
مہاراشٹر حکومت کے سخت ضابطے۔عوامی حلقوں کا احتجاج، عدالت سے رجوع
پیدائش و اموات کے سرٹیفکیٹ عوام کے لیے کڑا امتحان
ضمیرا حمد خان، ناندیڑ
شفافیت کے نام پر اقلیتی و پسماندہ طبقات کو نشانہ۔غریب اور دیہی عوام سب سے زیادہ متاثر
جعلی دستاویزات کے بہانے بڑے پیمانے پر جانچ۔ہزاروں سرٹیفکیٹس منسوخ، عوامی مشکلات میں اضافہ
عوام کی جانب سے اصلاحات اور لچکدار نظام کا مطالبہ
ملک میں پچھلے کچھ عرصے سے حکومت کی جانب سے ایسے سخت قوانین نافذ کیے جا رہے ہیں جو عوام کی مشکلات کم کرنے کے بجائے مزید بڑھا رہے ہیں۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ قوانین انتظامی معاملات میں شفافیت پیدا کرنے اور بدعنوانیوں کے خاتمے کے لیے ہیں لیکن زمینی حقیقت اس کے برعکس ہے۔ دراصل ان قوانین کی آڑ میں اقلیتی اور پسماندہ طبقات کو منظم طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے تاکہ انہیں ان کے بنیادی حقوق سے محروم کیا جا سکے۔یہ حکمتِ عملی دراصل ایک بڑی سازش کا حصہ دکھائی دیتی ہے جس کے تحت عام آدمی کو روزمرہ کے مسائل میں اس طرح الجھا دیا جائے کہ وہ مہنگائی، بے روزگاری، حکومتی بد عنوانیوں اور دیگر سنگین مسائل پر آواز نہ اٹھا سکے اور حکومت کے خلاف کوئی عوامی لہر پیدا نہ ہو۔اسی سلسلے کی تازہ ترین مثال مہاراشٹر حکومت کا وہ متنازع فیصلہ ہے جس میں پیدائش اور موت کے سرٹیفکیٹ کے حصول کے قوانین کو غیر معمولی طور پر سخت کر دیا گیا ہے۔ پہلے ہی عام آدمی کاغذی کارروائیوں اور دفاتر کے چکر کاٹتے ہوئے پریشان رہتا تھا، اب ان نئے ضابطوں نے صورتحال مزید دشوار بنا دی ہے۔ سرٹیفکیٹ جیسے بنیادی اور ناگزیر دستاویز کو حاصل کرنا اب عوام کے لیے ایک کڑا امتحان بن چکا ہے۔ایسے اقدامات یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ آخر حکومت کس کی خدمت کر رہی ہے؟ کیا واقعی بد عنوانی ختم کرنے اور شفافیت قائم کرنے کے لیے یہ قوانین لائے جا رہے ہیں یا پھر یہ عوام کو دبانے اور ان کی آواز خاموش کرنے کی سوچی سمجھی حکمتِ عملی ہے۔
حکومت کی جانب سے لائی گئی ان سختیوں کے پس پردہ بی جے پی لیڈر کریٹ سومیا کا وہ جھوٹا پروپگنڈہ بھی شامل ہے جس میں وہ یہ اندیشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ مہاراشٹر کے کئی اضلاع میں بنگلادیشی لوگ رہتے ہیں اور ان لوگوں نے جعلی دستاویزات کے ذریعے ہندوستانی شہریت حاصل کرلی ہے۔ ان لوگوں کی شناخت کے لیے پچھلے 17 مہینوں میں جاری کیے گئے پیدائش کے سرٹیفکیٹ اور اس کے حصول کے لیے جمع کیے گئے دستاویزات کی از سر نو جانچ کروائی جارہی ہے ۔اس جانچ کے دوران دستاویزات میں کئی طرح کی خامیاں نظر آئی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ مہاراشٹر کے وزیر محصولات چندرشیکھر باوانکُلے نے حال ہی میں یہ اعلان کیا کہ ریاست میں غیرقانونی طور پر مقیم بنگلہ دیشی شہریوں کو جاری کیے گئے جعلی پیدائشی سرٹیفکیٹس کو منسوخ کر دیا جائے گا۔باونکُلے نے کہا کہ اب تک 42,000 ایسے کیسز کی نشاندہی کی جا چکی ہے، تاہم اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے جس کا تعین اہلکاروں کے ذریعے کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ جعلی سرٹیفکیٹس کی کاپیاں محکمہ محصولات اور محکمہ صحت کو بھیجی جائیں گی۔اس سال کے شروع میں بی جے پی کے کریٹ سومیا نے الزام لگایا تھا کہ جعلی دستاویزات پیش کرنے والے بنگلہ دیشیوں کو 3,997 پیدائشی سرٹیفکیٹ جاری کیے گئے تھے جس کے نتیجے میں دو اہلکاروں کو معطل کر دیا گیا تھا۔ریاستی وزیر یوگیش کدم نے کہا تھا کہ ریاستی حکومت غیرقانونی مقیم افراد کے خلاف پہلے سے کہیں زیادہ سخت کارروائی کر رہی ہے۔ 2021 میں 109 غیرقانونی بنگلہ دیشیوں کو ملک بدر کیا گیا، اس کے بعد 2022 میں 77 اور 2023 میں 127 کو۔ 2024 میں 716 کو گرفتار کیا گیا اور 202 کو ملک بدر کیا گیا۔ مارچ 2024 تک 600 غیرقانونی مقیم افراد کے خلاف کارروائی کی گئی۔
مہاراشٹر حکومت نے پیدائش اور اموات کی تاخیر سے رجسٹریشن کے عمل میں ہونے والی بے قاعدگیوں کے پیش نظر اس پر فوری پابندی عائد کردی ہے۔ محکمہ محصولات کی جانب سے جاری کردہ ایک سرکاری آرڈیننس میں کہا گیا ہے کہ "تاخیر سے پیدائش و اموات کی رجسٹریشن” کے معاملات پر آنے والے نئے احکامات تک کام معطل رکھا جائے۔یہ فیصلہ حکومت کو موصول ہونے والی متعدد شکایات کے بعد لیا گیا ہے۔ سرکاری خط میں واضح کیا گیا ہے کہ "بی آر ایکٹ 1969 میں 2023 کی ترمیم” کے تحت ضلع مجسٹریٹوں اور ذیلی تقسیم کے افسروں کو تاخیر سے رجسٹریشن کے اختیارات دیے گئے تھے، لیکن اس process میں بڑی تعداد میں شکایات موصول ہوئی ہیں۔حکومت نے ان شکایات کی جانچ پڑتال کے لیے محکمہ وزارت داخلہ کے تحت ایک خصوصی تفتیشی ٹیم (SIT) قائم کی ہے۔ اس ٹیم کی رپورٹ آنے تک تمام ضلعی حکام کو تاخیر سے رجسٹریشن کے معاملات پر کوئی کارروائی روک دینے کی ہدایت کی گئی ہے۔اس سے قبل 12 مارچ 2025 کو محکمہ صحت عامہ کی جانب سے جاری کردہ ایک علیحدہ نوٹیفکیشن میں "بی آر ایکٹ 1969 اور 2023 کی ترمیم” کے تحت تاخیر سے پیدائش و اموات کی رجسٹریشن کے عملے کے طریقہ کار کو طے کرنے کی بات کہی گئی تھی۔سرکاری ذرائع کے مطابق یہ پابندی عارضی ہے اور SIT کی رپورٹ کے بعد نئے احکامات جاری کیے جائیں گے۔ اس دوران عام پیدائش اور اموات کی بروقت رجسٹریشن کے عمل پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی ہے۔حکام کا کہنا ہے کہ یہ قدم شہریوں کے مفادات کے تحفظ اور رجسٹریشن کے عمل میں شفافیت یقینی بنانے کے لیے اٹھایا گیا ہے۔
مہاراشٹر حکومت کے محکمہ صحت عامہ کے حکم نامہ نمبر جما/2525/پرک/22 کے تحت اب تاخیر سے رجسٹریشن کے لیے سخت ثبوت اور تصدیقی کارروائی لازمی قرار دی گئی ہے۔نئے قواعد کے مطابق ایک سال سے زیادہ تاخیر سے پیدائش یا موت کی رجسٹریشن کے لیے درج ذیل ثبوت پیش کرنا لازمی ہوگا۔موت کے سرٹیفکیٹ کے لیے پوسٹ مارٹم رپورٹ،ایف آئی آر، اسی طرح پیدائش کے سرٹیفکیٹ کے لیے ہسپتال کا ڈسچارج کارڈ اگر زچگی گھر میں ہوئی ہے تو زچگی کرنے والی خاتون کا حلف نامہ،آنگن واڑی کارکن کے حلف نامے، ویکسینیشن ریکارڈ، اسکول داخلہ/چھوڑنے کے سرٹیفکیٹ، آبائی ثبوت، آدھار کارڈ، پین کارڈ، زمین کے ریکارڈ، ٹیکس کی رسید وغیرہ ان میں سے کوئی ایک دستاویزات جمع کرنا لازمی قراردیا گیا ہے لیکن عملی طور پر سرکاری اہلکار درخواست گزاروں سے تمام دستاویزات طلب کر رہے ہیں جن کا فراہم کرنا ہر کسی کے لیے ممکن نہیں ہے اور جس کی بڑی تعداد میں لوگ درخواست نہیں داخل کر پا رہے ہیں۔ ضلعی مجسٹریٹ، سب ڈویژنل مجسٹریٹ یا ایگزیکٹو مجسٹریٹ کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ مقامی تفتیش کے بعد ہی رجسٹریشن کی اجازت دیں۔ خاص طور پر غیر مقامی درخواست دہندگان کے معاملات میں اضافی احتیاط برتی جائے۔حکومت نے ہدایت کی ہے کہ اگر ایک ہی خاندان کے متعدد ارکان ایک ساتھ رجسٹریشن کے لیے درخواست دے رہے ہیں تو اس کی گہرائی سے چھان بین کی جائے۔ جعلی ثبوت پیش کرنے کی صورت میں فوری طور پر پولیس کو معلومات دی جائیں۔یہ اقدامات غیر ملکی شہریوں کی جانب سے تاخیر سے پیدائش کی رجسٹریشن کے متنازع معاملات کے بعد اٹھائے گئے ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ اقدام شہریوں کے مفادات کے تحفظ اور رجسٹریشن کے عمل میں شفافیت یقینی بنانے کے لیے ضروری ہیں۔ نئے قواعد فوری طور پر نافذ ہو گئے ہیں اور تمام ضلعی افسران کو ان کی سختی سے پابندی کی ہدایت کی گئی ہے۔
اس سلسلہ میں محکمہ صحت عامہ کے حکم نامہ نمبر جما/2525/پرک/22 کے تحت اب تاخیر سے رجسٹریشن کے لیے درج ذیل نئے قواعد نافذ کیے گئے ہیں:
حکومت کی جانب سے عائد کی گئی نئی سخت شرائط کے مطابق درخواست دہندگان کو دو معزز مقامی شہریوں، پولیس پٹیل یا سرکاری افسران کی گواہی ضروری ہے۔
تمام دستاویزات کی تصدیق متعلقہ دفاتر سے 15 دنوں میں لازمی، مقامی تھانے سے رہائشی تصدیق نامہ ضروری،خاندانی ریکارڈ اور نسب نامے کی تفصیلی چھان بین،درخواست دہندگان کو ذاتی طور پر حاضر ہونا لازمی،ممنوعہ دستاویزات:حکومت نے واضح کیا ہے کہ آدھار کارڈ، پین کارڈ، ووٹر آئی ڈی، پاسپورٹ، ڈرائیونگ لائسنس یا اسکول کے ریکارڈ میں درج تاریخ پیدائش کو اب پیدائشی ثبوت کے طور پر قبول نہیں کیا جائے گا۔نئی تصدیقی کارروائی کے لیے تھانے اور تعلقہ دفاتر سے تفتیشی رپورٹس، مقامی پٹواری کے ذریعے مقامی تفتیش، خاندانی ریکارڈز کی گہرائی سے جانچ، تمام دستاویزات کی ساکھ کی تصدیق وغیرہ
سزائیں اور اقدامات:
جعلی دستاویزات پیش کرنے والوں کے خلاف فوری پولیس کارروائی اور فوجداری مقدمات درج کیے جائیں گے۔ افسران کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ مشکوک معاملات میں فوری طور پر پولیس کو معلومات دیں۔یہ اقدامات غیر ملکی شہریوں کی جانب سے تاخیر سے پیدائش کی رجسٹریشن کے متنازع معاملات کے بعد اٹھائے گئے ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ اقدام شہریوں کے مفادات کے تحفظ اور رجسٹریشن کے عمل میں شفافیت یقینی بنانے کے لیے ضروری ہیں۔نئے قواعد فوری طور پر نافذ ہو گئے ہیں اور تمام ضلعی افسران کو ان کی سختی سے پابندی کی ہدایت کی گئی ہے۔ سرکاری ویب سائٹ www.maharashtra.gov.in پر اس آرڈر کو ڈیجیٹل دستخطوں کے ساتھ اپ لوڈ کیا گیا ہے۔وہیں دوسری طرف اگرکوئی شخص جعلی دستاویزات جمع کرتاہے اور متلقہ افسران اس کی تصدیق کیے بغیر اس کی درخواست قبول کرکے سرٹیفیکٹ جاری کرتے ہوئے ایسی صورت میں متعلقہ افسران کے خلاف کیا کارروائی کی جائے گی اس بارے میں حکومت کی جانب سے کوئی احکامات جاری نہیں کیے گئے ہیں۔جعلی دستاویزات کے ذریعے سرٹیفکیٹ حاصل کرنے والے خلاف تو کارروائی ہوگی لیکن ان دستاویزات کی تصدیق نہیں کرنے والے افسران پرکوئی کارروائی نہیں ہوگی۔ یہ مناسب نہیں ہے کیونکہ متعلقہ افسران کا کام ہے وہ درخواست گزار کی جانب سے داخل کیے جانے والے دستاویزات کی تحقیقات کرے اور اس کے بعد ہی درخواست کو منظوری کا فیصلہ کرے ۔
مہاراشٹر میں تاخیر سے پیدائش اور اموات کی رجسٹریشن:
مہاراشٹر حکومت نے پیدائش اور اموات کی رجسٹریشن میں تاخیر اور غیر قانونی استعمال کی روک تھام کے لیے نئی سخت ہدایات نافذ کی ہیں جو بظاہر شفافیت بڑھانے کا ہدف رکھتی ہیں۔ تاہم، یہ اقدامات عام شہریوں، خصوصاً غریب اور دیہی آبادی کے لیے ایک بڑا چیلنج بن کر سامنے آئے ہیں۔ یہ تبدیلیاں "برتھز اینڈ ڈیتھز رجسٹریشن ایکٹ 1969” کی 2023 میں کی گئی ترمیم کی روشنی میں متعارف کروائی گئیں، جس کے نتیجے میں ایک خصوصی تفتیشی ٹیم (SIT) تشکیل دی گئی ہے۔
پس منظر اور پابندیوں کی اصل وجوہات
حکومت کو متعدد شکایات موصول ہوئیں کہ ضلعی افسران اپنے اختیارات کا غلط استعمال کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے غیر ملکی شہری جعلی دستاویزات کے ذریعے تاخیر سے رجسٹریشن حاصل کر رہے ہیں۔ یہ صورتحال نہ صرف قومی سیکیورٹی کے لیے خطرہ بن سکتی ہے بلکہ سرکاری نظام کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچا رہی ہے۔ اسی لیے ایک ایس آئی ٹی قائم کی گئی ہے جو شکایات کی تفتیش کر رہی ہے اور سفارشات فراہم کرے گی۔ یہ اقدامات بنیادی طور پر رجسٹریشن کے عمل کو محفوظ اور قابل اعتماد بنانے کے لیے کیے گئے ہیں، لیکن ان کی وجہ سے شہریوں کو غیر متوقع مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔یہ شرائط درخواست دہندگان کے لیے ایک بڑا امتحان ثابت ہو رہی ہیں، کیونکہ ان کی تکمیل کے لیے متعدد محکموں سے رابطہ کرنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ تمام دستاویزات کی تصدیق متعلقہ دفاتر سے 15 دنوں کے اندر کرانی ہوگی جو ایک طویل اور محنت طلب عمل ہے۔
عوام کو درپیش اہم چیلنجز
نئی ہدایات نے روزمرہ کی زندگی کو متاثر کیا ہے، خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو بنیادی دستاویزات کے بغیر رہتے ہیں۔ کئی مسائل سامنے آئے ہیں۔غریب اور پسماندہ طبقے کے افراد کے پاس ہسپتال کے ریکارڈز یا اسکول کے سرٹیفکیٹ نہیں ہوتے جس کی وجہ سے وہ درخواست جمع نہیں کر پاتے۔ پندرہ دنوں کی حد کے اندر دستاویزات کی تصدیق کروانا ایک بوجھ بن گیا ہے جس میں کئی دفاتر کے چکر لگانے پڑتے ہیں۔تھانے یا تعلقہ دفاتر سے رپورٹس حاصل کرنا آسان نہیں، خاص طور پر دیہی علاقوں میں۔درخواست دہندگان کو ذاتی طور پر حاضر ہونا پڑتا ہے، جو کام کاج والے افراد کے لیے مشکل ہے۔آدھار، پین کارڈ یا ووٹر آئی ڈی جیسی عام دستاویزات اب قبول نہیں کی جا رہی ہیں، جس سے لوگوں کو نئی دستاویزات تیار کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ان چیلنجوں کی وجہ سے کئی شہری ضروری سرٹیفکیٹ کے بغیر رہنے پر مجبور ہیں جو ان کی تعلیم، روزگار، یا قانونی معاملات میں رکاوٹ بنتے ہیں۔دیہی مہاراشٹر میں مسائل اور زیادہ گہرے ہیں، جہاں زیادہ تر پیدائشیں گھروں میں ہوتی ہیں اور ہسپتال تک رسائی محدود ہے۔بہت سے لوگوں کے پاس ہسپتال کے ریکارڈز دستیاب نہیں ہوتے۔آنگن واڑی مراکز کمزور ہیں اور ان تک پہنچنا مشکل ہے۔لوگوں کو ضلعی ہیڈکوارٹرز تک جانا پڑتا ہے جو دور اور مہنگا ہے۔یہ علاقے جہاں آبادی زیادہ تر پسماندہ ہے ان نئی پابندیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے بنیادی حقوق تک رسائی متاثر ہو رہی ہے۔ اگرکوئی درخواست گزار حکومت کی جانب سے طلب کیے جانے والے دستاویزات فراہم کرنے میں ناکام ہوتا ہے تو اس صورت میں اسے ایک حلف نامہ داخل کرنے کی اجازت ہونی چاہیے جیسا کا ماضی میں ہوتا آیا ہے لیکن حکومت نے ایسا کوئی متبادل نہیں رکھا ہے ۔اسی طرح جو لوگ کرائے کے مکان میں رہتے ہیں وہ اپنے رہائش کا ثبوت کیسے فراہم کریں گے اس بات کی بھی وضاحت سرکاری آرڈیننس میں نہیں کی گئی ہے ۔اس کے لیے رینٹل اگریمنٹ بطور رہائشی ثبوت دینے کی سہولت ہونی چاہیے تھی لیکن وہ بھی نہیں ہے جس کی وجہ سے یہ معاملہ ان لوگوں کے لیے مزید پیچیدہ ہو گیا ہے جو اپنا خود کا ذاتی مکان نہیں رکھتے اور کرائے کے مکان میں رہتے ہیں۔پیدائش اور موت کے سرٹیفکیٹ کے حصول میں پیش آنے والی ان تمام رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے عوامی حلقوں کی جانب سے کوششیں ہو رہی ہے۔اس سلسلہ میں ناندیڑ سے مسلم ایڈووکیٹ فورم کی جانب سے ضلع کلکٹر کے توسط سے مہاراشٹر کے گورنر کو ایک میمورنڈم روانہ کیا گیا ہے جس میں پیدائش اور موت کے سرٹیفکیٹ کے حصول میں لائی گئی سختیوں کو کم کرنے اور اس میں لچک پیدا کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے ۔وہیں دوسری طرف کچھ لوگوں نے اس مسئلے کو بامبے ہائی کورٹ کی ناگپور بنچ میں بھی چیلنج کیا ہے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ عدالت اس معاملے میں کیا فیصلہ دیتی ہے ۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ پابندیاں شہریوں کے مفاد میں ہیں اور رجسٹریشن کے عمل کو محفوظ بنانے کا مقصد رکھتی ہیں۔ ایک سرکاری ترجمان نے کہا کہ "یہ اقدامات عارضی ہیں اور ایس آئی ٹی کی رپورٹ کے بعد نئے احکامات جاری کیے جائیں گے۔” تاہم، شہری حقوق کے کارکنوں نے اس نقطے پر تنقید کی ہے کہ حکومت کو ایسا ڈیجیٹل نظام متعارف کروانا چاہیے جو دونوں طرف توازن برقرار رکھے – ایک طرف غیر قانونی سرگرمیاں روکنے کے لیے اور دوسری طرف عام شہریوں کے لیے سہولت فراہم کرے۔ فی الحال عوام کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی دستاویزات کو بر وقت مکمل کر لیں اور متعلقہ دفاتر سے تعاون کریں۔ حکومت نے تمام ہدایات کو اپنی ویب سائٹ (www.maharashtra.gov.in) پر دستیاب کر دیا ہے جہاں سے شہری تفصیلی معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔مستقبل میں اگر ڈیجیٹلائزیشن کو ترجیح دی جائے تو یہ نظام زیادہ مؤثر ہو سکتا ہے۔مہاراشٹر کی یہ نئی پابندیاں ایک طرف رجسٹریشن کے عمل میں شفافیت بڑھانے کا باعث بنیں گی لیکن دوسری طرف وہ عوام، خصوصاً دیہی اور غریب طبقے کے لیے مشکلات میں اضافہ کر رہی ہیں۔ یہ مسئلہ حکومت کو یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کس طرح سیکیورٹی اور سہولت کا توازن برقرار رکھا جا سکے۔ اگر بروقت اصلاحات نہ کی گئیں تو یہ پابندیاں مزید تنازعات کو جنم دے سکتی ہیں۔ شہریوں کو اپنے حقوق کے لیے آگے آنے کی ضرورت ہے جبکہ حکومت کو ایسے اقدامات پر غور کرنا چاہیے جو انکلوژن کو یقینی بنائیں۔اسی طرح اس مسئلے کے حل کے لیے عوامی سطح پر ایک منظم احتجاجی تحریک چلانا بھی وقت کی اہم ضرورت بن گئی ہے ۔اس کے لیے سماجی تنظیموں کو عوامی بیداری لانے کی کوشش کرنی ہوگی۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 07 اگست تا 13 اگست 2025