کو مستثنیٰ کیا گیا ہے جو آثاریات کے تحت آتی ہیں اور سرجیکل سروے آف انڈیا نے اپنی تحویل میں لیا ہے۔ اس ایکٹ کی اسی استثنیٰ کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جا رہی ہے، چنانچہ جامع مسجد دہلی کے سروے کے لیے سرجیکل سروے آف انڈیا کو خط لکھا گیا، مگر سوال یہ ہے کہ کیا سرجیکل سروے آف انڈیا کے پاس یہ اختیارات ہیں کہ وہ کسی بھی تاریخی اور قدیم مذہبی مقامات کے کردار کو تبدیل کر دے؟ اس کے لیے ملک میں The Ancient Monuments and Archaeological Sites and Remains Act 1958 کا قانون موجود ہے۔ ’’قدیم یادگاروں اور آثاریات کے مقامات اور باقیات ایکٹ، 1958 (AMASR ایکٹ)‘‘ کی خلاف ورزی ہے۔ اس ایکٹ میں کہا گیا تھا کہ اگر کوئی تاریخی عمارت جسے سرجیکل سروے آف انڈیا اپنی تحویل میں لیتا ہے، اگر وہ عمارت کوئی عبادت گاہ ہے اور اس میں عبادت جاری ہے، تو سرجیکل سروے آف انڈیا ایسا کوئی بھی کام نہیں کر سکتا جو اس کے مذہبی کردار کو تبدیل کرے، وہ عمارت کسی اور مقصد کے لیے استعمال نہیں ہوگی۔ اسی ایکٹ کے سیکشن 22 میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی سِول کورٹ کو اختیار نہیں ہوگا کہ وہ ایسے معاملے میں کوئی ہدایت جاری کرے جس میں سرجیکل سروے آف انڈیا کو اختیارات حاصل ہیں۔ تین رکنی بنچ میں شامل جسٹس وشونا تھن اس معاملے کی سماعت کرتے ہوئے ان سوالات کو اٹھاتے ہیں کہ اگر ورشپ ایکٹ کو الگ درکنا کر دیا جائے تو بھی قدیم یادگاروں اور آثاریات کے مقامات اور باقیات ایکٹ کے تحت کسی بھی تاریخی مذہبی مقام کے کردار کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔
سپریم کورٹ کے فیصلوں میں دو ایسے مواقع آئے ہیں جن میں معزز جج صاحبان نے اس ایکٹ کی اہمیت پر روشنی ڈالی ہے۔ بابری مسجد کی ملکیت سے متعلق فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ ’’1991 کے ایکٹ کو آئین کا بنیادی ڈھانچہ قرار دیا۔ عوامی عبادت گاہوں کے مذہبی کردار کے تحفظ کی ضمانت فراہم کرتے ہوئے جیسا کہ وہ 15 اگست 1947 کو موجود تھے اور عوامی عبادت گاہوں کی تبدیلی کے خلاف پارلیمنٹ نے طے کیا کہ نو آبادیاتی حکم رانی سے آزادی نا انصافیوں کے علاج کے لیے آئینی بنیاد فراہم کرتی ہے۔ یہ ایکٹ ہر مذہبی طبقے کو یہ اعتماد فراہم کرتا ہے کہ ان کی عبادت گاہوں کو محفوظ رکھا جائے گا اور ان کے کردار کو تبدیل نہیں کیا جائے گا۔ قانون خود ریاست کو اتنا ہی مخاطب کرتا ہے جتنا کہ ملک کے ہر شہری کو۔ یہ اصول آرٹیکل 51A کے تحت بنیادی فرائض کو نافذ کرتے ہیں اور اس لیے ہر شہری کے لیے مثبت مینڈیٹ بھی ہیں۔ ریاست نے قانون نافذ کرتے ہوئے آئینی عہد کو نافذ کیا ہے اور تمام مذاہب اور سیکولرازم کی برابری کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی آئینی ذمہ داریوں کو عملی جامہ پہنایا ہے جو کہ آئین کے بنیادی ڈھانچے کا ایک حصہ ہے۔‘‘
سپریم کورٹ کی بینچ نے آگے کہا کہ ورشپ ایکٹ جسے 1991 میں پارلیمنٹ نے نافذ کیا تھا، آئین کی بنیادی اقدار کی حفاظت کرتا ہے۔ آئین کی تمہید سوچ، اظہار، عقیدہ، عقیدے اور عبادت کی آزادی کے تحفظ کی ضرورت پر زور دیتی ہے۔ یہ انسانی وقار اور بھائی چارے پر زور دیتا ہے۔ رواداری، احترام اور تمام مذہبی عقائد کی مساوات کو قبول کرنا اس کا بنیادی اصول ہے۔ ورشپ ایکٹ ہندوستانی آئین کے تحت سیکولرازم کے لیے ہماری وابستگی کو نافذ کرنے کے لیے ذمہ داری عائد کرتا ہے۔ آئین کی بنیادی خصوصیات میں سے ایک عدم رجعت ہے جس کے بنیادی آئینی اصولوں کی بنیادی خصوصیت ہے۔ یہ ایکٹ قوم کی تاریخ اور اس کے مستقبل دونوں کو تسلیم کرتے ہوئے بنایا گیا تھا اور عبادت گاہوں کے ایکٹ کے کردار کو برقرار رکھنے کے لیے پارلیمنٹ نے یہ حکم دیا کہ تاریخ اور اس کی غلطیوں کو موجودہ اور دونوں کو زیر کرنے کے لیے ایک آلہ کے طور پر استعمال نہیں کیا جائے گا۔ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس ایکٹ کو نافذ کرنے کا ایک مقصد ہے، جس کا اندرونی طور پر سیکولر ریاست کی ذمہ داریوں سے تعلق ہے۔ یہ ایکٹ ریاست پر یہ فرض بھی عائد کرتا ہے کہ وہ تمام عقائد کی مساوات کو ایک لازمی آئینی قدر کے طور پر برقرار رکھے اور اس کی حفاظت کرے گا۔
ظاہر ہے کہ اس ایکٹ کے آئینی جواز کو چیلنج کرنے والی کسی بھی عرضی کو سماعت کے لیے قبول کرنا، عدالت کے اپنے ہی سابقہ فیصلے سے انحراف کے مترادف ہوگا۔ تاہم، اس بات پر غور ضروری ہے کہ اس ایکٹ کے مخالفین کے اعتراضات کیا ہیں اور آیا وہ اعتراضات قابلِ تسلیم بھی ہیں؟ عرضی گزاروں کا دعویٰ ہے کہ یہ ایکٹ عدالتی نظرثانی کے اختیار کو روکتا ہے، جو کہ آئین کے بنیادی ڈھانچے کا حصہ ہے۔ مزید برآں، انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اس ایکٹ کی دفعات آئین کے آرٹیکل 14، 15، 21، 25، 26 اور 29 کی خلاف ورزی کرتی ہیں، اور 15 اگست 1947 کی کٹ آف تاریخ کو من مانی قرار دیا ہے۔ تاہم، کٹ آف تاریخ کے حوالے سے خود اس طبقے کے خیالات مختلف ہیں۔ کچھ افراد 700 برس قبل، جب محمد بن قاسم نے سندھ میں کارروائی کی تھی، اس تاریخ کو بنیاد بنانا چاہتے ہیں۔ دیگر افراد 1526 کو جب پانی پت کے میدان میں لڑائی ہوئی تھی، کٹ آف تاریخ سے جوڑتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر مسجد و مندر کے تنازع پر بات کی جائے تو بدھ مت کے پیروکاروں کا بھی دعویٰ ہے کہ ان کے عبادت خانوں کو توڑ کر مندروں کی تعمیر کی گئی۔ تو کیا سپریم کورٹ بدھ مت کے پیروکاروں کی درخواست پر رام مندر اور دیگر مندروں کا سروے کرائے گی؟ ظاہر ہے کہ 15 اگست 1947 کی تاریخ بھارت کے لیے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس دن ملک کے عوام نے استعماری قوتوں کو شکست دے کر آزادی حاصل کی اور خود کو ایک آزاد قوم کے طور پر منظم کیا۔ جدید بھارت کی بنیاد اور ایک نئے قانون کی تشکیل بھی اسی دن سے شروع ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے لیے 15 اگست 1947 سے بہتر کوئی اور تاریخ نہیں ہو سکتی۔
ورشپ ایکٹ کے مخالفین کا مؤقف ہے کہ اس ایکٹ کے ذریعے عدالت کے اختیارات کو محدود کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ان کا سوال ہے کہ پارلیمنٹ کے ذریعے بنائے گئے قوانین کو جانچنے کا اختیار سپریم کورٹ کے پاس کیوں نہ ہو؟ دوسرا اعتراض یہ ہے کہ کسی بھی جائیداد کی ملکیت پر دعوے کو کیوں مسترد کیا گیا ہے؟
اس سوال کے جواب میں ماہر قانون فیضان مصطفیٰ کہتے ہیں کہ یقیناً اس ایکٹ کا یہ پہلو قابل غور ہے، تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ کچھ معاملات قانونی سے زیادہ سماجی اور معاشرتی ضرورت کے تحت حل کیے جاتے ہیں۔ بابری مسجد کی ملکیت کے فیصلے میں بھی عدالت نے انصاف کے تقاضوں کے ساتھ سماجی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے رام مندر کے حق میں فیصلہ دیا تاکہ تمام تنازعات کو ختم کیا جا سکے۔ اسی وجہ سے مسجد کے فریق کو دوسری جگہ دگنی زمین دی گئی۔ اگر مسلمانوں کا کوئی حق نہیں تھا تو پھر انہیں زمین کیوں دی گئی؟ ظاہر ہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے طور پر اس تنازع کو حل کرنے کی کوشش کی ہے، کیونکہ اس پورے تنازع کا مرکزی دعویٰ یہ تھا کہ رام مندر کو منہدم کرکے بابری مسجد تعمیر کی گئی، لیکن عدالت نے اپنے فیصلے میں واضح کیا کہ اس دعوے کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔
آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کی رپورٹ بھی اس بارے میں واضح نہیں ہے کہ مندر کو توڑ کر مسجد کی تعمیر کی گئی ہو۔ عدالت نے مزید کہا کہ اگر کھدائی سے کوئی ملبہ یا ڈھانچے برآمد ہوتے ہیں، تو اس سے کسی کی ملکیت ثابت نہیں ہوتی۔ ورشپ ایکٹ کا مقصد بھی یہی ہے کہ مستقبل میں پیدا ہونے والے تنازعات کا مستقل حل تلاش کیا جائے۔ پارلیمنٹ نے اپنی آئینی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے مندر، مسجد اور دیگر مذہبی مقامات کے تنازعات کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔
جہاں تک سوال ہے کہ آگے کیا ہوگا؟ فیضان مصطفیٰ کہتے ہیں کہ ماضی میں سپریم کورٹ نے اس ایکٹ کو جس نظر سے دیکھا ہے، اس سے امید کی جا سکتی ہے کہ عدالت اس کی آئینی حیثیت کو ختم نہیں کرے گی۔
اب جب کہ سپریم کورٹ نے اس پورے معاملے پر اپنی پوزیشن واضح کر دی ہے، یہ ممکن ہے کہ چیف جسٹس سنجیو کھنہ اپنے ریٹائرمنٹ سے قبل ورشپ ایکٹ پر فیصلہ سنائیں۔ اس کا انحصار مرکزی حکومت کے رویے اور موقف پر بھی ہوگا۔ تاہم سوال یہ ہے کہ کیا سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کیا جائے یا مسلم تنظیموں اور سِول سوسائٹی کی تنظیموں کو رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش جاری رکھنی چاہیے؟
ظاہر ہے کہ رائے عامہ ہموار کرنے کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا، لیکن یہ کوشش جلسوں اور جلوسوں تک محدود رکھنے کے بجائے ان حلقوں تک پہنچنے اور افہام و تفہیم کے ذریعے ان کو قائل کرنے کی ہونی چاہیے، جو اس ایکٹ کے مخالف ہیں۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ ورشپ ایکٹ صرف مسلمانوں کے حق کا معاملہ نہیں، بلکہ یہ ملک کی سالمیت اور اتحاد کے لیے بھی انتہائی اہم ہے۔
***
گزشتہ دس برسوں کے دوران شاید یہ پہلا موقع تھا کہ مبینہ سیکولر جماعتوں نے اپنے مسلم ممبرانِ پارلیمنٹ کو کھل کر بولنے کا موقع دیا۔ سماج وادی پارٹی کی اقرا حسن، ضیاء الرحمن برق، کانگریس کے عمران مسعود اور محمد جاوید نے معاصر بھارت میں اقلیتوں، بالخصوص مسلمانوں کے حالات پر آئین کے بنیادی دفعات کے حوالے سے کھل کر بات کی۔ اس سے قبل یہ سارا بوجھ اسدالدین اویسی کے کندھوں پر ہوتا تھا۔مسلم ممبرانِ پارلیمنٹ کی تقاریر کا الگ سے تجزیہ کیا جانا ضروری ہے۔ تاہم ان تقاریر میں سنبھل سانحہ اور عبادت گاہوں کے مستقبل کو لے کر فکرمندی کا اظہار مشترک تھا۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 22 دسمبر تا 28 دسمبر 2024