پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
عالمی معیشت میں غیر یقینیت اور اتھل پتھل کا ماحول برقرار ہے۔ اسی وجہ سے بھارتی معیشت کے شرح نمو کے اندازہ میں بار بار تبدیلیاں ہورہی ہیں۔ گزشتہ کئی ہفتوں میں اکثر کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں نے بھارت کے شرح نمو کے اندازہ کو کم کردیا ہے۔ جاریہ مال سال کے شرح نمو کو اتنا نہیں گھٹایا جتنا سال 2023کے لیے۔ کیونکہ عالمی ارضی سیاسی(Geo Political) تبدیلیوں کے اثرات سے آئندہ سال کو زیادہ ہی متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ مگر ہمارے ملکی حالات اس سے کم ہی متاثر ہونے والے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کریڈٹ ایجنسیوں کے مطابق ہمارے ملکی حالات اس سے کم ہی متاثر ہونے والے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کریڈٹ ایجنسیوں نے ہمارے شرح نمو کو 6.5فیصد پر برقرار رکھا ہے۔ بار بار کی شرح نمو کی تبدیلیوں کی سے واضح ہوتا ہے کہ کسی کو نہیں معلوم کہ معیشت کس رخ پر جائے گی ۔ مہنگائی نے ساری دنیا میں کہرام بپا کر رکھا ہے۔ جس کی وجہ سے اکثر ملکوں کے مرکزی بینک شرح سود کو بڑھانے میں لگ گئے ہیں مگر شرح سود کے بڑھنے سے معاشی سرگرمیاں متاثر ہورہی ہیں۔ یوروپ اور امریکہ میں مندی کے آثار نظر آنے لگے ہیں اس کے باوجود شرح سود کو بڑھانے میں ان کے مرکزی بینک کسی طرح باز نہیں آرہے ہیں۔ اس لیے ترقی یافتہ ممالک کے نقش قدم پر بعض ترقی پذیر ممالک بھی اپنے کو مجبور پارہے ہیں۔ معاشی شرح نمو میں مسلسل تبدیلیوں کے پس پشت خاص طور پر روس۔ یوکرین جنگ جیسی ارضی سیاست ہے یا لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے۔ اس کے علاوہ ماحولیاتی تبدیلیاں ایک بڑی وجہ ہے۔ اس کی وجہ سے دنیا بھر میں مشکلات میں اضافہ ہورہا ہے۔ روس اور یوکرین جنگ کی طوالت کی وجہ سے سپلائی چین میں اور اشیا کی قیمتوں میں اچھال دکھائی دے رہا ہے۔ خام تیل کی قیمتوں میں بھی غیر یقینیت قائم ہے۔ اگر خام تیل کی قیمتوں میں کسی طرح کی کمی آتی ہے تو تیل پیدا کرنے والے ممالک تیل کی پیداوار میں کمی کرکے ترقی پذیر اور کمزور ممالک کے لیے مشکلات میں اضافہ کردیتے ہیں۔ حال یہ ہے ساری دنیا میں توانائی کی قیمتیں بلندی پر براجما ن ہیں۔ روس اور یوکرین جنگ کے علاوہ چین میں مسلسل کووڈ-19 کے ابھار کی وجہ سے وہاں پیداوار پر برا اثر پڑ رہا ہے اور عالمی سپلائی چین دباو پر بڑھتا ہے۔ اب ضروری ہوگیا ہے کہ چین پر انحصار کم کرکے عالمی سپلائی چین کو نئے سرے سے ترتیب دیا جائے۔ اب تو ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی چین پلس ون کے طور پر چین سے بہتر متبادل کے تلاش میں ہیں تاکہ سپلائی کو لچکدار بنایا جاسکے۔ یہ وقت طلب مسئلہ ہے جب تک دنیا کو مشکل حالات سے نبرد آزما رہنا ہوگا۔
دنیا کی بگڑتی ہوئی معیشت کے درمیان بھارت کی معیشت کچھ اچھی حالت میں نظر آرہی ہے لیکن اس سے ہرگز نہیں سمجھنا چاہیے کہ بیمار معیشت کا حال بہت اچھا ہے کیونکہ ڈالر کے مقابلے روپے کی قدر مسلسل گر رہی ہے۔ اس کو سنبھالنے کے لیے آر بی آئی نے ابھی تک بہت ہی سنبھل کر قدم اٹھایا ہے۔ مگر اس کا اثر غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخیرہ پر صاف دکھائی پڑ رہا ہے۔ عالمی طلب میں نرمی کی وجہ سے برآمدات پر کافی دباو ہے جبکہ درآمدات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تجارتی خسارہ اور چالو کھاتہ خسارہ (Current Account Deficit) برابر بڑھ رہا ہے۔ ملک میں چند اشیا کے درآمدات پر پابندی لگانے کی باتیں بھی چل رہی ہیں مگراس کا کوئی اثر شاید ہی ہو۔ کیونکہ تمام لکزری اشیا کا بار پہلے سے ہی محدود ہے۔ مثلاً ملک میں موبائل فون اسمبل کیا جاتا ہے۔ مگر ان کے پرزوں کے درآمدات پر پابندی لگادینے سے اس کے برآمدات پر اثر ضرور ہوگا۔ واضح رہے کہ ستمبر میں 1.1 ارب ڈالر کے موبائل ہینڈ سیٹ برآمد کیے گئے ہیں۔ اسی طرح ایسے اقدام کے ایسے اثرات دیگر چیزوں پر بھی پڑیں گے۔
مابعد کورونا قہر ساری دنیا پر اقتصادی مندی کے خطرناک بادل منڈلا رہے ہیں ۔ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق ترقی یافتہ معیشتوں کے لیے افراط زر مشکلات پیدا کررہی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک اس سے کافی پریشان ہیں کیونکہ مہنگائی ستمبر میں امریکہ میں 6.2 فیصد، برطانیہ میں 10.1 فیصد اور یورو زون میں 9.9 فیصد ہے۔ اس کے لیے توانائی کی غیر مستحکم قیمتیں ذمہ دار ہیں۔ ایسے حالات میں مہنگائی پر قابو نہ پانے کی وجہ سے برطانیہ کے نو منتخب وزیر اعظم لز ٹرس کو محض 45 دنوں میں استعفیٰ دینا پڑا۔ حالیہ دنوں میں افراط زر میں تیزی سے کمی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ادھر آر بی آئی ترقی پذیر معیشتوں کے مرکزی بینکوں کی طرح اپنی کرنسی کی حمایت کے لیے فعالیت بھی دکھائی ہے جس کی وجہ سے زر مبادلہ کے ذخائر میں بڑی کمی آئی ہے۔ کیونکہ آر بی آئی کو روپے کے قدر کو مستحکم کرنے کے لیے زر مبادلہ کے ذخائر کو برابر استعمال میں لارہا ہے یہی وجہ ہے کہ 2022کے ابتدا سے لے کر 7 اکتوبر تک 632 بلین ڈالر سے گھٹ کر 533 بلین ڈالر ہو گیا ہے۔ زر مبادلہ میں کمی کی رفتار کافی تشویشناک ہے۔ واضح رہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے ہمارے ملک میں زراعت کا شعبہ بری طرح متاثر ہوا ہے۔ زرعی پیداوار میں کمی نے نیتی آیوگ اور حکومت کے ارباب حل و عقد اس مسئلہ کو نئے زاویہ سے سوچنے پر مجبور کیا ہے کیونکہ پیداوار کی کمی سے سپلائی میں کمی آئی ہے جس کا براہ راست اثر اشیا کی قیمتوں پر پڑتا ہے۔ مارچ 2022، مارچ 1901 کی طرح بہت ہی گرم گزرا ہے۔ جس سے گیہوں کی پیداوار میں 8 فیصد کی گراوٹ آئی ہے۔ دوسری طرف مانسون کے مزاج میں تیزی اور بے ترتیبی نے پیداوار کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ اکتوبر میں معمول سے زیادہ بارش نے تیار فصلوں کو برباد کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ دھان اور تلہن کی پیداوار میں بڑی کمی درج کی گئی ہے۔ اس لیے اب ضروری ہو گیا ہے کہ معاشی اندازہ کے اتار چڑھاو کے ساتھ ماہرین اقتصادیات کو ماحولیاتی تبدیلی کے چیلنجز کو سامنے رکھ کر پالیسی سازی کرنی ہوگی۔ آب و ہوا کی تبدیلی اور کرہ ارض کے درجہ حرارت میں اضافہ کے سنگین نتائج ہمارے سامنے آنے لگے ہیں۔ جاریہ سال نہ صرف سب سے زیادہ گرم رہا بلکہ دنیا کے بڑے حصے بھیانک سیلاب، قحط، جنگل کی آگ، اور بے وقت اور بہت زیادہ بارش وغیرہ کے قہر نے بڑی تباہی مچائی۔ اس لیے اب بڑی ایمانداری سے عالمی درجہ حرارت میں اضافہ کی رفتار کو 1.5 ڈگری سلسیس پر روکنا ہی ہوگا ورنہ انسانی وجود خطرہ میں پڑسکتا ہے۔
دریں اثنا حکومت کے چیف اکانومک ایڈوائزری اننت ناگیشورن نے ہے کہ عالمی سطح پر بیک وقت کئی طرح کے مصائب پیدا ہونے کے باوجود بھارتی معیشت نسبتاً بہتر حالت میں ہے اور اس کی شرح نمو اچھی ہے۔ اننت ناگیشورن نے انڈین چیمبر آف کامرس کے سالانہ اجلاس میں کہا ہے کہ دنیا اس وقت ہمہ جہتی مصائب سے گزر رہی ہے۔ جس میں بہت زیادہ افراط زر، اونچی شرح سود، روس۔ یوکرین جنگ اور چین میں سستی جیسے پہلو قابل ذکر ہیں۔ اس کے باوجود بھارت کی شرح نمو جاریہ مال سال میں 6.5 تا 7 فیصد تک رہنے کی توقع ہے۔
***
***
ترقی یافتہ ممالک اس سے کافی پریشان ہیں کیونکہ مہنگائی ستمبر میں امریکہ میں 6.2 فیصد، برطانیہ میں 10.1 فیصد اور یورو زون میں 9.9 فیصد ہے۔ اس کے لیے توانائی کی غیر مستحکم قیمتیں ذمہ دار ہیں۔ ایسے حالات میں مہنگائی پر قابو نہ پانے کی وجہ سے برطانیہ کے نو منتخب وزیراعظم لز ٹرس کو محض 45دنوں میں استعفیٰ دینا پڑا۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 نومبر تا 26 نومبر 2022