مہاراشٹر اور جھارکھنڈ : سیکولر ووٹروں کے سیاسی شعور کا امتحان

انڈیا اتحاد کے لیے فیصلہ کن موڑ۔ نتائج کا اثر قومی سیاست پر پڑے گا

نوراللہ جاوید، کولکاتا

بدلتے ہوئے سیاسی منظرنامہ میں مسلم لیڈرشپ کے سامنے نئے چیلنجز
گو کہ اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد ’’انڈیا‘‘ نے لوک سبھا انتخابات میں مودی کو تیسری مرتبہ اقتدار میں آنے سے روکنے میں کامیابی حاصل نہیں کی لیکن ’’مودی میجک، مودی ہے تو ممکن ہے‘‘ جیسے نعروں کی چمک و دمک کو ضرور ماند کردیا ہے۔ اترپردیش اور مہاراشٹر میں لوک سبھا انتخابات کے نتائج مودی اور بی جے پی کے حامیوں کے لیے کسی تازیانے سے کم نہ تھے۔ ان دونوں ریاستوں میں کامیابی کے لیے ہر طرح کی سیاسی چال بازی، مکر و فریب اور اقتدار کا غلط استعمال کیا گیا۔ ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کا افتتاح مودی کی کامیابی کے طور پر پیش کیا گیا اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ رام مندر کی تعمیر مودی کی بڑی کامیابی ہے، حالانکہ حقیقت میں اس کی تعمیر کا راستہ عدالتی فیصلے کے ذریعے ہموار ہوا تھا۔مہاراشٹر میں تو اخلاقیات کی دھجیاں اڑا دی گئیں۔ حرص و ہوس، مرکزی ایجنسیوں اور کارپوریٹ کی مدد سے مخالف جماعتوں میں توڑ پھوڑ کر کے اقتدار پر قبضہ جمایا گیا۔ اس پر بھی اطمینان حاصل نہیں ہوا تو مہاراشٹر میں نفرت انگیز مہم شروع کی گئی اور ریزرویشن کے نام پر پسماندہ طبقوں اور مرہٹوں کے درمیان نفرت پیدا کی گئی، اس کے باوجود کامیابی نہیں ملی۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا مہاراشٹر اور جھارکھنڈ، جہاں نومبر میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں، ’’انڈیا‘‘ اتحاد اپنی کامیابی کو دہرا پائے گا؟ یا پھر ہریانہ کی طرح بی جے پی اور سنگھ پریوار خاموشی سے جیت چھین لیں گے؟ ہریانہ میں سبھی کو لگتا تھا کہ کانگریس کی آندھی ہے مگر جس طرح سیاسی حکمت عملی، زمینی گرفت اور حکومتی مشنری کے غلط استعمال کے ذریعے بی جے پی نے ہریانہ میں جیت حاصل کی اسی طرح یہاں بھی کر سکتی ہے۔ گو کہ ہریانہ میں بی جے پی کی جیت پر کئی سوالات بھی اٹھ رہے ہیں، جن کا جواب الیکشن کمیشن کو دینا ہے۔ کئی حلقوں میں ای وی ایم کی خرابی کی شکایات ہیں۔لوک سبھا انتخابات کے بعد اپوزیشن خیمے میں جو جوش و خروش تھا، وہ ہریانہ اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی واپسی کے بعد ماند پڑ چکا ہے۔ چنانچہ مہاراشٹر اور جھارکھنڈ میں انتخابی حکمت عملی طے کرنے میں ’’انڈیا‘‘ اتحاد نے سست روی اور انتشار کا مظاہرہ کیا۔ مہاراشٹر میں تو ایسا لگ رہا تھا کہ ’’انڈیا‘‘ اتحاد انتشار کا شکار ہو جائے گا۔ ادھو ٹھاکرے کی قیادت والی شیو سینا، ادھو ٹھاکرے کو وزیر اعلیٰ کے چہرے کے طور پر پیش کرنے پر اصرار کر رہی تھی، جب کہ کانگریس اور شرد پوار کی این سی پی اس کے حق میں نہیں تھیں۔ تینوں جماعتوں نے سیٹوں کی تقسیم کے سوال پر جارحانہ رخ اختیار کیا۔ سماجوادی پارٹی، اسد الدین اویسی اور پرکاش امبیڈکر سیاسی جماعتوں کے لیے دل بڑا کرنے میں ناکام رہے، جس کی وجہ سے خدشہ ہے کہ سیکولر اور بی جے پی مخالف ووٹ تقسیم ہوں گے۔
جھارکھنڈ اور مہاراشٹر اسمبلی انتخابات اور ان کے نتائج کے اثرات صرف ان دو ریاستوں تک محدود نہیں رہنے والے ہیں، بلکہ ان کا اثر قومی سیاست، بالخصوص مودی کے مستقبل اور مرکز میں اتحادی جماعتوں کی اہمیت پر بھی پڑے گا۔ اگر ان دونوں ریاستوں میں بی جے پی کامیاب ہو جاتی ہے تو خدشہ ہے کہ وہ حلیف اور اپوزیشن جماعتوں میں توڑ پھوڑ کر کے عددی اکثریت حاصل کر لے گی۔ ان ریاستوں کے بعد اگلے سال بہار اور دیگر ریاستوں میں بھی اسمبلی انتخابات ہونے ہیں، جن پر یہ نتائج اثر انداز ہوں گے۔ایسے میں کئی سوالات جنم لے رہے ہیں: کیا مہاراشٹر میں انڈیا اتحاد اپنی کامیابی دہرا سکے گا؟ بی جے پی اور فرقہ پرست قوتوں کو روکنے میں عوام، بالخصوص اقلیت، کیا کردار ادا کر سکتے ہیں؟ اب جب کہ دونوں ریاستوں میں سیاسی جماعتوں نے ٹکٹوں کی تقسیم کا عمل مکمل کر لیا ہے اور یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے مسلمانوں کی آبادی کے اعتبار سے ٹکٹ نہیں دیا ہے، دوسری طرف اسدالدین اویسی مسلمانوں کی نمائندگی اور مسلم قیادت کے سوال پر شدت کے ساتھ انتخابات لڑ رہے ہیں۔اگرچہ انہوں نے ’’انڈیا فرنٹ‘‘ کے ساتھ مل کر انتخاب لڑنے کی پیش کش کی تھی مگر بی جے پی کے خوف اور اسدالدین اویسی کی جارحانہ مہم کی وجہ سے انہیں سیاست میں اچھوت بنا دیا گیا ہے۔ قومی دھارے کی سیکولر جماعتیں ان کے ساتھ اتحاد کرنے سے کتراتی ہیں کہ اگر اویسی کے ساتھ اتحاد کیا گیا تو ہندو ووٹرز ان سے ناراض ہو جائیں گے۔ یہ بھارت کی سیاست کا سب سے بڑا المیہ ہے کہ مسلم قیادت والی سیاسی جماعتوں کے مواقع اور امکانات کم ہوتے جا رہے ہیں، چاہے وہ آسام میں اے یو ڈی ایف ہو، یا بنگال میں عباس صدیقی کی قیادت والی آئی ایس ایف، یا اسدالدین اویسی کی آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین ہو، ان میں سے کسی کو بھی قومی دھارے کی سیکولر جماعتیں قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔چناں چہ انڈیا اتحاد نے اویسی کی پیش کش پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی۔ اگرچہ اس وقت مہاراشٹر میں اے آئی ایم آئی ایم اندرونی خلفشار کا شکار ہے، مگر جس شدت کے ساتھ اویسی انتخاب لڑ رہے ہیں اس سے ایک سے دو فیصد ووٹوں کے منتشر ہونے کا خدشہ بڑھ گیا ہے، جس کا سیدھا نقصان انڈیا اتحاد کو اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ ایک سیاسی جماعت ہونے کی حیثیت سے اے آئی ایم آئی ایم کو ملک کے کسی بھی حصے سے انتخاب لڑنے کا بھرپور حق ہے، اور صرف اس بنیاد پر کہ ان کے میدان میں ہونے سے سیکولر ووٹ تقسیم ہو جاتے ہیں، انہیں بی جے پی کا ایجنٹ نہیں کہا جا سکتا۔ان حالات میں سیاسی جماعتوں سے زیادہ ووٹر، بالخصوص باشعور سِول سوسائٹی، مسلم تنظیمیں اور افراد کا کردار کافی اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔ ان حالات میں ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ زمینی حقائق کا علم ہو اور یہ جانچا جائے کہ کن حلقوں میں مسلم ووٹر کسی بھی سیاسی جماعت کے حق میں اپنا وزن ڈال کر فتح حاصل کی جا سکتی ہے۔
جھارکھنڈ میں مسلمانوں کے سیاسی اثرات
جھارکھنڈ میں 2011 کی مردم شماری کے مطابق مسلمانوں کی آبادی تقریباً 14.5 فیصد ہے۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار مسلسل پروپیگنڈا کرتے رہے ہیں کہ مغربی بنگال سے ملحق علاقوں میں بڑی تعداد میں بنگلہ دیشی درانداز آباد ہوئے ہیں جس کے باعث ڈیموگرافی میں تبدیلی آئی ہے۔ ہفت روزہ دعوت کے شمارے میں ہم نے اس موضوع پر ایک مستقل مضمون لکھا تھا۔جھارکھنڈ کے قیام کے بعد سے اب تک چار انتخابات ہو چکے ہیں اور اب پانچویں مرتبہ انتخاب ہونے جا رہا ہے۔ ان چار انتخابات میں کل 81 سیٹوں پر مشتمل ریاستی اسمبلی میں مجموعی طور پر صرف 13 مسلم ممبر ہی منتخب ہو سکے ہیں۔ 2005 کے انتخابات میں کانگریس کے ٹکٹ پر دو مسلم ممبران اسمبلی منتخب ہوئے۔ 2009 کے انتخابات میں پانچ مسلم ممبران کامیاب ہوئے (دو کانگریس، دو جھارکھنڈ مکتی مورچہ اور ایک جھارکھنڈ وکاس مورچہ کے ٹکٹ پر) 2014 میں دو اور 2019 میں چار مسلم ممبران اسمبلی منتخب ہوئے۔ آبادی کے تناسب کے مطابق 12 مسلم ممبران اسمبلی منتخب ہونے چاہئیں مگر پانچ سے زائد مسلم ممبران کبھی کامیاب نہیں ہو سکے۔جھارکھنڈ کے کئی حلقے ایسے ہیں جہاں مسلم ووٹروں کی تعداد بیس فیصد سے زائد ہے، جیسے پاکوڑ، جامتاڑا، مدھوپور، مہاگاما، کوڈرما، رام گڑھ، کنیڈی، بوکارو، دھنباد، تونڈی، گروا، راج محل، دھانور، بھون ناتھ پور، جمشید پور ویسٹ، ہتیا، ہزاری باغ، مندار، گوڈا، گریہہ ڈی، پنکی، لوہردگا، سرتھ، بشرام پور اور مندرو وغیرہ۔ ان 81 اسمبلی حلقوں میں تقریباً 25 سیٹیں ایسی ہیں جہاں مسلم ووٹ بیس فیصد سے زائد ہیں، جو سیاسی لحاظ سے بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ اس تناظر میں کوئی بھی سیاسی جماعت مسلمانوں کو نظرانداز نہیں کر سکتی۔ تاہم، مسلم ووٹروں کو بے اثر کرنے کی کوششیں جاری ہیں اور اسی حکمت عملی کے تحت قبائلی اور مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔اعداد و شمار میں ہیر پھیر کر کے قبائلیوں کی آبادی میں کمی کے لیے مسلمانوں کو ذمہ دار ٹھیرایا جاتا ہے، جبکہ اس کی وجوہات مختلف ہیں۔ مثلاً قبائلیوں کی نقل مکانی، شرح اموات کا زیادہ ہونا اور سنتھال پرگنہ جیسے علاقوں میں بہار، یوپی اور بنگال سے لوگوں کا آباد ہونا۔قومی کمیشن برائے شیڈولڈ ٹرائب کے چیئرمین رامیشور اوراون نے 2016 میں بیان دیا کہ 2011 کی مردم شماری میں موسمی نقل مکانی کے باعث قبائلی آبادی کو کم شمار کیا گیا۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق قبائلی آبادی 26 فیصد ہے مگر ان کے مطابق یہ 32 فیصد سے زیادہ ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا تھا کہ مردم شماری فروری میں کی گئی تھی، جب قبائلی لوگ کھیتی کے کام کے لیے دیگر ریاستوں میں ہجرت کرتے ہیں۔ انہوں نے رجسٹرار جنرل آف انڈیا کے سامنے یہ مسئلہ اٹھایا تھا کہ دیگر ریاستوں میں کام کرنے والے جھارکھنڈ کے قبائلیوں کو ریاست کی قبائلی آبادی میں شامل کیا جانا چاہیے۔
جھارکھنڈ میں سیاسی صورت حال اور مسلم ووٹروں کا کردار
جھارکھنڈ مکتی مورچہ نے 2019 میں کانگریس کی حمایت سے اقتدار سنبھالا، مگر پہلے دو سال کورونا وائرس کی نذر ہوگئے۔ اس کے بعد بی جے پی نے حکومت کو کمزور کرنے کی بھرپور کوشش کی اور غیر یقینی صورتِ حال پیدا کی۔ 2024 میں وزیر اعلیٰ ہیمانتا سورین کی ایک پرانے معاملے میں گرفتاری عمل میں آئی، جس کے باعث انہیں وزارتِ اعلیٰ چھوڑنی پڑی۔ لوک سبھا انتخابات کے بعد وہ جیل سے رہا ہوئے۔ سورین نے اپنے دورِ اقتدار میں کئی فلاحی اسکیمیں شروع کیں، جن سے ریاست کے ہر شہری کو فائدہ پہنچا۔ تاہم، فرقہ پرست قوتوں کے خلاف سورین کی جانب سے مضبوط اقدامات نہیں کیے گئے۔ پچھلے پانچ سالوں میں جھارکھنڈ میں ایک درجن سے زائد فرقہ وارانہ فسادات ہوئے، جن کا نقصان زیادہ تر مسلمانوں کو اٹھانا پڑا۔ اس کے علاوہ موب لنچنگ کے واقعات بھی پیش آئے جس سے مسلمانوں میں بے چینی پیدا ہونا فطری تھا۔اس وقت بی جے پی کے خلاف سب سے مضبوط اور مؤثر محاذ انڈیا اتحاد ہے، جس کی قیادت سورین کر رہے ہیں۔ البتہ جھارکھنڈ میں کمیونسٹ جماعتوں کے ساتھ اتحاد نہ ہونے کے باعث سیکولر ووٹوں کی تقسیم کا خطرہ ہے۔ مسلم لیگ اور دیگر چھوٹی جماعتیں بھی قسمت آزمائی کر رہی ہیں، جس کے باعث بی جے پی کو اقتدار سے باہر رکھنے کے لیے دانشمندانہ حکمت عملی اور ہر حلقے کے حالات کا باریک بینی سے تجزیہ ضروری ہے۔جھارکھنڈ میں کئی سِول سوسائٹی تنظیمیں ہیں جو قبائلیوں میں کام کر رہی ہیں اور بی جے پی کے پروپیگنڈہ کا مقابلہ کر رہی ہیں۔ مگر مسلم جماعتیں اس مہم میں سرگرم نظر نہیں آتیں۔ کرناٹک میں سِول سوسائٹی کی تنظیم جاگو کرناٹکا میں مسلم تنظیمیں، خصوصاً جماعت اسلامی کرناٹک، نے فعال کردار ادا کیا تھا۔ جھارکھنڈ میں بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ قبائلیوں اور مسلمانوں کے درمیان پیدا کی جانے والی غلط فہمیوں کا ازالہ کیا جائے اور جیو اور جینے دو جیسے سماجی معاہدے کی راہ ہموار کی جائے۔جھارکھنڈ میں قبائلی آبادی کو ہندتوا کے لیے آلہ کار بنانے کی کوششیں جاری ہیں، جن میں آر ایس ایس کی مشنریاں کئی دہائیوں سے سرگرم ہیں۔ بی جے پی نے انتخابات میں کامیابی کی صورت میں این آر سی نافذ کرنے کا وعدہ کیا ہے، جس کا مقصد مسلمانوں کو پیچھے دھکیلنا ہے۔
مہاراشٹر میں مسلم ووٹوں کی اہمیت
مہاراشٹر کی کل 11.24کروڑ آبادی میں مسلمانوں کی آبادی کی شرح 11.56فیصد ہے۔288اسمبلی حلقوں میں مسلمانوں کی آبادی کے اعتبار سے 33مسلم ممبران کو اسمبلی پہنچنا چاہیے مگر 1952سے لے کر اب تک کسی بھی اسمبلی میں 13سے زائد مسلم ممبران نہیں پہنچے ہیں۔گزشتہ اسمبلی انتخابات میں 10مسلم ممبران اسمبلی منتخب ہوسکے۔آبادی کے اعتبار سے مسلم ممبران اسمبلی منتخب نہیں ہونے کی کئی وجوہات ہیں۔ سابق آئی پی ایس آفیسر اور Absent in Politics and Powerکے مصنف عبدالرحمن کہتے ہیں کہ مہاراشٹر میں مسلمانوں کی آبادی کے اعتبار سے کم نمائندگی کی کئی وجوہات ہیں جن میں مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کانگریس، این سی پی، شیوسینا اور بی جے پی کے ذریعہ مسلم امیدواروں کو کم ٹکٹ، سیاست پر فرقہ واریت کا غلبہ،مسلم آبادی والے علاقوں سے غیر مسلم امیدواروں کا کھڑا کیا جانا، ایسی سیٹوں سے مسلم امیدوار کھڑا کرنا جہاں مسلم آبادی کم ہے اور کئی مسلم امیدواروں کا میدان میں آنا ہے۔ ان وجوہات کے سبب مسلم ووٹ تقسیم ہو جاتے ہیں۔عبدالرحمن کہتے ہیں کہ 2014 میں مالیگاوں اسمبلی حلقہ جہاں مسلم ووٹ فیصلہ کن پوزیشن میں ہیں، وہاں سترہ مسلم امیدوار میدان میں تھے۔ نانڈیڑ میں بیس مسلم امیدوار میدان میں تھے۔ اسی سال ساتچمزید ایسی سیٹیں جہاں اچھی خاصی مسلم آبادی ہے وہاں آٹھ یا اس سے زائد امیدوار میدان میں تھے۔ نتیجے میں ان تمام سیٹوں میں صرف دو حلقوں سے مسلم امیدوار کامیاب ہوسکے ۔
آئی پی ایس عبدالرحمن مزید لکھتے ہیں کہ مہاراشٹر کے شمالی علاقے کوکن، کھندیش، مراٹھواڑہ اور مغربی مہاراشٹر کے ودربھ میں مسلمانوں کی اچھی خاصی آبادی ہے۔مہاراشٹر میں کل چالیس سیٹیں ایسی ہیں جن میں مسلم ووٹ فیصلہ کن پوزیشن میں ہیں۔جن میں ممبئی بھی شامل ہیں جہاں مسلم آبادی بیس فیصد کے قریب ہے۔مہاراشٹر کے جن حلقوں میں مسلم ووٹرس اہم کردار ادا کرتے ہیں ان میں دھولے سٹی، چوپڑا، راوڑ، مالیگاوں سنٹرل، جلگاوں سٹی، بالا پور، ناگپور سنٹرل،امراوتی، کرنجا، اکولہ، اکولا ویسٹ، نانڈیر سٹی، کنگ وارڈ،نانڈیر ساوتھ، پربھنی، جالنا سٹی، اورنگ آباد سنٹرل، اورنگ آباد ویسٹ، مجگاوں، بیڑ، اودگیر، لاتور سٹی، عثمان آباد، بھیونڈی، بھیونڈی ویسٹ، بھیونڈی ایسٹ، ممبراکلو، ورسوا، مانگ خرد شیواجی نگر، چیمبور، کرلا، سائن، کولی واڑہ، وڈالاڈ بائیکلہ، ممبادیوی، چاندیولی، ملاڈ،سانگلی اور میراج جیسے حلقے شامل ہیں۔
مہاراشٹر کی سیاست میں اے آئی ایم آئی ایم المعروف مجلس پارٹی کی آمد کے بعد سے یہ دعویٰ کیا جاتا رہا ہے کہ ان کی وجہ سے مسلم ووٹ تقسیم ہوئے ہیں اور اس کا فائدہ بی جے پی کو ملتا ہے۔ لیکن اعداد و شمار ان الزامات کی تصدیق نہیں کرتے۔ 2019 کے اسمبلی انتخابات میں مجلس پارٹی نے 44 سیٹوں پر امیدوار کھڑے کیے۔ دو حلقوں میں کامیابی ملی اور کل ووٹوں کا 1.34 فیصد حاصل کیا۔ 2014 کے مقابلے میں یہ ایک قابل ذکر کامیابی ہے۔ 2014 میں 22 نشستوں پر امیدوار کھڑے کیے گئے جن میں سے دو سیٹوں پر کامیابی حاصل کی گئی اور کل ووٹوں کا 0.93 فیصد ملا۔ اس نے مالیگاؤں اور دھولے میں بھی کامیابی حاصل کی اور اورنگ آباد سنٹرل، اورنگ آباد ایسٹ، بائیکلہ اور شولاپور سٹی سنٹرل میں دوسرے نمبر پر رہے۔ پارٹی کا اثر 13 مزید حلقوں میں محسوس کیا گیا، جہاں اسے جیت کے مارجن سے زیادہ ووٹ ملے۔ بی جے پی اور اس کے اتحادیوں نے ان 13 میں سے سات سیٹوں پر کامیابی حاصل کی، جبکہ چھ سیٹوں پر کانگریس اور این سی پی اتحاد نے کامیابی حاصل کی۔ گزشتہ انتخابات میں پرکاش امبیڈکر وی بی اے کے ساتھ اتحاد کی وجہ سے بڑی کامیابی ملی۔ 2024 اورنگ آباد لوک سبھا سیٹ میں امتیاز جلیل کی 1.30 لاکھ سے زیادہ ووٹوں سے ہار مسلم ووٹروں میں مجلس کی مقبولیت میں کمی کا باعث بنی ہے۔ مسلم رائے دہندگان نے اپنی حمایت ان جماعتوں کی طرف منتقل کر دی ہے جو بی جے پی کی مؤثر طریقے سے مخالفت کرنے کے قابل ہیں۔ مزید یہ کہ مجلس اندرونی انتشار کا شکار ہے۔ کئی پرانے کارکنان ورکنگ صدر غفار قادری اور ممبئی کے سابق صدر فیاض احمد کو کنارے کردیا گیا ہے۔ قادری سمیت بہت سے ناراض لیڈروں نے امتیاز جلیل پر بی جے پی کے ساتھ مفاہمت کا الزام لگایا ہے۔ نانڈیڑ لوک سبھا حلقے میں مجلس نے انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ گزشتہ انتخابات میں یہاں سے کانگریس نے کامیابی حاصل کی تھی، مگر ممبر پارلیمنٹ کی شکست کے بعد یہ سیٹ خالی ہوگئی ہے۔ نانڈیڑ پارلیمانی حلقہ میں 14 فیصد مسلم آبادی ہے جو نانڈیڑ میں بڑھ کر 24 فیصد ہو جاتی ہے۔ ایسے میں اگر مجلس امیدوار کھڑا کرتی ہے تو یقینی طور پر بی جے پی کو فائدہ ہو سکتا ہے۔
اقتصادی اعتبار سے مہاراشٹر ملک کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ملک کی جی ڈی پی کا 16 فیصد حصہ مہاراشٹر سے آتا ہے۔ ایف ڈی آئی (غیر ملکی سرمایہ کاری) میں آمدنی بھی سب سے زیادہ مہاراشٹر سے حاصل ہوتی ہے۔ کئی شعبوں میں مہاراشٹر ملک کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ مہاراشٹر کو 21ویں صدی میں اہم چیلنجوں کا سامنا ہے۔ ٹیکسٹائل کی صنعت کا زوال، مینوفیکچرنگ پر مبنی معیشت سے سروس پر مبنی معیشت میں منتقلی کی راہ ہموار نہیں رہی۔ ماہرین، خاص طور پر شہری منصوبہ سازوں نے نشاندہی کی ہے کہ اس تبدیلی نے ایک دوہرا شہر بنا دیا ہے۔ ممبئی ایک چمک دار مال اور فلک بوس عمارتوں میں سے ایک ہے جبکہ دوسرا وہ ہے جو سابق کارکنوں اور ان کے خاندانوں کے لیے ہے جو معاشی جدوجہد کر رہے ہیں۔ ریاست میں شدید معاشی تفاوت کو دیکھا جا سکتا ہے۔ جب کہ ممبئی دنیا کی سب سے مہنگی رئیل اسٹیٹ مارکیٹ ہونے پر فخر کرتا ہے، اس میں دنیا کی کچھ غریب ترین کچی بستیاں بھی آباد ہیں، اس کے علاوہ مہاراشٹر کے دیہی علاقوں میں زرعی پریشانی کا سامنا ہے۔ ودربھ جیسے خطوں میں کسانوں کی خودکشی کی بڑی تعداد خطرناک عدم مساوات کی یاد دلاتی ہے۔ ماحولیاتی چیلنجز مزید خطرہ ہیں۔ تیزی سے بڑھتی آبادی اور صنعت کاری نے قدرتی وسائل پر بہت زیادہ دباؤ ڈالا ہے۔ ممبئی کو خاص طور پر شدید ماحولیاتی مسائل کا سامنا ہے، مانسون کے دوران سیلاب سے لے کر فضائی آلودگی کی خطرناک سطح تک شہر کو اور بھی بہت سے چیلنجز درپیش ہیں۔
مہاراشٹر اقتصادی ترقی کے ساتھ اہم سماجی اور سیاسی تحریکوں کا گواہ بھی رہا ہے۔ یہ متعدد سماجی اصلاح تحریکوں کے بانیوں کا وطن رہا ہے جنہوں نے معاشرتی اصولوں کو چیلنج کیا اور مساوی معاشرے کے قیام کے لیے جدوجہد کی۔ جیوتی راؤ پھولے اور ان کی اہلیہ ساوتری بائی پھولے نے 19ویں صدی میں خواتین اور پسماندہ ذاتوں میں تعلیم کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کی کوششوں نے مستقبل کی سماجی اصلاحی تحریکوں کی بنیاد رکھی۔ ڈاکٹر بی آر امبیڈکر، مہو (اب مدھیہ پردیش) میں ایک مہاراشٹرائی خاندان میں پیدا ہوئے جو ذات پات کے خلاف لڑائی میں ایک اہم شخصیت بن گئے۔ مہاراشٹر کی سیاست اور سماجی تانے بانے پر ان کے اثرات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ حالیہ دنوں میں مہاراشٹر کو ہندتوا کی لیبارٹری کے طور پر آزمانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ہندوتوا واچ کے مطابق (ایک آزاد تحقیقی پروجیکٹ جو بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم اور نفرت انگیز تقاریر کی دستاویز تیار کرتا ہے) مہاراشٹر میں 2023 میں ملک میں سب سے زیادہ نفرت انگیز تقاریر کی گئیں۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعداد و شمار سے بھی پتہ چلتا ہے کہ یہاں سب سے زیادہ نفرت انگیز تقاریر کی گئیں۔ 2022 میں ملک میں فسادات کے بعد گرفتار کیے گئے لوگوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ ریزرویشن کے مسئلے کی وجہ سے گزشتہ آٹھ مہینوں میں مراٹھا اور دیگر پسماندہ طبقات کے درمیان اختلافات گہرے ہوگئے ہیں۔ جان بوجھ کر ان اختلافات کو ہوا دی گئی ہے۔ ریاستی حکومت کی جانب سے حساس معاملے سے نمٹنے کی نا اہلی نے اسے مزید خراب کر دیا ہے۔ چھگن بھوجبل جیسے وزراء کے ریزرویشن پر جارحانہ بیانات آگ پر تیل ڈال رہے ہیں۔ فرقہ وارانہ فسادات اور ذات پات کے تنازعات نے زرعی بحران جیسے حقیقی چیلنجوں کو پیچھے دھکیل دیا ہے۔ ریاست کی 55 فیصد آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے۔ ان میں سے 87 فیصد کا انحصار زراعت پر ہے۔ کسانوں کی خود کشی میں مہاراشٹر ملک میں سب سے آگے ہے۔ اس سال 15 جولائی تک تقریباً 600 کسان خودکشی کر چکے ہیں۔ مہاراشٹر دوراہے پر کھڑا ہے اور ریاست کا مستقبل اس بات پر منحصر ہوگیا کہ وہ عدم مساوات، ماحولیاتی ناپائیداری، اور جامع ترقی کے مسائل کو کیسے حل کرتی ہے۔ مہاراشٹر کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس میں اپنے آپ کو نئے سرے سے ایجاد کرنے کی صلاحیت ہے، لیکن سوال ہے کہ کیا وہ اپنے اندر گہری جمی ہوئی عدم مساوات کا خاتمہ کر سکے گا؟ اس پس منظر میں مہاراشٹر اسمبلی انتخابات کافی اہم ہیں۔ مہاراشٹر سماجی، اقتصادی اور معاشرتی ناہموری کے بحران پر کھڑا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا سیاسی جماعتیں ان نکات پر غور کریں گی؟

 

***

 جھارکھنڈ میں متعدد سِول سوسائٹی تنظیمیں قبائلیوں کے حقوق کے تحفظ اور بی جے پی کے پروپیگنڈے کا مقابلہ کر رہی ہیں، تاہم مسلم جماعتیں اس کوشش میں فعال نہیں ہیں۔ کرناٹک میں مسلم تنظیمیں، خاص طور پر جماعت اسلامی ہند ، نے جاگو کرناٹکا مہم میں اہم کردار ادا کیاتھا ۔ جھارکھنڈ میں بھی ضروری ہے کہ قبائلیوں اور مسلمانوں کے درمیان غلط فہمیاں دور کی جائیں اور ’’جیو اور جینے دو‘‘ جیسے سماجی معاہدے کی بنیاد رکھی جائے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 3 نومبر تا 9 نومبر 2024