مقصد زندگی اور منصبی فریضے کا شعور بیدار کرنے والی ایک صالح اجتماعیت
اصلاح امت اور دعوت دین کے میدان میں جماعت اسلامی ہندکی وسیع خدمات
مرتب: وسیم احمد
امن وانصاف سے محروم دنیا کے سامنے اسلام کو ایک’ بہترین متبادل‘ کے طور پر متعارف کرنے کی ضرورت
یہ مضمون سید تنویر احمد، میڈیا سکریٹری، جماعت اسلامی ہند کے ایک انٹرویو پر مبنی ہے ۔انہوں نے یہ انٹرویو ’البلاغ‘ چینل کو دیا تھا جس میں جماعت کی پچہتر سالہ جدو جہد، اس کے اغراض و اہداف اور طریقہ کار پر گفتگو کی ہے۔ اس انٹرویو کو عام استفادہ کے لیے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
کسی بھی فروعی مسئلے میں ملت کے علماء، دانشوران اور باشعور افراد کے درمیان اختلافات کا ہونا برا نہیں ہے بشرطیکہ یہ اختلاف تعمیری سوچ اور مثبت فکر و اصلاح پر مبنی ہو۔ کہا جاتا ہے ہے ’اختلاف العلماء رحمۃ‘ علماء کا اختلاف رحمت کا سبب ہوتا ہے۔ علماء اور مذہبی قائدین کے درمیان اختلافات کا ہونا خیر اور بھلائی کو جنم دیتا ہے۔ اس سے انسانی فکر کو صحیح سمت اور واضح رخ ملتا ہے اور واسباب وعلل کی دنیا میں کسی مقصد کے حصول کے لیے موجود مختلف طریقوں کی نشاندہی اور دریافت بھی ہوتی ہے۔ البتہ یہ اختلافات عقائد اور مذہب کے بنیادی اصولوں پر نہیں ہونے چاہئیں۔ دنیا میں بہت سی تحریکیں قیام دین کے لیے الگ الگ حکمت عملی اور طریقہ کار کے ساتھ کام کر رہی ہیں۔ ان میں مسلکی اور اجتہادی اختلافات ہوتے ہیں مگر ان اختلافات کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ یہ تحریکیں مذہب کے اصولی بنیادوں اور قرآن کو مرکز بنا کراپنا کام جاری رکھتی ہیں۔ انہی تحریکوں میں جماعت اسلامی ہند بھی ہے جو اسلامی اصولوں کے ساتھ گزشتہ پچھتر برسوں سے کام کر رہی ہے۔ اس تحریک سے مختلف مسالک کے افراد منسلک ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ الگ الگ مسالک کے باوجود جماعت میں اجتماعیت کا اعلیٰ نمونہ خوب تر نظر آتا ہے۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان سب کا مرکوزِ نظر قرآن ہے اور مقصود رضائے الٰہی۔ مضبوط اجتماعیت کی دوسری وجہ ہے جماعت کا مستحکم نظم اور مضبوط تنظیمی طریقہ کار۔ یہ دونوں چیزیں اس کی اجتماعیت کو مضبوط بنائے رکھنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ جماعت اس بات پر خاص توجہ دیتی ہے کہ اس کے تنظیمی ڈھانچے میں کوئی جھول پیدا نہ ہو۔ اس کے کیڈر اور وابستگان کو پوری آزادی حاصل ہوتی ہے کہ وہ جس مسلک کو چاہیں اختیار کریں۔انہیں فروعی مسائل میں اختلاف کا پورا حق حاصل ہے۔ البتہ اسلامی بنیادی عقائد سے سرِمو انحراف کی گنجائش نہیں ہے ۔
اجتماعیت کے تعلق سے ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ دنیا میں جتنی بھی اسلامی تحریکیں اور تنظیمیں کام کر رہی ہیں سب ہی قرآن کو اپنا مرکز بناتی ہیں۔ اس کے باوجود بعض تنظیمیں منقسم ہوجاتی ہیں، ٹوٹ جاتی ہیں یا اختلافات کا شکار ہوجاتی ہیں۔ ان کے ٹوٹنے یا منقسم ہونے کے پس پردہ عوامل کا تجزیہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان سے جڑے افراد کے قلوب کو، ایسی اجتماعیت کے جذبے سے مزین کرنے میں کمی رہ گئی جو رضائے الٰہی کے حصول کا محرک بنے۔ جب کسی فرد کا مقصدِ حیات رضائے الٰہی کا حصول بن جاتا ہے تو اس کے ہر عمل میں للہیت کی جھلک نظر آتی ہے، اخلاص اس کی طبیعت کا جزء لاینفک بن جاتا ہے اور وہ دنیا کے مادی فائدوں سے اوپر اٹھ کر محض اللہ کی رضا کے لیے کام کرنے لگتا ہے۔ان میں تحریکی مقصد کے حصول کے لیے اجتماعیت کو برقرار رکھنے کا عزم پختہ ہوتا ہے۔ ظاہر ہے جب کسی جماعت، تحریک یا تنظیم کے وابستگان میں یہ خصوصیت پید اہو تو وہاں جزوی اختلافات، اصل مقصد کے حصول کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتے۔ وہ انتشار کی لپیٹوں سے محفوظ رہتی ہے۔ جماعت اسلامی ہند نے ابتدا سے ہی قرآن کو اپنا مرکز بنانے کے ساتھ ساتھ اپنے کیڈر اور کارکنوں کے عزائم کو رضائے الٰہی کے حصول سے جوڑنے کا طریقہ اختیار کیا ہے، نتیجتاً انتشار کے امکانات سے محفوظ ہے اور اس کی اجتماعیت مثالی بن گئی ہے۔
جماعت میں اجتماعیت کو مستحکم رکھنے میں جو عوامل کارفرما ہیں ان میں اس کے دستور کا بڑا اہم رول ہے۔ دراصل جماعتوں اور تنظیموں میں انتشار کی وجہ عہدے کی خواہش بھی ہوا کرتی ہے۔ جماعت اسلامی ہند کا یہ خاصہ ہے کہ اس کے دستور میں اسلامی اسپرٹ کو کچھ اس طرح شامل کر دیا گیا ہے کہ عہدے کی خواہش رکھنے والا شخص خود بخود صف سے باہر ہو جاتا ہے۔ وہ اس طرح کہ جماعت کی امارت و دیگر عہدوں کے لیے ہونے والے انتخابات یا ذمہ داریوں کی تفویض میں ہر اس فرد کو نااہل قرار دیا جاتا ہے جو کسی عہدے کی خواہش کا اظہار برملا یا کسی بھی طریقے سے کرے۔ یہاں تک کہ کسی شخص میں عہدے کی چاہت محسوس کی جائے تو اراکین جماعت کی جانب سے اسے بھی نااہل قرار دے دیا جاتا ہے۔ اس دستور کی وجہ سے جماعت کی ذمہ داری اسی شخص کے حصے میں آتی ہے جو اسلامی اسپرٹ کے حامل اور تحریکی کام کو اجتماعیت کے ساتھ کرنے کا جذبہ رکھتا ہے۔
ایک اور وجہ جو جماعت کو اختلافات سے محفوظ رکھتی ہے وہ ہے امیر کی اطاعت۔ اسلام میں امیر کی اطاعت پر بڑی تاکید ہے۔قرآن نے جس قوت کے ساتھ امیر کی اطاعت کا حکم دیا ہے، جماعت کوشش کرتی ہے کہ اسی روحانیت اور قوت کے ساتھ اطاعت کا یہ حکم برقرار رہے۔ البتہ مشورے ہوں، معاملے کے سیاق و سباق کا تجزیہ کیا جائے، حالات و ماحول پر غورو فکر ہو پھر ان تمام پہلوؤں کو مد نظر رکھتے ہوئے جب امیر کوئی حکم دے تو اس کی تعمیل کو فرد اپنی ذمہ داری سمجھے اور اس کا نفاذ اس جذبے کے ساتھ کرے گویا کہ وہ حکم اس کی اپنی رائے کے عین مطابق ہے۔ یہ تو رہے تحریک کے اندر اجتماعیت کو مضبوط کرنے کے طور طریقے۔ اس کے ساتھ ایک اور بنیادی پہلو کا خاص خیال رکھنا تحریک کو مضبوط کرنے میں معاون ہوتا ہے، وہ ہے ترجیحات۔ کسی بھی تحریک کا جو بنیادی ہدف ہوتا ہے اس میں تو کوئی تبدیلی نہیں لائی جاسکتی۔ یہ تحریک کی روح ہوتا ہے۔ البتہ اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جو پروگرامس بنائے جاتے ہیں ان میں ترجیحات کا تعین کیا جا سکتا ہے اور بوقت ضرورت ان ترجیحات میں تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ ہر تنظیم موقع و محل کے تقاضوں کے مطابق حکمت عملی اور ترجیحات میں ردو بدل کرتی ہے۔ یہ صورت حال جماعت اسلامی ہند میں بھی مروج ہے۔ یہاں امیر جماعت کا انتخاب چار سال کے لیے ہوتا ہے۔ جب ایک میقات ختم ہوتی ہے اور نئی میقات شروع ہوتی ہے تو اس وقت قومی و ملی حالات اور ماحول کا تجزیہ کرنے کے بعد از سر نو حکمت عملی ترتیب دی جاتی ہے۔ اس ترتیب میں کئی مرتبہ ترجیحات بدل جاتی ہیں۔ اس تبدیلی کے پیچھے کئی عوامل ہوتے ہیں جو وقت اور ماحول کے تقاضوں کے تحت ہوتے ہیں۔
جماعت اسلامی ہند کی تاسیس کے پچہتر سال پورے ہونے والے ہیں۔ اس طویل عرصے میں جماعت نے اپنے ہدف کے مطابق ملک و ملت کو جب بھی جس طرح کی ضرورت پیش آئی، اس کو حل کرنے میں حتی المقدور تعاون دیا ہے۔ ملک کے اندر اتحاد و اتفاق کا ماحول بنائے رکھنے، ملت اسلامیہ کو قرآن سے جوڑنے، امت کا محور قرآن کو بنانے اور مذہب اسلام کو ایک جامع دین کی حیثیت سے متعارف کرانے میں طویل جدو جہد کی ہے۔ جماعت نے مذہب کے تصور کو ایک مخصوص سانچے میں پیش کرنے کے بجائے ایک جامع دین کی حیثیت سے اہل وطن میں متعارف کرایا اور بتایا کہ اسلام صرف عبادتوں، ریاضتوں اور مساجد کی حدود تک سمٹا ہوا نہیں ہے۔ یہ ایک مکمل نظام زندگی ہے اور اس کا دائرہ معاملات، سماجیات، معاشیات، سیاسیات، غرض زندگی کے تمام پہلوؤں پر محیط ہے اور یہ زندگی کے تمام گوشوں میں رہنمائی کرتا ہے۔ جماعت کو اپنے اس نظریہ دین اور تصور اسلام کو پیش کرنے کی وجہ سے مخالفتوں کا سامنا بھی کرنا پڑا، لیکن آج مخالفین بھی اس کے نظریہ دین کا اعتراف کرتے ہیں۔لہٰذا یہ کہنا بجا ہے کہ دین کے تصور اور اس کے مفہوم کو وسیع تر کرکے پیش کرنے کا جو عمل جماعت نے انجام دیا وہ اس کی بہترین کارکردگیوں میں سے ایک ہے۔ جماعت کا ایک اور اہم کام یہ ہے کہ اس نے ملک میں لوگ مختلف طبقات جو ذات برادری میں بٹے ہوئے تھے، حالانکہ یہ تقسیم آج بھی موجود ہے، ان تمام طبقوں تک یہ پیغام پہنچایا کہ انسان چاہے کسی بھی ذات برادری سے تعلق رکھتا ہو، بحیثیت انسان سب ایک ہی خدا کے بندے ہیں، سب کو اس کی بندگی میں آکر احترام باہمی کو زندگی کا لازمی حصہ بنانا چاہیے۔ جماعت، نسل انسانی تک اپنے ان پیغامات کو تحریروں اور تقریروں سے بھی پہنچاتی ہے اور اپنی سرگرمیوں اور فلاحی کاموں سے بھی۔ اس میں وہ قطعی تفریق نہیں کرتی کہ اس کی فلاحی سرگرمیوں سے استفادہ کرنے والا شخص کس ذات و برادری سے تعلق رکھتا ہے۔ سچائی تو یہ ہے کہ یہی انسانیت کا صحیح تصور ہے جسے جماعت نے ملک کو دیا ہے۔
جماعت نے جو امتیازی کام کیے ہیں ان میں ایک اہم کام مسلمانوں سے اس تصور کو ختم کرنا کہ دین اسلام صرف مسلمانوں کے لیے ہے۔ لہٰذا جماعت مختلف زبانوں میں غیر مسلموں کو قرآن مجید کے نسخے فراہم کرتی ہے تاکہ وہ قرآن پڑھیں، سمجھیں اور پھر دعوت دین کو قبول کریں۔ اس عمل کی وجہ سے جماعت کو مختلف جہتوں سے تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ کہا یہ گیا کہ قرآن مجید کسی غیر مسلم کے ہاتھوں میں دینا، اس مقدس کتاب کی بے ادبی ہے۔ مگر مرور زمانہ کے ساتھ ناقدین اس عمل کی اہمیت کو سمجھنے لگے ہیں اور وہ خود بھی غیر مسلموں تک قرآن پہنچانے کے عمل میں شامل ہوگئے ہیں۔ جماعت کا ایک اہم کام یہ بھی ہے کہ اس نے دینی امور کے ماہرین کا ایک معتدبہ طبقہ تیار کیا ہے۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ یہ طبقہ انسانوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کا پیغام سب کے لیے ہے، ان کا لایا ہوا دین سب کے لیے اور ان پر نازل کردہ کتاب قرآن مجید سارے جہاں کے لیے ہے۔ ماہرین کا یہ طبقہ مختلف مذاہب کے پیشواوں، دانشوروں، قائدین اور عوام الناس سے ملتا ہے، ان سے اسلام اور پیغمبر اسلام کے پیغام کے بارے میں باتیں کرتا ہے۔ انہیں اسلامی پیغام کی روح کےبارے میں بتاتا ہے۔ ان کی مساعی کے مثبت نتائچ سامنے آرہے ہیں اور غیر مسلمین کی خاصی تعداد آج پیغمبر اسلام کے اس آفاقی پیغام کی حقانیت کا اعتراف کرتی ہے۔ اگرچہ ابھی بھی اس میں وسیع پیمانے پر جدوجہد کرنے اور لوگوں کو بتانے کی ضرورت ہے کہ تمام پیغمبر بنی نوع انسان کو اس ایک خدا کی بندگی اور اس کی اطاعت کی دعوت دیتے رہے ہیں جو سب کا خالق ہے۔ اس دعوتی عمل میں نبی کبھی بھی اپنی شخصیت کی نمائش نہیں کرتا اور نہ ہی دعویٰ کرتا ہے کہ اس کی ذات میں خدائی طاقت ہے جیسا کہ دنیا کی بہت سی مذہبی شخصیتیں کرتی ہیں، جن کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی ذات کی نمائش ہو اور دنیا کی نظریں ان کی شخصیت پر مرکوز رہیں۔اسی سوچ اور فکر کا نتیجہ ہے کہ ماضی میں بہت سی مقتدر اور مذہبی شخصیات نے خود کو عظیم بتا کر اپنی ذات کو مافوق الفطرت قوتوں کا منبع قرار دیا۔ جبکہ نبی اپنی ذات اور شخصیت کی نمائش کرنے کے بجائے اپنے مشن اور ہدف کو پورا کرنے پر اپنی توانائیاں خرچ کرتا ہے۔ اس کا مشن اور ہدف بندوں کا براہ راست روحانی رشتہ خالق و مالک سے جوڑنا ہوتا ہے۔
خوشگوار اور پُرامن زندگی گزارنے کے لیے ملک میں اسلامی نظامِ حیات کو متبادل کے طور پر متعارف کرایا جانا چاہیے۔یہ نظام ہر فرد کو پُرامن زندگی کی ضمانت دیتا ہے۔مگر اس پہلو پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔ البتہ جماعت اسلامی ہند نے اسے اپنی ترجیحات میں رکھا ہے۔اس کے بہت سے اکابر نے جن میں سابق امیر جماعت مولانا جلال الدین عمری ؒ اور مولانا صدر الدیں اصلاحیؒ وغیرہم شامل ہیں اپنی تحریروں اور تقریروں میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔اس کے ساتھ ہی وہ یہ بھی اعتراف کرتے تھے کہ اس پر جتنا کام ہونا چاہیے تھا نہیں ہوا ہے۔ آزادی کے بعد جب ملک کا دستور بنایا جارہا تھا تو وہ ایک اچھا موقع تھا اور اس وقت منظم طریقے پر اسلامی نظام کو ملک کا متبادل نظام کے طور پر پیش کیا جا سکتا تھا۔ یہ ملکی مسائل کے لیے ایک بہترین حل تھا لیکن کہیں نہ کہیں کوتاہی ہوئی اور اس وقت اس کو اس طرح نہیں پیش کیا جاسکا جس طرح پیش کیا جانا چاہیے تھا۔البتہ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ جماعت اسلامی ہند اپنی تاسیس سے لے کر آج تک اس پہلو پر غور کرتی رہی ہے اور جب بھی کوئی موقع آیا تو اسلامی نظام کو متبادل کے طور پر پیش کرنے میں تذبذب نہیں کیا۔مثال کے طور پر انتخابی اصلاحات، تعلیمی نصاب، تجارتی سرگرمیاں، سماجی مساوات، خواتین کو بااختیار بنانے وغیرہ کے بارے میں موقع بہ موقع اسلامی حل پیش کرتی رہی ہے۔
موجودہ دور میں ’رائج جمہوریت میں اصلاحات‘ کی باتیں بڑے زور و شور سے کی جا رہی ہیں۔ یہ ایک وسیع موضوع ہے۔ یہ مسئلہ صرف جمہوریت میں اصلاحات کا نہیں ہے بلکہ روحانی دنیا سے نئی نسل کے ٹوٹتے ہوئے رشتے کو بحال کرنے کا بھی ہے۔ آج نئی نسل کا طرز زندگی بالکل بدل گیا ہے۔ روحانیت سے اس کا رشتہ منقطع ہوچکا ہے۔وہ اپنی ذات میں مرکوز و منحصر ہے۔ اس کے لب ولہجے، رہن سہن، ملنا جلنا اور انداز گفتگو پر نئے دور کا رنگ چڑھا ہواہے۔ یہ صورت حال صرف نوجوان نسل میں ہی نہیں بلکہ دیگر شعبوں سے منسلک افراد میں بھی پائی جاتی ہے۔اس کو ختم کرنے کی ضرورت ہے جس کے لیے جماعت کتابوں، لٹریچر، سمیناروں اور متعدد پروگراموں کے ذریعہ کوشش کرتی ہے۔ ماہنامہ ’’زندگی نو‘‘ جماعت کا ایک معتبر ماہنامہ ہے۔ اس میں امیر جماعت اسلامی ہند جناب سید سعادت اللہ حسینی اس موضوع پر مسلسل لکھتے ہیں۔
اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جماعت اس بحرانی دور میں کس طرح حل بن کر سامنے آرہی ہے۔ وہ انسانوں کو روحانی دنیا سے جوڑنا اور نئی نسل کی روحانی تربیت چاہتی ہے۔ جماعت کی سرگرمیوں میں ایک اہم کام ہے مسلم نوجوانوں کو الحاد کی طرف جانے سے روکنا۔ موجودہ وقت میں انہیں الحاد کی طرف راغب کرنے کے لیے نئے نئے طریقے ایجاد کیے جارہے ہیں۔ان طریقوں کو اپنا کر انہیں اسلامی شناخت سے دور کرنے کی منصوبہ بند کوششیں جاری ہیں ۔ اس کی ایک مثال ’’ایکس مسلم‘‘ ٹائپ کے گروپس ہیں۔ موجودہ وقت میں نوجوانوں کو آئیڈیالوجی کی سطح پر الحاد کی طرف بلایا جاتا ہے۔لہٰذا اس کا مقابلہ بھی آئیڈیالوجی سطح پر ہی کرنا ہوگا۔ اس کے علاوہ ثقافتی، اقتصادی،معاشرتی غرض ہر سطح پر اس الحادی سازشوں کے خلاف پریکٹیکل ماڈیول بنا کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ جماعت اس پر بھی نظر رکھتی ہے اور مختلف طریقوں سے اس الحادی آئیڈیالوجی کا مقابلہ کر رہی ہے۔ غرضیکہ جماعت اسلامی ہند، ملت اسلامیہ سمیت پوری نوع انسان کو روحانی دنیا سے جوڑنا چاہتی ہے۔اس کے لیے اس نے گزشتہ پچھتر برسوں میں بے شمار کام کیے ہیں جن کا احصاء کسی ضخیم کتاب کی متعدد جلدوں سے ہی کیا جاسکتا ہے۔
***
***
خوشگوار اور پُرامن زندگی گزارنے کے لیے ملک میں اسلامی نظامِ حیات کو متبادل کے طور پر متعارف کرایا جانا چاہیے۔یہ نظام ہر فرد کو پُرامن زندگی کی ضمانت دیتا ہے۔مگر اس پہلو پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔ البتہ جماعت اسلامی ہند نے اسے اپنی ترجیحات میں رکھا ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 26 فروری تا 04 مارچ 2023