مہاکمبھ میں عام لوگوں کے بجائے وی آئی پی شخصیات پرخصوصی توجہ۔ یو پی حکومت پر گھپلے کا الزام
جے پی سی کی میٹنگ میں ہنگامہ آرائی کے بعد دس ارکان کی معطلی سے واضح اشاریے
محمد ارشد ادیب
سنبھل میں بلڈوزر نا انصافی کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی، توہین عدالت کی کارروائی کا مطالبہ
بریلی کے دو مختلف واقعات میں پولیس کا دہرا رویہ کمبھ میں کروڑوں خرچ مگر یو پی میں کھانا نہ ملنے پر آٹھ بچوں کے ماں کی خود کشی!
راجستھان میں پولیس کے سائے میں نکلی دلت کی بارات، اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کو گھوڑی چڑھنے پر تھا اعتراض
بھارتی جمہوریت کے 75 سال مکمل ہو چکے ہیں، پورا ملک جمہوریت کی 75 ویں سالگرہ منا رہا ہے جب کہ شمالی بھارت میں مہا کمبھ میلے کا جشن منایا جا رہا ہے۔اتر پردیش کی پوری کابینہ نے پریاگراج کے سنگم میں اجتماعی ڈبکی لگائی۔ اس موقع پر کابینی وزرا کا ایک رسمی اجلاس بھی منعقد کیا گیا جس میں دس تجاویز کو منظوری دی گئی، ان میں مذہبی طور پر اہم تین مقامات کے لیے این سی آر کی طرز پر ایس سی آر کے نئے ترقیاتی خطے بنانے کا فیصلہ کیا گیا ۔ یہ علاقے ہوں گے پریاگراج، وارانسی اور چتر کوٹ۔ سیاسی تجاروں کے مطابق وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اب پوری طرح سے اپنے اصلی رنگ میں آ چکے ہیں۔ ترقیاتی کاموں میں بھی مذہب کی چھاپ صاف دکھائی دینے لگی ہے۔ ترقیاتی کاموں میں اکثریتی مذہب کے تاریخی اور ثقافتی مراکز کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ جب کہ مسلم آبادی والے علاقوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ اردو نام والے شہروں کی پہچان میں تبدیلی اور مسلم آبادی میں قدیم مندروں کو تلاش کرنے کی کوشش اسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ وزیر اعلی یوگی نے حال ہی میں ایودھیا کے ملکی پور ضمنی انتخابات میں تقریر کرتے ہوئے ایک انگریز ہیرنگٹن کے نام پر بنی ہوئی سڑک کو سوامی وامدیو کے نام پر بدلنے کا شوشہ چھوڑ دیا۔
کمبھ میلے میں آگ کا حادثہ
پریا گراج میں کمبھ میلے کے لیے بڑے پیمانے پر انتظامات کیے گئے ہیں خاص طور پر لکڑی اور کپڑے سے بننے والے تمبوؤں کو آگ سے بچانے کے لیے پختہ انتظامات کرنے کا دعویٰ کیا گیا اس کے باوجود میلے کے ایک حصے میں آگ لگ گئی۔ اگرچہ اس میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا لیکن سرکاری انتظامات کی پول کھل گئی۔ گیتا پریس کا پنڈال جل کر راکھ ہو گیا۔ گیتا پریس کے ٹرسٹی کرشن کمار کھیمکا نے بیان دیا کہ آگ باہر سے آئی تھی۔ فی الحال اس معاملے کی جانچ کی جا رہی ہے۔ اگر آگ بجھانے میں زیادہ تاخیر ہوئی ہوتی تو بڑا حادثہ ہو سکتا تھا کیونکہ اوپر ریلوے برج تھا جس کے اوپر سے ٹرین گزرنے والی تھی۔
یو پی کانگریس کمیٹی نے میلے میں بد نظامی کے لیے ریاستی حکومت پر نکتہ چینی کی ہے۔ کانگریس کے ریاستی صدر اجے رائے نے مقامی رکن پارلیمنٹ اجول رمن سنگھ کے ساتھ لکھنو میں پریس کانفرنس کی، انہوں نے مہا کمبھ میں افراتفری اور بدعنوانی کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ میلے کے بجٹ کو عام عقیدت مندوں کے بجائے وی آئی پی زائرین پر خرچ کیا جا رہا ہے پوری سرکاری مشینری وی آئی پیوں اور غیر ملکی سیاحوں کی آؤ بھگت میں لگی ہوئی ہے۔ انہوں نے پریاگراج میں کابینہ میٹنگ کے انعقاد پر بھی سوال اٹھائے اور اسے میلے کا سیاسی فائدہ اٹھانے کا ہتھکنڈا قرار دیا۔
اوقاف سے متعلق جے پی سی میٹنگ میں ہنگامہ
لکھنو اور پٹنہ کا دورہ کرنے کے بعد جے پی سی دہلی پہنچ گئی ہے۔ مشاورتی عمل مکمل کرنے کے لیے دہلی کی میٹنگ میں کشمیری نمائندوں کو بھی بلایا گیا لیکن میٹنگ میں ہنگامہ ہو گیا ۔پارلیمنٹ کے بجٹ اجلاس میں اسے پیش کرنے کی تیاری چل رہی ہے۔ لکھنو کی میٹنگ میں شامل ملّی تنظیموں کے نمائندوں نے موجودہ قوانین میں ترمیم کی پرزور مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ وقف ترمیمی ایکٹ میں ضلع کلکٹر کو حد سے زیادہ اختیارات حاصل ہو جائیں گے اور سب سے بڑا خطرہ وقف بائی یوزر کو ہے۔ یو پی میں اس زمرے کے وقف املاک کی تعداد کافی زیادہ ہے اور نئے قانون سے انہیں نقصان پہنچنے کا شدید اندیشہ ہے۔دوسری جانب جے پی سی میں یو پی حکومت کی نمائندگی وزیر اقلیتی فلاح و بہبود اوم پر کاش راج بھر کے ساتھ مملکتی وزیر دانش آزاد انصاری نے کی۔ انہوں نے یو پی حکومت کا ڈیٹا پیش کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ صوبے میں 14446 ایکڑ اراضی وقف ریکارڈ میں درج ہے اس میں سے تقریبا 78 فیصد یعنی 11711 ہیکٹر اراضی سرکار کی ہے۔ ایم آئی ایم صدر بیرسٹر اسدالدین اویسی نے جے پی سی کی میٹنگ میں شرکت کے بعد یو پی کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کے اس بیان پر نکتہ چینی کی جس میں انہوں نے وقف بورڈ کو زمین مافیا بورڈ کہا تھا۔ اویسی نے کہا کہ سرکار کی مرضی سے وقف ایکٹ کے تحت وقف بورڈ بنتا ہے پھر اسے مافیا بورڈ کیسے کہا جا سکتا ہے؟
آل انڈیا مسلم جماعت کے صدر مولانا شہاب الدین رضوی نے جے پی سی کی میٹنگ میں تمام فریقوں کو نہ بلانے پر تنقید کی ہے۔ انہوں نے وقف ترمیمی ایکٹ کی حمایت کی تھی اور جے پی سی کے چیئرمین جگدمبیکا پال کو خط لکھ کر میٹنگ میں بلانے کی درخواست کی تھی۔اس کے باوجود نہ تو ان کے خط کا جواب دیا گیا اور نہ ہی میٹنگ میں شرکت کے لیے بلایا گیا جبکہ جے پی سی میں غیر متعلقہ افراد کی رائے لینے کے لیے انہیں اجلاس میں طلب کیا گیا۔ ایسے میں جے پی سی کی رپورٹ ادھوری اور ایک طرفہ ہے۔ جے پی سی کی میٹنگ میں کس کو بلایا گیا اور کس کو نہیں بلایا گیا یہ ایک الگ بحث ہے لیکن حکومت نے منفرد رویہ اختیار کرتے ہوئے بالآخر اسے 14 ترامیم کے ساتھ پارلیمنٹ سے منظور کرواہی لیا۔اس سے قبل جے پی سی کی میٹنگ میں ہنگامہ آرائی کے الزام میں ارکان پارلیمنٹ کو ایک دن کے لیے کمیٹی کی رکنیت سے معطل بھی کیا گیا تھا۔
جے پی سی چیئرمین جگدمبیکا پال کی شکایت
مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے معطل شدہ ارکان پارلیمنٹ نے لوک سبھا اسپیکر اوم برلا سے جے پی سی کے چیئرمین جگدمبیکا پال کی شکایت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جے پی سی چیئرمین جمہوری انداز کے بجائے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ 24 جنوری کو دہلی میں منعقدہ میٹنگ کا ایجنڈا اچانک بدل دیا گیا۔ ناراض اراکین نے اسپیکر سے مزید وقت دینے کی درخواست کی ہے جب کہ حکومت اس بل کو ہر حال میں بجٹ اجلاس میں پیش کرنے کا پختہ ارادہ کر چکی ہے۔ مرکزی حکومت پر دہلی اسمبلی انتخابات میں وقف بل کے نام پر سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کا الزام بھی لگ رہا ہے۔
سنبھل میں پولیس انتظامیہ کے خلاف عوام کی ناراضگی
یو پی کے شہر سنبھل میں پولیس انتظامیہ کے خلاف عوام کی ناراضگی بڑھتی جا رہی ہے۔ شہر کی رائے ستی پولیس چوکی میں عرفان نامی ایک شخص کی مشتبہ حالت میں موت ہو گئی۔ عرفان کے گھر والوں نے پولیس پر ٹارچر سے موت کا الزام لگایا۔ ان کے مطابق عرفان بیمار تھا۔ پولیس نے انہیں دوا کھانے کی بھی مہلت نہیں دی اور زبردستی تھانے پکڑ کر لے گئی۔ عرفان کو مالی لین دین کے تنازعہ میں پولیس اسٹیشن لایا گیا تھا۔ ایس ایس پی سنبھل نے ٹارچر کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا عرفان کے پہلے سے بیمار تھا۔ اب سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ جب عرفان پہلے سے بیمار تھا تو اتنے معمولی تنازعے میں پولیس اسے پکڑ کر تھانے کیوں لے گئی اگر لے گئی تو وقت پر اس کا علاج کیوں نہیں کرایا گیا۔
سنبھل کے ایک اور معاملے میں ایک مقامی تاجر نے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی ہے کہ اس کی فیکٹری کا ایک حصہ غیر قانونی طریقے سے منہدم کر دیا گیا ہے۔ عرضی گزار کے وکیل نے ضلع انتظامیہ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے انصاف کی اپیل کی ہے۔ عرضی گزار محمد غیور کے وکیل چاند قریشی کے مطابق ان کے مؤکل کے پاس جائیداد کے تمام ضروری دستاویز موجود ہیں اس کے باوجود ضلع انتظامیہ نے ان کی فیکٹری کا ایک حصہ زبردستی منہدم کر دیا جو سپریم کورٹ کی گائیڈ لائن کے سراسر خلاف ہے۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے مدھیہ پردیش کے اجین، گجرات کے دوارکا اور چھتیس گڑھ میں اقلیتی طبقے کے مکانات اور مذہبی مقامات منہدم کرنے کی شکایتیں مل چکی ہیں۔
بریلی کے دو الگ الگ معاملوں میں پولیس کا دہرا رویہ
بھارت کے دستور میں تمام مذاہب کے ماننے والوں کو اپنے عقیدے کے مطابق عبادت کرنے کی اجازت دی گئی ہے اس کے باوجود بریلی کے بہیڑی تھانے کے علاقے میں جمعہ کی نماز ادا کرنے پر چار افراد کے خلاف پولیس کارروائی کی خبر منظر عام پر آئی۔ اے پی سی آر کی ایک ٹیم نے جسونت گاؤں کا دورہ کیا تو پتہ چلا کہ گاؤں کے لوگ اپنی ذاتی زمین میں جمعہ کی نماز ادا کر رہے تھے کہ گاؤں کے کچھ لوگوں نے پولیس سے اس کی شکایت کر دی اس پر پولیس نے چار افراد کے خلاف بی این ایس کی دفعہ 223 کے تحت معاملہ درج کر لیا اور 41 اے کا نوٹس جاری کردیا۔ اس سے مقامی مسلمانوں میں کافی ناراضگی پائی جاتی ہے۔
ایک دوسرے معاملے میں علی گنج تھانے میں ڈی جے پر اشتعال انگیز گانے بجانے کا مقدمہ درج ہوا ہے۔ اطلاعات کے مطابق علاقے کے ایک مذہبی جلوس میں جان بوجھ کر مسلمانوں کو ستانے کے لیے ایک ایسا گانا بجایا گیا جس سے ان کے جذبات مجروح ہوں۔ ویڈیو وائرل ہونے پر جماعت رضائے مصطفیٰ کے ایک وفد نے آنولہ کے پولیس سی او سے ملاقات کر کے معاملے کی شکایت کی اور ملزمین کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا۔ پولیس نے معاملہ تو درج کر لیا لیکن کارروائی میں ایسی تیزی نہیں دکھائی جیسی بہیڑی میں نمازیوں کے خلاف دکھائی گئی۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پولیس کا دہرا رویہ کس طرح سے کام کر رہا ہے۔ ایک جگہ پر کچھ لوگ پر امن طریقے سے نماز پڑھ رہے تھے جبکہ دوسری جگہ کچھ لوگ منظم ہو کر دوسرے فریق کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے والے گانے بجا رہے تھے۔فرق واضح ہے۔
راجستھان میں دلتوں کے ساتھ ناانصافی
راجستھان کے اجمیر میں ایک دلت دلہے کو شادی کے موقع پر گھوڑی پر سوار ہونے کے لیے پولیس کی پناہ لینی پڑی۔ کرانتی کمار نے ایکس ہینڈل پر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا کہ دلت دلہے کی سیکیورٹی کے لیے 400 پولیس اہلکاروں کو گاؤں میں تعینات کیا گیا ہے جب کہ اس گاؤں میں سارے ہندو ہیں کوئی مسلمان نہیں۔ اجمیر کے لبیڑا گاؤں میں اعلیٰ ذات کے ہندوؤں نے ایک دلت نوجوان کو دلہا بن کر گھوڑے پر نہیں چڑھنے دیا مجبوراً اسے پولیس کی سیکیورٹی میں اپنی بارات نکالنی پڑی۔ اشیش کمار نام کے ایک صارف نے اس خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ آزادی کی اتنے سال بعد بھی دلتوں کا یہ حال ہے کیونکہ یہاں کے بہوجن ابھی تک اپنی حقیقت نہیں جان پائے ہیں کہ ہندو مذہب میں ان کا کیا مقام ہے؟ یہی وجہ ہے کہ یہ آج بھی استحصال کا شکار ہو رہے ہیں۔ ایک طرف پریاگراج کے کمبھ میلے میں ہندو ایکتا کے بڑے بڑے دعوے کیے جا رہے ہیں تو دوسری طرف ملک کے مختلف حصوں میں چھوت چھات اور مذہبی تعصب کی شکایتیں ملتی رہتی ہیں جو سماج کی اصلیت سامنے لانے کے لیے کافی ہیں۔
آٹھ بچوں کی ماں نے کی خود کشی
کمبھ میں عقیدت مندوں پر کروڑوں روپے خرچ کیے جارہے ہیں جبکہ یو پی کے ہی ایک ضلع ایٹا ضلع میں آٹھ بچوں کی ایک ماں نے صرف اس وجہ سے خود کشی کر لی کہ وہ شوہر کی موت کے بعد اپنے بچوں کو پیٹ بھر کھانا نہیں کھلا پا رہی تھی۔ اس کی زندگی میں ایک دن ایسا بھی آیا جب اس کے گھر میں صرف تھوڑا سا آٹا بچا تھا جس کی صرف چھ روٹیاں بن سکیں جبکہ کھانے والے آٹھ افراد تھے۔ سب کے حصے میں صرف ایک روٹی کا ٹکڑا ایا اس پر وہ اتنی مایوس ہوئی کہ اس نے اسی دن اپنی زندگی ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
تو صاحبو! یہ تھا شمال کا حال، آئندہ ہفتے پھر ملیں گے کچھ تازہ اور دل چسپ احوال کے ساتھ، تب تک کے لیے اللہ اللہ خیر سلا۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 02 فروری تا 08 فروری 2025