
مہاراشٹر میں بڑھتے ہوئے ہجومی تشدد کے واقعات۔ ایک سازش کا حصہ
منظم، متحد اور پُرامن احتجاجی تحریک کی ضرورت
ضمیر احمد خان، ناندیڑ
مہاراشٹر کے ضلع جلگاؤں کے جامنیر تعلقہ میں اگست کے مہینے میں ایک دل دہلا دینے والا ہجومی تشدد کا واقعہ پیش آیا۔ اس میں 21سالہ نوجوان سلیمان خان کو شرپسند عناصر نے بے رحمی سے پیٹ پیٹ کر قتل کر دیا۔ یہ افسوسناک سانحہ اس وقت پیش آیا جب سلیمان اپنے گاؤں سے جامنیر پولیس بھرتی کا فارم جمع کروانے گیا تھا۔ وہ ایک کیفے میں دوستوں کے ساتھ چائے پی رہا تھا کہ چند فرقہ پرستوں نے اچانک اس پر حملہ کر دیا۔
حملہ آوروں نے الزام لگایا کہ سلیمان ایک غیر مسلم لڑکی کے ساتھ بیٹھا ہے اور اس پر ’’لَو جہاد‘‘ جیسے بے بنیاد الزامات عائد کیے۔ اسی بہانے اسے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ سلیمان کو زخمی حالت میں اس کے گاؤں تک پیچھا کیا گیا اور گاؤں کے بس اسٹینڈ پر بھی والدین کی موجودگی میں دوبارہ حملہ کیا گیا۔ اس دوران سلیمان کے والد کو بھی مارا گیا۔ شدید زخمی حالت میں جب سلیمان کو ہسپتال لے جایا گیا تو ڈاکٹروں نے اسے مردہ قرار دے دیا۔
اس انسانیت سوز واقعے میں حملہ آوروں نے نہ صرف سلیمان کو مارا پیٹا بلکہ اس کے ہاتھ اور پاؤں کے ناخن تک نوچ ڈالے تاکہ وہ اذیت ناک درد سہتا رہے۔ پولیس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے قتل، ہجومی تشدد اور دیگر سنگین دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا اور آٹھ ملزمین کو گرفتار کر لیا۔ مزید تحقیقات کے لیے ایک ایس آئی ٹی (خصوصی تحقیقاتی ٹیم) بھی تشکیل دی گئی ہے۔
اس بہیمانہ قتل کے خلاف نہ صرف جلگاؤں بلکہ ریاست کے مختلف شہروں میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ ملزمین پر صرف قتل نہیں بلکہ مکوکا کے تحت بھی کارروائی کی جائے۔ پونے کے کلکٹر آفس کے سامنے بھی مختلف سماجی تنظیموں نے مظاہرہ کیا۔ سماجی کارکن انجُم انعامدار نے سوال اٹھایا کہ آخر ایک بے قصور نوجوان کو مارنے کے لیے یہ شر پسند کس کے اشارے پر متحرک ہوئے؟
رپورٹوں کے مطابق سلیمان پر حملہ کرنے والوں میں بی جے پی لیڈر گِریش مہاجن کے حامیوں کی تنظیم ’’شِو پرتِشٹھان‘‘ کے کارکن شامل تھے۔ مقامی کیفے کے مالک نے مبینہ طور پر اطلاع دی کہ ایک مسلم لڑکا ہندو لڑکی کے ساتھ بیٹھا ہے، جس کے بعد پون باوسکر اور اس کے ساتھیوں نے جھوٹے الزامات لگا کر سلیمان کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔
اس سے قبل بھی مہاراشٹر کے مختلف علاقوں میں فرقہ وارانہ فسادات اور ہجومی تشدد کے واقعات پیش آ چکے ہیں۔ ضلع جالنہ کے مانجر گاؤں میں نماز کے بعد مسجد سے نکلنے والے نمازیوں پر حملہ ہوا جس میں دو خواتین سمیت چھ افراد زخمی ہوئے۔ اسی طرح منماڑ میں شرپسندوں نے شیواجی مہاراج کی مورتی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی اور افواہیں پھیلا کر فساد بھڑکایا۔ ستارا کے پُسے ساولی گاؤں میں بھی گزشتہ برس ایک انجینئر نوجوان نورالحسن کو ہجومی تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا گیا تھا۔
راشٹریہ سیوا دل کے ’’سلوکھا گروپ‘‘ نے اپنی جانچ میں انکشاف کیا کہ یہ سب واقعات اچانک نہیں بلکہ ایک منظم سازش کا نتیجہ ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ گزشتہ دو برسوں سے ریاست میں مذہبی پولرائزیشن کی باقاعدہ کوششیں کی جا رہی ہیں۔ سوشل میڈیا پر فرضی پوسٹیں، اکاؤنٹ ہیکنگ اور افواہ سازی کے ذریعے ماحول کو بگاڑا جاتا ہے۔
مزید یہ کہ 2023 سے شدت پسند تنظیموں کے کئی جلسے اور ریلیاں منعقد ہو رہی ہیں جن میں منوہر بھیڈے، ٹی راجا اور نتیش رانے جیسے مقررین کھلے عام مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز بیانات دیتے ہیں۔ ان پروگراموں کے بعد مختلف علاقوں میں کشیدگی بڑھی اور معمولی باتوں پر فسادات پھوٹ پڑے۔
جامنیر میں سلیمان کے قتل کے بعد عوامی سطح پر خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ مہاراشٹر کو بھی ’’اتر پردیش اور بہار‘‘ کی طرز پر بدامنی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے، جہاں کھلے عام لا اینڈ آرڈر کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ ہر سانحے کے بعد وقتی احتجاج ضرور ہوتا ہے لیکن کوئی منظم تحریک کھڑی نہیں کی جاتی۔ مختلف تنظیموں اور پارٹیوں کی تقسیم کے باعث ان مظاہروں کا خاطر خواہ اثر نہیں پڑ رہا۔
ایسے میں ضروری ہے کہ ایک متحدہ اور طویل مدتی جدوجہد شروع کی جائے۔ مظلومین کو صرف اخلاقی نہیں بلکہ قانونی اور مالی مدد بھی فراہم کی جائے تاکہ وہ انصاف کی جنگ کو اعلیٰ عدالتوں تک لے جا سکیں۔ اکثر ملزمین ناکافی ثبوت یا کمزور گواہیوں کی بنیاد پر عدالت سے بری ہو جاتے ہیں۔ اگر مضبوط قانونی لڑائی لڑی جائے تو ظالموں کو سزا دلائی جا سکتی ہے اور اس طرح کے جرائم کے خلاف ایک سخت پیغام دیا جا سکتا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ان واقعات کے خلاف ایک منظم، متحد اور پُرامن احتجاجی تحریک چلائی جائے۔ سِول سوسائٹی، وکلا اور انسانی حقوق کی تنظیمیں ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر آئیں، حکومت پر دباؤ ڈالیں کہ خاطیوں کو سخت سزا دی جائے اور نفرت انگیز مہمات پر پابندی لگائی جائے۔ بصورتِ دیگر، اگر یہ رجحان جاری رہا تو مہاراشٹر میں بھی حالات ویسے ہی بگڑ سکتے ہیں جیسے اتر پردیش اور بہار میں فرقہ وارانہ تشدد کے دوران دیکھنے کو ملے ہیں۔
***
’’جامنیر میں سلیمان کے قتل کے بعد عوامی سطح پر خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ مہاراشٹر کو بھی ’اتر پردیش اور بہار‘ کی طرز پر بدامنی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے، جہاں کھلے عام لا اینڈ آرڈر کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ ہر سانحے کے بعد وقتی احتجاج ضرور ہوتا ہے، لیکن کوئی منظم تحریک کھڑی نہیں کی جاتی۔ مختلف تنظیموں اور پارٹیوں کی تقسیم کے باعث ان مظاہروں کا خاطر خواہ اثر نہیں پڑ رہا۔‘‘
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 24 اگست تا 30 اگست 2025