
مہا کمبھ میلے کے اختتام پر تنازعہ حقیقی کمبھ اور سرکاری کمبھ میں فرق ہے: شنکرآچاریہ
سنبھل کی جامع مسجد میں صاف صفائی کی اجازت ۔عدالتی فیصلوںسے مزید راحت متوقع
محمد ارشد ادیب
مدنی مسجد کے بعد گورکھپور کی ابوہریرہ مسجد غیر قانونی تجاوزات کی زد پر! یو پی میں لالچ سے گھر واپسی، تبدیلی مذہب مخالف قانون خاموش تماشائی؟
چھتیس گڑھ میں عیسائی اقلیت انتہا پسندوں کی نشانے پر۔ راجستھان میں لو جہاد کا جھوٹا پروپیگنڈا
ایمانداری سے سرکاری ملازمت کرنے والی باحجاب خاتون کو راک اسٹار کا خطاب اور عزت افزائی
شمالی بھارت کے پہاڑی علاقوں جموں و کشمیر، ہماچل پردیش اور اتراکھنڈ میں موسم سرما کی تازہ برف باری اور ژالہ باری نے پورے خطے کا موسم بدل دیا ہے۔ فروری میں بڑھتی گرمی نے مارچ کے آغاز میں ہی پھر سے سردی کا احساس کرا دیا ہے۔ یوپی کے کئی مقامات پر ژالہ باری سے فصلوں کو نقصان پہنچنے کی اطلاعات ہیں۔ اتراکھنڈ کے چمولی میں روڈ بنانے کا کام کرنے والے درجنوں مزدور برفانی تودے گرنے سے پھنس گئے ہیں جن میں سے چار مزدوروں کی موت بھی واقع ہو گئی ہے۔ اسی طرح رمضان کے ساتھ ہولی کی آہٹ نے بازاروں کو تیوہاری موسم کے جوش و خروش سے بھر دیا ہے تاہم کچھ علاقوں میں شیو راتری کے موقع پر فرقہ وارانہ کشیدگی سے ماحول کو پراگندہ کرنے کی کوششیں بھی کی گئیں، خاص طور پر بہار جھارکھنڈ اور ہماچل پردیس سے پرتشدد واقعات کی اطلاعات ہیں۔
یو پی کے پریاگراج میں مہا کمبھ میلے کا اختتام
پریاگراج سنگم پر مہاکمبھ میلے کا اختتام ہو گیا ہے۔ اتر پردیش حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ 45 دن تک چلنے والے کمبھ میلے میں تقریباً 66 کروڑ عقیدت مندوں نے تروینی یعنی تین ندیوں کے سنگم پر پوتر اشنان کیا، حالانکہ کمبھ میلے میں آنے والے عقیدت مندوں کی تعداد پر سوشل میڈیا میں مسلسل سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ اپوزیشن کے لوگ کہہ رہے ہیں کہ عقیدت مندوں کی تعداد بڑھا چڑھا کر پیش کرنے والی میلہ انتظامیہ آخر تک یہ نہیں بتا سکی کہ کمبھ کے دوران ہونے والی بھگدڑ میں کتنے افراد کی جانیں چلی گئیں۔ اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی کے کمبھ کے دوران اشنان نہ کرنے کو کانگریس پارٹی کے ہندو مخالف ہونے کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ بی جے پی 4 انڈیا کے آفیشل ایکس ہینڈل پر سوال کیا گیا "گاندھی نہرو خاندان کا کوئی بھی فرد 45 دن تک چلنے والے مہا کمبھ میلے میں ڈبکی لگانے نہیں گیا۔ آخر سناتن سنسکرتی سے اتنی نفرت کیوں ہے؟ اس پر کانگریس لیڈر ارادھنا مشرا نے جوابی حملہ کرتے ہوئے سوال کیا کہ کیا آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کمبھ میں اشنان کرنے آئے تھے؟ راجیو دھیانی نے اس سوال کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے پوچھا آر ایس ایس کے 47 میں سے کتنے عہدے دار کمبھ میلے میں ڈبکی لگانے کے لیے آئے تھے؟ انہوں نے آر ایس ایس اور بی جی پی لیڈروں کی فہرست گنواتے ہوئے پوچھا کہ کیا 2025 سے پہلے مودی کی کمبھ میلے میں نہانے کی کوئی تصویر موجود ہے؟ ڈی ایس آر پٹیل نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ کڑوی و کھلی ہوئی سچائی ہے کہ آر ایس ایس اور بی جے پی نے دھرم سنسکرتی اور روایات کو اقتدار حاصل کرنے کا اوزار بنایا تو آستھا یاترا، نفرت پر مبنی تحریکوں اور فسادات کو سیڑھیاں بنایا ہے۔ ان تبصروں سے سمجھا جا سکتا ہے کہ مہا کمبھ میلے کا کس طرح سے سیاسی استعمال کیا گیا ہے۔ شنکرآچاریہ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ کمبھ میلہ تو مونی اماوسیہ پر ہی ختم ہو گیا تھا یہ تو سرکاری کمبھ ہے جو میلہ ختم ہونے کے بعد بھی جاری رہا۔
سنبھل کی جامع مسجد میں صفائی کی اجازت
سنبھل کی شاہی جامع مسجد میں رمضان سے پہلے رنگ و روغن کرانے کی کوشش میں جزوی طور پر کامیابی ملی ہے۔ الٰہ اباد ہائی کورٹ نے اے ایس آئی سروے کے بعد مسجد کے باہری حصے میں صاف صفائی کی اجازت تو دے دی ہے لیکن مسجد کے اندرونی حصے میں رنگ و روغن کی اجازت نہیں ملی ہے۔ مسجد انتظامیہ اور مقامی نمازیوں کا کہنا ہے کہ ہر سال رمضان سے پہلے مسجد میں رنگ و روغن کرایا جاتا ہے لیکن اس بار معاملہ متنازعہ ہو جانے کے باعث عدالت سے اجازت مانگنی پڑی۔ واضح رہے کہ شاہی جامع مسجد کی عمارت محکمہ آثار قدیمہ کی نگرانی میں ہے اس لیے بلا اجازت مرمت یا نئی تعمیر نہیں کرائی جا سکتی۔ اے ایس آئی نے اپنے سروے رپورٹ میں لکڑی کے کام پر پینٹنگ کی بات تسلیم کی ہے۔ اگلی سماعت میں ہائی کورٹ واضح ہدایت دے سکتا ہے کہ اس میں مسجد کی مرمت کا کام بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔ دی وائر کے نامہ نگار عمر رشید نے مسجد کی تصاویر کے ساتھ دکھایا ہے کہ مسجد کو رنگ و روغن کے ساتھ مرمت کی بھی ضرورت ہے۔
ادھر مشرقی اترپردیش کی مدنی مسجد کے بعد گورکھپور کی ابو ہریرہ مسجد بھی غیر قانونی تجاوزات کارروائی کی زد میں آگئی ہے۔ مسجد انتظامیہ نے قانونی چارہ جوئی کے ساتھ مسجد کی بالائی منزل کو ہٹانے کا کام شروع کر دیا ہے جبکہ کشی نگر کی مدنی مسجد کا معاملہ سپریم کورٹ پہنچ چکا ہے۔ مسجد انتظامیہ کمیٹی کے رکن شارق خان نے میڈیا سے بات چیت میں بتایا کہ جس مسجد میں 23 سال سے نماز ادا کی جا رہی ہے اسے گرانے سے پہلے مقامی انتظامیہ نے ایک بار بھی نہیں سوچا اور محض جھوٹ کی بنیاد پر توڑ دیا گیا۔ یہ بلڈوزر کارروائی سپریم کورٹ کی گائیڈ لائن کی خلاف ورزی ہے۔ مسجد کمیٹی کے وکیل خان شفیع اللہ کے مطابق مقامی انتظامیہ نے پلاننگ کے تحت اتوار کو جان بوجھ کر کارروائی کی تاکہ مسجد کمیٹی کو قانونی طور پر کوئی راحت نہ مل سکے۔ مدنی مسجد کمیٹی کے سکریٹری شاکر خان انہدامی کارروائی سے صدمے میں تھے، چنانچہ 18 فروری کو ان کا انتقال ہو گیا۔ اب ان کے چھوٹے بھائی شارق خان اس معاملے کی پیروی کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق ان کے والد حامد خان نے اپنی ذاتی ملکیت کی زمین پر 1999 میں اس مسجد کا نقشہ مقامی بلدیہ سے منظور کرایا تھا اس پر کچھ لوگوں نے اعتراض کیا تو الٰہ آباد ہائی کورٹ سے قانونی لڑائی جیت کر مسجد کی تعمیر مکمل کرائی۔ لیکن بی جے پی کی ایک مقامی لیڈر رام بچن سنگھ نے دسمبر 2024 میں وزیراعلی یوگی سے اس معاملے کی دوبارہ شکایت کی۔ اس بار مسجد کو دو منزلہ کے بجائے چار منزلہ بنانے کا الزام لگایا گیا۔ مسجد کمیٹی کے وکیل کے مطابق جنوری میں ہی نوٹس کا جواب دے دیا گیا لیکن اس کے باوجود مسجد کے ایک حصے کو مسمار کر دیا گیا جس کے خلاف مسجد کمیٹی نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ کمیٹی کے مطابق انہدامی کارروائی سے مسجد کی بنیادیں ہل گئی ہیں دیواریں درک رہی ہیں اور تقریبا ڈھائی کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔ مسلم جماعت کے مولانا شہاب الدین رضوی نے اسے سرکار کا امتیازی سلوک قرار دیا ہے۔ مولانا شہاب الدین نے ہفت روزہ دعوت سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ مقامی انتظامیہ اگر چاہتی تو کمپاؤنڈنگ فیس جمع کرا کے مسجد کا ترمیم شدہ نقشہ پاس کر سکتی تھی۔ کسی عبادت گاہ کو اس طرح سے مسمار کرنا سراسر غلط ہے۔
کمبھ کے بعد ہولی کے میلے میں مسلمانوں پر پابندی کا مطالبہ
کمبھ میلے کے بعد اب متھرا کے برنداون میلے میں بھی مسلم دکانداروں پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ مسلم جماعت کے قومی صدر مولانا شہاب الدین رضوی نے اس مطالبے کو غیر دستوری بتایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے اکھاڑا پریشد نے مہا کمبھ میلے میں مسلمانوں پر پابندی لگائی تھی اب برنداون میں اس طرح کے اعلان سے ملک کی سماجی اور معاشی بنیاد کمزور ہوتی ہے۔ انہوں نے فون پر بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اس ملک کی آزادی میں ہندو مسلمان دونوں کا خون اور قربانی شامل ہے۔ کسی کے بھی ساتھ امتیازی سلوک کرنا دستور کے منافی ہے۔ واضح رہے کہ اس سے پہلے مدھیہ پردیش، ہماچل پردیش اور اتراکھنڈ میں بھی مسلمانوں کی معاشی بائیکاٹ کی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔ اس کے باوجود فرقہ پرست عناصر اس طرح کے مواقع پر مختلف حیلے بہانوں سے مسلمانوں کی معاشی ناکہ بندی کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ مولانا شہاب الدین نے کہا کہ مسلمانوں کو معاشی طور پر کمزور کرنے کی سازش کی جا رہی ہے مگر اس طرح کی سوچ رکھنے والوں کے خلاف ہندو مسلمان ایک ہو کر مقابلہ کریں گے اور ان کے حوصلوں کو پست کرنے میں کامیاب ہوں گے۔ واضح رہے کہ ہولی کے موقع پر متھرا کے برسانے میں مشہور ہولی ہوتی ہے جسے دیکھنے کے لیے دور دراز سے لوگ برسانے آتے ہیں۔ اس موقع پر یہاں پر ایک میلہ بھی لگتا ہے جس میں سبھی لوگ اپنی دکانیں لگاتے ہیں لیکن اس بار مسلم دکانداروں کو اس سے دور رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
راجستھان میں لو جہاد کا پروپیگنڈا
راجستھان کے ضلع بیاور میں مسلم نوجوانوں پر غیر مسلم لڑکیوں کو ورغلانے کا الزام لگایا گیا ہے۔ پولیس نے نوجوانوں پر نابالغ ہندو لڑکیوں کو مسلم بنانے کے لیے ورغلانے کے الزام میں گرفتار کیا ہے جبکہ مقامی خواتین ان الزامات کی تردید کر رہی ہیں۔ ان کے مطابق اس علاقے میں ایک طویل عرصے سے ہندو مسلمان ساتھ رہتے بستے آ رہے ہیں، کبھی ایسا نہیں ہوا لیکن اب ہندو انتہا پسند گروپوں کی جانب سے لڑکے لڑکیوں کی آپس کی بات چیت کو لو جہاد کا نام دیا جا رہا ہے۔ حالانکہ مقامی پولیس نے اس کی تصدیق نہیں کی ہے لیکن مقامی میڈیا اسے نام نہاد لو جہاد ریکٹ بتا رہا ہے جس کے نتیجے میں وجے نگر کے پورے علاقے میں فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہو گئی ہے۔ مذہبی انتہاپسندوں کی جانب سے ریلیاں نکالی جا رہی ہیں جن میں اترپردیش کے یوگی ماڈل یعنی بلڈوزر کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
ادھر یوپی میں وسیم رضوی سے جتندر سنگھ تیاگی بننے والے شیعہ وقف بورڈ کے سابق چیئرمین نے دو نام نہاد مسلمانوں کی ہندو مذہب میں گھر واپسی کا دعویٰ کیا ہے۔ جتندر تیاگی نے کمبھ کے دوران اعلان کیا تھا کہ جو شخص ہندو مذہب میں واپس آئے گا اسے تین ہزار روپے ماہانہ امداد دی جائے گی۔ یو پی کا تبدیلی مذہب مخالف قانون ڈرا دھمکا کر یا کسی لالچ میں مذہب تبدیل کرانے پر پابندی لگا چکا ہے اس کے باوجود جتندر سنگھ برسر عام اس قانون کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور اسے روکنے والا کوئی نہیں ہے۔ جتندر تیاگی نے لکھنو میں سرفراز اور گلناز کا مذہب تبدیل کراتے ہوئے کیمروں کے سامنے 11 ہزار روپے کے چیک بھی دیے۔ ذاکر علی تیاگی نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ یو پی پولیس اور وزیراعلی یوگی آدتیہ ناتھ کو صاف اعلان کر دینا چاہیے کہ ان کا بنایا ہوا تبدیلی مذہب قانون صرف مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لیے بنایا گیا ہے اگر ہندو سرعام آن کیمرہ لالچ دے کر کسی کا مذہب تبدیل کرائے گا تو اس پر یہ قانون لاگو نہیں ہوگا، اسے اس قانون کے تحت کارروائی کا سامنا نہیں بلکہ تحفظ کا لطف ملے گا”
چھتیس گڑھ میں عیسائی اقلیت ہندو انتہا پسندوں کے نشانے پر
چھتیس گڑھ میں ہندو انتہا پسندوں نے سوشل میڈیا کےذریعے عیسائیوں کو مارنے اور ان کی لڑکیوں کی بے حرمتی کرنے کی اپیل کی ہے۔ ادھار سونی نام کے ایک ہندو انتہا پسند نے سوشل میڈیا پر اپنے منصوبے کا اعلان کیا ہے۔ اس نے چھتیس گڑھ کے تین گاوؤں میں عیسائیوں کے گھروں میں گھس کر خواتین کی عزت لوٹنے اور مارنے کی دھمکی دی ہے۔
عیسائی خواتین کی ایک گروپ نے مشنری تنظیموں اور مقامی نمائندوں کے ساتھ مل کر صدر جمہوریہ دروپدی مرمو کو ایک خط بھی لکھا ہے جس میں ایک حاملہ عیسائی خاتون پر حملے کے سبب حمل ضائع ہونے پر سیکیورٹی دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ صدر جمہوریہ کو بھیجی گئی اپیل میں کہا گیا ہے کہ گاؤں میں تقریبا 120 خاندان ہیں ان میں سے 85 عیسائی ہیں۔ یہ خاندان 20 برسوں سے اپنے مذہب پر عمل کر رہے ہیں لیکن اس واردات نے ہمیں اندر تک ہلا دیا ہے۔ خط میں چھتیس گڑھ کے علاوہ جھارکھنڈ تمل ناڈو اور منی پور کے واقعات کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔ یونائٹڈ کرسچین فورم کے ڈیٹا سے پتہ چلتا ہے کہ 2024 میں عیسائیوں کے خلاف 834 پرتشدد واقعات ہوئے ہیں۔ خط میں لکھا گیا ہے کہ ایسا تشدد بھارتی دستور کے منافی ہے اس کی بے حرمتی کرنے والا ہے جو عقیدے کی آزادی کے ساتھ انسانی تکریم کی ضمانت دیتا ہے۔
حجاب کے ساتھ ترقی
سنٹر ریلوے کی ٹی ٹی آئی روبینہ عاقب نے حجاب کے ساتھ ایمانداری کا نیا ریکارڈ بنایا ہے۔ انہوں نے ایک دن میں ٹکٹ چیک کرتے ہوئے 150 مسافروں کو بغیر ٹکٹ پکڑ کر ان سے جرمانہ وصول کیا جن میں فرسٹ کلاس کے مسافر بھی شامل ہیں۔ اس کارروائی سے ریلوے کے خزانے میں 45705 روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ سنٹرل ریلوے نے ٹویٹ کے ذریعے روبینہ کے کام کی ستائش کی ہے۔ روبینہ حجاب کے ساتھ نوکری کرتی ہیں اس کے باوجود ریلوے نے انہیں راک سٹار کا خطاب دیا ہے۔ سبرائے نام کے ایک صارف نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا روبینہ جی کو مثال مانتے ہوئے اگر سبھی سرکاری ملازم اپنا کام ایمانداری سے کریں تو ہمارے ملک کی ترقی کو کوئی روک نہیں سکتا ایسے لوگوں کو اعزاز سے نوازنے کا سسٹم ہونا چاہیے۔
تو صاحبو! یہ تھا شمال کا حال، آئندہ ہفتے پھر ملیں گے کچھ تازہ اور دلچسپ احوال کے ساتھ، تب تک کے لیے اللہ اللہ خیر سلا۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 09 مارچ تا 15 مارچ 2025