ماہِ صفر سے وابستہ توہمات

رسولِ اکرم حضرت محمد ﷺ نے انسانوں پر سے وہ بوجھ اتارا جسے پچھلی امتوں نے اپنے اوپر لاد لیا تھا

ڈاکٹر ساجد عباسی،حیدرآباد

اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کے مقصدِ بعثت کو کئی عنوانات سے قرآن میں بیان فرمایا ہے ۔سورۃ الاعراف، آیت ۱۵۷ میں ارشاد ہے : الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَآئِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالأَغْلاَلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ فَالَّذِينَ آمَنُواْ بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُواْ النُّورَ الَّذِيَ أُنزِلَ مَعَهُ أُوْلَـئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ۔ جو اِس پیغمبر نبی اُمّی کی پیروی اختیار کریں جس کا ذکر انہیں اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا ملتا ہے۔ وہ انہیں نیکی کا حکم دیتا ہے، بدی سے روکتا ہے، ان کے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے اور ان پر سے وہ بوجھ اتارتا ہے جو ان پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے۔لہٰذا جو لوگ اس پر ایمان لائیں اور اس کی حمایت اور نصرت کریں اور اس روشنی کی پیروی اختیار کریں جو اس کے ساتھ نازل کی گئی ہے، وہی فلاح پانے والے ہیں۔
اس آیتِ مبارکہ میں رسالتِ محمدی کے اہم ترین کاموں میں سے چند کو پیش کیا گیا ہے :نیکی کا حکم دینا ،بدی سے روکنا ، پاک چیزوں کوحلال کرنا اور ناپاک چیزوں کو حرام کرناہے۔ پچھلی امتوں میں جو گمراہیاں پیدا ہوئیں ان سے دین کو پاک کرکے دینِ اسلام کو فطرتِ انسانی کے مطابق اصلی حالت میں پیش کرنا ۔دین میں گمراہیوں کے داخل ہونے کی ایک شکل یہ تھی کہ جائزچیزوں کو اپنے اوپر حرام کرنا، غیر ضروری چیزوں کو دین میں شامل کرکےدینِ فطرت کو غیر فطری بناکر اس کو مشکل بنادینا ۔ توہمات کو عقائد کا حصہ بنادینا۔غیر ضروری رسومات کو زندگی کا جزولاینفک بنادینا ۔ان ساری چیزوں کے بارے میں فرمایا گیا ہےکہ ہمارے بھیجے ہوئے پیغمبر نے انسانوں پر سے وہ بوجھ اتارا جو انسانوں پر دین کے نام پر پچھلی امتوں نے اپنے اوپر لاد لیا تھا ۔چونکہ محمد رسول اللہ ﷺ سلسلہ رسالت کی آخری کڑی ہیں اس لیے آپ کے ذریعے قیامت تک ساری انسانیت کے لیے دینِ خالص کو پیش کیا گیا ۔اب دنیا میں اسلام ہی وہ واحد دین ہے جو قیاس و گمان اور توہمات سے پاک دین ہے، جس کو عقل کی سطح پر پرکھا جاسکتا ہے۔دینِ اسلام افراط وتفریط سے بھی پاک ہے۔اس دین میں جہاں فطری انسانی مطالبات کی رعایت رکھی گئی ہے وہیں خواہشاتِ نفس کو اخلاقی پابندیوں سے ایسا منضبط کیا گیا ہے جس سے انسانی معاشرہ پاکیزہ بن سکے۔
بڑے افسوس کی بات یہ ہے کہ جس رسول آخرالزماں نے آکر سارے جاہلانہ مذہبی مراسم کو مٹادیا تھا اور ساری توہمات سے دین کو پاک کرکے پیش کیا تھا اسی دین کو توہمات سے لادنے کی ناپاک کوششیں کی گئیں ۔ماہِ صفر کے بارے میں مسلم قوم بے ہودہ توہمات کا شکار ہوئی ہے۔اس ماہ میں شادی بیاہ اور اہم امور کو موخرکردیا جاتا ہے تاکہ اس ماہ کی "نحوست” سے بچاجاسکے۔اس ماہ کی توہمات زمانہ جاہلیت سے چلی آرہی ہیں ۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ کے اذن کے بغیر ایک شخص کی بیماری کا دوسرے کو لگنا اور ماہِ صفر میں نحوست ہونے کا عقیدہ اور ایک مخصوص پرندے کی بدشگونی کا عقیدہ سب بے حقیقت باتیں ہیں۔ (بخاری)
متعدی بیماری میں یہ عقیدہ رکھنا کہ اللہ کے اذن کے بغیر ہر حال میں بیماری ایک سے دوسرے کو لگتی ہے غلط ہے۔ اس لیے کہ ہر آدمی متعدی مرض میں مبتلا نہیں ہوتا ۔یہ یقین ہونا چاہیے کہ اللہ کے اذن سے ہی بیماری لگ سکتی ہے۔اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ آدمی متعدی امراض سے احتیاط نہ برتے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: مَا أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَهِ ۔ کوئی مصیبت کبھی نہیں آتی مگر اللہ کے اِذن ہی سے آتی ہے۔ (سورۃ التغابن ۱۱)
ماہِ صفر کی نحوست کے بارے میں ایک من گھڑت بات حدیث کے نام پر پھیلائی جاتی ہے کہ "جو شخص مجھے صفر کے مہینے کے ختم ہونے کی خوشخبری دے گا، میں اسے جنت کی بشارت دوں گا‘‘ اس روایت سے استدلال کرتے ہوئے صفر کے مہینے کو منحوس سمجھا جاتا ہے۔اس کو سمجھانے کے لیے طریقۂ استدلال یہ اختیار کیا گیا ہے کہ چونکہ اس مہینہ میں نحوست تھی اس لیے سرکار دوعالم نے اس مہینے کے صحیح سلامت گزرنے پر جنت کی خوشخبری دی ہے۔ اس بارے میں جان لینا چاہیے کہ ائمہ حدیث نے اس حدیث کو موضوع قرار دیا ہے۔
ماہِ صفر کے آخری چہارشنبہ کے بارے میں لوگوں میں ایک غلط خبر پھیلائی گئی کہ اس روز نبی کریم ﷺکو بیماری سے شفا ملی اور آپ نے غسلِ صحت فرمایا۔ اس کی کوئی اصل نہیں ہے اور ایک من گھڑت بات ہے جو ایک بدعت کو ایجاد کرنے ذریعہ بن چکی ہے۔اس دن خوشی میں مٹھائیاں بانٹی جاتی ہیں اور بہت سے علاقوں میں تو اس دن کی خوشی میں روزہ بھی رکھا جاتا ہے اور خاص انداز میں نمازیں پڑھی جاتی ہیں ۔یہ بالکل خلافِ حقیقت اور خلافِ واقعہ بات ہے۔ اس دن تو نبی کریم ﷺ کے مرضِ وفات کی ابتداء ہوئی تھی نہ کہ مرض سے شفاء ہوئی تھی؟ یہ تو الٹا یہودیوں کی خواہش کے مطابق آپ کی مخالفت میں آپ کے بیمار ہونے کی خوشی میں پھیلائی گئی ایک چیز ہے۔ آخری چہارشنبہ کو سیر وتفریح کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے اس خیال سے کہ نبی کریم ﷺ نے بیماری سے شفایابی کے بعد کھلی فضا کی سیر کی تھی ۔
جہالت کی بنا پر اس مہینے کا نام ’’تیرہ تیزی‘‘ رکھ دیا گیا جس کی وجہ تسمیہ تو معلوم نہیں ہوسکی۔امکان ہے کہ ماہِ صفر کو ’’تیرہ تیزی‘‘ کا نام اس لیے دے دیا گیا ہو کہ نبی کریم ﷺ کا مرضِ وفات جو اس مہینے میں شروع ہوا تھا، مشہور روایات کے مطابق تیرہ دن تک جاری رہا اور اس کے بعد آپ کا انتقال ہوگیا تھا۔ ان تیرہ دنوں میں مرض کی شدت اور تیزی کی وجہ یہ نام رکھا گیا ہو۔ قرونِ اولیٰ سے ایسی کوئی شہادت نہیں ملتی کہ صحابہ کرام نے یاتبع تابعین نے ماہِ صفر میں مرضِ موت کے آغاز کی وجہ سے اس کو بدشگون قرار دیا ہو۔
جب بھی پچھلی قوموں میں رسول آئے اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو ہدایت کے لیے نرم کرنے کے لیے ان کو آفاتِ سماوی سے دوچار کیا(سورۃا لانعام ۴۲،سورۃ الاعراف ۹۴) تو ان کی قوم کے سرداروں نے یہ الزام لگایاکہ یہ رسول ہمارے لیے نحوست بن کر آئے ہیں لہٰذا ان کو ہماری بستی سے نکال دیا جائے تاکہ ان کی نحوست سے ہم آزاد ہوجائیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : قَالُوا إِنَّا تَطَيَّرْنَا بِكُمْ لَئِن لَّمْ تَنتَهُوا لَنَرْجُمَنَّكُمْ وَلَيَمَسَّنَّكُم مِّنَّا عَذَابٌ أَلِيمٌ قَالُوا طَائِرُكُمْ مَعَكُمْ أَئِن ذُكِّرْتُم بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُونَ ۔بستی والے کہنے لگے ”ہم تو تمہیں اپنے لیے فالِ بد سمجھتے ہیں اگر تم باز نہ آئے تو ہم تم کو سنگسار کر دیں گے اور ہم سے تم بڑی دردناک سزا پاوٴگے۔“ رسولوں نے جواب دیا ”تمہاری فالِ بد تو تمہارے اپنے ساتھ لگی ہوئی ہے۔کیا یہ باتیں تم اس لیے کرتے ہو کہ تمہیں نصیحت کی گئی؟ اصل بات یہ ہے کہ تم حد سے گزرے ہوئے لوگ ہو۔“ (سورۃ یٰس ۱۸، ۱۹)
اسلام نے یہ تصور پیش کیا کہ اگر نحوست کوئی شے ہے تو وہ دراصل انسان کی بدعملی ہے ۔ شراور بدی ہی ایک شے کو قابلِ ملامت بناتی ہے لیکن بجائے خود کوئی چیز باعثِ نحوست نہیں ہوتی ۔اللہ تعالیٰ کا ارشادہے: وَكُلَّ إِنسَانٍ أَلْزَمْنَاهُ طَآئِرَهُ فِي عُنُقِهِ ہر انسان کا شگون ہم نے اس کے اپنے گلے میں لٹکا رکھا ہے (سورۃ الاسراء ۱۳) یعنی انسان کا اعمال نامہ ہی اس کا شگون ہے۔ اگر وہ نیکوں سے معمور ہو تو اس کے لیے وہ نیک شگون ہے اور اگر وہ بداعمالیوں کا پلندہ ہوتو وہ اس کے لیے بد شگون ہے۔
اللہ تعالیٰ کا امت مسلمہ پر بے حد احسان ہے کہ اس کا آخری کلام کتابِ محفوظ کی شکل میں موجود ہے۔دنیا کی ساری طاقتیں مل کر بھی اس دین کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔یہود ونصاریٰ اور کفار و مشرکین چاہے کتنا ہی زور لگالیں اس دین ِحنیف کا مقابلہ نہ آگے سے کرسکتے ہیں نہ پیچھے سے، نہ دائیں سے اور نہ بائیں سے ۔
مسلمان چاہے کتنا ہی تنزلی کا شکار ہو جائیں ہر وقت اس بات کا امکان موجود رہتا ہے کہ قرآن کی روشنی میں ان کے ایمان کا احیاء ہو اور تازگی ایمان کے ساتھ وہ راہِ راست اختیار کریں اور انسانیت کی رہنمائی کے منصب پر گامزن ہوں۔چونکہ قرآن اور اس کے ساتھ صحیح احادیث کی بھی اللہ تعالیٰ نے حفاظت فرمائی ہے اس لیے ہر ہدایت کا طالب اصل دین کی طرف لوٹ سکتا ہے۔ جس کے دل میں ٹیڑھ ہو وہی اپنے عقائد کے بارے میں لاپروائی برت کر اپنے آپ کو گمراہیوں کے حوالے کرے گا۔اللہ تعالیٰ کا ارشادہے: قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءكُمُ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ فَمَنِ اهْتَدَى فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَن ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا وَمَا أَنَاْ عَلَيْكُم بِوَكِيلٍ ۔ اے محمدؐ، کہہ دو کہ: لوگو، تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے حق آ چکا ہے اب جو سیدھی راہ اختیار کرے اس کی راست روی اسی کے لیے مفید ہے، اور جو گمراہ رہے اس کی گمراہی اسی کے لیے تباہ کن ہے اور میں تمہارے اوپر کوئی حوالہ دار نہیں ہوں (سورۃ یونس ۱۰۸)
تزکیہ نفس یہ ہے کہ ایک بندہ اپنے عقائد کو مشرکانہ خیالات اور توہمات سے پاک رکھے ۔اپنی عبادات اور اعمالِ صالحہ کو بدعتوں سے آلودہ نہ کرے۔اپنے معمولات میں خرافات شامل نہ کرے ،اپنی نیتوں میں اخلاص پیداکرے اور ریاکاری سے اپنے اعمال برباد نہ کرےاور معاملات میں اسراف نہ برتے۔وہی آخرت میں فلاح وہی پائے گا جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کیا ہو: قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّى ۔فلاح پا گیا وہ جس نے پاکیزگی اختیار کی۔ (سورۃ الاعلی ۱۴)
تزکیہ نفس میں سب سے مقدم عقیدہ کا تزکیہ ہے ۔اس لیے کہ اگر عقیدہ میں فساد ہوتو سارے اعمال برباد ہوسکتے ہیں۔ مسلمانوں میں اصلاح و تذکیر کا عمل مسلسل جاری و ساری رہنا چاہیے تاکہ امتِ مسلمہ کا اجتماعی تزکیہ ہوتا رہے۔امربالمعروف و نہی منکر ایسا فریضہ ہے جس پر معاشرے کی بقا کا انحصارہے۔ہر فرد اپنے قرابت داروں میں محلے اور پڑوس میں اور اپنے دوست و احباب میں اگر اس فرض کو ادا کرے گا تو معاشرہ میں افراد کے عقائد واعمال کی تطہیر عمل میں آئے گی جس کے بغیر معاشرہ کی تعمیر نا ممکن ہے۔ اصلاح و تذکیر کا مسلسل عمل ایساہی ہے جیسے ہمارے جسم میں خود کار دفاعی (Immunization) نظام ہوتا ہے جو بیماریوں سے ہمہ وقت لڑتا رہتا ہے۔اگر یہ نظام ناکام ہوجائے تو انسان ایک معمولی سی بیماری سے بھی موت کا لقمہ بن سکتا ہے۔
***

 

***

 اسلام نے یہ تصور پیش کیا کہ اگر نحوست کوئی شے ہے تو وہ دراصل انسان کی بدعملی ہے۔ شر اور بدی ہی ایک شے کو قابلِ ملامت بناتی ہے لیکن بجائے خود کوئی چیز باعثِ نحوست نہیں ہوتی۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 25 اگست تا 31 اگست 2024