ماہ رحمت

آمد رمضان کے تناظر میں ایک اصلاحی کہانی

حمیرا علیم

خنسہ کے والد فریس بزنس مین تھے اور والدہ زویا اپنی این جی او چلاتی تھیں ۔خنسہ ان کی اکلوتی اور بہت لاڈلی اولاد تھی اس لیے اس کی ہر بات مانی جاتی تھی۔ فریس صاحب ایک مڈل کلاس فیملی سے تھے۔گریجویشن کے بعد انہوں نے جاب کی بجائے کاروبار کرنے کی ٹھانی اور گھر کے ایک کمرے سے سوپ بنانے کا کام شروع کیا جو ترقی کرتے کرتے فیکٹری تک جا پہنچا۔ ان کے باقی بہن بھائی ان جیسی ترقی تو نہ کر سکے مگر گزارا اچھا چل رہا تھا۔ کچھ فریس صاحب بھی وقتاً فوقتاً بہن بھائیوں کی مدد کر دیتے تھے۔ کبھی گروسری خریدتے تو بہنیں یمنٰی اور یسریٰ اور بھائی نحام کے لیے بھی سب کچھ خرید لیتے اور ان کے ہاں جا کر کہتے۔
’’ میں گھر کے لیےکچھ گروسری لینے نکلا تھا تو سوچا تم لوگ کہاں پھروگے اس لیے تمہارے لیے بھی تھوڑی بہت چیزیں لے آیا۔‘‘ حالانکہ وہ تھوڑی بہت چیزیں بھی ان کے دو ماہ کے گزارے لائق ہوتی تھیں۔
کبھی بچوں کو ان کے ٹیسٹ پاس ہونے کی خوشی میں دس پندرہ ہزار تھما دیتے۔
’’لو بھئی!میری بیٹی نے اتنے اچھے مارکس لیے ہیں ٹیسٹ میں۔ انعام تو بنتا ہی ہے!‘‘
یوں وہ سب کی عزت نفس بھی مجروح نہ کرتے اور مدد بھی کر دیتے۔ رمضان کی آمد آمد تھی۔فریس صاحب حسب معمول گروسری بہن بھائیوں کو دینے کے لیے نکلے تو خنسہ بھی ساتھ ہو گئی۔
’’ بابا جانی! میں بھی چلوں گی آپ کے ساتھ۔ چھٹیوں کی وجہ سے کالج تو بند ہیں میں گھر بیٹھے بیٹھے بور ہو گئی ہوں اس لیے نحام چچا کے ہاں کچھ دن رہ لوں گی۔‘‘ اس نے لاڈ سے کہا۔ اور اس کی بات کب ٹالی گئی تھی جو اب انکار ہوتا۔
’’ ہاں ہاں میری بٹیا! ضرور چلے۔ ویسے بھی اصغر اور ہانی پوچھ رہی تھیں آپ کے بارے میں۔اچھا ہے سب لوگ اکھٹے روزے رکھنا ۔ مجھے اور آپ کی ممی کو کچھ دن کے لیے دبئی جانا ہے۔جب واپس آئیں گے تو آپ کو گھر لے آئیں گے۔‘‘ فریس صاحب نے کہا ۔خنسہ نے ممی کو بتایا اور فورا بیگ پیک کیا اور چل دی۔
اصغر اور ہانی اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئے ۔چاچا چاچی بھی اس کی آمد اور قیام کے ارادے پر خوشی ظاہر کی۔
’’ بہت اچھا کیا بھائی جو آپ ہماری بیٹی کو یہاں چھوڑ کے جا رہے ہیں ۔ہم تو کب سے خنسہ کو مس کر رہے تھے۔اب جب تک آپ واپس نہیں آتے یہ یہیں رہے گی۔‘‘ چچی نے کہا۔چائے پی کر فریس صاحب تو واپس چلے گئے اور خنسہ ہانی اور اصغر کے ساتھ کمرے میں چلی گئی۔
’’ کیا پلان ہے تم دونوں کا رمضان میں؟‘‘ اس نے کزنز سے پوچھا۔
’’ پتہ ہے ساتھ والے گھر میں نئے لوگ آئے ہیں۔ آنٹی نے کچھ کورسز کر رکھے ہیں تو وہ اس رمضان میں دورہ قرآن کروانے کا پلان کر رہی ہیں ۔کل ہی آئی تھیں دعوت دینے تو ہم نے سوچا چلو درس پہ ہی چلے جایا کریں گے۔ ویسے بھی دس بجے سے بارہ بجے تک کا درس ہو گا۔ رمضان سے دو دن پہلے شروع کریں گی اور ستائیسویں روزے پر ختم ہو جائے گا۔تم بھی چلنا ہمارے ساتھ‘‘ ہانی نے پرجوش لہجے میں اپنا پلان بتایا۔
خنسہ نے سر ہلا کر رضامندی ظاہر کی۔پھر گپ شپ کرنے لگیں ۔دوسرے دن شام میں وہ تینوں چچی کے ساتھ والی آنٹی کے گھر گئیں جہاں اسٹریٹ کی کافی ساری خواتین اور بچے جمع تھے۔آنٹی نے بیٹھنے کے لیے ڈرائنگ روم میں چاندنیاں، صوفے اور کرسیاں رکھی ہوئی تھیں۔ بزرگ خواتین صوفوں پر اور بچے اور لڑکیاں چاندنیوں پر بیٹھ گئے۔آنٹی سامنے ایک کرسی پر بیٹھ گئیں، ٹیبل پر اپنی بکس رکھا اور السلام علیکم کہہ کر درس شروع کیا۔
’’جیسا کہ آپ سب کو معلوم ہے دو دن بعد پہلا روزہ ہے اور ہم سب اس جگہ اس لیے اکھٹے ہوئے ہیں کہ رمضان کو بہتر انداز میں اور اس طرح گزار سکیں جیسے اللہ تعالی چاہتے ہیں اور رسول اللہ ﷺ نے سکھایا ہے۔ تو آئیے پہلے تو یہ جانتے ہیں کہ رمضان ہے کیا؟ رمضان کا لفظ ’رمض‘ سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے سورج کی جھلسا دینے والی گرمی‘‘۔یہ مہینہ مسلمانوں کے گناہ جلا دیتا ہے اس لیے اسے رمضان کہا جاتا ہے۔
یہ اسلامی کیلنڈر کا نواں مہینہ ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں اللہ تعالٰی نے قرآن پاک نازل فرمایاجو کہ تمام انسانیت کے لیے ہدایت اور رہنمائی ہے۔ سورہ البقرہ آیت 185 میں اللہ تعالٰی فرماتے ہیں ۔
’’ جو شخص رمضان کا مہینہ پائے اسے چاہیے کہ اس ماہ میں روزے رکھے۔‘‘
روزہ اسلام کا چوتھا رکن بھی ہے۔یہ وہ مہینہ ہے جس میں ہمیں اپنی کمزوریوں اور کمیوں کو دور کر کے اللہ کی خوشنودی حاصل کرنی چاہیے اور اس کا بہترین اور آسان طریقہ یہ ہے کہ ہم ہر کام سنت کے مطابق کریں۔اس طرح نہ صرف ہماری عبادات درست ہوں گی بلکہ دنیاوی معاملات بھی سدھر جائیں گے۔جیسے کہ ہمسایوں کے حقوق، والدین اور رشتے داروں کے حقوق، اچھائی کا فروغ اور برائی سے روکنا، سلام پھیلانا، دوسروں کو اچھائی کی طرف آمادہ کرنا انہیں برے کاموں سے باز رہنے اور اچھے کاموں کے کرنے میں مدد دینا اور اللہ کے فیصلوں کو بخوشی اور صبر شکر کےساتھ قبول کرنا۔اپنے چھوٹے بڑے گناہوں کا جائزہ لینا اور ان سے بچنے کی کوشش کرنا: جیسے کہ جھوٹ بولنا، میوزک سننا، اپنے ہاتھ، پاوں، کان، آنکھ، زبان کو اس طرح استعمال کرنا جسے اللہ ناپسند کرے۔ سود،رشوت، لوگوں کے مال ناجائز طریقے سے غصب کرنا وغیرہ۔
روزوں کی فرضیت اور فضیلت کے بارے میں تو ہم قرآن پاک میں پڑھ ہی لیں گے۔آج ہم یہ دیکھیں گے کہ اس مہینے کو گزارنا کیسے ہیں اور اس میں کون سے اعمال کرنے چاہئیں۔ تو سب سے پہلے تو اپنی نمازوں کو درست کرنا ہے۔
نبی ﷺ نے فرمایا ’’جیسے مجھے نماز پڑھتے دیکھو ویسے ہی نماز ادا کرو‘‘
اب یہ کیسے پتہ لگے کہ نماز نبوی کیسی تھی؟ تو آسان طریقہ ہے کہ کوئی بھی حدیث کی کتاب پڑھ لیجیے طریقہ معلوم ہو جائے گا۔ آج کل تو ہمارے لیے اور بھی آسان ہے، انٹرنیٹ پہ سرچ کریں تو تمام کتب حدیث یعنی صحاح ستہ سامنے آ جاتی ہیں۔وہاں ہم کسی بھی ٹاپک پہ احادیث پڑھ سکتے ہیں۔میں جو ایپ استعمال کرتی ہوں اسکا نام ہے ’سرچ ٹروتھ‘ آپ بھی اسے استعمال کر سکتے ہیں۔
پھر دعا کیجیے اور بکثرت کیجیے۔ہم سمجھتے ہیں کہ صرف نماز پڑھ کے ہی دعا کی جا سکتی ہے، ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ دعا کا کوئی وقت مقرر نہیں ہے۔ جیسے بچے کو جب بھی کوئی چیز چاہیے ہوتی ہے وہ ماں سے مانگ لیتا ہے۔تکلیف ہو تو دن ہو یا رات کا وقت نہیں دیکھتا بلکہ ماں سے بیان کرتا ہے کیونکہ اسے معلوم ہے کہ ماں ہی اس کی ہر ضرورت کو ہر وقت پورا کر سکتی ہے اور تکلیف دور کر سکتی ہے۔تو اسی طرح ہمیں جب بھی کچھ چاہیے، کوئی مسئلہ حل کروانا ہو، تکلیف دور کروانی ہو اللہ سے ہی کہنا چاہیے۔اسی مانگنے، بتانے اور مدد مانگنے کو دعا کہتے ہیں ۔احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ اوقات ایسے ہیں جن میں مانگی گئی دعائیں رد نہیں ہوتیں۔ان میں یہ اوقات شامل ہیں:
1۔ افطار کے وقت روزہ دار کی دعا۔
2۔ اذان اور اقامت کے درمیان مانگی گئی دعا۔
3۔ جمعہ کے دن عصر کے بعد کی دعا۔
4۔ بارش کے وقت کی گئی دعا۔
5۔ سفر کے دوران کی گئی دعا۔
6۔ عرفہ کے دن کی دعا۔
7۔ تہجد کے وقت کی دعا۔
تو ان مواقع پر خوب دعا کیجیے۔
رمضان کے مہینے میں ہی لیلتہ القدر بھی ہے جو کہ ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔یعنی اس رات کی عبادت تقریبا چوراسی سال کی عبادت کے برابر ہوتی ہے۔اسی رات کے بارے میں اللہ تعالٰی نے سورہ القدر نازل فرمائی ہے۔
نبی ﷺ نے فرمایا کہ لیلتہ القدر کو رمضان کی آخری طاق راتوں میں تلاش کرو۔ تو آخری عشرے کی طاق راتوں میں گھر والوں کےساتھ جاگنے اور قیام اللیل کا اہتمام کیجیے۔نوافل پڑھیے۔ تلاوت قرآن کیجیے۔تسبیحات کیجیے۔احادیث پڑھیےاور دعا کیجیے۔
ہم خواتین عموماً کھانے بنانے اور گھر کے کاموں میں ہی اتنی مصروف ہو جاتی ہیں کہ اس مہینے کا اصل مقصد بھول جاتی ہیں۔کھا نا سادہ بنائیے اور عبادات پر توجہ دیجیے۔شاپنگ رمضان سے پہلے ہی کر لیجیے تاکہ وقت ضائع نہ ہو۔ٹی وی پہ فضول ٹاک شوز یا میوزک سننے کی بجائے ذکر میں مصروف رہیں ۔علماء کے لیکچرز، ویڈیوز دیکھیں یا کتب پڑھیں ۔چاند رات کو بازاروں میں گھوم پھر کر اپنی عبادات کو ضائع نہ کیجیے کہ اللہ تعالی نے ہم خواتین کو گھروں میں ٹکی رہنے کا حکم دیا ہے اور بازاروں کو ہمارے لیے ناپسندیدہ جگہ قرار دیا ہے۔پھر چاند رات کا رش! اف توبہ۔ اس ماہ میں اللہ تعالی جہنم کے دروازے بند کر دیتا ہے اور جنت کے دروازے کھول دیتا ہے ۔اور شیاطین کو قید کر دیا جاتا ہے۔ ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔نبی ﷺ نے فرمایا ’’افطار کے وقت اللہ تعالی روزے دار کی دعا قبول فرماتا ہے اور لوگوں کو بخش دیتا ہے‘‘
استغفار کیجیے
ایک اور حدیث میں ہے ’’جب تک لوگ کبیرہ گناہ سے بچے رہتے ہیں گے پانچ وقت کی نمازیں ادا کرتے ہیں گے اور رمضان کے روزے رکھیں گے تو ان کے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں‘‘
قرآن پاک میں کئی آیات میں اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ استغفار کرنے سے اللہ تعالٰی آسمان سے پانی (بارش) برساتے ہیں ۔رزق میں اضافہ فرماتے ہیں ۔دنیاوی آرام عطا فرماتے ہیں۔عمر طویل کرتے ہیں۔کاموں میں برکت عطا فرماتے ہیں۔اولاد اور دنیاوی اسباب عطا فرماتے ہیں۔تو کیوں نہ ایسا عمل کیا جائے جو اتنے سارے فوائد دے۔نبی ﷺ جو کہ نبی تھے اور انہیں مغفرت کی ضرورت نہ تھی، پھر وہ بھی دن میں ستر بار استغفار کرتے تھے۔تو ہم تو ہیں ہی گناہ گار۔ہمیں تو بکثرت استغفار کرنا چاہیے۔
رمضان کے روزے رکھنے کےبعد اگر عید کےبعد سےشوال کے مہینے میں کسی بھی دن چھ روزے رکھ لیے جائیں توپورے سال کے روزوں کا ثواب ملتا ہے۔ذرا تصور کیجیے کہ صرف چھ روزے اور ثواب پورے سال کے روزوں کا ثواب!! تو ان کا اہتمام کیجیے۔
تہجد پڑھنے کی کوشش کیجیے۔سحری بنانے کے لیے بھی تو ہم فجرسے گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ پہلے اٹھتے ہیں، تو کیوں نہ سحری تیار کر کے دو نفل تہجد بھی پڑھ لیے جائیں؟ میں سحری بنا کر جتنے ہو سکے نوافل پڑھ لیتی ہوں اور ان نوافل اور تراویح میں مصحف سے دیکھ کر ہر رکعت میں ایک صفحہ قرآن پاک کی تلاوت بھی کر لیتی ہوں آپ کے لیے ممکن ہو تو ایسا ضرور کیجیے۔
تراویح بھی پڑھنے کی کوشش کیجیے۔اگرچہ یہ سنت موکدہ نہیں ہے۔نبی ﷺ نے صرف تین رات لوگوں کو تراویح پڑھائی۔مگر یہ قیام اللیل کے برابر ہے اس لیے ضرور پڑھیں۔ لیکن اگر کسی وجہ سے نہ پڑھ سکیں تو عشاء کی نماز ضرور پڑھیں تراویح نہ پڑھنے کے لیے عشاء مت چھوڑیں ۔
اگر استطاعت ہو تو عمرہ کیجیے۔
نبی ﷺ نے فرمایا ’’رمضان میں عمرہ کرو کہ رمضان میں عمرہ میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے۔‘‘( بخاری و مسلم)
اعتکاف کیجیے۔
نبی ﷺ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ (بخاری)
گھر والوں کے ساتھ کچھ وقت بیٹھ کر قرآن و حدیث پڑھیں۔ان سے گفتگو کریں۔خصوصا بچوں کو چھوٹی چھوٹی کہانیاں سنا کر دین سکھائیں۔
یہ بھی مستحب ہے کہ رمضان میں سب گھر والوں کےساتھ مل کر قرآن پاک کی تلاوت کی جائے۔اسے سمجھا جائے۔جبریل علیہ السلام ہر رمضان میں نبی ﷺ کے ساتھ دو بار دورہ قرآن کرتےتھے۔
دوسروں کو افطار کروانا بھی سنت ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا ’’جو کوئی کسی روزے دار کو افطار کروائے گا اسے بھی روزے دار جیسا ثواب ملے گا‘‘
ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ نبی ﷺ نے فرمایا ’’اللہ تعالٰی ہر رات کے آخری تہائی حصے میں آسمان دنیا پر تشریف لاتے ہیں اور اپنا ہاتھ پھیلاتے ہیں اور فرماتے ہیں: ہے کوئی جس نے دن میں گناہ کیا اور رات میں معافی مانگے تاکہ میں اسے معاف کروں‘‘۔
سورہ آل عمران میں بھی اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جب ان سے کوئی گناہ سرزد ہو جاتا ہے تو وہ اللہ کو یاد کرتے ہیں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں ۔ایسے لوگوں کا اجر جنت کے باغات ہیں۔
تو ہمیں بھی چاہیے کہ اس ماہ کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگیں۔نہ صرف خود معافی مانگیں بلکہ دوسروں کو بھی معاف کریں۔
صدقہ و خیرات کریں۔
نبی ﷺ ویسے تو سخی تھے ہی مگر رمضان میں بقول صحابہ کرام کے تیز ہوا سے زیادہ سخی ہو جاتے تھے۔یعنی بہت زیادہ صدقہ و خیرات کرتے تھے۔خصوصا زکوٰۃ کی ادائیگی ضرور کریں۔ ویسے تو جب بھی آپ کے نصاب پر سال پورا ہو جائے زکوٰۃ فورا ادا کر دینی چاہیے مگر کچھ لوگ رمضان میں اس نیت سے ادا کرتے ہیں کہ زیادہ ثواب ملے۔ گھر میں ایک کوائن باکس رکھ لیجیے اور اس میں حسب استطاعت گھر کا ہر فرد روزانہ پیسے ڈالے۔مہینے کے آخر میں صدقے کی کسی بھی مد میں خرچ کر دیجیے ۔جب اپنی گروسری کریں یا عید کی شاپنگ تو ساتھ میں کسی مستحق کے لیے بھی وہی چیزیں خرید لیجیے۔صدقہ واحد چیز ہے جس سے مال کم نہیں ہوتا بلکہ بڑھتا ہے۔ اپنے اردگرد نظر ڈالیے اور مستحق افراد تلاش کیجیے اور ان کی مدد کیجیے۔کسی کی تکلیف دور کیجیے اس کے لیے آسانی پیدا کیجیے ۔کیونکہ حدیث میں ہے کہ جب تک انسان اپنے بھائی کی مدد کرتا رہتا ہے اللہ تعالی اس کی مدد میں لگا رہتا ہے۔لوگوں کو کھانا کھلائیے۔ ہر کسی کو سلام کیجیے۔
نبی ﷺ نے فرمایا ہے۔’’ بہترین اسلام یہ ہے کہ تم لوگوں کو کھانا کھلاو۔اور اسے بھی سلام کرو جسے تم جانتے ہو اور جسے تم نہیں جانتے۔‘‘
ایک اور حدیث میں ہے ’’جب دو مسلمان ایک دوسرے کے پاس سے گزرتے ہیں اور ایک دوسرے کو سلام نہیں کرتے توفرشتے حیرت سے انہیں دیکھتے ہیں‘‘
یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام جب کسی درخت یا ستون کی آڑ میں جاتے تو اس سے نکل کر ایک دوسرے کو سلام کرتے تھے۔ ہم خواتین ہیں اور آج کے دور میں فتنے زیادہ ہیں تو کوشش کیجیے کہ جب باہر نکلیں تو ہر خاتون کو سلام ضرور کریں چاہے وہ اجنبی ہو یا جاننے والی۔
اور کچھ نہ کر سکیں تو مسکرائیے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:’’تمہارا اپنے بھائی کو دیکھ کر مسکرانا بھی صدقہ ہے‘‘
یہ کچھ ایسی سنتیں ہیں جو دیکھنے میں معمولی لگتی ہیں مگر کرنے میں آسان اور اجر کا باعث ہیں اور آخر میں ایک اہم بات کہ زیادہ کی حرص مت کیجیے کہ ایک دم جنون میں آ کر سارے کام شروع کر لیں۔ پھر چند دن میں تھک کر کچھ بھی نہ کریں۔ تھوڑے سے شروع کیجیے اور اس پر استقامت اختیار کیجیے کیونکہ نبی ﷺ نے فرمایا ’’اللہ کو تھوڑا مگر مستقل عمل پسند ہے‘‘
امید ہے کہ آپ سب کو آج کے درس سے فائدہ پہنچے گا۔اگر کسی کو کچھ پوچھنا ہے تو پوچھ لیجیے۔
’’آنٹی !اگر شیطان بند کر دیے جاتے ہیں تو پھر ہم گناہ کیوں کرتے ہیں؟‘‘ خنسہ نے پوچھا۔
’’اس کا جواب یہ ہے کہ سارے شیطان نہیں بلکہ کچھ شیطان قید کیے جاتے ہیں کیونکہ شیطان نے اللہ سے قیامت تک کے لیے مہلت مانگی تھی تاکہ وہ اس کے بندوں کو گمراہ کر سکے اور اللہ تعالی نے یہ فرماتے ہوئے اسے اجازت دی تھی کہ اس کے بندے شیطان کے بہکاوے میں نہیں آئیں گے۔ جو لوگ رمضان سے پہلے شیطانی کاموں میں مصروف رہتے ہیں وہ ان کاموں کے عادی ہو جاتے ہیں اور انہیں چھوڑ نہیں سکتے۔لیکن آپ دیکھیے کہ جو لوگ روزہ رکھتے ہیں وہ ان کاموں سے بچے رہتے ہیں ۔یعنی رمضان میں کم شیطانی اعمال کیے جاتے ہیں‘‘ انہوں نے جواب دیا۔
ایک اور خاتون بولیں۔’’آپ نے کہا کہ جب بھی نصاب پہ سال پورا ہو جائے تو زکوٰۃ ادا کر دینی چاہیے، رمضان کا انتظار نہیں کرنا چاہیے تو اس کی تفصیل بیان کر دیجیے‘‘
’’جی ضرور! دیکھیے جب بھی ہمارے پاس ساڑھے سات تولے سونا ہو یا باون تولے چاندی یا ان کے برابر رقم ہو جائے تو زکوٰۃ ادا کرنی چاہیے۔ فرض کیجیے کہ آپ کی شادی جنوری 2020 میں ہوئی جس میں آپ کو دس تولے سونا ملا۔ وہ سونا اگلے جنوری تک آپ کے پاس رہا تو جنوری 2023 میں آپ کو اس کی قیمت کا حساب لگا کر ڈھائی فیصد زکوٰۃ دینی ہو گی‘‘
آنٹی نے کہا۔
انہی خاتون نے سوال کیا۔’’ میرے پاس پندرہ تولے سونا ہے۔ تو اس کی زکوٰۃ کتنی بنے گی؟‘‘
’’آپ جس دن زکوٰۃ ادا کرنا چاہیں اس دن سونے کی قیمت دیکھیے۔فرض کیجیے کہ آج کی قیمت دو لاکھ روپے ہے تو آپ اسے پندرہ سے ضرب دے لیجیے۔یہ بنے تیس لاکھ ۔اب ہر ایک لاکھ پہ ڈھائی ہزار روپے زکوٰۃ کے حساب سے آپ کی زکوٰۃ بنتی ہے پچھتر ہزار روپے۔ یہی فارمولا چاندی اور نقدی وغیرہ کے لیے بھی ہے۔’’ آنٹی نے جواب دیا۔
ایک لڑکی نے پوچھا۔
’’ آنٹی! اپ نے کہا کہ کھانا سادہ کھائیں۔روزے کا مزہ ہی کیا اگر سموسے پکوڑے اور چاٹ نہ ہو تو؟‘‘
آنٹی نے مسکراتے ہوئے کہا ’’ آپ کو معلوم ہے روزے کا مقصد کیا ہے؟ ہمیں یہ احساس دلانا کہ معاشرے کا وہ طبقہ جو مرغن غذائیں نہیں کھا سکتا اس کا خیال کریں۔ اگر ہم عام طور پر دن میں صرف تین وقت کا کھانا کھاتے ہیں یا کبھی کبھار شام کی چائے کے ساتھ ایک آدھ اسنیک لے لیتے ہیں تو رمضان میں کیوں روزانہ پکوڑے، سموسے، فروٹ چاٹ، دہی بڑے، رولز اور دوسرے لوازمات اشد ضروری ہیں؟ کیا یہ کھانے بنانے اور کھانے کا مہینہ ہے؟ نہیں بلکہ عبادات اور مغفرت کا مہینہ ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ نبی ﷺ نے کبھی پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا اور اکثر دو دو ماہ تک انہوں نے سوائے کھجور اور پانی کے کچھ نہیں کھایا۔ جنگ خندق میں سب نے بھوک کی شکایت کی اور اپنے پیٹ پر ایک ایک پتھر بندھا ہوا دکھایا تو نبی ﷺ نے لوگوں کو دکھایا ان کے پیٹ پر دو پتھر بندھے ہویے تھے۔ وہ نبی تھے معصوم اور بخشے ہوئے تھے مگر اس قدر لمبی نمازیں پڑھتے کہ پاوں سوج جاتے۔ پوچھا جاتا آپ کیوں اس قدر مشقت کرتے ہیں آپ تو بخشے ہوئے ہیں تو فرماتے ’’کیا میں اللہ کا شکر ادانہ کروں۔‘‘
سبحان اللہ! اس نبی کی امت آج کھانوں میں ہی گم ہو کر رہ گئی ہے اور گناہوں کی بخشش اور اللہ کی خوشنودی و شکرگزاری کی پروا بھی نہیں۔
آپ ہی بتائیے کہ جہاں لوگوں کو کھانا بھی میسر نہیں وہاں ہمارے لیے مناسب ہے کہ ہم دسترخوان یا ٹیبل بھر کر سحر و افطار میں پیٹ بھر لیں اور پھر نماز پڑھنے کے قابل بھی نہ رہیں۔؟
ایمانداری سے بتائیے گا کہ کیا اس قدر ہیوی کھانوں کے بعد آپ سستی کا شکار ہو کر تراویح یا تو چھوڑ دیتے ہیں یا آدھے سوئے آدھے جاگے پڑھتے ہیں ایسا ہی ہے نا؟ اس لڑکی نے سر ہلایا۔ نبی ﷺ نے فرمایا ’’مومن ایک تہائی کھانا، ایک تہائی پانی اور ایک تہائی ہوا سے معدہ بھرتا ہے‘‘ اور ہم سارے معدے کو مرغن تلی ہوئی غذاوں سے بھر کر بیمار پڑ جاتے ہیں اور رمضان خراب کر لیتے ہیں مگر منہ کا چسکا نہیں چھوڑتے۔ تو بہتر یہی ہے کہ صرف کھانا ہی کھایا جائے یا زیادہ سے زیادہ ایک آدھ چیز بنا لی جائے۔‘‘
’’آنٹی ایک اور سوال کرنا ہے آپ سے’’ ہانی نے جھجکتے ہوئے کہا’’ جب ہم نے روزہ نہ رکھنا ہو تو کیسے ثواب حاصل کر سکتے ہیں؟‘‘
’’بیٹا! بہت اچھا سوال کیا ہے آپ نے۔ دیکھیے جب ہم نے روزہ نہیں رکھنا ہوتا تو صرف وہ عبادات نہیں کر سکتے جن کے لیے وضو شرط ہے جیسے کہ نماز اور مصحف سے دیکھ کر تلاوت قرآن۔ باقی سب نیک کام، صدقہ خیرات، ذکر اور جو قرآن حفظ ہو اس کی تلاوت، لوگوں کو روزہ رکھوانا افطار کروانا یہ سب تو کیے ہی جا سکتے ہیں نا۔ تو صرف نماز، روزہ اور مصحف سے دیکھ کر قرآن نہیں پڑھیں گے باقی سب کام معمول کے مطابق کیجیے۔ ٹھیک ہے نا؟‘‘ ہانی کے سر ہلانے پر وہ کہنے لگیں ’’بس بھئی آج کے لیے اتنا کافی ہے باقی انشاءاللہ کل بتائیں گے۔ نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم و نشھدک و نستغفر و نتوب الیک۔ اب آپ لوگ چائے پی کے جائیے گا پلیز‘‘
آنٹی نے وال کلاک پر نظر ڈالتے ہوئے کہا۔ گھر آ کر سب درس پر ڈسکس کرنے لگیں’’ واقعی مجھے تو بہت مزہ آیا لیکچر سن کر۔مجھے تو بہت سی باتیں معلوم ہی نہیں تھیں۔میں نے تو سوچ لیا ہے کہ اب سارا دورہ قرآن سننے ضرور جاوں گی۔‘‘ خنسہ نے جوش و خروش سے کہا تو سب نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 05 مارچ تا 11 مارچ 2023