
مالیگاؤں2008بم دھماکہ: انصاف کا قتل یا سیاست کی جیت؟
این آئی اے کی کارکردگی سوالوں کے گھیرے میں
نوراللہ جاوید، کولکاتا
کروڑوں روپیوں کا بجٹ، برسوں کی جانچ اور نتیجہ صفر!
مالیگاؤں بم دھماکہ 2008 کیس میں این آئی اے کی خصوصی عدالت کا فیصلہ نہ صرف بھارت کے نظامِ عدل و انصاف کی خامیوں اور اس کے زوال کا ایک اور پختہ ثبوت فراہم کرتا ہے بلکہ اس سے زیادہ ملک کی جانچ ایجنسیوں کی اعتبار، صلاحیت اور پیشہ ورانہ قابلیت پر بھی سوالات کھڑے کرتا ہے۔ جب این آئی اے، سی بی آئی جیسی ملک کی پریمیئر ایجنسیاں جن پر ٹیکس دہندگان کے کئی سو کروڑ روپے سالانہ خرچ ہوتے ہیں اگر سترہ برس بعد بھی بم دھماکہ کے مجرموں کے خلاف پختہ ثبوت پیش کرنے میں ناکام ہو جاتی ہیں تو پھر سوال ان ایجنسیوں کے جواز پر بھی اٹھیں گے، اور اس سے بڑا سوال یہ بھی اٹھے گا کہ یہ ایجنسیاں سیاسی دباؤ اور حکم رانوں کے ہاتھوں ایک ٹول بن گئی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ریاستی پولیس، سی آئی ڈی اور اسپیشل ٹاسک فورسز سے بھی امید نہیں کی جاسکتی۔
یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ ملک کی قومی جانچ ایجنسیاں ناکام ثابت ہوئی ہیں بلکہ ان کی ناکامیوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ بات صرف ناکامیوں تک محدود ہوتی تو مسئلہ اتنا سنگین نہ ہوتا بلکہ ان جانچ ایجنسیوں پر جانب دارانہ جانچ، بے گناہوں کو پھنسانے، انہیں سزا دلوانے اور مجرموں سے شعوری طور پر صرفِ نظر کرنے کے سنگین الزامات ہیں جن کی نشان دہی عدالت نے بھی کی ہے۔ ممبئی 2006 سلسلہ وار ٹرین بم دھماکہ میں بمبئی ہائی کورٹ نے 24 جولائی 2025 کو جو فیصلہ سنایا وہ جانچ ایجنسیوں کی کوتاہیوں اور مجرمانہ عمل کو بے نقاب کرتا ہے کہ کس طرح جانچ ایجنسی نے جان بوجھ کر مسلم نوجوانوں کو اس معاملے میں پھنسایا، کرایے کے گواہوں کو پیش کیا اور ملزمین سے جبر و تشدد کے ذریعہ اقبالی بیان لیا گیا۔
مالیگاؤں بم دھماکہ 2008 میں این آئی اے کی خصوصی عدالت کے جج اے کے لاہوتی کا فیصلہ ایک ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل ہے۔ بادی النظر میں سات ملزمین، بشمول سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر (بی جے پی کی سابق ممبر پارلیمنٹ) اور کرنل پروہت کو بری کیا گیا ہے، مگر اس فیصلے کا بین السطور ملزمین کو بری کرنے سے زیادہ این آئی اے کی جانچ، اس کی نیت اور کارکردگی پر سوالات کھڑے کرتا ہے۔ فیصلے میں جج لاہوتی نے بری کرتے ہوئے کہا:
”That just because the prosecution failed to prove its case against him it cannot be said that the serious allegation against him were baseless or without foundation”
یعنی عدالت نے کہا کہ ’’مالیگاؤں بم دھماکہ کیس میں تمام ملزمین، خاص طور پر لیفٹیننٹ کرنل پرساد پروہت کو صرف اس لیے بری کیا گیا ہے کہ استغاثہ (یعنی این آئی اے) اپنا کیس ثابت کرنے میں ناکام رہا۔ تاہم یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ان افراد کے خلاف الزامات بے بنیاد اور کسی وجہ کے بغیر لگائے گئے ہیں۔‘‘
مگر سوال یہ ہے کہ جب الزامات بے بنیاد نہ تھے اور ان کا ایک واضح بنیاد (foundation) موجود تھا تو کیا این آئی اے کو ثبوت نہیں ملے یا پھر شعوری طور پر پختہ ثبوت پیش کرنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی؟ این آئی اے کی کارکردگی اور اس کی نیت پر ماہرین جو سوالات اٹھا رہے ہیں اس کے پیچھے کئی وجوہات ہیں جو این آئی اے کو ہی کٹہرے میں کھڑا کرتی ہیں۔
این آئی اے نے بم دھماکہ کے تین سال بعد مئی 2011 میں جانچ کی ذمہ داری سنبھالی۔ 2015 تک جانچ میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی۔ اس وقت مرکز میں بی جے پی اقتدار میں آ چکی تھی۔ اس دوران 2015 میں مہاراشٹر کی سابق چیف پبلک پراسیکیوٹر اور نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) کی خصوصی پبلک پراسیکیوٹر، روہنی سالیان نے انکشاف کیا کہ این آئی اے کے افسران ان پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ اس کیس میں ہلکے ثبوت پیش کیے جائیں۔ روہنی سالیان کا الزام سنگین تھا اور اس کی جانچ ہونی چاہیے تھی مگر قانون کو بالائے طاق رکھ کر این آئی اے نے روہنی سالیان کو ہی اس کیس سے ہٹا دیا۔
2016 میں این آئی اے نے ضمنی چارج شیٹ پیش کرتے ہوئے سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر اور دیگر تین افراد سے متعلق کہا کہ ان کے خلاف مقدمہ چلانے کے کوئی پختہ ثبوت نہیں ہیں اس لیے انہیں بری کر دیا جائے۔ جج ایس ڈی ٹکیلے نے دسمبر 2017 میں این آئی اے کی ضمنی چارج شیٹ پر دیگر تین افراد کو بری کر دیا مگر پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو یہ کہتے ہوئے بری کرنے سے انکار کر دیا کہ اب تک عدالت میں جو ثبوت آئے ہیں اس کے مطابق پرگیہ سنگھ ٹھاکر کے خلاف مقدمہ چلانے کے لیے پختہ ثبوت ہیں۔ اس کے فوری بعد ہی جج ایس ڈی ٹکیلے کا تبادلہ کر دیا گیا۔
2018 میں این آئی اے کی عدالت میں اس مقدمے کی سماعت شروع ہوئی تو کئی مضحکہ خیز واقعات پیش آئے۔ کھوجی کتے کو عدالت میں لایا گیا اور اس کی آواز کی فرانزک جانچ کے لیے ریکارڈنگ کرنے میں گھنٹوں وقت ضائع کیا گیا۔ اس کے علاوہ این آئی اے کو یہ ثابت کرنے میں کافی مشقت کرنی پڑی کہ 29 ستمبر 2008 کو مالیگاؤں میں جو دھماکہ ہوا تھا وہ دہشت گرد حملہ تھا، یہ گیس سلنڈر پھٹنے کی وجہ سے نہیں ہوا۔ یہ ثابت کرنے کے لیے این آئی اے کو سو سے زائد گواہ پیش کرنے پڑے۔ عدالت میں اس مضحکہ خیزی پر مشہور فوجداری وکیل یوگ چودھری کو کہنا پڑا کہ:
"ایک ایسی چیز جو واضح ہے کہ لوگ زخمی ہوئے، لوگ مرے، اس کے باوجود دھماکے کے ثبوت میں گواہوں کو پیش کر کے وقت ضائع کیوں کیا جا رہا ہے؟”
اہم بنیادی سوال یہ ہے کہ مالیگاؤں بم دھماکہ 2008 کی جانچ اور اس معاملے میں سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر اور کرنل پروہت کی گرفتاری پر پہلے دن سے ہی ہنگامہ آرائی کیوں کی جا رہی ہے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا یہ صرف محض اتفاق ہے یا پھر کوئی اشارہ؟ ایک دن قبل ہی پارلیمنٹ میں ملک کے وزیرِ داخلہ امیت شاہ کہتے ہیں کہ ’’بھگوا دہشت گردی‘‘ کچھ نہیں ہے اور کوئی ہندو دہشت گرد نہیں ہو سکتا۔ اس کے اگلے دن ہی این آئی اے کی خصوصی عدالت سادھوی پرگیہ سنگھ اور دیگر لوگوں کو بری کر دیتی ہے۔ (جب کہ امیت شاہ کی اس دعوے پر درجنوں مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ پہلا سوال یہی ہے کہ ایک ضعیف اور ملک کے سب سے بڑے لیڈر گاندھی جی کو گولی مارنے والا ناتھو رام گوڈسے اور اس کے ساتھی دہشت گرد تھے یا نہیں؟ اور اس کا تعلق کس مذہب سے تھا؟) اس کے ساتھ ہی ملک کا میڈیا ’’بھگوا دہشت گردی‘‘ کی اصطلاح کے خلاف ہنگامہ برپا کرنے لگا کہ کوئی ہندو دہشت گرد نہیں ہو سکتا۔ آپریشن سندور پر بحث کے دوران امیت شاہ کی دونوں ایوان کی تقاریر میں کئی ایسے مواقع آئے جن میں انہوں نے بھارت کے مسلمانوں پر رکیک حملے کیے۔ ایک موقع پر انہوں نے کہا ’’کشمیر میں آپریشن مہاد یو میں مارے گئے لوگوں کے نام سن کر آپ کو کیوں تکلیف ہوتی ہے؟‘‘
مالیگاؤں بم دھماکہ 2008 سے قبل ملک میں جب بھی دھماکے ہوتے تھے فوراً اس کا تعلق کسی مسلم تنظیم سے جوڑ دیا جاتا تھا اور بڑے پیمانے پر مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں شروع ہو جاتی تھیں، اگرچہ ان میں سے نوے فیصد برسوں جیلوں میں قید رہنے کے بعد بے گناہ ثابت ہو جاتے ہیں۔ مالیگاؤں میں پہلی مرتبہ 2006 میں دھماکہ ہوا۔ شب برات کے موقع پر ہوئے اس دھماکے میں 31 مسلمان مارے گئے مگر مہاراشٹر اے ٹی ایس، جس کی سربراہی پی راگھونشی کر رہے تھے، نے تقریباً 115 مسلمانوں کو گرفتار کیا اور بعد میں 9 افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی اور ان کے خلاف مقدمہ چلایا۔ تاہم اب سب کے سب بری ہو چکے ہیں۔ اسی طرح سمجھوتہ ایکسپریس (فروری 2007) اجمیر شریف (اکتوبر 2007) اور مکہ مسجد بم دھماکہ (18 مئی 2007)یہ وہ دھماکے ہیں جن میں مسلمان مارے گئے اور مسلمانوں کی ہی گرفتاریاں ہوئیں۔
2008 مالیگاؤں بم دھماکہ کی جانچ کرنے والے مہاراشٹر اے ٹی ایس کے سربراہ ہیمنت کرکرے نے جب گہرائی اور انصاف سے جانچ شروع کی تو ان کے سامنے ایک الگ سچ آیا کہ اس دھماکے کے پیچھے کوئی مسلم تنظیم یا پھر مسلم نوجوان نہیں بلکہ دائیں بازو کٹر عناصر کی ایک ٹولی ہے۔ سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر کی گرفتاری پہلے ہوئی اور اس کے بعد ایک حاضر سروس فوجی افسر لیفٹیننٹ کرنل پرساد پروہت کی سنسنی خیز گرفتاری عمل میں آئی اور اس کے ساتھ ہی ’’ابھینو بھارت‘‘ نامی ایک تنظیم کا نام سامنے آیا جو بھارت میں ہندو راشٹر قائم کرنے اور مسلمانوں کا صفایا کرنے کے مقصد سے قائم کی گئی تھی۔ ابھینو بھارت سے وابستہ درجنوں افراد گرفتار ہوئے۔ اے ٹی ایس سربراہ ہیمنت کرکرے کی اس تفتیش میں ہونے والے انکشافات ’’ہندوتو دہشت گردی‘‘ اور ’’اسلامک دہشت گردی‘‘ کے بیانیے کے لیے ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوئے اور پورا بیانیہ بدل گیا۔
سابق مرکزی داخلہ سکریٹری آر کے سنگھ، جو بعد میں بی جے پی کے ٹکٹ پر ممبر پارلیمنٹ منتخب ہوئے، انہوں نے بھی اعتراف کیا کہ دہشت گردانہ حملوں میں آر ایس ایس کے کچھ لوگ ملوث رہے ہیں۔ کل تک مسلم نوجوانوں کو کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا تھا مگر اب ’’ہندوتودہشت گردی‘‘ کے عزائم اور منصوبے سامنے آنے لگے تھے۔ کرکرے کی تفتیش نے ملک بھر میں گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کیا۔ ان سے پوچھ تاچھ میں یہ بات سامنے آئی کہ سمجھوتہ ایکسپریس (فروری 2007) اجمیر شریف (اکتوبر 2007) اور مکہ مسجد بم دھماکہ (18 مئی 2007) کے پیچھے کسی مسلم تنظیم کے کارکنوں کے ہاتھ نہیں تھے بلکہ ’ہندوتو دہشت گردوں ‘کے ہاتھ تھے، اور یہ سب ایک ہی سلسلے کی کڑیاں تھیں۔
یہ گرفتاریاں اور انکشافات آر ایس ایس اور اس کی ملحقہ تنظیموں کے اصل چہرے کو بے نقاب کر گئے۔ ایسا نہیں ہے کہ آر ایس ایس کی تخریبی کارروائیاں پہلی مرتبہ سامنے آئی ہوں۔ بلکہ آر ایس ایس جو اپنے آپ کو سماجی تنظیم کے طور پر متعارف کرواتی ہے، اس کے وابستگان گاندھی جی کے قتل سے لے کر ملک بھر میں فرقہ وارانہ فسادات، اقلیتوں کی عبادت گاہوں پر حملے اور خفیہ قتل کی وارداتوں میں ملوث رہے ہیں۔
گرفتار ہونے والوں میں لیفٹیننٹ کرنل پرساد شری کانت پروہت کو چھوڑ کر سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر، بھاویش پٹیل، کمار سرکار عرف سوامی اسیمانند، دیویندر گپتا، لوکیش شرما، بھارت موہن لال ریتیشور اور راجندر چودھری سب کا تعلق سنگھ پریوار سے تھا۔ آر ایس ایس پرچارک سنیل جوشی کا نام بھی ان معاملات میں آیا جنہیں 29 دسمبر 2007 کو مدھیہ پردیش کے دیواس میں قتل کر دیا گیا۔ آر ایس ایس پرچارک سنیل جوشی کے قتل کے معاملے میں بھی پرگیہ سنگھ ٹھاکر اور اس کے ساتھیوں کا نام آیا۔ کہا جاتا ہے کہ سنیل جوشی نے سمجھوتہ ایکسپریس دھماکے سے متعلق سچائی کو سامنے لانے کی دھمکی دی تھی اس لیے انہیں راستے سے ہٹا دیا گیا۔ اس قتل کے معاملے میں سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو بری کر دیا گیا اور بعد میں این آئی اے نے 2008 دیواس کیس ثبوت کی کمی کی بنیاد پر بند کر دیا۔
سمجھوتہ ایکسپریس کیس میں بھی کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی، جبکہ 2006 مالیگاؤں کیس میں گرفتار مسلم نوجوان باعزت بری ہو گئے۔ اجمیر بم دھماکہ کیس میں مارچ 2017 میں ایک عدالت نے تین ملزمین کو سزا سنائی اور سات کو بری کر دیا۔ بری ہونے والوں میں اسیمانند بھی شامل تھے۔ حالانکہ 26 گواہ منحرف ہو چکے تھے، پھر بھی بھاویش پٹیل، دیویندر گپتا اور سنیل جوشی کو سزا ہوئی — ان سب کا تعلق آر ایس ایس سے تھا۔
مکہ مسجد بم دھماکہ کیس 2009 میں مقامی پولیس کی ناکامی کے بعد، سی بی آئی کو سونپا گیا۔ سی بی آئی نے لوکیش شرما، دیویندر گپتا اور سنیل جوشی کے خلاف چارج شیٹ پیش کی۔ 2011 میں یہ کیس این آئی اے کو منتقل کر دیا گیا۔ این آئی اے نے دس ملزمین کو نامزد کیا، جن میں اسیمانند بھی شامل تھے۔ تاہم صرف پانچ ملزمان— سوامی اسیمانند، دیویندر گپتا، لوکیش شرما، بھارت موہن لال ریتیشور اور راجندر چودھری کو گرفتار کیا جا سکا۔ سابق آر ایس ایس کارکنان سندیپ ڈانگے اور رام چندر کالسانگرا ابھی تک فرار ہیں۔ اس کیس میں بھی کسی کو سزا نہیں ہوئی۔
یہاں یہ بات اہم ہے کہ اسیمانند نے اپنا جرم کارواں میگزین اور پولیس کے سامنے قبول کیا تھا۔ انہوں نے مجسٹریٹ کے سامنے بھی بیان دیا تھا کہ وہ جانتے ہیں کہ انہیں سزائے موت ہو سکتی ہے مگر وہ سچ بولنا چاہتے ہیں۔ بعد میں بیان واپس لیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ پولیس کے دباؤ میں دیا گیا تھا۔ مکہ مسجد بم دھماکہ میں فیصلہ سنانے والے جج کے رویندر ریڈی نے ثبوت کی کمی کی بنیاد پر تمام ملزمین کو بری کرنے کے ساتھ ہی اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
یہ سلسلہ وار واقعات بتاتے ہیں کہ ہیمنت کرکرے نے ’’ہندوتودہشت گردی‘‘ کو جو بے نقاب کیا تھا اور ملک کے سامنے اصل مجرموں کو لانے کی جو کوشش کی تھی وہ کتنی اہم تھی۔ 26/11 ممبئی بم دھماکوں سے چند گھنٹے قبل ہیمنت کرکرے نے کہا تھا کہ انہیں ہندوتوا قوتوں کی جانب سے دھمکیاں مل رہی ہیں۔ اس کے چند گھنٹے بعد ہی وہ مارے گئے۔ یہ سوال آج بھی معمہ بنا ہوا ہے کہ کرکرے کو کس نے مارا اور ان کی موت سے کس کو فائدہ ملا؟
این آئی اے، جس کو دہشت گردانہ کارروائیوں پر نظر رکھنے اور ان کے معاملات کو سلجھانے کے لیے قائم کیا گیا تھا، حکومت بدلنے کے ساتھ ہی اس کا کردار بھی بدل گیا۔ آج تک وہ اس سوال کا جواب نہیں دے پائی کہ آخر مذکورہ بم دھماکے کرنے والے کون لوگ تھے۔ اب بنیادی سوال یہ ہے کہ آخر مرکزی حکومت، میڈیا اور جانچ ایجنسیاں ’’ہندوتو دہشت گردی‘‘ کے داغ کو دھونے کی کوشش کیوں کر رہی ہیں؟ اس کی وجہ کیا ہے؟ کیا عدالتوں کے چند فیصلوں سے حقائق چھپ جائیں گے؟
این آئی اے عدالت کا فیصلہ سوالوں کی زد میں کیوں ہے؟
انگریزی ویب سائٹ اسکرول ڈاٹ کام نے 12 جولائی 2019 کو اسمتھا نائر اور سریتی ساگر یامونان کی ایک خصوصی رپورٹ "How NIA went soft on Pragya Thakur and is now delaying the Malegaon trial” کے عنوان سے ایک اسٹوری شائع کر کے واضح کر دیا تھا کہ مالیگاؤں بم دھماکہ 2008 کیس کا فیصلہ کیا آنے والا ہے۔ اس اسٹوری میں مرحلہ وار بتایا گیا کہ کس طرح این آئی اے کیس کو کمزور کر رہی ہے اور اے ٹی ایس کے ذریعہ جمع کیے گئے ثبوت کو نظر انداز کر کے ایک متوازی جانچ کی گئی اور ان گواہوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ این آئی اے نے مہاراشٹر کنٹرول آف آرگنائزڈ کرائم ایکٹ کو ہٹا دیا جس کا مطلب تھا کہ اعترافی بیانات اب معتبر ثبوت نہیں رہے۔
سابق چیف پبلک پراسیکیوٹر (سرکاری وکیل) روہنی سالیان، این آئی اے عدالت کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ یہ فیصلہ کوئی غیر متوقع نہیں ہے۔ این آئی اے اس کیس میں جو کچھ کر رہی تھی اس میں اس طرح کا فیصلہ آنا لازمی تھا۔ مہاراشٹر اینٹی ٹیررزم اسکواڈ (اے ٹی ایس) نے ایک مضبوط تفتیش شروع کی تھی مگر این آئی اے نے کیس کو اپنے ذمہ لینے کے بعد اے ٹی ایس کی جانچ کی بنیاد پر آگے بڑھنے کے بجائے ادارہ جاتی دباؤ اور سیاسی اشارے پر کیس کو کمزور کرنا شروع کر دیا اور آج یہ نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔
انگریزی اخبار مڈ ڈے میل سے بات کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ اے ٹی ایس نے کیس میں نوے دنوں کے اندر چارج شیٹ دائر کی جو ملزمین کو ضمانت سے بچانے کے لیے قانونی ڈیڈ لائن کے اندر تھی۔ گواہوں کے بیانات اور اعترافی بیانات ضابطہ فوجداری (سی آر پی سی) کی دفعہ 164 کے تحت ریکارڈ کیے گئے جو مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ ہونے کی وجہ سے زیادہ معتبر سمجھے جاتے ہیں۔ ٹرائل کورٹ، بمبئی ہائی کورٹ اور یہاں تک کہ سپریم کورٹ نے ابتدائی مراحل میں شواہد کو برقرار رکھا اور کافی عرصے تک کیس میں گرفتار ملزمین کو جیل میں رہنا پڑا اور ان کی ضمانت کی ابتدائی درخواست مسترد کر دی گئی۔
جب 2011 میں کیس این آئی اے کو منتقل کیا گیا تو ایجنسی نے پہلے سے دائر چارج شیٹ کی مضبوطی پر آگے بڑھنے کے بجائے دوبارہ تفتیش کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس سے ایک متوازی شواہد کا سلسلہ پیدا ہوا جس نے کیس کی قانونی تسلسل کو کمزور کیا اور تضادات کو جنم دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سالیان نے اے ٹی ایس کی چارج شیٹ کی جانچ کی تھی۔ سالیان کا سب سے سنگین الزام یہ ہے کہ ان سے غیر رسمی طور پر کہا گیا کہ وہ ’’آہستہ چلیں‘‘۔یہ سیاسی مداخلت کا واضح اشارہ تھا۔ ایک پبلک پراسیکیوٹر کے طور پر ان کا کردار غیر جانب داری سے ریاست کی نمائندگی کرنا تھا، نہ کہ سیاسی اشاروں پر عمل کرنا؟ پبلک پراسیکیوٹروں کی آزادی فوجداری انصاف کے نظام کا اہم حصہ ہے۔ ان کا کام ہر قیمت پر سزا کو یقینی بنانا نہیں بلکہ کیس کو منصفانہ طور پر اور انصاف کے مفاد میں پیش کرنا ہے۔ سالیان نے نشان دہی کی کہ بغیر کسی عدالتی حکم کے پراسیکیوٹر سے ’’آہستہ چلنے‘‘ کے لیے کہنا آئین کے آرٹیکل 21 (منصفانہ سماعت کا حق) اور آرٹیکل 14 (قانون کے سامنے برابری) کی خلاف ورزی ہے۔
این آئی اے کے جج نے سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو بری کرنے میں یہ دلیل دی کہ وہ دھماکے سے دو سال قبل سنیاسی ہو گئی تھیں، اس لیے دھماکہ کی جگہ جو سادھوی پرگیہ کی موٹر سائیکل برآمد ہوئی تھی وہ اس معاملے کے ملزم رام چندر کلسانگرا کو دے دی تھی۔ جب کہ اے ٹی ایس نے کالکر اور سادھوی پرگیہ سنگھ کے درمیان دھماکے سے قبل اور اس کے بعد فون پر بات چیت کے ریکارڈ بطور جمع ثبوت پیش کیے مگر این آئی اے موٹر سائیکل کے نمبر کا صحیح فرانزک پیش نہیں کر سکی۔ اسی طرح ابھینو بھارت کی بھوپال میٹنگ میں سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر کی شرکت کا ثبوت بھی پیش کیا گیا تھا مگر این آئی اے کے سامنے دونوں گواہ مکر گئے۔
بم دھماکے میں ہلاک ہونے والے پندرہ سالہ لڑکے کے والد نثار احمد نے عدالت میں مداخلت کی درخواست دی اور وہ فریق بن کر ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ تک پرگیہ اور کرنل پروہت کی ضمانت کے خلاف مقدمہ لڑے۔ متاثرین کے میڈیکل سرٹیفکیٹ جمع کروانا معمول ہے تاکہ انہیں جسمانی طور پر عدالت میں پیش ہونے کی ضرورت نہ پڑے مگر یہ شاید واحد کیس ہے جس میں زخمی متاثرین کو اپنے آبائی شہر مالیگاؤں سے ممبئی، جہاں این آئی اے عدالت واقع ہے، اپنی گواہیوں کے لیے بار بار طلب کیا گیا۔
زیادہ تر متاثرین غریب طبقے سے تھے۔ ان کے لیے مالیگاؤں سے ممبئی، جہاں اس مقدمے کی سماعت ہو رہی تھی، بار بار آنا مشکل تھا۔ ریاست نے زخمی متاثرین کے سفری اخراجات کے لیے صرف 250 روپے کی معمولی رقم مختص کی جو تقریباً 350 کلومیٹر کے سفر اور واپسی کے لیے بالکل ناکافی تھی۔ اس معاملے میں متاثرین کی مدد کرنے والے ایڈووکیٹ شاہد ندیم کہتے ہیں کہ مہاراشٹر کنٹرول آف آرگنائزڈ کرائم ایکٹ (ایم سی او سی اے) کے الزامات کیس سے ہٹا دیے گئے۔ ایم سی او سی اے کی دفعات ہٹنے سے استغاثہ کا دعویٰ کہ پروہت نے "فوج کے قواعد کے خلاف 21 لاکھ روپے کے فنڈز جمع کیے” بھی کمزور ہو گیا۔ مقدمہ صرف غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ، آرمز ایکٹ اور ہندوستانی تعزیراتی ضابطہ کی دیگر دفعات کے تحت جاری رہا۔
جب این آئی اے نے دعویٰ کیا کہ 13 گواہوں کے بیانات جو تمام ضابطہ فوجداری کی دفعہ 164 کے تحت مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ کیے گئے تھے اور ایم سی او سی اے کے تحت ملزمین کے دو بیانات غائب ہو گئے تو تفتیشی ایجنسی نے کہا کہ کئی سالوں تک جاری رہنے والے کیس کے دوران دستاویزات نقل و حمل میں غائب ہو گئیں، کیونکہ یہ ناسک (جہاں کیس شروع ہوا تھا) سے سپریم کورٹ تک مختلف عدالتوں میں لے جائی جاتی رہیں۔ ٹرائل کورٹ نے این آئی اے کو گمشدہ کاغذات کے بجائے فوٹو کاپیوں کو ثانوی ثبوت کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت دی۔
مقدمہ جو تقریباً دس سال تک غیر فعال رہا، بالآخر 2018 میں شروع ہوا۔ نثار احمد نے کیس کو تیز کرنے کی درخواست بھی دائر کی تھی۔ ملزمین، جو اب آٹھ سال سے زائد عرصے سے ضمانت پر ہیں اور ملک کے مختلف حصوں میں رہتے ہیں، نے کئی عدالتی سماعتوں سے غیر حاضری کی۔ ندیم کہتے ہیں کہ 1780 عدالتی سماعتوں میں سے پرگیہ سنگھ ٹھاکر صرف 34 بار پیش ہوئیں، لیکن این آئی اے نے کبھی ان کی غیر حاضری پر اعتراض نہیں کیا۔
کل پانچ ججوں نے اس کیس کو سنبھالا۔ ابتدا میں کیس وائی ڈی شندے کے سامنے آیا، بعد میں ایس ڈی ٹیکلے نے سنبھالا اور ان کے تبادلے کے بعد وی ایس پڈلکر کو خصوصی عدالت کا جج مقرر کیا گیا۔ پھر پی آر سترے کو مقرر کیا گیا اور آخر میں اے کے لاہوتی نے مقدمے کو جاری رکھا۔ تبادلے کبھی معمول کے مطابق اور کبھی ناقابلِ فہم ہوتے رہے۔
اس پورے کیس میں کرنل پروہت کا کردار سب سے زیادہ مشکوک تھا۔ ان پر ابھینو بھارت کی تشکیل اور دھماکے میں استعمال ہونے والے مواد فراہم کرنے کے الزامات تھے مگر عدالت نے سوال کیا کہ اگر ابھینو بھارت کا کردار مشکوک تھا تو اس کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟ کرنل پروہت نے دعویٰ کیا کہ چونکہ وہ فوج کی خفیہ ایجنسی سے وابستہ تھے اس لیے وہ ابھینو بھارت کی میٹنگ میں شریک ہو کر معلومات حاصل کر رہے تھے اور وہ اپنے سینئر کو معلومات بھی فراہم کرتے تھے۔
خصوصی جج اے کے لاہوتی نے خود اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ کرنل پروہت ابھینو بھارت کے بانی ارکان میں سے ایک تھے، یہ ایک ایسی تنظیم تھی جس کا مقصد ہندو راشٹر قائم کرنا تھا اور وہ اس تنظیم کے فعال رکن تھے۔ لہٰذا جج نے اس دعوے کو قبول کرنے سے انکار کر دیا کہ ابھینو بھارت جیسی انتہائی تنظیموں سے دہشت گردی کے بارے میں معلومات حاصل کرنا اور اسے اپنے سینئرز کو بتانا ان کے سرکاری فرائض کا حصہ تھا۔ دستاویزات سے واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ پروہت ابھینو بھارت ٹرسٹ کے ٹرسٹیوں میں سے ایک تھا۔ کوئی دستاویزی ثبوت موجود نہیں ہے جو یہ ظاہر کرے کہ اس کے اعلیٰ حکام نے اسے اس ٹرسٹ میں بطور رکن/ٹرسٹی شامل ہونے یا فنڈز جمع کرنے یا استعمال کرنے کی واضح اجازت دی تھی۔
ملٹری انٹیلیجنس کے اصولوں کے مطابق کمانڈنگ آفیسر یا ڈسپلن اینڈ ویجیلنس برانچ افسران اور ذرائع کے مفادات کے تحفظ کے لیے اقدامات کرتی تھی لیکن پروہت کی گرفتاری کے بعد اس کے افسر کے تحفظ کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ اگر وہ واقعی اپنے عہدے کے تحت فرائض انجام دے رہا ہوتا تو فوجی انتظامیہ اسے بچانے کی کوشش کرتی۔ سدرن کمانڈ لیزن یونٹ (ایس سی ایل یو) میں کام کرنے والے سینئر افسران نے پروہت کو بچانے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔ جج نے کہا "افسران کئی سالوں تک خاموش رہے۔ ان کی اپنی غیر فعالیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے شاید یہ سمجھا کہ اے ٹی ایس کی طرف سے کی گئی کارروائی مناسب تھی، کیونکہ ان کے سینئر افسران نے بھی الزامات اور عائد کردہ الزامات کے پیش نظر اپنے افسر کے تحفظ میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس نے اس وقت اے ٹی ایس کے ہاتھوں گرفتاری کے حقیقت کو قبول کر لیا تھا۔”
اے ٹی ایس نے دعویٰ کیا کہ ملزمین کے خلاف ایک میٹنگ کی ریکارڈنگ کی شکل میں مضبوط ثبوت ملے ہیں، جہاں ابھینو بھارت کے ایجنڈے پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔ فون کی بات چیت کو ریکارڈ کیا گیا تھا، کال ڈیٹیل ریکارڈز اور گواہوں کے بیانات کی بنیاد پر اسے ملزم بنایا گیا ہے۔ اے ٹی ایس نے سوامی اے ڈی تیرتھ سے ایک لیپ ٹاپ ضبط کرنے کا دعویٰ کیا تھا، جس سے اس نے فرید آباد میں 25 جنوری اور 26 جنوری 2008 کو ہونے والی میٹنگ کی ریکارڈنگ حاصل کی۔
مبینہ ریکارڈنگ کی نقلیں ظاہر کرتی ہیں کہ گروپ نے ہندو راشٹر کے قیام کے اپنے منصوبوں کے تحت حکومت بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس میں بم دھماکوں کا بدلہ لینے کے لیے مسلمانوں اور عیسائیوں کو نشانہ بنانے کی ضرورت پر تبادلہ خیال کیا گیا جس میں ہندو مارے گئے تھے۔ پروہت نے مبینہ طور پر فخریہ طور پر کہا تھا کہ وہ ابھینو بھارت نظریہ کو نافذ کرنے کے لیے اسرائیل میں اہم شخصیات کے ساتھ رابطے میں ہے۔ میٹنگ میں رمیش اپادھیائے، سمیر کلکرنی، سدھاکر دویدی اور سدھاکر چترویدی نے بھی شرکت کی تھی۔
ان حقائق کے باوجود اگر کرنل پروہت کو شک کا فائدہ دیا جاتا ہے تو اس سے واضح ہوتا ہے کہ ملک کی عدالتیں کس نہج پر کام کرتی ہیں اور جانچ ایجنسیاں کس طرح ملزمین کو بچانے کے لیے حقائق کو نظر انداز کر دیتی ہیں۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 10 جولائی تا 16 اگست 2025