!مقروض ملک:ریاستی و مرکزی حکومتوں میں قرض لینے کی دوڑ

قرض لے کر آمدنی بڑھانے کا طریقہ غیر صحت مندانہ معاشی روایت

زعیم الدین احمد حیدرآباد

انسان اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے قرض لیتا ہے، کوئی علاج کے لیے قرض لیتا ہے تو کوئی اعلیٰ تعلیم کے لیے، کوئی گھر کی تعمیر کے لیے تو کوئی شادی بیاہ کے لیے۔ الغرض جب کسی کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے ہیں کہ وہ اپنی ضرورت کو پوری کر سکے تو ایسی صورت میں اس کا قرض لینا واجبی معلوم ہوتا ہے۔ ایک رجحان یہ بھی ہے کہ ہم سے اکثر لوگ اگر پیسہ رکھتے بھی ہوں تب بھی قرض لے کر ہی ضرورت کو پورا کرتے ہیں اور اس قرض کو بعد میں اقساط کی شکل میں سود کی اضافی رقم کے ساتھ واپس کرتے ہیں۔ اس وقت یہ عام سی بات ہوگئی ہے۔ مثلاً کوئی مکان یا گاڑی خریدنا چاہتا ہو تو اسے ماہانہ اقساط پر خریدتا ہے اور سود سمیت واپس کرتا یے۔ اسی طرح سے دیگر ضروریات زندگی بھی۔ سودی قرض کی حرمت و علت اور اس کی شرعی حیثیت پر مفتیان کرام ہی فتویٰ دے سکتے ہیں، لیکن ایک بات ضرور ہے کہ جو قرض لیتا ہے وہ مستقل اضطراب کی کیفیت میں مبتلا رہتا ہے۔ اس کا ذہنی سکون غارت ہو جاتا ہے اور وہ ذہنی دباؤ کا شکار رہتا ہے، کیوں کہ قرض کی واپسی اس کے لیے ایک چیلنج بنی رہتی ہے۔ قرض لینا جتنا آسان ہے اس کی واپسی اتنی ہی مشکل ہے۔ یہاں اس موقع پر یہ بحث کرنا مقصود نہیں ہے کہ قرض لینا چاہیے یا نہیں بلکہ ہمارا آج کا موضوع ہمارے ملک کے قرضوں کا ہے جو کہ بالواسطہ طور پر ہمارا ہی قرض ہے۔
آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ہمارا ملک اس وقت جتنے قرضوں کے دلدل میں پھنسا ہوا ہے اتنا وہ گزشتہ 40 سالوں میں کبھی نہیں پھنسا۔ ایک اور بات یہ ہے کہ اس میں ریاستی حکومتیں بھی شامل ہیں۔ ریاستی و مرکزی حکومتوں کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ان دونوں کے درمیان قرض لینے کا کوئی مقابلہ چل رہا ہو۔ قرض لینے میں جو ترقی اس دورانیہ میں ہوئی ہے وہ پچھلے چالیس سالوں میں کبھی نہیں ہوئی۔ اب بھگوا صحافت یہ کہہ سکتی ہے کہ اس دوران کورونا جیسے عالمی وباء پھیلی ہوئی تھی جس سے سارا کاروبار ٹھپ ہو گیا تھا، معیشت کو چلانے کے قرض لینا ہی پڑتا ہے وغیرہ، لیکن انہیں یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ سال 2019-20ے دوران اتنا قرض لے لیا گیا تھا کہ اگر اس کا موازنہ کیا جائے تو وہ بھی گزشتہ چالیس سالوں میں سب سے زیادہ تھا کورونا کے بعد اس میں مزید اضافہ ہوگیا۔ مالی سال 2022-23کا اگر موازنہ کریں تو معلوم ہوگا کہ یہ قرض ملک کی آمدنی یعنی جی ڈی پی کا 86.5فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ گزشتہ مالی سال یعنی 2021-22میں یہ قرض 85.2 فیصد تھا۔ یہ اعداد و شمار گزشتہ چالیس سالوں میں سب سے زیادہ ہیں۔ تعجب خیز امر یہ ہے کہ ہمارا ملک اس وقت اپنی تاریخ کی سب سے بڑی معاشی اکائی بنا ہوا ہے اور دنیا کی سب سے تیز رفتار معاشی ترقی کرنے والا ملک بھی قرار پایا ہے۔ یعنی پچھلے کئی دہائیوں سے معیشت میں اتنی تیزی سے معاشی ترقی نہیں ہوئی جتنی اس وقت ہوئی ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ اتنی تیزی معاشی ترقی کرنے والے ملک کو اتنی بھاری مقدار میں قرض لینا پڑا؟ وہ وجوہات کیا ہیں کہ اتنی بڑی معیشت کو اور دنیا کی تیز ترین معاشی ترقی کرنے والے ملک کا قرض اتنا زیادہ ہے؟ کیا ہمارا ملک اپنی ہونے والی آمدنی سے اتنا بھاری قرض کا بوجھ اتار پائے گا؟ کیا ہمیں اتنی بھاری مقدار میں قرض لے کر آمدنی بڑھانے کی واقعی ضرورت ہے؟ اور کب تک اس طرح کی معاشی حکمت عملی کام کرے گی؟ یہ سوالات بڑے اہم ہیں۔
صحت مند معاشی صورتحال یہ ہے کہ اپنی معیشت میں بچت یعنی سیونگس کو بڑھا کر، پھر انہی سیونگس کو سرمایہ کاری یعنی انویسٹمنٹ میں تبدیل کرکے اپنی آمندنی کو بڑھایا جائے، یہ صحت مند معاشی صورتحال ہوتی ہے۔ اپنی ہی مثال لے لیں، ہم اپنی آمدنی میں کچھ بچت کرکے کہیں سرمایہ کاری کرکے اس سے آمدنی میں مزید اضافہ کرنا اچھی علامت کہلاتا ہے، وہیں اگر ہم قرض لے کر سرمایہ کاری کریں گے، کہیں زمین خریدیں گے یا پھر شیئرز خریدیں گے تو یقیناً ان کی قدر یعنی ویلیو میں اضافہ ہوگا، جس طرح اس زمین کی یا شیئرز کی قدر بڑھے گی اسی طرح قرض پر سود بھی بڑھتا جائے گا۔ بالفرض شیئرز کی قدر یا زمین کی قدر کم ہوجاتی تب کیا ہوگا؟ سارا حساب کتاب گڑبڑا جائے گا، اس وقت صرف قرض ہی باقی رہ جاتا ہے اور کچھ نہیں، بالکل اسی طرح ملک کے قرضوں کا معاملہ ہے۔ ہر ایک کو قرض لینا ناگزیر ہے، قرض لینا ہی پڑتا ہے، ہم یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ قرض نہیں لیا جانا چاہیے، بلکہ ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ ضرورت کے تحت قرض لیا جائے، ناگزیر ہو تب ہی قرض لینا چاہیے، قرض لے کر آمدنی بڑھانے کا طریقہ کار صحت مند معاشی روایت نہیں کہلاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ قرضوں سے کی گئی معاشی ترقی کب تک قائم رکھی جاسکتی ہے؟ اسی کیفیت کو معاشی اصلاحات میں "ڈیٹ انڈیوز اکنامک بووم” کہا جاتا ہے۔ اس طرح کی معاشی ترقی کب تک قائم رہتی ہے یقینی طور پر نہیں کہا جاسکتا۔ یہ کبھی بھی گھٹنوں کے بل آ سکتی ہے۔ سابق میں ہم نے کئی بڑی معیشتوں کو دیکھا ہے، انہوں نے اسی طرح کی غیر عقلی و غیر منطقی معاشیپالیسیوں کو اپنایا اور پھر معاشی بدحالی کا شکار ہوگئیں۔ چند سال پہلے امریکہ میں ہاؤزنگ بحران کو ہم نے دیکھا ہے جو یکایک دھڑام سے زمین پر آ رہا۔ وہاں اسی طرح کی غیر صحت مند معاشی انداز کو اپنایا گیا تھا، بھاری مقدار میں قرض لے کر مکانات تعیمر کیے گئے۔ کہیں ایک جگہ ذرا سی گڑبڑ ہوگئی اور پھر ساری معاشی صورتحال بگڑ کر رہ گئی۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ ہمارے ملک کی صورت حال بھی ویسی ہو گی، بلکہ یہ کہہ رہے ہیں کہ اتنی بھاری مقدار میں قرض لے کر معاشی ترقی صحت مند معاشی ترقی نہیں کہلاتی ہے، اس سے معاشی بحران کا خدشہ لاحق رہتا ہے، قوی امکان رہتا ہے کہ معاشی بدحالی ہو جائے۔
نظام معیشت میں عام طور ماہرین معیشت دو طرح کے خساروں پر تشویش ظاہر کرتے ہیں۔ ایک ہے فسکل ڈیفیسٹ ‘مالی خسارہ’ اور دوسرا ہے کرنٹ اکاؤنٹ ڈیفیسٹ ‘روز مرہ کا خسارہ’، یعنی ہمارے درآمدات و برآمدات کا فرق۔ روزانہ ہم کتنا زر مبادلہ کماتے ہیں اور کتنا زر مبادلہ خرچ کرتے ہیں، اس کی بنیاد پر کرنٹ اکاؤنٹ ڈیفیسٹ طے ہوتا ہے، اسی کو کرنٹ اکاؤنٹ ڈیفیسٹ کہا جاتا ہے، معاشی اصطلاح میں سارے درآمدات و برآمدات کو تجارتی خسارہ ‘ٹریڈ ڈیفیسٹ’ کہا جاتا ہے، اس پورے سسٹم پر یعنی ایمپورٹ اور ایکسپورٹ پر سب سے زیادہ جو چیز اثر انداز ہوتی ہے وہ ہے خام تیل کا دام۔ اگر خام تیل کے داموں میں اتار چڑھاؤ ہوگا تو ایمپورٹ و ایکسپورٹ کے آمدنی و خسارے پر بھی اثر پڑے گا۔ مودی حکومت کی خوش قسمتی یہ ہے کہ گزشتہ دس سالوں میں بین الاقوامی سطح پر خام تیل کا دام سو ڈالر فی بیرل سے کبھی زیادہ نہیں ہوا۔ مودی حکومت کو سب سے بڑا فائدہ یہی ہوا کہ خام تیل کی قیمتیں ہمشہ سو ڈالر کے اندر ہی رہیں، جب کہ یو پی اے دور اقتدار میں خام تیل کی قیمتیں تقریباً ایک سو دس ڈالر سے ایک سو چالیس ڈالر فی بیرل کے درمیان رہیں۔ اس میں مودی کا کوئی کمال نہیں ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر خام تیل کی قیمتیں مستحکم رہیں۔ بہرحال پچھلی دہائی میں خام تیل کی قیمتیں سو ڈالر کے اندر ہی رہیں۔ اسی کا فائدہ یہ ہوا کہ جی ڈی پی میں کرنٹ اکاؤنٹ ڈیفیسٹ ہمیشہ دو فیصد کے اندر ہی رہا۔ ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ اگر کرنٹ اکاؤنٹ ڈیفیسٹ، جی ڈی پی کا دو فیصد یا اس کے اندر ہی ہوتا ہے تو معیشت کی حالت اطمینان بخش مانی جاتی ہے۔
قرض پر اثر انداز ہونے والا دوسرا اہم عنصر فسکل ڈیفیسٹ ہوتا ہے۔ ملک کی مجموعی پیداوار سے ہونے والی آمدنی و خرچ کے درمیان کا فرق، مرکزی و ریاستی حکومتوں کا جملہ قرض جی ڈی پی کا 9.4 فیصد ہے۔ یہ اعداد و شمار دیکھ کر ہی اندازہ ہو جائے گا کہ ریاستی و مرکزی حکومتیں کیسا بے دریغ قرض لے رہی ہیں اور کیوں اتنا بھاری مقدار میں قرض لے رہی ہیں؟ یہ کیفیت کیوں پیدا ہوئی؟ یہ کیفیت اس لیے پیدا ہوئی کیوں کہ ملک میں خانگی سرمایہ کاری یا بیرونی سرماکاری جس سطح پر ہونی چاہیے تھی نہیں ہو سکی۔ حکومتی توقعات کے مطابق سرمایہ کاری نہیں ہوئی، لہٰذا حکومتوں نے ہی خرچ کرنا شروع کر دیا ہے۔ حکومت کہاں سے خرچ کرے؟ سیدھی سی بات ہے کہ اس نے قرض لیا اور خرچ کیا، اسی لیے قرض کی مقدار اتنی بڑھ گئی۔ جب کہ حکومتیں ہر ممکن کوشش کر رہی ہے کہ سرمایہ کاری لائیں، اسی وجہ سے وہ خانگی سرمایہ کاری کرنے والوں کو رعایتیں دیتی ہیں۔ حکومت کہتی ہے کہ رعایتیں دینے سے خانگی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا، لیکن حکومتی اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ بڑے بڑے خانگی ادارے رعایتیں تو ہضم کر رہے ہیں لیکن سرمایہ کاری نہیں کر رہے ہیں۔ نہ صرف رعایتیں ہضم کر رہے ہیں بلکہ اس سے اپنے منافع میں اضافہ کر رہے ہیں۔ کچھ دن قبل وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے خانگی سرمایہ کاروں کے اجلاس میں اپنے اسی دکھ کا اظہار کیا تھا۔ خانگی سرمایہ کاری کی شرح ملک کی جی ڈی پی میں صرف 32 فیصد ہی ہے، جبکہ یو پی اے کی حکومت میں یہ شرح تقریباً چالیس فیصد تھی، پھر کیا وجہ ہے کہ خانگی سرمایہ کاری نہیں ہو رہی ہے؟ جبکہ بڑی کارپوریٹ کمپنیوں جیسے اڈانی، امبانی کی آمدنیوں میں اضافہ ہو رہا ہے؟ اگر آپ ان کی بیلنس شیٹ دیکھیں گے تو اندازہ ہوگا کہ ان کی آمدنیوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ خانگی سرمایہ کاری اس لیے بھی نہیں ہو رہی ہے کیوں کہ عوام کی قوت خرید بہت کمزور ہو گئی ہے، بچت نہیں ہو رہی ہے، اگر بچت نہیں ہو گی تو قوت خرید بھی نہیں بڑھے گی۔ جب قوت خرید نہیں بڑے گی تو کسی شے کی ڈیمانڈ نہیں ہوگی، ڈیمانڈ نہیں ہوگی تو کوئی بھی خانگی ادارہ سرمایہ کاری نہیں کرے گا۔ حکومت سے سوال ہے کہ ان خانگی اداروں کو رعایتیں دینے کا کیا فائدہ جو سرمایہ کاری نہیں کرتے؟ حکومت کو چاہیے کہ پہلے عوام کی قوت خرید کو بڑھائے۔ قوت خرید کیسے بڑھے گی؟ قوت خرید روزگار سے بڑھے گی، حکومت کو چاہیے کہ روزگار کے مواقع پیدا کرے اور ساتھ ہی خانگی اداروں کو سرمایہ کاری پر رعایتیں دینا بند کرے۔
***

 

***

 آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ہمارا ملک اس وقت جتنے قرضوں کے دلدل میں پھنسا ہوا ہے اتنا وہ گزشتہ 40 سالوں میں کبھی نہیں پھنسا۔ ایک اور بات یہ ہے کہ اس میں ریاستی حکومتیں بھی شامل ہیں۔ ریاستی و مرکزی حکومتوں کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ان دونوں کے درمیان قرض لینے کا کوئی مقابلہ چل رہا ہو۔ قرض لینے میں جو ترقی اس دورانیہ میں ہوئی ہے وہ پچھلے چالیس سالوں میں کبھی نہیں ہوئی۔ اب بھگوا صحافت یہ کہہ سکتی ہے کہ اس دوران کورونا جیسے عالمی وباء پھیلی ہوئی تھی جس سے سارا کاروبار ٹھپ ہو گیا تھا، معیشت کو چلانے کے قرض لینا ہی پڑتا ہے وغیرہ، لیکن انہیں یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ سال 2019-20ے دوران اتنا قرض لے لیا گیا تھا کہ اگر اس کا موازنہ کیا جائے تو وہ بھی گزشتہ چالیس سالوں میں سب سے زیادہ تھا کورونا کے بعد اس میں مزید اضافہ ہوگیا۔ مالی سال 2022-23کا اگر موازنہ کریں تو معلوم ہوگا کہ یہ قرض ملک کی آمدنی یعنی جی ڈی پی کا 86.5فیصد تک پہنچ گیا ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 28 جنوری تا 3 فروری 2024