مہاراشٹر پبلک سیکیورٹی بل 2024: عوامی تحفظ یا شہری آزادیوں پر قدغن؟

ریاستی اسمبلی میں متنازع بل کی منظوری، سول سوسائٹی میں تشویش کا ماحول

ایڈووکیٹ شعیب انعام دار

غیر قانونی سرگرمیوں کی مبہم تعریف سے حکومت کو وسیع اختیارات۔ آئین ہند کی دفعات سے متصادم!
جائیداد کی ضبطی، فنڈز منجمد کرنے کا اختیار،عدالتی نگرانی کے بغیر تنظیموں پر پابندی دراصل آئینی حقوق پر حملہ
’’مہاراشٹر خصوصی عوامی تحفظ بل، 2024‘‘ کا بظاہر مقصد ریاست میں غیر قانونی سرگرمیوں پر قابو پانا اور عوامی امن و امان کو برقرار رکھنا ہے۔ خاص طور پر، بل کے مقاصد میں نکسلزم اور شہری علاقوں میں اس کی فرنٹل تنظیموں کے بڑھتے ہوئے خطرے سے نمٹنا شامل ہے۔ بل پیش کرنے والوں کا کہنا ہے کہ موجودہ قوانین اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ناکافی ہیں اور اس سلسلے میں چھتیس گڑھ، تلنگانہ، آندھرا پردیش اور اڈیشہ جیسی ریاستوں کے قوانین کا حوالہ دیا گیا ہے۔
مہاراشٹر خصوصی عوامی تحفظ بل 2024 اپنی وسیع تعریفات کی وجہ سے شدید مخالفت کا سامنا کر رہا ہے جو اختلافِ رائے اور احتجاج کو مجرمانہ بنا سکتی ہیں جس سے ریاستی حد سے تجاوز اور بنیادی حقوق کے لیے خطرات کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔
ایک سال سے زائد عرصے سے مہایوتی حکومت متنازعہ مہاراشٹر خصوصی عوامی تحفظ بل 2024 کو منظور کرنے پر بضد تھی۔ جب یہ بل پہلی بار جولائی 2024 میں بغیر کسی عوامی مشاورت کے متعارف کرایا گیا تو اسے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے بعد دسمبر 2024 میں اسے دوبارہ پیش کیا گیا اور فوری طور پر 21 رکنی مشترکہ سلیکٹ کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا۔ کمیٹی کو عوامی اعتراضات کی بڑی تعداد موصول ہوئی۔ بتایا جاتا ہے کہ 12,750 اعتراضات میں سے نوے فیصد نے بل کی مخالفت کی۔ اپوزیشن جماعتوں نے مختلف پلیٹ فارموں پر اور کمیٹی کے سامنے بھی بل پر تنقید کی۔ شدید اعتراضات کو دور کیے بغیر بل میں سرسری ترامیم کی گئیں اور 11 جولائی 2025 کو قانون ساز اسمبلی نے اس کے بعد قانون ساز کونسل نے بل کو منظور کر لیا۔
اس بل کا گہرائی سے جائزہ لینے پر یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس میں متعدد ایسے پہلو موجود ہیں جو جمہوری اصولوں، بنیادی انسانی حقوق اور آئینی اقدار کے لیے شدید خطرہ بن سکتے ہیں۔ یہ تحریر اسی بل کے اہم نکات، اس کے غیر دستوری پہلوؤں اور معاشرتی اثرات کا تنقیدی تجزیہ پیش کرے گی۔
اس بل کی سب سے تشویشناک بات ’’غیر قانونی سرگرمی‘‘ کی تعریف کا حد سے زیادہ وسیع ہونا ہے۔ اس تعریف میں ایسی کوئی بھی کارروائی شامل ہے جو ’’عوامی نظم و نسق، امن و سکون کے لیے خطرہ بن سکتی ہے‘‘، ’’عوامی نظم و نسق کی بحالی میں مداخلت کرتی ہے یا مداخلت کرنے کی کوشش کرتی ہے‘‘، ’’قانون کی انتظامیہ یا اس کے قائم شدہ اداروں اور اہلکاروں میں مداخلت کرتی ہے یا مداخلت کرنے کی کوشش کرتی ہے‘‘، یا ’’تشدد، تخریب کاری یا عوام میں خوف و ہراس پیدا کرنے والے اعمال میں ملوث ہونا یا ان کی ترغیب دینا‘‘۔ مزید برآں، یہ تعریف ’’قائم شدہ قانون اور اس کے اداروں کی نافرمانی کی ترغیب یا تبلیغ کرتی ہے‘‘ اور یہاں تک کہ ’’مذکورہ بالا غیر قانونی سرگرمیوں میں سے کسی ایک یا زیادہ کو انجام دینے کے لیے رقم یا سامان جمع کرنا‘‘ کو بھی غیر قانونی سرگرمی قرار دیتی ہے۔ اس طرح کی وسیع اور مبہم تعریف حکومت کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ کسی بھی پُرامن اختلافِ رائے، احتجاج یا تنقید کو غیر قانونی سرگرمی قرار دے کر دبانے کے لیے استعمال کر سکتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شہری گروہ کسی حکومتی پالیسی کے خلاف پُرامن مظاہرہ کرتا ہے اور اس سے عوامی نظم و نسق میں معمولی خلل پڑتا ہے تو اسے ’’عوامی نظم و نسق کے لیے خطرہ‘‘ قرار دے کر بل کے تحت کارروائی کی جا سکتی ہے۔ یہ تعریف آئین ہند کے آرٹیکل 19(1)(a) کے تحت ہر شہری کو حاصل اظہارِ رائے کی آزادی پر براہِ راست قدغن لگاتی ہے، کیونکہ ’’الفاظ سے، بول کر یا لکھ کر یا اشاروں سے‘‘ جیسے الفاظ کی شمولیت پُرامن اظہارِ خیال کو بھی غیر قانونی قرار دینے کی راہ ہموار کرتی ہے۔
بل میں حکومت کو کسی بھی تنظیم کو ’’غیر قانونی تنظیم‘‘ قرار دینے کا صوابدیدی اختیار دیا گیا ہے۔ اگرچہ اس کے لیے ایڈوائزری بورڈ کی منظوری کی شرط رکھی گئی ہے لیکن حکومت کو یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ ’’اگر ریاستی حکومت کی رائے میں ایسے حالات موجود ہیں جو حکومت کے لیے کسی تنظیم کو فوری اثر سے غیر قانونی تنظیم قرار دینا ضروری بناتے ہیں تو وہ وجوہات کو تحریری طور پر بیان کرتے ہوئے ہدایت دے سکتی ہے کہ نوٹیفکیشن، ایڈوائزری بورڈ کی کسی بھی رپورٹ کے تابع رہتے ہوئے آفیشل گزٹ میں اس کی اشاعت کی تاریخ سے نافذ العمل ہوگا‘‘۔ یہ ’’فوری اثر‘‘ کا اختیار حکومت کو بغیر کسی پیشگی عدالتی جانچ یا منصفانہ سماعت کے، کسی بھی تنظیم کو فوری طور پر غیر قانونی قرار دینے کی طاقت دیتا ہے جو قدرتی انصاف کے اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہے۔ یہ بنیادی حقوق، خاص طور پر آئین کے آرٹیکل 19(1)(b) اور 19(1)(c)کے تحت ج ہونے اور انجمنیں بنانے کی آزادی کو براہِ راست متاثر کرتا ہے۔ ’’تنظیم‘‘ کی وسیع تعریف، جس میں ’’کوئی بھی مجموعہ، ادارہ یا افراد کا گروہ چاہے کسی مخصوص نام سے جانا جاتا ہو یا نہ ہو اور چاہے کسی متعلقہ قانون کے تحت رجسٹرڈ ہو یا نہ ہو اور چاہے کسی تحریری آئین کے تحت governed ہو یا نہ ہو‘‘ شامل ہے، حکومتی اختیار کے غلط استعمال کا راستہ کھولتی ہے۔
اس سے مذہبی اور غیر مذہبی دونوں طرح کی تنظیموں کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی غیر رجسٹرڈ، غیر رسمی سماجی گروہ حکومت کی کسی پالیسی پر تنقید کرتا ہے تو اسے ’’غیر قانونی تنظیم‘‘ قرار دینے کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے، خاص طور پر اگر حکومت اسے ’’عوامی نظم و نسق کے لیے خطرہ‘‘ سمجھے۔
بل کے تحت ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ یا کمشنر آف پولیس کو یہ وسیع اختیارات دیے گئے ہیں کہ وہ کسی بھی ایسے مقام کو نوٹیفائی کر سکتے ہیں جو ان کی رائے میں کسی غیر قانونی تنظیم کی سرگرمیوں کے لیے استعمال ہو رہا ہو۔ اس میں مکانات، عمارتیں، خیمے یا کشتیاں شامل ہیں۔ نوٹیفکیشن کے بعد یہ افسران اس جگہ کا قبضہ لے سکتے ہیں اور وہاں موجود کسی بھی شخص کو بے دخل کر سکتے ہیں۔ مزید برآں، انہیں اس جگہ سے ملنے والی منقولہ جائیداد، بشمول رقم، سیکیورٹیز یا دیگر اثاثوں پر بھی قبضہ کرنے اور انہیں ضبط کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ یہ اختیارات آئین کے آرٹیکل 21 کے تحت ذاتی آزادی اور آرٹیکل 300A کے تحت جائیداد کے حق کی صریح خلاف ورزی ہیں۔ بغیر کسی ٹھوس ثبوت اور منصفانہ عدالتی عمل کے جائیداد کی ضبطی، شفافیت اور انصاف کے تقاضوں کے منافی ہے۔ یہ بل تنظیموں کے فنڈز کو بھی ضبط کرنے کا اختیار دیتا ہے جو ان کے مالی استحکام اور ان کی عملی صلاحیت کو بری طرح متاثر کرے گا۔
بل میں جرائم اور سزائیں بھی انتہائی سخت رکھی گئی ہیں۔ کسی غیر قانونی تنظیم کی رکنیت، اس کی میٹنگوں یا سرگرمیوں میں حصہ لینا یا اس کے لیے چندہ جمع کرنا یا وصول کرنا، تین سال تک قید اور تین لاکھ روپے تک جرمانے کا مستوجب ہو سکتا ہے۔ یہاں تک کہ جو شخص غیر قانونی تنظیم کا رکن نہ ہو لیکن اسے مالی مدد فراہم کرے یا اس کے کسی رکن کو پناہ دے اسے دو سال تک قید اور دو لاکھ روپے تک جرمانے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ سب سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ ’’جو کوئی بھی ایسی غیر قانونی تنظیم کی کسی بھی غیر قانونی سرگرمی کا ارتکاب کرتا ہے یا اس کی معاونت کرتا ہے یا کوشش کرتا ہے یا اس کی منصوبہ بندی کرتا ہے، اسے سات سال تک قید اور پانچ لاکھ روپے تک جرمانے کی سزا دی جائے گی‘‘۔ یہ سخت سزائیں، ’’غیر قانونی سرگرمی‘‘ کی وسیع اور مبہم تعریف کے ساتھ مل کر حکام کے لیے یہ آسان بنا دیں گی کہ وہ کسی بھی مخالف آواز کو دبانے کے لیے ان دفعات کا غلط استعمال کریں۔ اس سے معاشرے میں خوف اور عدم تحفظ کا ماحول پیدا ہوگا جہاں لوگ اپنی روزمرہ کی سرگرمیوں یا پُرامن سماجی کاموں کے لیے بھی احتیاط برتنے پر مجبور ہوں گے، مبادا کہ انہیں غیر قانونی قرار دے دیا جائے۔
بل کی ایک اور غیر دستوری خصوصیت دفعہ 14 کے تحت عدالتی مداخلت پر پابندی ہے۔ اس دفعہ کے مطابق ’’اس ایکٹ میں واضح طور پر فراہم کردہ کے علاوہ اور سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے آئین ہند کے تحت دائرہ اختیار اور اختیارات کو نقصان پہنچائے بغیر، حکومت یا ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ یا کمشنر آف پولیس یا حکومت یا ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ یا کمشنر آف پولیس کی طرف سے اس سلسلے میں مجاز کسی بھی افسر کی طرف سے اس ایکٹ کے تحت کی جانے والی کوئی بھی کارروائی کسی بھی عدالت میں کسی بھی مقدمے یا کارروائی یا درخواست کے ذریعے یا اپیل یا نظرثانی کے ذریعے چیلنج نہیں کی جائے گی اور اس ایکٹ کے تحت یا اس کے تحت حاصل کردہ کسی بھی اختیار کے نفاذ میں کی جانے والی یا مجوزہ کسی بھی کارروائی کے سلسلے میں کسی بھی عدالت یا دیگر اتھارٹی کی طرف سے کوئی حکمِ امتناعی جاری نہیں کیا جائے گا‘‘۔ اگرچہ اس میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے آئینی دائرہ اختیار کو تسلیم کیا گیا ہے لیکن عملی طور پر یہ نچلی عدالتوں کو بل کے تحت حکومتی فیصلوں پر نظرثانی کرنے سے روکتا ہے۔ یہ آئین کی بنیادی ساخت (Basic Structure) کی خلاف ورزی ہے، خاص طور پر عدالتی جانچ (Judicial Review) کے اصول کی۔ جب عدالتوں کے دائرہ اختیار کو محدود کیا جاتا ہے تو حکومت کے وسیع اختیارات کی جانچ پڑتال کا کوئی مؤثر نظام نہیں رہتا، جس سے من مانی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
یہ بل نہ صرف ذاتی آزادیوں کو محدود کرتا ہے بلکہ سماجی ڈھانچے پر بھی گہرے منفی اثرات مرتب کرے گا۔ سب سے پہلے یہ جمہوری حقوق کی پامالی کا باعث بنے گا، خاص طور پر اختلافِ رائے کو دبانے کے ایک آلے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ حکومت پر ہونے والی کوئی بھی پُرامن تنقید کو ’’غیر قانونی سرگرمی‘‘ قرار دینے کا خطرہ موجود ہے۔ اس سے معاشرے میں خوف اور عدم تحفظ کا ماحول پیدا ہوگا جہاں لوگ اپنی آواز اٹھانے سے ڈریں گے۔ دوسرا، یہ بل اقلیتی اور حاشیائی گروہوں پر خاص طور پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔ ماضی میں بھی دیکھا گیا ہے کہ ایسے سخت قوانین کا استعمال اکثر ان گروہوں کی سرگرمیوں کو نشانہ بنانے کے لیے کیا جاتا ہے جو حکومتی بیانیہ سے اختلاف رکھتے ہیں۔ ان کے مذہبی اجتماعات یا سماجی سرگرمیوں کو ’’عوامی امن کے لیے خطرہ‘‘ قرار دیا جا سکتا ہے یا ان کے چندہ جمع کرنے کو ’’غیر قانونی سرگرمیوں کے لیے چندہ‘‘ سمجھا جا سکتا ہے۔
تیسرا، سول سوسائٹی بشمول غیر سرکاری تنظیموں (NGOs) اور انسانی حقوق کے اداروں پر اس بل کے شدید اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ بل ان تنظیموں کی سرگرمیوں پر قدغن لگائے گا جو سماجی انصاف، ماحولیاتی تحفظ اور انسانی حقوق کے لیے کام کرتی ہیں۔ ان کے فنڈز کو ضبط کیا جا سکتا ہے اور ان کے دفاتر کو ’’غیر قانونی سرگرمیوں کے لیے استعمال ہونے والی جگہ‘‘ قرار دے کر قبضہ کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر حال ہی میں کئی ایسے واقعات سامنے آئے ہیں جہاں حکومت پر تنقید کرنے والے کارکنوں، صحافیوں اور تنظیموں کو مختلف قوانین کے تحت نشانہ بنایا گیا ہے۔ یہ بل ایسے رجحانات کو مزید تقویت دے گا اور ایک جمہوری معاشرے میں سول سوسائٹی کے کردار کو بری طرح محدود کر دے گا۔
بل کے معاشی اثرات بھی قابلِ غور ہیں۔ افراد اور تنظیموں کے فنڈز کی غیر منصفانہ ضبطی ان کی مالی حالت کو شدید نقصان پہنچا سکتی ہے جس سے نہ صرف ان کا کام متاثر ہوگا بلکہ وسیع تر معیشت پر بھی منفی اثر پڑے گا۔ یہ بل صرف نکسلزم سے نمٹنے تک محدود نہیں رہے گا بلکہ اس کا دائرہ کار عام شہریوں اور تنظیموں تک پھیلے گا جس سے قانونی نظام پر بھی دباؤ بڑھے گا۔
حکومتی دعووں کے مطابق یہ بل نکسلِزم سے نمٹنے کے لیے دیگر ریاستوں، جیسے چھتیس گڑھ، تلنگانہ، آندھرا پردیش اور اڈیشہ کے قوانین کی طرز پر بنایا گیا ہے۔ یہ درست ہے کہ نکسلزم ایک سنگین مسئلہ ہے جس سے نمٹنا ضروری ہے۔ تاہم، کسی بھی مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایسے قوانین کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے جو بنیادی آئینی حقوق اور جمہوری اقدار کی خلاف ورزی کرتے ہوں۔
نکسلِزم کو شہری علاقوں میں فرنٹل تنظیموں کے ذریعے حمایت ملتی ہے اور اس سے نمٹنے کی ضرورت تسلیم شدہ ہے۔ لیکن اس مقصد کے لیے بنائے گئے قانون کو اتنا وسیع نہیں ہونا چاہیے کہ وہ پُرامن شہریوں، اختلافِ رائے رکھنے والے افراد اور سماجی کارکنوں کے لیے خطرہ بن جائے۔ حالیہ دنوں میں حکومتوں پر تنقید کرنے والوں کو ’’ملک دشمن‘‘ یا ’’قومی مفادات کے خلاف‘‘ قرار دینے کے رجحانات میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ بل اس رجحان کو مزید تقویت دے سکتا ہے اور ایک ایسے ماحول کو فروغ دے سکتا ہے جہاں پُرامن اختلافِ رائے بھی ’’غیر قانونی سرگرمی‘‘ کے زمرے میں آ جائے۔
نتیجہ کے طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ مہاراشٹر خصوصی عوامی تحفظ بل 2024، اگرچہ نکسلِزم جیسے سنگین مسائل سے نمٹنے کے مقاصد کے ساتھ پیش کیا گیا ہے لیکن اس کے وسیع اور غیر واضح اختیارات، بنیادی حقوق کی پامالی اور عدالتی جانچ پر پابندی کے سبب یہ ایک خطرناک قانون بن سکتا ہے۔ یہ بل اظہارِ رائے کی آزادی، اجتماع کی آزادی اور جائیداد کے حق کو شدید طور پر متاثر کرتا ہے اور قدرتی انصاف کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ اس سے معاشرے میں خوف، عدم تحفظ اور عدم اعتماد کا ماحول پیدا ہوگا اور یہ جمہوری اصولوں کی پامالی کا باعث بنے گا۔ مہاراشٹر حکومت کو اس بل میں ایسی ترامیم کرنی چاہییں جو اس کو آئینی دائرے میں رکھیں اور شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ یقینی بنائیں۔ سول سوسائٹی، قانونی ماہرین اور میڈیا کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس بل کے اثرات پر گہری نظر رکھیں اور عوام میں اس کے بارے میں بیداری پیدا کریں۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 10 جولائی تا 16 اگست 2025

HacklinkHair Transplant istanbul
hacklink
istanbul evden eve nakliyat
hair transplant
istanbul anl?k haberler
extrabet
cratosroyalbet
casibom
romabet
romabet
romabet
casibom
marsbahis
holiganbet
casibom
casibom
deneme bonusu veren siteler
Betpas
adana escort
jojobet giri?