مین اسٹریم میڈیا، صحافتی جرأت و بے باکی سے عاری

یو پی حکومت کی نئی ڈیجیٹل میڈیا پالیسی، آزادی صحافت پر حملہ!

شہاب فضل، لکھنؤ

ٹی وی چینلوں کی منافقت ہندو-مسلم تناظر میں خبروں کی صورت گری
کرائم رپورٹنگ میں بدترین مذہبی تعصب کا انکشاف
کسی خبر، مسئلہ یا معاملے کو کسی اخبار، ٹی وی چینل یا ریڈیو میں کتنی جگہ دی جارہی ہے، کہاں شائع یا نشر کیا جارہا ہے اور اس کی سرخی میں کن لفظوں یا جملوں کا استعمال کیا جارہا ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ اخبار، ٹی وی چینل کتنا ایمان دار، غیرجانب دار، غیر متعصب، صحافتی اور انسانی قدروں کا علم بردار اور دباؤ سے آزاد ہے۔ مثال کے طور پر ’ڈیموکریسی ناؤ‘ کے نام سے امریکہ اور کناڈا کا ایک نیوز ادارہ ہے جس کے نو ریڈیو اسٹیشن ہیں۔ اس نیوز پورٹل نے حال ہی میں اپنی ایک رپورٹ کی سرخی کچھ یوں لگائی ہے: ’’نسل کشی شروع ہونے کے بعد سے امریکہ نے اسرائیل کو پچاس ہزار ٹن سے زائد ہتھیار اور جنگی ساز و سامان بھیجے۔‘‘ یہ ایک واضح سرخی ہے جسے ایکس پر شیئر کرتے ہوئے یہ بتایا گیا کہ صحافتی جرأت و بے باکی کیا ہوتی ہے۔ اس سرخی میں لاگ و لپیٹ سے کام کیے بغیر غزہ میں اسرائیل کی جارحیت کو نسل کشی کہا گیا ہے۔
اس نیوز ادارے سے روزانہ نشر ہونے والے نیوز پروگرام کے سلسلے میں ادارے نے اپنے ویب پیج پر لکھا ہے کہ ’’وہ اپنے ناظرین یا قارئین سے حمایت یافتہ ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ ہماری ادارتی آزادی میں کارپوریٹ یا سرکاری مفادات سے قطعی کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاتا۔‘‘ اس ادارے نے 1996ء میں اپنے قیام سے ہی سرکاری فنڈ، کارپوریٹ اسپانسرشپ، کوئی فیس یا اشتہاری ریونیو نہ لینے کی پالیسی اپنارکھی ہے۔ اس ایک مثال سے سمجھا جا سکتا ہے کہ میڈیا کی آزادی یا غیرجانب داری کو خود میڈیا ادارے کیسے محفوظ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں یا کر سکتے ہیں۔
میڈیا کی آزادی عصر حاضر کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ جمہوری نظام میں دو اداروں عدلیہ اور میڈیا کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ ان کی حالت دیکھ کر یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ حکومتیں کتنی جمہوری ہیں، آیا عدلیہ و میڈیا پر انہوں نے دباؤ کی پالیسی اپنا رکھی ہے، انہیں لالچ دے کر، ڈرا دھمکا کر خریدنے کی کوشش کر رہی ہیں یا ان کے کام کاج میں مداخلت نہیں کر رہی ہیں اور انہیں آزاد کر رکھا ہے تاکہ چوتھا ستون جمہوریت کو سنبھالے رکھے؟
حکومت اتر پردیش کی ڈیجیٹل میڈیا پالیسی سوالوں کے گھیرے میںفیک نیوز یا فرضی و گمراہ کن خبروں کی مصیبت کیا کم تھی کہ اتر پردیش کی کابینہ نے حال ہی میں ایک نئی سوشل میڈیا پالیسی کو منظوری دے دی، جس میں سوشل میڈیا انفلوئنسرز کے لیے بڑی ترغیبات ہیں، ساتھ ہی حکومت کی نظر میں ’قابل اعتراض‘ مواد بنانے والوں کے لیے سخت سزا کی تجویز بھی ہے۔
محکمہ اطلاعات کی تیار کردہ اتر پردیش ڈجیٹل میڈیا پالیسی 2024 کے مطابق آن لائن پلیٹ فارمز جیسے کہ ایکس، فیس بک، انسٹاگرام اور یوٹیوب پر سرکاری اسکیموں اور ان کی پیش رفت کے بارے میں مواد، ٹویٹ، ویڈیو، پوسٹ یا ریلز بنانے اور دکھانے کے لیے حکومت انہیں رقم دے گی۔ اس پالیسی میں ’’ملک مخالف، فحش یا قابل اعتراض‘‘ مواد بنانے والوں کو عمر قید تک کی سزا تجویز کی گئی ہے۔ کون سا مواد ملک مخالف یا حکومت کی نظر میں قابل اعتراض ہے، ظاہر ہے اس کا فیصلہ حکومت ہی کرے گی اور اس طرح سوشل میڈیا کو قابو اور دباؤ میں رکھنا حکومت کے لیے آسان ہو جائے گا۔ نئی پالیسی کے تحت حکومت کے کاموں کی تشہیر کے لیے سوشل میڈیا انفلوئنسرز اپنے فالوورز اور سبسکرائبرز کی تعداد کی بنیاد پر ہر ماہ آٹھ لاکھ روپے تک کما سکتے ہیں۔
حکومت کے فیصلے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے سینئر کانگریسی رہنما پون کھیڑا نے ایکس پر لکھا: ’’کیا بی جے پی مخالف یا حکومت مخالف تبصروں کو ’ملک مخالف‘ سمجھا جائے گا؟ ’قابل اعتراض تبصرہ‘ کی تشریح کیا ہے؟ کیا ڈبل انجن والی حکومتیں اب دبانے کی تیاری کر رہی ہیں؟ انڈیا اتحاد کی مخالفت کی وجہ سے مودی حکومت کو براڈکاسٹ بل 2024 واپس لینا پڑا تو کیا اب پچھلے دروازے سے آمریت لائی جا رہی ہے؟‘‘
ڈجیٹل میڈیا پالیسی کو پریس کلب آف انڈیا (دہلی) نے آئین مخالف قرار دیا ہے۔ 30 اگست کو جاری کردہ اپنے بیان میں پریس کلب نے کہا: ’’اتر پردیش کی کابینہ نے اپنی ڈیجیٹل میڈیا پالیسی 2024 کو منظوری دی ہے۔ اس کا مقصد ایسے مواد تخلیق کاروں کو رقومات دینا ہے جو ریاستی حکومت کے اقدامات، اسکیموں اور کامیابیوں کی تشہیر کریں۔ تاہم، مذکورہ پالیسی کے سیکشن 7(2) میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی مواد ’’ملک مخالف‘‘ اور ’’اینٹی سوشل‘‘ ہے یا حکومت کو غلط روشنی میں پیش کرتا ہے یا اسے بدنیتی سے تیار کیا گیا ہے تو حکومت کے ڈائریکٹر انفارمیشن کے ذریعہ مواد بنانے والوں کے خلاف قانونی کارروائی شروع کی جائے گی۔‘‘
پریس کلب نے کہا کہ اس شق کا دائرہ بہت وسیع اور مبہم ہے جو اسے سخت بنا دیتا ہے۔ یہ آئین کے آرٹیکل 19(1) اے کے تحت حاصل آزادی اظہار رائے کے حق کی خلاف ورزی ہے جس میں صحافت بھی شامل ہے، جس کا کام اکثر و بیشتر عوامی امور یا مفاد عامہ کے معاملات میں حکومت کی ناکامیوں کو اجاگر کرنا ہوتا ہے۔
یہ پالیسی یوپی حکومت کو کسی بھی مواد کو، بشمول جائز صحافتی کام یا سوشل میڈیا پوسٹ کو ’’اینٹی سوشل‘‘ یا ’’مخالف‘‘ قرار دینے کا اختیار دیتی ہے۔ سپریم کورٹ نے انفارمیشن ٹکنالوجی ایکٹ کی دفعہ 66 اے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس سیکشن نے بہت سی اصطلاحات کو مبہم اور مزید تشریح کے لیے کھلا چھوڑ دیا ہے، چنانچہ اسے کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔ مذکورہ پالیسی کے سیکشن 7(2) میں بھی وہی ابہام ہے اور اس کی نوعیت من مانی ہے جو اسے غیر آئینی بناتی ہے۔
پریس کلب آف انڈیا نے واضح طور سے کہا: ایسا لگتا ہے کہ پالیسی، پروکسی پروپیگنڈہ کرنے والوں کو انعام دینے کے لیے تیار کی گئی ہے لیکن حقیقت پسندانہ صحافت یا حکومت پر جائز تنقید پر جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔ حکومت، آئین اور قدرتی انصاف کے اصولوں کی ڈھٹائی سے خلاف ورزی کرتے ہوئے خود ہی جج، جیوری اور سزا دینے والا بننا چاہتی ہے۔
ایسی متعدد مثالیں موجود ہیں جب حکومت اتر پردیش سمیت متعدد ریاستی حکومتوں نے صحافیوں کو جائز صحافت کے لیے سخت قوانین یا دفعات کا غلط استعمال کرکے پریشان کیا ہے۔
ایک آزاد و خود مختار میڈیا شہریوں کو باخبر کرتا ہے اور منتخب نمائندوں اور منتظمہ کو جواب دہ بناتا ہے جو جمہوریت کی بنیاد ہے۔
حکومت کو اس جگہ پر قبضہ نہیں کرنا چاہیے جو آئین ہند نے صحافت کو دی ہے۔ پریس کلب نے حکومت اتر پردیش سے ڈیجیٹل میڈیا پالیسی 2024 سے شق 7(2) کو فوری طور سے واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
میڈیا میں خبروں کو دبانے اور اچھالنے کا کھیل
اخبارات اور ٹی وی چینل کس طرح سے اپنی ’پسند‘ کے مطابق خبروں کو دبانے یا اچھالنے کا عمل اپناتے ہیں، اس کا ایک نمونہ حال ہی میں اتر پردیش سے آنے والی ایک خبر ہے جسے راشٹریہ جنتا دل کے ایکس ہینڈل سے شیئر کیا گیا ہے۔ خبر کے مطابق، ’’میرٹھ کے ایک شخص نے بیس بچوں کی آبروریزی کی، لیکن اس خبر کو رام راجیہ اسٹائل میں ایک چھوٹے سے سنگل کالم میں نپٹا دیا گیا ہے۔ ملزم چوہان ہے، تو اس کے گھر پر نام نہاد یوگی کا بلڈوزر تو چلے گا نہیں! یہ جاتی واد ہے، یہی سلیکٹیو میڈیا کی رپورٹنگ ہے۔‘‘
پوسٹ میں شامل خبر کے مطابق پینتیس سالہ اجیت چوہان، جو بچوں کو موبائل گیم کھیلنے کے بہانے پھنساکر آبروریزی کرتا تھا، کو پولیس نے گرفتار کرلیا ہے۔ ملزم بیس سے زائد بچوں کی آبروریزی کرچکا ہے، اور ابھی تک چھ بچوں کے والدین ہی پولیس کے سامنے آئے ہیں۔ عزت و آبرو گنوانے کے خوف سے بہت سے کنبے خاموش ہیں۔ ملزم نے بچوں کی فحش ویڈیوز بنانے کے لیے بیڈ روم میں خفیہ کیمرہ نصب کیا تھا، اور وہ ویڈیوز دکھا کر بلیک میل کرکے سال بھر میں بڑی رقم وصول کرچکا ہے۔ میرٹھ کے سرور پور علاقے کے ایک شخص نے 15 اگست کو ملزم اجیت چوہان کے خلاف تھانہ میں تحریر دی۔ 19 اگست کو پولیس نے اس کے خلاف مقدمہ درج کیا۔ اب تک چھ بچوں کے والدین پولیس کے سامنے شکایات لے کر آئے ہیں، جن میں سے چار بچے مسلم ہیں اور ایک کی عمر اکیس سال ہے۔
ایک طرف کولکاتا میں ڈاکٹر کی آبروریزی اور قتل پر ہنگامہ مچا ہوا ہے اور میڈیا میں وسیع کوریج ہو رہی ہے، دوسری طرف اتر پردیش کے میرٹھ سے آنے والی ایک سنگین خبر کو مختصر سی یک کالمی جگہ دی گئی ہے۔ یہ عدم توازن ہمارے میڈیا میں واضح نظر آتا ہے۔
فیک نیوز یا فرضی خبروں کا مسئلہ
بنگلہ دیش میں حالیہ پرتشدد احتجاج اور شیخ حسینہ کی حکومت سے دستبرداری کے بعد کئی بھارتی میڈیا اداروں نے وہاں کی وسیع کوریج کی ہے۔ اس دوران ہندو اقلیت کو نشانہ بنائے جانے کی خبریں بھی آئی ہیں۔ کچھ بھارتی میڈیا اداروں نے گراؤنڈ رپورٹنگ کے لیے اپنے نمائندے بنگلہ دیش بھیجے، جس کے بعد بھارتی میڈیا میں چھائی ہوئی یک طرفہ خبروں کی تصویر صاف ہوئی۔ انگریزی پورٹل ’دی پرنٹ‘ نے بھی گراؤنڈ کوریج پر توجہ دی، اور ایک رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ بھارت کی میڈیا میں بنگلہ دیش کے حالیہ واقعات کی جس طرح سے کوریج کی گئی ہے، اس پر بنگلہ دیشی عوام میں کافی ناراضگی پائی جاتی ہے، جس میں عوام اور ذمہ دار عہدوں پر فائز لوگ بھی شامل ہیں۔ دی پرنٹ سے بات کرتے ہوئے بنگلہ دیشی صحافی محفوظ انعم نے کہا: ’بھارتی میڈیا کو صرف ہندو بنگلہ دیشیوں میں دلچسپی ہے، ہم سے نہیں۔ اس سے لوگوں میں غصہ بڑھ رہا ہے۔‘
’’منی کنٹرول‘‘ پورٹل نے بنگلہ دیش کی صورت حال کو جاننے کے لیے 30 اگست کو بنگلہ دیش کی اداکارہ ازمیری حق بدھون کا انٹرویو شائع کیا، جس میں ان سے ایک سوال یہ کیا گیا: ’’ہندوستان اس بات سے پریشان ہے کہ بنگلہ دیشی ہندو محفوظ نہیں ہیں۔ گزشتہ برسوں میں ہونے والے فرقہ وارانہ حملوں کی تعداد کو دیکھتے ہوئے وہاں کی صورتحال کیا ہے اور بنگلہ دیشی ہندو کتنے محفوظ ہیں؟‘‘
اس کے جواب میں بنگلہ دیشی اداکارہ نے کہا: ’’یہ احتجاج طلباء اور شہریوں کا احتجاج تھا۔ یہ صرف مسلم طلباء ہی نہیں تھے جنہوں نے احتجاج کیا، تمام مذاہب کے طلباء، آدیواسی طلباء، سبھی شامل ہوئے تبھی آمریت کا خاتمہ ممکن ہوا، اور ہماری سابق وزیر اعظم (شیخ حسینہ) ملک سے فرار ہوگئیں، تو شانتی شرینکھلا باہنی نے ہڑتال کردی۔ تین چار دنوں تک تمام بنگلہ دیشی نہ صرف ہندو، بلکہ عیسائی، بدھ اور مسلمان بھی غیر محفوظ تھے، کیونکہ ہماری حفاظت کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ خبروں میں (ہندوؤں پر) حملہ ہوا لیکن اس میں یہ ذکر نہیں کیا گیا کہ طلباء اور شہری اقلیتوں کے گھروں کی حفاظت کرتے ہیں، مندروں اور مساجد کی حفاظت کرتے ہیں، سڑکوں کی صفائی کرتے ہیں، ٹریفک کو کنٹرول کرتے ہیں۔ ایسے موقع پرست ہمیشہ رہیں گے جو ایسے ناگہانی وقت میں فرقہ وارانہ آگ کو بھڑکاتے رہیں گے۔ بنگلہ دیش میں وہ لوگ بھی ہیں جو ظالمانہ حکم رانی کی حمایت کرتے ہیں، وہ لوگ جو مذہبی مساوات پر یقین نہیں رکھتے۔ ان لوگوں نے حالات سے فائدہ اٹھایا۔ کسی بھی قسم کے تشدد کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔ مجھے اقلیتوں پر حملوں پر افسوس ہے۔ یہاں میری سب سے قریبی دوست ایک ہندو ہے اور مجھے شرم آتی ہے جب وہ کہتی ہے کہ وہ خود کو محفوظ محسوس نہیں کرتی، کیونکہ میں اس کے گھر میں سب سے زیادہ محفوظ محسوس کرتی ہوں۔ اس حقیقت سے زیادہ افسوسناک اور کوئی بات نہیں ہو سکتی کہ چونکہ میری بنگلہ دیشی دوست میرے عقیدے سے نہیں ہے، اس لیے وہ خود کو محفوظ محسوس نہیں کر سکتی۔ ہمارے ملک میں بہت سے اختلافات ہیں، لیکن لوگوں کی اکثریت مساوات پر یقین رکھتی ہے۔‘‘
’’مجھے بندی، شنکھا (چوڑیاں) اور سندور (سنور) پہننا پسند ہے لیکن حال ہی میں بھارتی میڈیا نے میری ویڈیو سے ایک پروپیگنڈہ کیا، ٹویٹ کیا کہ کیونکہ میں بندی اور چوڑیاں پہنتی ہوں، میں ایک ہندو ہوں جو احتجاج کر رہی ہوں کیونکہ مجھے مذہب تبدیل کرنے یا ملک چھوڑنے کو کہا گیا۔ سچ تو یہ ہے کہ میں اس ویڈیو میں طلباء کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے گئی تھی۔ اس قسم کی غلط معلومات کی تحقیق کی ضرورت ہے۔ ہم پڑوسی ملک ہیں، ہم ایک دوسرے کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے، ہمارے درمیان دوستی ہونی چاہیے لیکن ہمیں برابری کی بنیاد پر رہنا چاہیے، کوئی دوسرے کو زیر نہیں کر سکتا۔‘‘
برطانیہ میں حال ہی میں پرتشدد فسادات بھڑک گئے جن کا رخ ترک وطن کرکے یوکے میں آباد ہونے والے افراد کے خلاف تھا۔ یہ فساد فرضی خبروں کو پھیلا کر بھڑکایا گیا۔ دائیں بازو کے کچھ سیاسی رہنماؤں نے گمراہ کن ویڈیوز پوسٹ کرکے آگ میں گھی ڈالا۔
بی بی سی نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ 29 جولائی کو ایک ڈانس اور یوگا کے پروگرام میں چاقو زنی کے واقعے میں تین بچوں کو قتل کر دیا گیا اور مزید آٹھ بچے اور دو بالغ زخمی ہوئے۔ حملے کے فوراً بعد سوشل میڈیا پوسٹس نے جھوٹی خبریں پھیلائیں کہ مشتبہ شخص سیاسی پناہ کا متلاشی تھا جو 2023 میں ایک کشتی پر برطانیہ پہنچا تھا، اور یہ بھی افواہ پھیلائی گئی کہ وہ مسلمان تھا، جب کہ حقیقت میں حملہ آور ویلز میں پیدا ہونے والا مقامی شخص تھا۔ پولیس نے عوام پر زور دیا کہ وہ قیاس آرائی نہ کریں اور غلط معلومات نہ پھیلائیں۔ بی بی سی کے مطابق انگلینڈ اور شمالی آئرلینڈ کے قصبوں اور شہروں میں ہونے والے تشدد کو آن لائن غلط معلومات، انتہائی دائیں بازو کے لوگوں کی سرگرمیوں اور امیگریشن مخالف جذبات نے ہوا دی۔
دائیں بازو کے رہنماؤں میں ٹومی رابنسن اور اینڈریو ٹیٹ کے نام سبھی میڈیا پلیٹ فارمز نے لکھے ہیں جنہوں نے آن لائن بے بنیاد جھوٹی باتیں پھیلائیں اور دعویٰ کیا کہ حملے کا مرتکب ایک مہاجر تھا جو ایک ’’چھوٹی کشتی‘‘ پر آیا تھا۔ انہوں نے مسلمانوں کی طرف اشارہ کیا۔ بھارت میں بھی اسی طرح سے ہو رہا ہے اور دائیں بازو کے رہنما سوشل میڈیا، ٹی وی چینلز پر اور عوام میں دھڑلے سے جھوٹی افواہیں پھیلاتے نظر آتے ہیں۔ ہمارے میڈیا کا بھی ایک بڑا حصہ اسی بیانیہ کو آگے بڑھا کر معاشرے میں نفرت کا ناسور پھیلانے کا کام کر رہا ہے۔
خبروں کو نیا زاویہ دینا اور ٹوئسٹ کرنا
آج کل نیوز رومز میں خبروں کو موڑنے کا کھیل جاری ہے اور کئی پرنٹ اور ٹی وی چینلز اپنے کاروبار کو ہندو مسلم کے نام پر چلا رہے ہیں۔ نیوز روم میں کیا ہو رہا ہے، اس کی تصدیق رپورٹر سے بہتر اور کون کر سکتا ہے؟
’’سیو دی ارتھ‘‘ ہینڈل سے ایکس پر صحافت کے اس چہرے سے پردہ اٹھانے والی ایک ویڈیو شیئر کی گئی ہے جس میں ایک خاتون رپورٹر بتا رہی ہیں کہ خاص طور پر کرائم کی رپورٹنگ میں رپورٹر سے یہ پوچھا جاتا ہے کہ کیا ملزم میں کوئی مسلمان بھی ہے؟ انہوں نے اپنی مثال دیتے ہوئے کہا کہ میں لائیو کھڑی تھی، ایک لڑکی کا دہلی میں قتل ہوا تھا، اس میں پانچ ملزم تھے، ایک مسلمان اور چار ہندو۔ اینکر نے مجھ سے پوچھا کہ بتاؤ مسلمان بھی ہے نا، وہ تو اصل ملزم ہوگا؟ میں نے کہا وہ اصل ملزم نہیں ہے، دوسرے جو لوگ ہیں ان کا زیادہ کردار ہے۔ ادھر سے کہا گیا کہ مسلمان ہے نا ایک ملزم؟ میں نے کہا، ہاں ہے۔ پھر چینل پر اصل ملزم میں ایک مسلم کا نام چلایا گیا۔ اس طرح سے اسکرپٹ تیار کی جاتی ہے اور رپورٹروں سے کہا جاتا ہے کہ جو تم لوگ خبر لارہے ہو، اس میں تھوڑا ہندو مسلم والا اینگل لو۔ خبروں میں اس طرح کا اینگل لینے کا مقصد معاملے کو ہندو مسلم رنگ دینا ہوتا ہے۔ اپنے ملک میں بہت سے ٹی وی چینلز اور اخبارات آج کل ہندو مسلم میں ہی لگے ہوئے ہیں اور عوام الناس کے ذہنوں میں زہر گھول رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس سے عوام کو بھڑکانا مقصود ہے اور اس کے نتائج بھی سامنے آ رہے ہیں۔ نفرت انگیزی کے واقعات روز بروز سامنے آ رہے ہیں۔
نیوز لانڈری ایک معروف میڈیا ادارہ ہے جو میڈیا کی اس منافقت اور خاص طور پر ٹی وی نیوز اینکروں کے اس طرح کے ڈھونگ اور ڈرامے کو اکثر اجاگر کرتا رہتا ہے۔ ایکس پر 28 اگست کو اپنے ایک ویڈیو پوسٹ میں نیوز لانڈری نے چند واقعات اور ان پر ٹی وی اینکروں کے رد عمل کا تقابل کیا ہے اور ان کے دوغلے پن کو اجاگر کیا ہے۔ اسے پوسٹ کرتے ہوئے #TVNewsance کا ہیش ٹیگ استعمال کیا گیا ہے جو معنی خیز ہے۔
بھارت میں میڈیا کے گمراہ کن، یک رخے پن، رپورٹنگ میں عدم توازن اور جانب داری کے اسباب میں ایک اہم سبب یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ اس میں معاشرے کے سبھی طبقات کی خاطر خواہ نمائندگی نہیں ہے اور کچھ مخصوص طبقات کی اجارہ داری ہے۔ آکسفیم اور نیوز لانڈری کی اکتوبر 2022 کی ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ بھارتی میڈیا میں 86 فیصد سے زائد لوگ اعلیٰ ذات کے ہندو ہیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سوشل میڈیا اس عدم توازن کو دور کرنے کا ایک وسیلہ بھی ثابت ہوا ہے، چنانچہ یہاں پر کئی صحافی اپنے نجی چینلوں کے ذریعہ دھند کو صاف کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ نیوز لانڈری، آرٹیکل 19، دی وائر وغیرہ اور ایکس، فیس بک پر سرگرم آزاد صحافیوں اور حقوق انسانی کے علم برداروں نے حقیقی صحافت کی شمع جلا رکھی ہے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 08 ستمبر تا 14 ستمبر 2024