مجوزہ وقف دشمن بل عالمی اسلاموفوبک منصوبہ کا حصہ

اصلاحات کی آڑ میں فساد’ امپاورمنٹ‘ کے نام پر ملّت کو کمزور کرنے کی سازش

0

حکیم ایم اجمل فاروقی، دہرہ دون

وقف ایکٹ میں تبدیلی کے لیے پیش کردہ بل کی اہم ترین تبدیلیوں میں سے کوئی بھی تبدیلی اس نئے بل کے نام Empowerment (خود اختیاری ) سے میل نہیں کھاتی۔ اس کا مقصد اعلیٰ اختیارات کا فروغ ہونا چاہیے تھا مگر حقیقت میں یہ ترمیم اوقاف کو صریحاً نقصان پہنچانے والی، ملت کو کم زور کرنے والی اور محاسبین کی حمایتی ہے، جس سے حکومتی و انتظامی مشینری کے لیے اوقاف ایک نرم ہدف بن جائے گا۔
آغاز میں اس بل کی نظریاتی، تزویراتی اور سازشی پس منظر کو تاریخ میں جا کر تسلسل بنا لیتے ہیں۔ غالباً اسّی کی دہائی میں امریکی پروفیسر سمیوئیل ہنٹگٹن کی مشہور زمانہ کتاب Clash of Civilisation Making of New World Order & منظرِ عام پر آئی جو کہ دراصل حکومت امریکہ کے لیے لکھے گئے مضامین کا مجموعہ تھی۔
اس میں عالمِ انسانیت کے مختلف حصوں کے اعداد و شمار اکٹھا کر کے آنے والے دور میں ان کی افادیت پر تجزیہ کیا گیا تھا اور کچھ خیالی منظر نامے مستقبل کی دنیا کے پیش کیے تھے۔ یہ مضامین اعداد و شمار کے لحاظ سے بے مثال کاوش تھے۔ اس میں پوری دنیا کی اقوام کے آبادی کے تناسب، آبادی میں رفتار کے تناسب اور آبادی میں بوڑھوں، نوجوانوں کے تناسب کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ اکیسویں صدی کے شروع تک دنیا میں 14-21 سال کی مرد آبادی کا بڑا حصہ مسلم نوجوانوں پر مشتمل ہوگا، یعنی نوجوانوں کی غالب اکثریت مسلمان ہوگی۔ جسے Youth Bulge (نوجوانوں کا ابھار) نام دیا گیا۔
یہیں سے مسلم ملت کے اس قیمتی اثاثہ ’’نوجوانوں‘‘ کو ٹھکانے لگانے کے لیے بڑے پیمانے پر منظر کے سامنے اور پردہ کے پیچھے سازشیں رچی گئیں۔ جن میں مغرب کے ذریعہ پرورش اور پروان چڑھائی گئیں مشکوک جہادی تنظیموں کے علاوہ مغربی فکر، عیش مادہ پرستی، کیریئر پرستی، مذہب بیزاری، آباؤ اجداد کی تہذیب پر فخر اور بڑھتی وابستگی، جنسی بے راہ روی کے نئے نئے ایڈیشن، تہذیب، آرٹ، آزادی، کھلے پن وغیرہ کے نام پر پھیلائی گئیں۔
عراق پر پہلے حملے کے قریب کے دور میں جارج بش سینئر کے زمانے میں امریکہ میں سابق ملٹری افسروں نے ایک تھنک ٹینک اسی امتِ مسلمہ کی بیداری کے اندیشے سے جس میں Muslim Youth Bulge (مسلم نوجوانوں کے ابھار کا بڑا حصہ ہو سکتا تھا) ایک بڑا پلان تیار کیا تھا۔ اس تھنک ٹینک رینڈ کارپوریشن (Rand Corporation) نے اپنی حکومت اور بین الاقوامی برادری کے لیے جو منصوبے بنائے تھے، ان میں 4-5 اہم حکمتِ عملی سے متعلق امور تھے جن پر پوری دنیا میں کام کیا جاتا تھا۔
راقم الحروف کو فی الحال وہ سارا مواد دستیاب کرنے میں وقت لگ سکتا ہے جس پر اس زمانے میں خوب لکھا اور پڑھا گیا تھا، مگر شکار بھول گیا کہ شکاریوں نے کیا کیا جال بچھائے ہیں۔ مگر شکاری تو ہر جگہ تاک میں تھے اور آج بھی ہیں۔ اس پر سب سے بڑھ کر شدت کے ساتھ عمل مسلم دنیا کے ظالم حکم راں مغرب و مشرق کے اسلام دشمنوں کے ساتھ مل کر عمل کر رہے ہیں۔
رینڈ کارپوریشن کے اہم سازشی امور میں شامل تھے:
1۔ مساجد کو کنٹرول کرنا
2۔ مسلمانوں میں مسلکی تفریق کو فروغ دینا
3۔ اوقاف و زکوٰۃ کے نظام کو غیر مؤثر بنانا
4۔ قدیم مقامی تہذیبوں سے تعلق کو فروغ دینا جو کہ دینی تہذیب، زبان، ادب، تفریح سب میں الگ ہو اور نئی نسل کے ہیرو مقامی ہوں، عرب، مسلم یا ملی نہ ہوں
5۔ روایتی علماء اور دین دار جدید تعلیم یافتہ طبقہ (اسلامسٹ) کو نہ ملنے دیا جائے۔
ان کے درمیان کشمکش اور دشنام طرازی، الزام بازی کا ماحول بنا کر رکھا جائے۔ آپ اس معلومات کو کسی بھی سرچ انجن سے چیک کر سکتے ہیں اور اس رپورٹ کے بعد سے مسلم ملت کے حالات مسلم ممالک اور غیر مسلم ممالک ہر جگہ تجزیہ کر سکتے ہیں کہ پورا عالمِ اسلام کس طرح آج برادر کشی، بے سمتی، فرقہ وارانہ کشمکش، مادہ پرستی اور ہر طرح کی بے راہ روی میں مبتلا کر دیا گیا ہے۔ عرب، افریقہ، ایشیا سمیت تمام مسلم اکثریتی ممالک اس سازشی پلان کا شکار ہیں۔
اور اب عالم یہ ہے کہ اس سازش کو سازش کہنا بھی مذاق اور طنز کا نشانہ بننا جیسا ہے۔ یہ اصل پروپیگنڈہ کا کمال ہے کہ خود شکار ہی کہے کہ مجھے کسی نے شکار نہیں کیا، یہ تو میرے ہی اندر خود کشی کی نفسیات پیدا ہو گئی ہیں۔
موجودہ وقف بل کے مشمولات اور لوازمات اس پروگرام کے کم سے کم تین خطرناک نکات پر مشتمل ہیں:
• وقف کو کم زور کرنا
• وسیع بنیادوں پر طبقات کی شمولیت کے نام پر مسلکی اختلافات کو ہوا دینا
• بالواسطہ طور پر مساجد کمیٹیوں، متولیوں کے ذریعہ ائمہ، علماء اور خطبہ جمعہ وغیرہ کو کنٹرول کرنا۔
ساری اسلامی دنیا میں خصوصاً سعودی عرب میں عرصہ سے آزاد خطبہ جمعہ ختم ہو گئے ہیں، سرکاری خطبات پورے ملک میں پڑھے جاتے ہیں اور حکومتوں کے منظورِ نظر علماء کی تقرری کی جاتی ہے۔
اس اہم بحث میں اوقاف کی بربادی، کرپشن، خرد برد، ناجائز قبضوں، مجرمانہ لاپروائی یا تساہل میں خود امتِ مسلمہ کے ہر طبقے کے کردار کو بھی ذہن نشین رکھنا ضروری ہے۔
تقسیمِ ملک کے وقت سے لے کر اسّی کی دہائی کے آغاز تک کم و بیش وقف کے معاملات ایمان دار، پر خلوص اور صاحبِ حیثیت لوگوں کے ہاتھوں میں تھے۔ مشاورت یا انتخابات کے ذریعہ مقامی انتظامیہ کے الیکشن ہوتے تھے۔ کرپشن بہت کم سطح کا اور کم مقدار کا تھا۔ کرپشن کے بجائے تساہلی، ذمہ داری کا حق نہ ادا کرنا، ذمہ دار کا تمغہ سجا کر لاپروا ہو جانا وغیرہ عوامل سے نقصان ہوتا تھا۔
مگر جب سے سیاسی پارٹیوں نے اپنے مسلم کارکنان کو نوازنے کے لیے سرکاری عہدوں، تقرریوں، بورڈوں وغیرہ کے بجائے مفت کے مال یعنی اوقاف کی مقدس امانت کو ذریعہ بنا لیا تو کرپشن کی باڑھ کا دروازہ کھول دیا گیا۔
وارڈ ممبروں، سیاسی پارٹیوں اور ان کی اقلیتی سیل کے چھوٹے بڑے ذمہ داروں نے جو عموماً بے ایمان اور غیر ذمہ دار تھے، سب نے مل کر ووٹوں کی خاطر بڑے پیمانے پر ناجائز قبضے کرائے۔
حلوائی کی دکان پر دادا کی فاتحہ کا اہتمام کر کے خود کو مخیر اور غریب پرور ثابت کرنے والے شرفاء نے بڑے بڑے قبضے بھی کر رکھے ہیں۔ ہمارے شہر کے دو بڑے قبرستانوں میں، جن میں اب ساڑھے تین تا چار سو مکانات فی قبرستان بن چکے ہیں، اکثر کرایہ دار بیس روپے ماہانہ کرایہ بھی بورڈ کو نہیں دیتے، مگر خود کئی کئی مکانات کرایہ پر دے کر ہزاروں روپے ماہانہ کما رہے ہیں۔ مسلم غریب عوام بھی یتیموں، مسکینوں اور مساجد کی املاک کو ہڑپنے میں پیچھے نہیں ہیں۔ اگر وہ اسے اپنے استعمال میں رکھتے تو غنیمت تھا مگر اس ناجائز قبضے کو ایک کاروبار بنا لیا ہے۔ اگر کوئی متولی کرایہ بڑھانے کی کوشش کرے تو یہ "غریب” عوام غنڈہ گردی پر اتر آتے ہیں، حتیٰ کہ مار پیٹ پر بھی آمادہ ہو جاتے ہیں۔
ماشاءاللہ، علماء اور مدارس کے ناظمین بھی وقف املاک کو ’’ھنیئاً مریئاً‘‘ کی طرح برتنے میں کافی مستعد ثابت ہوئے ہیں۔ جس نے بھی مسجد، مدرسہ یا حجرے پر قبضہ کر لیا وہ اسے اپنی آبائی جائیداد کی طرح استعمال کر رہا ہے۔ خاص طور پر مدارس کے ناظمین لوٹ اور جھوٹ پر آمادہ ہیں۔ مقامی لوگوں کو ان مدارس کے مالی معاملات کا بخوبی علم ہے؛ نہ کوئی کمیٹی ہے، نہ حساب کتاب، نہ آڈٹ، نہ کارکردگی کا احتساب۔
اگر آپ اوقاف کے ذریعے چلنے والے تعلیمی اداروں اور ان سے ملحقہ جائیدادوں کا حال دیکھیں اور ان کے متولیوں کے حالات جانیں تو سوائے افسوس اور مایوسی کے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ راقم الحروف کو اپنے شہر میں وقف کو دیکھتے ہوئے تقریباً ساٹھ سال ہو چکے ہیں۔ عرصہ قبل راقم الحروف کے چچا مرحوم پنجاب وقف بورڈ میں عہدے دار تھے۔ وہ والد مرحوم کے پاس آتے تھے اور گھنٹوں وہاں کے بڑے لوگوں، مسلمان اعلیٰ عہدیداروں، اور سیاست دانوں کی لوٹ کھسوٹ کے قصے سناتے تھے۔
حال ہی میں دہلی سرحد پر واقع گڑگاؤں کے پالم وہار میں، میرے دیکھتے ہی دیکھتے ایک عیدگاہ پر کانگریس سرکار نے قبضہ کر لیا اور وہاں سڑک بنا دی۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ وقف کے اعلیٰ سرکاری افسر نے عیدگاہ کے منتظمین کو رہائش کا انتظام کرنے کی پیشکش بھی کی تھی۔
راقم الحروف نے 1960 کی دہائی میں اپنے مرحوم چچا کے ساتھ بارہ تیرہ سال کی عمر میں کپورتھلہ اور جالندھر کے حالات دیکھے تھے۔ کپورتھلہ کی عظیم الشان جامع مسجد بھی دیکھی جو مہاراجہ کپورتھلہ نے مراقش کی جامع مسجد کے طرز پر تعمیر کرائی تھی۔ ایک اور پہلو یہ ہے کہ ان تمام وقف اثاثوں کی آمدنی کا بڑا حصہ زیادہ سے زیادہ مساجد کے انتظام پر خرچ کیا جاتا ہے۔ اگر خرچ کرنے کی گنجائش نہ ہو تو زبردستی گنجائش پیدا کی جاتی ہے۔ سادہ فرش کو ٹائلز میں بدلا جاتا ہے، ٹائلز کو موزائیک میں، موزائیک کو سنگِ مرمر میں اور پھر سنگِ مرمر کو گرینائٹ یا مزید مہنگے پتھر میں۔ قالینوں سے بات نہیں بنتی تو مہنگے قالین بچھا دیے جاتے ہیں اور اب اے سی بھی عام ہو رہے ہیں۔
ہمارے یہاں ایک مسجد کی ماہانہ آمدنی ایک تا ڈیڑھ لاکھ لاکھ روپے اور دوسری کی ڈیڑھ تا دو لاکھ روپے ہے۔ مگر یہ ساری آمدنی صرف مسجد پر خرچ ہو رہی ہے۔ ایک مسجد میں ابھیدو کروڑ روپے مالیت کا دوبئی اسٹائل گیٹ اور وضو خانہ بنایا گیا ہے۔ دوسری مسجد میں پچھتر ہزار روپے کا فانوس لگایا گیا ہے، اور موجودہ فرش کو ہٹا کر زیادہ قیمتی پتھر لگانے کا منصوبہ پچیس لاکھ روپے لاگت کا تیار ہے۔
بڑے بڑے مزار ہیں جن کی روزانہ اور جمعرات کی آمدنی ہزاروں روپے ہے۔ خدمتِ خلق کے نام پر عرس کے دن پانچ دیگ بریانی یا کسی نیتا جی کے ہاتھوں جاڑوں میں رضائیاں اور کمبل تقسیم ہو جاتے ہیں۔ ہمارے نااہل یا بدعنوان متولی جلدی سے فتویٰ کی آڑ لیتے ہیں کہ مسجد کی آمدنی دوسری جگہ خرچ نہیں کی جا سکتی۔ جبکہ ماہرین نے بتایا کہ وقف جائیدادیں ’’وقف علی الخیر‘‘ ہیں، یعنی ان کی آمدنی ’’خیر‘‘ کے ہر کام میں استعمال کی جا سکتی ہے۔
اس یکطرفہ غیر شرعی روش کا نتیجہ یہ ہے کہ اکثر وقف جائیدادوں کی آمدنی حقوق العباد کے مصرف میں خرچ ہی نہیں ہوتی۔ یتیم، مسکین، معذور، بیوہ، بیمار اور طالب علموں تک کے لیے کوئی اخراجات نہیں کیے جاتے۔ چھوٹی موٹی ڈسپنسریاں، پیتھالوجی لیب، بے سہارا بچوں اور خواتین کے لیے گھر یا ہنر سکھانے کے ادارے بآسانی بنائے جا سکتے ہیں مگر وہ بھی عموماً نہیں کیے جاتے۔
آج کل ملت کی بیٹیاں بڑے پیمانے پر تعلیم اور ملازمت کے سلسلے میں دوسرے مقامات پر رہتی ہیں جس سے ان کی عزت، حفاظت، عصمت اور ایمان ہر طرح کے خطرے میں ہوتے ہیں۔ گرلز پی جی ہاسٹلز وغیرہ میں جو خطرات ہوتے ہیں، ان سے بخوبی آگاہی ہے۔ اس طرح کے تعلیمی اور صنعتی مراکز میں وقف کی آمدنی سے با آسانی گرلز ہاسٹلز بنائے جا سکتے ہیں۔ ان سب کے نہ ہونے سے منافق خیر خواہوں کو موقع ملتا ہے کہ وقف سے عورتوں اور غرباء کی مدد نہیں ہو رہی۔
اب آتے ہیں حالیہ متنازعہ وقف دشمن بل کی طرف۔ بہت کچھ لکھا بولا اور پڑھا جا چکا ہے۔ کیا کسی منصف مزاج انسان کو یہ بل وقف اور مسلمانوں کو "مضبوط” کرنے کے لیے بنایا گیا لگتا ہے؟ یہ تو صرف حکومت کے کنٹرول کو بڑھانے، جائیدادوں سے محروم کرنے، مسلمانوں کو آپس میں لڑانے اور مسجدوں، ائمہ، مدارس پر بالواسطہ حکومت کی گرفت کو مضبوط کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔
مجوزہ دشمنِ وقف بل میں اہم نکات یہ ہیں: وقف بورڈ میں غیر مسلم اراکین پارلیمنٹ کی شمولیت، CEO کے لیے مسلم ہونے کی شرط کا خاتمہ، متنازعہ مالکانہ حقوق کے معاملے میں DM کو اختیار دینا، وقف کرنے کے لیے کم از کم پانچ سال پرانا مسلمان ہونا اور قبضے سے متعلق متنازعہ جائیداد کا فیصلہ ہونے تک اس کا غیر قانونی قابض کے پاس رہنا۔
یہ بل صرف سرکاری اور غیر مسلم اختیارات کو بڑھانے کے لیے بنایا گیا ہے۔ اصلاحات کی آڑ میں فساد کی بہترین مثال اگر کوئی بل بن سکتا ہے تو یہی مجوزہ وقف بل ہے۔
***

 

***

 مجوزہ دشمنِ وقف بل میں اہم نکات
وقف بورڈ میں غیر مسلم اراکین پارلیمنٹ کی شمولیت CEO کے لیے مسلم ہونے کی شرط کا خاتمہ
متنازعہ مالکانہ حقوق کے معاملے میں DM کو اختیار دینا
وقف کرنے کے لیے کم از کم پانچ سال پرانا مسلمان ہونا اور قبضے سے متعلق متنازعہ جائیداد کا فیصلہ ہونے تک اس کا غیر قانونی قابض کے پاس رہنا ضروری


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 22 ستمبر تا 28 ستمبر 2024